پیر، 26 مارچ، 2018

وفاق کی علامت سینٹ : وزیراعظم کا بیانیہ


وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوچستان سے منتخب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی جو ’عزت افزائی‘ کی، سرشرم سے جُھک گیا۔ وجہ شخصی احترام کے علاوہ بلوچستان بھی ہے۔ رونا یہ آیا کہ وزیراعظم ہوکر وفاق کی علامت ادارے کے وقار کو الزامات سے آلودہ کیا گیا۔ جرا¿ت اظہار اچھی بات ہے۔ سیاستدان اکثر ’پھنس‘ جانے پر’جالب‘ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آسانی آنے پر پھر سے ’بھٹو‘ اور ’ضیائ‘ بن جاتے ہیں۔
وفاداری بشرط استواری تو سُنا تھا لیکن وفاداری کا یہ اندازہ لگتا ہے ۔ ملک میں مارشل لاءکی راہ ہموار کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے ہماری خوش گمانی دھری کی دھری رہ گئی کہ ایک پڑھا لکھا دراز قد انسان وطن عزیز میں مثبت طرح ڈالے گا۔ سُلجھے انداز میں شفاف طرز پر ملک کی خدمت کا نیا سلیقہ متعارف ہوگا۔ جالب ہی کی فریاد میں، انہیں خوشنودی شاہاں کا دائم پاس رہتا ہے۔ نوازشریف ’ایکس فیکٹر‘ سے وہ نجات پا نہیں سکے۔ معاملہ بے وفائی کا نہ تھا لیکن کوئی اصول تو انسان کو اپنانا چاہئے؟ جب آپ وطن عزیز کی اتنی اعلیٰ ترین امانت کے پاسدار ہوں لیکن انداز....افسوس صد افسوس۔ وفاق کی علامت سینٹ کی توہین جس انداز میں کی گئی۔ لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ وہ انداز ہے جس سے مسلم لیگ (ن) اور ’اس کا وزیراعظم‘ بلوچستان کی محرومیوں پر مرہم رکھنا چاہ رہا ہے؟ شاہد خاقان بولے کہ ’ہم سینٹ میں غیر متنازعہ اور متفقہ امیدوار لانا چاہتے تھے۔ اس لئے رضا ربانی کا نام لیا۔ ہم اب بھی سینٹ میں متفقہ امیدوار لانے کے حق میں ہیں۔ لیکن زرداری نے ہماری بات نہیں مانی اور ایک ایسے شخص کو سینٹ کا چیئرمین بنا دیا ہے جسے پاکستان میں کوئی نہیں جانتا جس کا کوئی سیاسی وجود نہیں۔‘ کرب کا اندازہ اس گفتگوسے لگائیے ’سینیٹرز بناتے وقت زرداری نے منڈی لگائی۔ لوگوں کے ضمیر خریدے کروڑوں روپے کی خرید و فروخت ہوئی۔ ہم اگر چاہتے تو اپنا چیئرمین سینٹ بنا سکتے تھے لیکن ہم نے شکست قبول کر لی اور اصولوں پہ سودے بازی نہیں کی۔‘ یہی کہا
 جا سکتا ہے کہ عباسی صاحب! اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
یہ بیان اُن کا سُن کر مجھے ماضی کے واقعات یاد آنے لگے جو چھانگا مانگا، مری ریسٹ ہاﺅس جیسے ’تابناک کارناموں‘ کی صورت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’رقم‘ ہیں۔ چیئرمین سینٹ کا تعلق کسی پارٹی سے نہ ہونے اور ’خریدے ہوئے ووٹوں سے منتخب‘ ہونے کا قلق ہے، تو وزیراعظم اور ان کے حامیوں کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ’لنگوٹ‘ کس کر راجہ ظفرالحق کو ’دھکا‘ دیں اور انتخاب بھی لڑیں؟ کیا ان ’خریدے‘ ہوﺅں سے مسلم لیگ (ن) کے ’صادق‘ اور ’امین‘ رابطے میں نہ تھے؟ کیا ان کی ہمدردیاں خریدنے کی کوئی کوشش نہ ہوئی تھی؟ ’اصولی‘ وزیراعظم کو پنجاب میں چوہدری سرور کو ووٹ دینے والے اپنے پارٹی ارکان کیوں بھول گئے؟ کیا اُن کا حساب وہ کر بیٹھے ہیں؟ ۔ ’فروخت کئے گئے ووٹوں کی وجہ سے صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ بنے ہیں‘ اور اس بناءپر وزیراعظم کو دنیا میں پاکستان کی عزت کی فکر لاحق ہے تو پھر پاناما دستاویزات سے جو شور مچا ہے، اس سے پاکستان کی ’قدر و منزلت‘ میں جو اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر عباسی صاحب کے کیا ’وچار‘ ہیں؟ ان کے لئے شاید یہ ’نیک نامی‘ ہے؟ عزت کا کیا مقام تراشا ہے؟ واہ۔ وزیراعظم نے بس نہیں کی۔ بولے ’چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں لوگوں کا ایمان اور ضمیر خریدا گیا۔ چیئرمین سینٹ صدرمملکت ہوتے ہیں۔ اس طرح چیئرمین سینٹ کا انتخاب بے عزتی کا مقام ہے۔ کیا اس طرح ملک کی عزت دنیا میں ہو سکتی ہے؟۔برادر عزیز سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے کیا برمحل اور شاندار تبصرہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”نئے سوشل کنٹریکٹ کے لئے ’سیاستدان، جج اور جرنیل مذاکرات کریں‘ لیگی صدر کا یہ بیان آئین سے کُھلی بغاوت ہے۔ محمد علی درانی کا یہ کہنا درست ہے کہ ’دستور اداروں کے گرد ذمہ داریوں کی واضح لکیر کھینچ چکا ہے۔ ایسی صورت میں عدلیہ اور فوج کو مذاکراتی سیاست میں اُلجھانا چال ہے۔ درانی صاحب گزشتہ کئی برس سے سوئیٹزرلینڈ اور یورپ سمیت بیرونی ممالک میں لُوٹ کا چُھپایا مال وطن واپس لانے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں انہوں نے ایک مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے جس کا مقصد اقوام متحدہ کی ایک قانون سازی کا سہارا لے کر پاکستان کے غریبوں کی لُوٹی دولت وطن واپس لانے کے لئے قانونی عمل شروع کروانا ہے۔ اس تناظر میں ان کی یہ دلیل رد نہیں ہو سکتی کہ ’شریف خاندان کے خلاف فوج، عدلیہ یا کوئی اور ادارہ سازش نہیں کر رہا۔ اب مغرب ترقی پذیر ممالک کے اُن سیاسی لیڈروں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو غریب عوام کے سرمایہ پر ڈاکہ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور مغرب نے سخت ترین قانون سازی کرکے کرپٹ سیاسی قیادت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ ہی اب کرپٹ لوگوں کو بچا سکتا ہے۔‘ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بھی خادم حسین رضوی اور ان کے ہم خیال کئی مذہبی پیشواﺅں کو یقین ہے کہ ’اب اللہ بھی انہیں نہیں بچائے گا ۔ ہم تو پھر بھی توبہ واستغفار کی بات کرتے ہیں۔ حماقتیں انسانی فطرت میں ہوتی ہیں لیکن بدنیتی کا کیا علاج۔ محسن بے مثل مرحوم ومغفور مجید نظامی کے مشن سے جو لوگ پھر گئے ہوں۔ اُن کا خون جگر جنہوں نے کیا ہو، ان کو کیا یاد دلانا۔ یاد بھی اُن کو دلائی جاتی ہے    جن کی آنکھ کا ’پانی‘ خ±شک نہ ہوگیا ہو۔ 
حرف آخر یہ کہ چیئرمین سینٹ کے لئے کیا ’فرشتوں‘ کا ووٹ حاصل کریں گے۔ اگر یہی سینیٹرز ہی ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے تو پھر صادق سنجرانی ہی کا کیا قصور ہے؟؟؟ 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

۪روزنامہ نوائے وقت ۲۶ مارچ ۲۰۱۸ع۫

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں