بدھ، 28 مارچ، 2018

ریاست کے اندر ریاستیں


23 مارچ سب نے مل کر منایا ، عظیم الشان پریڈ ہوئی ، اعزازات کی ریوڑیاں ہر صوبائی دارالحکومت کے گورنر ہائوس اور ایوان صدر میں بہ مقدار وافر تقسیم کی گئیں۔ بیانات داغے گئے اور اس طرح داغے گئے جیسے 21، 21 توپیں داغی گئیں یہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور 23 مارچ کو اس کا خاکہ مرتب کیا گیا تھا۔14 اگست کو وجود میں آیا اور مذاہب کے نام پر ہی ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے فون کا نذرانہ لے کر وجود میں آیا مگر یہ واحد قوم ہے جس نے اتنے بڑے سانحے اور واقعے کو اپنے باطن کے اندر سمویا جس کا نتیجہ صاف ہے کہ ملک ایک ہے 23 مارچ ایک ہے 14 اگست ایک ہے مگر حکومتیں ایک نہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں تو سمجھ میں آتی ہیں حکومت کے اندر حکومتیں سمجھ میں نہیں آ رہی۔ برسر اقتدار حکومت بھی ان کی ہے جو اس کے خلاف تحریک برپا کیے ہوتے ہیں ۔ دیگر پارٹیاں تو حکومت سے باہر ہیں ان کی الگ الگ بولی تو ان کی مجبوری ہے اس طرح صدر وفاق کو ایک اکائی قر ار دے رہے ہیں مگر وزیراعظم سینٹ کے نو منتخب چیئرمین پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں ۔چیف جسٹس تمام گڈ گورننس کے دعوئوں کو غلط قرار دے کر ازخود نوٹس لے رہے ہیں اور سیاستدان اپنی دوکان چمکانے کے لئے جوڈیشنل مارشل لاء کا تصور دے رہے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی بے چارا جو سبھی کا موضوع ہے مگر سبھی کے ہاں اس کی دو کوڑی کی عزت نہیں۔ اس پر بوجھ ڈال کر اور اسے زد و کوب کرکے تمام حکومتی و سیاسی اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں۔ اگر ڈالر کی قیمت میں ایک ہفتے کے اندر چار روپے اضافہ ہوتا ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہے اور نقصان کس کو یہ اب واضح ہے کہ ایسے فیصلوں کے تمام منفی نقصانات عام لوگوں کو ہی برداشت کرنے ہیں ۔ جو وزیر خزانہ بیرون ملک میڈیکل تعطیل پر ہیں، سارا ملبہ مشیر خزانہ پر ڈال رہے ہیں اور مشیر خزانہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو ملکی ترقی کے لئے بہتر قر ار دے رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان جیسے اس نازک موقع پر پوری توانائی کے ساتھ حرکت میں آنا چاہیے تھا خاموش ہے اور اس کی خاموشی ’’نیم رضا‘‘ والی          خاموشی ہے۔ یوں لگتا ہے جسے وہ کافی عرصے سے روپے کی قدر میں کمی کرنا چاہ رہا تھا مگر عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں ڈالر کی خود ساختہ اڑان نے اس کا کام آسان کردیا۔ اس طرح کے حالات میں 23 مارچ کی عظیم الشان پریڈ کو دیکھ کر ہی تسلی دی جا سکتی ہے کہ پاکستان مضبوط ہاتھوں میں ہے ورنہ معاشی اور اقتصادی حالات تو اتنے اچھے نہیں کہ مستقبل قریب میں عام پاکستانیوں کے لئے کسی بہتری کی توقع وابستہ کی جائے۔ 
35 پنکچروں کے معروف فنکار نجم سیٹھی نے لاہور اور کراچی کی خوشیاں واپس لوٹانے کا دعوی کیا ہے مگر مخالفین اس کو اس لئے تسلیم کرنے سے عاری ہیں کہ چند غیر معروف انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی اتنی زیادہ سکیورٹی اور لاہور اور کراچی کی کئی سڑکیں بند کرنے کے بعد کرکٹ کی رونقیں بحال کرنے کا دعوی واقعی محل نظر ہے مگر چیف جسٹس نے نجم سیٹھی کی دعوت قبول کرکے لاہور کا میچ دیکھ کر تاثر تبدیل کیا ہے۔ جس میں پشاور زلمے کے کامران اکمل نے اگرچہ چوکے چھکے لگا کر اپنی ٹیم کو فتح دلائی مگر اپنے کوچ اور کپتان کے نزدیک بطور وکٹ کیپر اپنی پوزیشن بحال نہ کر سکے ۔ پی ایس ایل ٹرافی کے کچھ میچ متحدہ عرب امارات میں ہوئے کچھ لاہور میں اور فائنل کراچی میں یعنی کرکٹ کی خوشویں کو مرحلہ وار بلکہ شہر وار واپس لینے کا عمل جاری ہے جو اپنی مکمل کامیابی کے لئے کچھ سال اور توجہ طلب کرے گا۔                                             
سپریم کورٹ نے لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق کا سیل قائم کرنے کا حکم جاری کیا ہے ، یہ حکم یوں تو ہر رجسٹری میں انسانی حقوق کا سیل قائم کرنے کے لئے جاری کیا جانا چاہیے تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی کی صورت حال کسی ایک رجسٹری تک محدود نہیں تاہم اس سے لاہور اور پنجاب سنٹرل کے لوگوں کے مرید ریلیف ملنے کی توقع ہے اور مستقبل قریب میں خیبرپختوانخواہ اور بلوچستان کے لوگ بھی ایسا ہی ریلیف چاہیں گے ۔یہ حکم دراصل گڈ گورننس کے ڈھڑوں کی جانچ پرکھ کے لئے جاری کیا گیا ہے یقیناً عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں بھی ازخود احکامات جاری کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگا، کیونکہ یہ بھی انسانی حقوق کی بحالی میں ایک اہم قدم شمار ہو سکتا ہے اس کے علاوہ بڑے بڑے ہائوسنگ گروپ جو لوگوں کی بچتیں ہتھیا کر دوسرے ملکوں میں انویسٹمنٹ کر رہے ہیں ۔ وہ بھی اس کا موضوع ہوں گے کیا ہی اچھا ہو کہ کسی ایسے ہی از خود نوٹس پر یہ حکم جاری کیا جائے کہ جو لوگ اپنے پلاٹوں کی کل قیمت ادا کر چکے ہیں انہیں ہائوسنگ ادارے پلاٹ دیں یا ان کی مکمل رقم واپس کریں ، کیونکہ مکمل رقم وصول کرنے کے بعد دھوکہ دہی کا کوئی جواز نہیں۔ سرائے عالمگیر میں غربت کے باعث ایک والد نے اپنے چار بچے قتل کر دئیے اس سے قبل ایک عورت کی اپنے تین جگر گوشوں کے قتل کی خبریں دل ہلا چکی ہیں کہ یہ غربت کی بدترین شکل ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے لگے ہیں۔ بیٹے کے ہاتھوں والدہ یا والد کے قتل کی خبر بھی اس سلسلے کی کڑی ہے الحذر الحذر… کہ بڑھتی ہوئی ناآسودہ خاموشیوں کے باعث سوسائٹی اپنا فطری توازن کھو رہی ہے اس کو سنبھالا دینے کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو رول آف لاء اور دوسرا غربت میں کمی ،دونوں ہی اس ملک میں اپنا اعتبار کھو رہے ہیں اس لیے گریبان میں منہ دے کر رونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ یہاں رونے کے لئے کسی بڑے تکلف کی ضرورت نہیں کہ ہر بڑی خبر آنسوئوں کو آنکھوں کے اور قریب کر رہی ہے اور یہ آنسو دل سے آنکھوں کی طرف بڑھتے ہیں کہ آنسو بہانے والے اس ملک کے حوالے سے درد دل رکھتے ہیں اور اس ملک کے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو اپنے تمام حقوق سے محروم کر دئیے گئے ہیں اور ان میں تفرقہ اس لحاظ سے ہے کہ کوئی گروپ کسی سیاستدان کو نجات دہندہ سمجھ رہا ہے کوئی کسی اور کو مگر کوئی بھی ان کا طرفدار نہیں!!!                                                                   
حلقہ ارباب ذوق لاہور کے گزشتہ سالانہ جلسہ میں سینئر ترین ادیب اکرام اللہ نے طویل خطبہ پیش کیا اور صدق دل سے ملک کی بگڑی ہوئی تاریخ کا احاطہ کیا انہوں نے نہ صرف مسائل کا ادراک کیا بلکہ اصلاح        احوال کیلئے بھی تجاویز دیں اس سے قبل غلام حسین ساجد نے جو کہ سابق سیکرٹری تھے اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کی اور اس پر داد حاصل کی۔بعدازاں انتقال اقتدار کی رسم منعقد ہوئی جس میں حلقہ اربات ذوق و لاہور کی زمام نوجوان سیکرٹری عقیل اختر اور جوائنٹ سیکرٹری بابر کے حوالے کی گئی جنہوں نے جونیئر اور سینئر ادیبوں کے تعاون کی درخواست سے مشروط اپنی آئندہ سال کی کارکردگی بہتر بنانے کا اعلان کیا۔ حلقہ کے پہلے ماہ کا تنقیدی اجلاسوں کا پروگرام بھی جاری کیا گیا ہے جس میں ان کے دعوئوں کی تصدیق کا سامان موجود ہے۔ سالانہ جلسہ کے اختتام پر حلقہ ارباب ذوق کے گلوکار ممبران نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا خاص طور پر کلاسیکل گلوکار ندیم ریاض نے اپنے خوبصورت فن کا مظاہرہ کیا اور خوبصورت راگ کو اہتمام کے ساتھ گا کر ثابت کیا کہ کلاسیکل میوزک کو سننے والے آج بھی پوری توانائی کے ساتھ اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
۪روزنامہ نوائے وقت ۲۸ مارچ ۲۰۱۸ع۫

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں