منگل، 27 مارچ، 2018

"ووٹ کو عزت دو"



شفیق الرحمن شاکر
"پاکستانی سیاست میں آج کل ایک نیا نعرہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ خوب زور و شور سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ یہ نعرہ ایک ایسے وقت میں لگایا جا رہا ہے جب نعرہ لگانے والے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے نااہل ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف قائم متعدد مقدمات کے متوقع فیصلے ان کے خلاف آنے کے قوی امکانات ہیں۔ ایسے میں انہوں نے ان ناگوار نتائج پر اثرانداز ہونے اور لوگوں کی توجہ اصل حقائق سے موڑنے کے لئے یہ خوبصورت لیکن گمراہ کن نعرہ ایجاد کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لفظ سیاست اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ اب اسے صرف منفی معنوں میں ہی لیا جاتا ہے اور اس لفظ کو اتنا آلودہ کرنے میں سب سے بڑا حصہ خود سیاستدانوں کا ہے۔ ان سیاستدانوں نے گزشتہ نصف صدی سے اپنی سیاست کے ایسے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ اب سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور پاکستانی نہ تو ان کی باتوں کو سنجیدہ لیتا ہے اور نہ ہی ان پر اعتبار کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا پاکستانی سماج اور قوم بحیثیت مجموعی ان کے چنگل میں ایسے برے طریقے سے پھنسی ہوئی ہے کہ ہم جتنا اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے جا رہے ہیں‘ اتنا ہی مزید پھنستے جا رہے ہیں۔ ایسے منافع خور سیاستدانوں بلکہ سیاستکاروں سے نجات پانا ناممکنات میں سے نہیں لیکن پتا نہیں کیوں لوگ ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔ شاید ان کے پُردرد الفاظ میں ایسا کیف اور ان کی تقاریر میں ایسا جادوئی کرشمہ پنہاں ہے جو وہ مسلسل عوام پر مصائب و آلام کے پہاڑ گرانے کے باوجود بھی آسانی سے مظلومین کی صف میں جگہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اچانک ان کی آواز بھراتی ہے، آنکھوں میں آنسوئوں کی لڑیاں سج جاتی ہیں، زبانوں پر عوامی خدمت اور ووٹ کی عزت بحال کرانے کی بامشقت جدوجہد کے جرم میں ان کے اوپر ڈھائے گئے مظالم کی حکایات و شکایات جاری ہو جاتی ہیں۔ اس طرح وہ دردناک افسانے سناکر خود بھی رونے اور اپنے ساتھ عوام کو بھی رلانے کا انوکھا فن رکھتے ہیں۔ اپنی تمام تر بربادیوں اوربدحالیوں کے باوجود ہمیں اس معصوم مخلوق سے کوئی شکایت نہیں رہتی۔ اکیلے سیاستکار ہی نہیں جنہوں نے ہمارا بیڑہ غرق کیا ہے، ان کے ساتھ مفت خوروں کی ایک نہ ختم ہونے والی بارات ہے۔ ڈھول پیٹنے والے، شہنائی نواز، طوطاری، ٹھمریاں گانے والے گویے، سازندے اور باجا بجانے والے، رقاص، داستان گو، قصیدہ خوان، نعرہ باز اور نعروں کا جواب دینے والے، لعنتیں بھیجنے والے، مصنوعی رونے اور ہنسنے والے، پھول اور نوٹ پھینکنے والے، مخالفین کو چیلنج کرنے اور انہیں گالیوں سے نوازنے والے، اپنے رہبروں پر سو بار جان قربان کرنے کی دھمالیں ڈالنے والے، دانشور، ادیب و نام نہاد تجزیہ کار‘ کس کس کا بیان کیا جائے کہ عشق کے ان سیاسی آستانوں پر نجانے کتنے سر صدقہ ہونے‘ اور کتنے قلب قربان ہونے کے مشتاق رہتے ہیں۔ ہماری تو عقل ہی دنگ رہ جاتی ہے اور زباں سے بے اختیار یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔اگر ان سیاستکاروں کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو سمجھو کہ جمہوریت کو بلکہ ملک کی سالمیت کو ہی خطرہ ہے۔ اگر انہیں اپنے افعال، اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے کرسی سے الگ کیا جائے تو سمجھو کہ عوام کے ووٹ کی عزت برباد ہو گئی۔ جتنے بھی پاکستانی ملک میں قانون کی بلاامتیاز حکمرانی کی بات کرتے ہیں، وہ سب عوام کے ووٹ کی توہین کرتے ہیں؟ جو بھی عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس لوٹانے کا مطالبہ کرتا ہے‘ وہ جمہوریت دشمن اور سازشی قوتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے؟ عوام کے ووٹ کی عزت کی حسین دیوی‘ جس پر آپ اس وقت اچانک جان و دل قربان کرنے کو تیار ہو گئے ہیں، کا الیکشن کے بعد بھی خیال رکھیں گے؟ ووٹ لینے کے بعد آپ کتنے مہینے بعد اس عوام کو ملاقات کا شرف بخشتے اور کتنے سالوں بعد انہیں اپنی صورت دکھاتے ہیں؟ چلیں تسلیم کرتے ہیں کہ عوام کے ووٹ کی آبرو نہ رکھنے والے حلقے کافی مضبوط ہیں لیکن یہ کیسی بے بسی اور بے اختیاری ہے کہ خود آپ کے اثاثوں میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے؟ لوگوں کے ووٹ کی عزت کی منزل ابھی دور ہے، پہلے یہ تو تسلیم کریں کہ جو لوگ آپ کو ووٹ دیتے ہیں وہ انسان ہیں،جیتی جاگتی انسانی مخلوق۔ جن کے وجود میں سانس چلتی ہے، جن کے پیٹ میں بھی بھوک کا دوزخ جلتا ہے، جن کے جگر ٹکڑے بھی بیمار ہوتے ہیں، ان کے سینوں میں بھی چھوٹی چھوٹی تمنائیں سلگتی اور بجھتی ہیں۔ اگر گندگی کی ڈھیروں تلے اپنا رزق تلاش کرنے والے کم عمر بچوں کے میلوں میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی تو پھر دوسروں سے عوام کے ووٹ کی عزت کا مطالبہ کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب ضرور چاہیے کہ عوام سے ووٹ لیکر حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں نے عوام کے ووٹ کا خود کتنا مان رکھا ہے؟ "
۪ روزنامہ دنیا نیوز ۲۷ مارچ ۲۰۱۸ع  ۫


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں