ہفتہ، 12 مئی، 2018

شاعری کی زباں :ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد 



ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بیدرد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستہ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

فیض احمد فیض

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں