اتوار، 13 مئی، 2018

آخری ایام میں للکار


نوازشریف کی للکار سب نے سن لی ہے چیئرمین نیب ثبوت دیں یا استعفیٰ ۔پُرعزم اور پُرجوش سابق       وزیراعظم نے کہا سزا ہوئی تو معافی نہیں مانگوں گا، خلائی مخلوق کو زمینی مخلوق شکست دے گی گویا دونوں     مخلوقوں کے مابین جنگ ہونے جا رہی ہے سیاست میں ایسے استعارے اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تھے جنہیں خلائی مخلوق کیا جا رہا ہے وہ بھی اس تشبیہ پہ ضرور حیران ہوں گے کہ وہ تو زندگی مٹی چٹانوں، پہاڑوں، صحراﺅں میں گزار دیتے ہیں خلا سے تو ان کا کہیں دور کا بھی واسطہ نہیں۔ نوازشریف نے طبل جنگ بجا دیا ہے پتہ نہیں وہ تین محاذوں پر اکیلے کیسے جنگ لڑیں گے۔ خلائی مخلوق، عدالت عظمیٰ اور نیب،             نوازشریف کو یقین ہے، پی ٹی آئی میں لوگ جا نہیں بھجوائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں جمہوری قانون چلے گا یا ڈکٹیٹر کا، ان کے خیال میں خلائی مخلوق میں ضرور کوئی ڈکٹیٹر ہے جس کا فرمان چل رہا ہے۔ دوسری جانب شہبازشریف کا کہنا ہے کہ کوئی خلائی مخلوق ہے نہ ہم خوف زدہ۔ گویا خلائی مخلوق کے حوالے سے نواز اور شہباز ایک پیج پر نہیں۔ کامیاب قوالی کیلئے سب کا ہم نوا ہونا ضروری ہے ۔ ساز اور آواز میں تال میل نہ ہو تو قوالی بے سری ہو جاتی ہے اور مجمع بکھر جاتا ہے۔                                                    چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اعلان کیا ہے کہ کرپشن کے متعلق سوالات پوچھنا جرم ہے تو یہ ہوتا رہے گا باالفاظ دیگر چیئرمین ثبوت دیں گے نہ استعفیٰ ،بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے، وزرائے اعلیٰ کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی طلب کئے گئے ہیں۔ شریف، عباسی پانچ سالہ دور حکومت ختم ہونے میں اب چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اس دور کی تاریخ لکھی جائے گی تو ساری خوبیوں، خامیوں کا تذکرہ ہوگا          مورخ کسی کو بھی معاف نہیں کرتے۔ پانچ سال کے اخبارات کی فائلیں اور الیکٹرانک میڈیا کا آنکھوں دیکھا حال کون جھٹلائے گا؟ پاکستانیوں کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی، زندگی بھلی گزرے یا بری گزر تو جاتی ہے۔         دیکھنا یہ ہے کہ کتنے پاکستانی غریب سے متوسط طبقے کی صف میں شامل ہوئے اور کتنے غریب تر ہو گئے۔ سماجی اور اخلاقی قدریں ملیا میٹ ہو گئیں یا پھر محبت مودت، رواداری، صبروتحمل، برداشت غالب آ گئی یا مغلوب ہو گئی۔ دین کے رات دن چرچے، وعظ نصیحت لیکچروں نے کیا کام دکھایا؟ جرائم اور درندگی نے پسپائی اختیار کی یا پھر پہلے سے زیادہ سر اٹھا لیا۔ عوام کی قوت خرید جواب دے گئی یا پھر دس روپے کا نوٹ سو روپے جتنا طاقت ور ہو گیا۔ سیاست میں ایک دوسرے پر جھپٹنے میں کمی آئی یا پھر چھینا جھپٹی پہلے سے زیادہ ہو گئی۔ نوازشریف، زرداری اور عمران خان عوام کے دلوں میں اتر گئے یا پھر دلوں سے اتر گئے۔ اقتدار کے آخری ایام میں حکمران جماعت کا امتحان سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام نے 70سال میں کسی بھی چیف جسٹس کو اتنا فعال اور فکر مند نہیں پایا تھا جتنا جسٹس میاں ثاقب نثار کو پایا ہے۔ کاش ہر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم انہی کی طرح عوام کے درد سے سرشار ہوتا اور ایک ایک ادارے کو خود جا کر دیکھتا اور ذمہ           داروں کی گوشمالی اور سرزنش کرتا جمہوریت کے نام لیواﺅں نے جلسوں اور ریلیوں کے سوا کچھ نہ کیا۔             اشتہارات میں اپنی تصویریں چھپوائیں اور کارکردگی کے دعوے کئے۔ کون سا وزیراعظم ایسا گزرا ہے جس نے وزرائے اعلیٰ کو جواب دہی کیلئے طلب کیا ہو۔ گورننس کے حوالے سے دور حاضر میں جسٹس ثاقب نثار           لاریب رول ماڈل ہیں۔ عادل حکمران ایسے ہی شخص کو کہتے ہیں۔ ادھر نیب نے بہت سوں کا سر چکرا رکھا ہے۔ صاحبان اختیار نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ اپنے اعمال کی جواب دہی کیلئے طلب کئے جائیں گے۔ سوال بلکہ اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں تھمائے جائیں گے اور پھر پارلیمنٹ بھی ان کے کام نہ آئے گی۔ اصغر خان کیس نے پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ 2012ءمیں آیا اس وقت سے اب تک حکومت نے چپ سادھ رکھی تھی ”خلائی مخلوق“ نے ماضی میں جو کردار ادا کیا تھا اس کے عینی شاہد اسلم بیگ اور اسد درانی سچ پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ حالات کا رخ اس طرف جا رہا ہے کہ اب کوئی بھی نیب کا قانون اور ججوں کی تقرری و برطرفی کا طریقہ نہیں بدل سکتا۔                    
دراصل 28جولائی 2017ءسے احتساب کا غیر اعلانیہ دور شروع ہے۔ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر،           سٹیٹ بینک سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، عدلیہ کے تابع نہیں۔ اب کوئی بھی وزیراعظم ان پر اثر انداز ہونے کی جرات نہیں کر سکتا ان اداروں کیلئے ملامتی بیان جاری کر سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب کے نوٹس کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے پر اپوزیشن اختلاف کا شکار ہو گئی ہے۔   وزیراعظم عباسی کا مطالبہ ہے پارلیمنٹ چیئرمین نیب کو بلائے، نیب قانون بدلا جائے ان کے نزدیک نوازشریف پر رقم بھارت بھیجنے کا الزام قبل از وقت الیکشن دھاندلی ہے۔ شہبازشریف نے ٹھیک کہا کہ چیئرمین نیب نوٹس لیں کس نے نوازشریف کے خلاف نوٹیفکیشن پر دستخط کرائے۔ ادھر جاوید ہاشمی نے جنوبی پنجاب صوبہ تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن جیتنے کیلئے سب ہی جنوبی پنجاب کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ بلاول نے یقین دلایا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہی بنائے گی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ، تحریک انصاف میں ضم ہو چکا۔ عمران خان سے معاہدہ طے پا گیا کہ پی ٹی آئی کو اقتدار ملنے کے 100دن میں صوبہ بنے گا۔ خسرو بختیار کی نگاہ میں تحریک انصاف سے ملنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ تو سچ ہے کہ جنوبی پنجاب والے 5سال اقتدار میں رہے لیکن زبان سے جنوبی پنجاب کیلئے ایک لفظ نہ نکلا۔     2018ءکے انتخابات کیلئے انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔                                                                 
رمضان المبارک کے  بعد مہم زور پکڑے گی اس وقت تک نگران حکومت بھی قدم جما چکی ہو گی۔ دینی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل دوبارہ بیدار ہو چکی ہے۔ دینی حلقوں کے ووٹ ہر وقت ان کی جیب میں ہوتے ہیں، عام ووٹران سے کم ہی متاثر ہوتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ مولویوں کی حکمرانی زیادہ سخت ہو سکتی ہے۔ شریعت کی پابندی کرنا آسان نہیں اسی لئے لوگ بالخصوص عورتیں اور نوجوان لبرل ازم کی طرف بھاگتے ہیں۔ میوزک اور ڈھول کی تاپ ان کا دل بہلاتی ہے انہیں آزاد ماحول کا احساس ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی لبرل ازم کی علمبردار ہیں، انہوں نے اپنے اوپر مذہب کا خول نہیں چڑھا رکھا۔ مولویوں کا اعلان ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو سیکولر، لبرل اور جمہوری عناصر سے بچانا چاہتے ہیں۔ بھٹو کےخلاف پی این اے کی تحریک چلانے والے بھی یہی لوگ تھے انہیں ہر دور میں اسلام خطرے میں دکھائی دیا حالانکہ کتاب اللہ اور دین الٰہی کی حفاظت اور بقاءکا ذمہ خود اللہ نے لیا ہوا ہے ۔کون اسلام کو خطرے میں ڈالنے کی جرا¿ت کر سکتا ہے؟ ظاہری لبادے کے بغیر کروڑوں پاکستانی اسلام قرآن اور ناموس رسالت پر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے ہروقت تیار رہتے ہیں ۔ رمضان نشریات کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا ٹی وی چینلوں پر نیلام گھر اور سرکس بند کرنے اور پانچوں وقت اذان اور مغرب کی اذان سے 5منٹ پہلے درود شریف یا قصیدہ بردہ شریف نشر کرنے کے حکم کا اسلامیان پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو ووٹروں کے دلوں میں گھر بنانے کیلئے باقاعدہ منشور دینا ہوگا۔ عمران کو یہودیوں کا ایجنٹ کہہ دینے سے ووٹ نہیں ملیں گے۔ ن لیگ کے پاس بھی ”ووٹ کو عزت دو“ کے سوا کوئی نعرہ نہیں۔ ساری ملکی سیاست شخصیت پرستی کے گرد گھوم رہی ہے۔ نوازشریف کا بیانیہ اس سے زیادہ نہیں کہ پاکستان پر حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کے سوا کسی کو حاصل نہیں، روٹی کپڑا اور مکان بھی ایک زمانے میں طاقتور نعرہ تھا لوگ اس نعرہ کے پیچھے دوڑتے تھے۔ نعرے کی عملی تعبیر آج تک دکھائی نہیں دی ہندوستان میں بھی غریبی مٹاﺅ جیسے نعرے لگے تھے۔ عمران نے اپنے 11نکات میں کوالٹی ایجوکیشن کا ذکر کیا ہے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کوالٹی ایجوکیشن ہے کیا؟ ووٹ کی خاطر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ بھی کر بیٹھے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں سیاسی منشور کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے جو پارلیمنٹ میں بجٹ کی کتابوں کے ساتھ ہوتا ہے، ایک روز پرانے اخبار کو ردی کہا جاتا ہے۔ لوگوں کے کانوں میں جو باتیں پڑ جاتی ہیں وہ انہی کو سچ سمجھ لیتے ہیں جیسے ”نوازشریف 4.9ارب ڈالر بھیجے بھارت والی جعلی خبر پر چیئرمین نیب کے نوٹس نے مایوس کیا۔ عالمی بینک اور سٹیٹ بنک کی تردید کے بعد تو کچھ باقی نہیں رہتا۔ سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات پر ہوشربا ٹیکسوں کے اطلاق کا نوٹس لیا ہے۔ حکومت یوٹیلیٹی سٹورز پر ایک ارب 73 کروڑ کی سبسڈی دے رہی ہے حکومت پنجاب 11ارب کی سبسڈی دے رہی ہے لیکن رمضان المبارک سے پہلے اور بعد میں ریڑھی والوں پر اپنی رٹ قائم نہیں          رکھتی ۔ انہیں کامیاب حکمران کون کہے گا؟          
(روزنامہ   نوائے  وقت 13 مئی 2018ع)                                                                                              


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں