جمعہ، 25 مئی، 2018

کس نواز شریف پر اعتبار کریں؟


 رئوف کلاسرا

میرے دوست ارشد شریف نے ٹوئٹر پر گیارہ برس پرانی تصویر شیئر کی ہے جب ارشد شریف لندن میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ اس تصویر میں نواز شریف اور ارشد شریف ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ارشد شریف نے اس تصویر پر طنزیہ سرخی جمائی ہے '' جب نواز شریف ایک انقلابی ہوتے تھے!‘‘۔ ارشد نے یہ نہیں لکھا کہ اس وقت یہ انقلابی لیڈر ان کی پلیٹ میں سالن بھی ڈال کر دیتے تھے۔ آج وہ ارشد شریف کا نام بھی سننا پسند نہیںکرتے ۔
سوال یہ ہے کہ قصور کس کا ہے؟ نواز شریف کا یاپھر ارشد شریف کا؟ 
ارشد شریف کو یقینا یہ شکایت لگتی ہے‘ جس نواز شریف کو وہ جانتے ہیں یا جس نواز شریف پر وہ بھروسہ کر بیٹھے تھے‘ وہ تو یہ نہیں ہے۔ جس نواز شریف سے ان کی لندن میں ملاقات نادر چوہدری نے کرائی تھی‘ وہ بہت بدل چکا ہے۔ شاہین صہبائی ہوں ، ارشد شریف ہوں، عامر متین یا میں، ہم اس سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے ہیں ‘جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ صحافی ہمیشہ حکومت وقت کا مخالف اور اپوزیشن کیمپ میں رہتا ہے۔ بلکہ ہمارے جیسے صحافی کا قریبی دوست اگر وزیر بھی بن جائے‘ تو ہم جان بوجھ کر اس سے بگاڑ لیتے ہیں۔ ہمارے وزیر دوست بھی ہماری اس چال کو نہیں سمجھتے۔ وہ پہلے دن ہی ہوائوں میں اڑ رہے ہوتے ہیں ‘لہٰذا وہ بھی اپنی اکڑ میں آجاتے ہیں اور ہمارا کام آسان کردیتے ہیں۔ عامر متین اور میں سیاستدانوں سے اس لیے بھی دور رہتے ہیں کہ کہیں آنکھ کا حیا ہی نہ کرنا پڑے اور ان کے گند کو نظرانداز کرنا پڑے کہ چھوڑو یار کل رات تو کافی اکٹھے پی تھی یا پھر کھانا کھایا تھا ‘ تاہم اس معاملے میں شاہین صہبائی سب سے آگے رہے ہیں ۔ شاہین صہبائی نے وزیروں یا سیاسی دوستوں سے پوری رات گپ شپ ماری، کمپنی کی، اور اگلی صبح ٹھوک کر اس پر لکھا کہ وہ وزیر بھونچکا رہ گیا کہ یہ کیا ہوگیا ۔ شاہین صہبائی کے قلم نے کسی کو نہیں معاف کیا ۔ اس کے بعد میرا خیال ہے ارشد شریف نے ہمیشہ انصاف کیا ہے۔
ارشد شریف جب نواز شریف سے ملا تھا اور ان کی انقلابی باتیں سنی تھیں ‘تو وہ یقین لے آیا تھا کہ جو نواز شریف کہہ رہا ہے وہ درست کہہ رہا ہے۔ ارشد شریف اور میرے جیسوں کے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا ‘جس کی حکومت وقت کے خلاف حمایت کی جاتی۔ بینظیر بھٹو جنرل مشرف سے خفیہ مذاکرات کر کے پاور کا حصہ بننے جارہی تھی۔ میں اور ارشد شریف اب جنرل مشرف حکومت کی سپورٹ کرنے سے تو رہے۔ لہٰذا بچ بچا کے نواز شریف انقلابی ہی ہمیں مل گئے تھے۔ ویسے ہم اس وقت واقعی نواز شریف کی باتوں پر ایمان لے آئے تھے۔ وہ جتنی سنجیدگی اور آواز میں رقت پیدا کر کے آج اپنے دکھڑے سناتے ہیں، ماتم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا اور وہ اب انقلاب کے لیے جان لڑا دیں گے، لندن میں بھی ان کا اداکاری کا یہی انداز تھا ۔ ہم ٹھہرے ہمیشہ کے بیوقوف اور یہ سیاستدان ‘سدا کے اداکار۔ ان کے لیے آواز میں رقت پیدا کرنا ‘ چہرے پر دکھ اور اذیت کے تاثرات اور باڈی لینگویج میں ایسا انداز پیدا کرنا کہ اگلے کو فوراً ترس آنا شروع ہوجائے،معمولی سی بات ہے‘ تاہم پاکستان لوٹ کر جس طرح انقلاب اور انقلابی بھائیوں نے کرتب دکھائے اور ان کی کرپشن اور شاہانہ انداز حکومت کے کارنامے سامنے آنا شروع ہوئے، تو ارشد شریف اور میرے جیسے صحافی بہت مایوس ہوئے۔ شاہین صہبائی اور عامر متین جیسے صحافی دوسری طرف بینظیر بھٹو سے مایوس ہوئے تھے۔ ہمارے اپنے اپنے رومانس تھے‘ جو ان دونوں سے ختم ہوئے۔ ارشد شریف اور میں نے خیر ایک کام کیا ۔ اپنی غلطی مانی لیکن بات وہی کہ ہمارے پاس کیا آپشن تھا؟ کیا ہم ایک فوجی آمر کی حمایت کرتے جو ممکن ہی نہیں تھا۔ یوں ہم دونوں نے ان دونوں بھائیوں کا پردہ اٹھتے ہی خود کو ان سے دورکرلیا ۔ اتنی دیر میں وطن واپسی پر ان کی حکومت پنجاب میں آچکی تھی‘ لہٰذا ہم نے ان کی گورننس پر خبریں دینا شروع کردیں اور یوں ارشد شریف ہوں، میں ہم دونوں نواز شریف اور شہباز شریف کیمپ کے لیے برے صحافیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ اس لیے ارشد شریف نے یہ تصویر ٹوئٹ کی : شکر ہے! جواباً میں نے نواز شریف کا وہ خط ٹوئٹ نہیں کردیا‘ جس میں انہوں نے میری عظمت کے گن گائے تھے کہ میں کتنا بڑا صحافی ہوں ۔ 
دوسری طرف دیکھتے ہیں‘ نواز شریف ہم دونوں سے کیوں مایوس ہوئے؟ 
ان کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ الٹا وہ حیران ہوتے ہوں گے‘ یار! میں نے کون سی ایسی بات یا حرکت کی ہے یا میرا کیا قصور ہے؟ان کا تو روز کا یہ کام ہے۔ ان کا سیاست تو کاروبار ہے‘ پیشہ ہے۔ انہیں تو روزانہ اپنے پیشے میں یہ اداکاری کرنی پڑتی ہے۔ جب اپوزیشن میں ہوں تو کیسے رو دھو کر اور اپنی مظلومیت کی کہانیاں سنا کر لوگوں اور صحافیوں کی ہمدردیاں سمیٹنی ہیں‘ جب تک حکومت نہیں ملتی ‘یہ کام جاری رکھنا ہوتا ہے۔ میڈیا کو سب سے زیادہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی سیاسی تربیت کا حصہ ہوتا ہے‘ اپوزیشن کے دنوں میں صحافیوں کو ان کے نام سے بلانا ہے۔ قریب کی نشست پر بٹھانا ہے۔ ان کی پلیٹ میں کھانا بھی ڈالنا ہے۔ یہ سب کام اس لیے کیے جاتے ہیں کہ صحافی کو اس کی اہمیت کا احساس ہوکہ وہ کتنا اہم ہے اور اس کی کیا جگہ بنتی ہے۔ یوں صحافیوں کو اس طرح بانس پر چڑھا کر ان سے وہ کام لیے جاتے ہیں‘ جو انہوں نے اقتدار میں آکر نہیں کرنے ہوتے۔ نواز شریف کے پاس ہر طرح کے پیکیج ہوتے ہیں‘ ایسے صحافیوں کے لیے جب وہ اقتدار میں آتے ہیں‘ لیکن وہ بھی سمجھدار ہوتے ہیں‘ کون کتنا مؤدب ہے اور کس نے کتنی خدمات سر انجام دی ہیں‘ لہٰذا دیکھ بھال کر ان درباریوں میں کسی کو ایم ڈی ‘پی ٹی وی تو کسی کو پیمرا کا سربراہ لگایا جاتا ہے ‘تو کسی کو لاہور میں کسی اتھارٹی کا عہدہ دے دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو کرپٹ کرنے کے لیے بیرون ملک منسٹر پریس لگانے کے لیے بھی آسامیاں نکالی جاتی ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں صحافی اپلائی کرتے ہیں اور یوں ہر کوئی لابنگ میں پڑ جاتا ہے اور روزانہ کسی ایم این اے وزیر یا وزیراعظم کے درباریوں کی سفارش کراتا رہتا ہے۔ 
نواز شریف چار سال اقتدار میں رہے‘ کسی صحافی یا اینکر کو انٹرویو نہیں دیا ۔ چند درباریوں کے علاوہ کسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ آج کل ان کا سارا وقت صحافیوں کے درمیان گزرتا ہے اور وہی کہانی دہرائی جارہی ہے ‘جو لندن میں ہم روزانہ دربار میں سنتے تھے۔ اس وقت بھی ان کی مظلومیت کی کہانیاں ختم نہیں ہوتی تھیں‘ اب تو مزید ان کہانیوں میں مصالحہ ڈالنے کو مل گیا ہے۔
اگر آپ نے نواز شریف کو سمجھنا ہے‘ تو یہ ذہن میں رکھیں‘ جو نواز شریف وزیراعظم ہوتا ہے‘ وہ صحافیوں سے نہیں ملتا ، کسی اینکر کو انٹرویو نہیں دیتا ، وہ پارلیمنٹ نہیں جاتا ، وہ ایک سو سے زائد ملکوں کے دورے کرتا ہے، کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ نہیں بلاتا، اسحاق ڈار کو چوراسی کمیٹیوں کا سربراہ بنا دیتا ہے اور پاکستان سے تین سو دن بیرون ملک رہتا ہے۔ وہ ہر ہفتے لندن جاتا ہے۔ اپنے بیٹے حسین نواز سے سوا ارب روپے نقد تحفہ لیتا ہے، اس میں سے اپنی بیٹی مریم کو پچاس کروڑ روپے دے دیتا ہے۔ وہ نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی دبئی میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے بچوں راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں۔ وہ کارگل پر کمیشن نہیں بناتا بلکہ الٹا جنرل مشرف کے تمام ساتھیوں کو وزیر بنا دیتا ہے۔ وہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کو جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتوں کے لیے بھیجتا ہے۔ وہ آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں کرتا ہے اور اپنے تئیں قابل بھروسہ جنرل چنتا ہے‘ جس سے کچھ دن بعد اس سے خود لڑ بھی پڑتا ہے۔ 
لیکن جب وہی نواز شریف اقتدار سے باہر ہوتا ہے‘ تو وہ مظلوم بن جاتا ہے‘ وہ انقلابی بن جاتا ہے‘وہ ماتم کرتا ہے‘ وہ مکے لہراتا ہے‘ جو وہ اقتدار میں ان جرنیلوں اور سیاستدانوں کو مارنا بھول گیا تھا ‘جو اس کے دشمن تھے۔ وہ نئے نئے وعدے کرتا ہے‘ وہ لوٹوں کے خلاف تحریک چلاتا ہے‘ وہی لوٹے جنہیں بعد میں وہ وزیر بناتا ہے۔ وہ وعدے کرتا ہے ‘جو اس نے اقتدار میں جا کر بھول جانے ہوتے ہیں۔ وہ کارگل پر کمیشن بنانے کا وعدہ کرتا ہے‘ وہ فوجیوں کا ٹرائل کرنے کی بڑھکیں مارتا اور روتی آواز میں پوچھتا ہے'' مجھے کیوں نکالا؟‘‘ وہ جرنیلوں کے راز کھولنے کی دھمکیاں دیتا ہے اور وہ انقلاب لانے کے دعوے کرتا ہے‘ جو وہ تین دفعہ وزیراعظم بن کر نہ لاسکا تھا ۔ 
اب آپ ہی بتائیں ‘ہم کس نواز شریف پر اعتبار کریں‘ وزیراعظم نواز شریف پر یا اپوزیشن لیڈر والے نواز شریف پر؟
 (روزنامہ دنیا 25 مئی 2018ع)

منگل، 22 مئی، 2018

گرمیوں میں بچوں کا خیال


حریہ خان
قدرت کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت بچے ہوتے ہیں۔ بچے قدرت کا وہ بیش قیمت اور انمول تحفہ ہیں جن کے دم سے ہماری زندگیاں مسکراتی ہیں۔ بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جس طرح پھولوں کی صحیح طریقے سے نشوونما نہ کی جائے تو وہ مرجھانے لگتے ہیں اسی طرح بچے بھی صحیح نگہداشت اور توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ بچے سب ہی اچھے لگتے ہیں لیکن اپنے بچے والدین کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں جس طرح والدین اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں کوئی اور نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ موسم گرما آتے ہی جہاں مائیں اپنے لیے ملبوسات اور دیگر چیزوں کا موسم کے لحاظ سے انتخاب کرتی ہیں وہیں وہ اپنے بچوں کو گرم موسم کی شدت سے بچانے کے لیے مناسب ملبوسات اور ٹھنڈک پہنچانے والے پاؤڈر اور دیگر ضروری چیزوں کا انتظام کرتی ہیں۔ گرمیوں میں بچوں کو تقریباً روزانہ نہلانا چاہیے۔ اگر بچے کو گرمی دانے نکل آئیں تو پھر نہلانا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ گرمیوں میں دانے خاص طور پر تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ بچے ایسی صورت حال میں بہت گھبراہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ ان دانوں میں شدید خارش ہوتی ہے۔ گرمی دانے اس وقت زیادہ نکلتے ہیں جب موسم گرم ہونے کے ساتھ ساتھ ہوا میں نمی کا تناسب بھی بڑھ جائے۔ یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہمیں گرمی لگے تو ہمارا جسم ہمیں ٹھنڈک پہنچانے کی غرض سے پسینہ خارج کرتا ہے پسینے کے غدود ہماری جلد کے نیچے واقع ہوتے ہیں۔ ان غدود سے پسینہ تنگ نالیوں کے ذریعے ہماری جلد تک پہنچتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ نالیاں بند ہو جائیں تو پسینے کے غدود سے پسینہ بہہ کر جلد تک نہیں پہنچ پاتا اور راستے میں اٹکا رہ جاتا ہے جس کا نتیجہ گرمی دانوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر پسینہ جلد کے بالکل نیچے رک جائے تو جلد پر ایسے چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو جاتے ہیں گویا شبنم کے قطرے ہوں۔ اگر پسینہ جلد کے نیچے قدرے گہرائی میں رکا رہ جائے تو جلد پر لاتعداد سرخ دانے نکل آتے ہیں جن میں شدید خارش ہوتی ہے۔ بچوں کو ان گرمی دانوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے جہاں تک ممکن ہو شدید گرمی سے انہیں بچائیں۔ دھوپ میں براہ راست انہیں لے جانے سے گریز کریں اور اگر انہیں لے کر ہی جانا پڑے تو دھوپ سے بچاؤ کا سامان مثلاً سن سکرین یعنی دھوپ سے نقصان پہنچانے والے لوشن یا چھتری کا اہتمام کریں۔ اگر بچوں کو دانے ہوں تو انہیں روزانہ نہلا کر گرمی دانوں کا پاؤڈر لگائیں اور جہاں تک ممکن ہو انہیں ہوا دار جگہ پر رہنے دیں۔ گرمیوں میں پسینہ آنا ایک فطری بات ہے، پسینے کی حالت میں بھی بچے کو نہ نہلائیں اور نہ ہی نہلانے کے فوری بعد گیلی حالت میں پنکھے کے نیچے بٹھائیں۔ پسینہ کسی نرم کپڑے یا تولیے سے خشک کریں اور پھر بچے کو نہلائیں۔ نہانے کے بعد پنکھے کی ہوا بچے کو نقصان پہنچا سکتی ہے لہٰذا پنکھے کی مصنوعی ہوا سے بچے کو بچائیں اور قدرتی ہوا کا معقول انتظام کریں جیسے کھڑکی وغیرہ کھول لیں۔ گرمیوں میں بچے کو وقفے وقفے سے پانی پلائیں تاکہ اس کے جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے جو کہ پسینے کی صورت میں خارج ہونے سے ہوتی ہے۔ بچے کے لباس کی خریداری میں عموماً مائیں ظاہر کو دیکھ کر ایک نہایت اہم عنصر کو فراموش کر دیتی ہیں اور وہ ہے آرام دہ لباس۔ ماؤں کو آرام دہ لباس اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لیے کوئی بھی لباس جو جلد پر رگڑ اور بے آرامی کا باعث بنتا ہو، نہ پہنائیں۔ مصنوعی دھاگوں سے بنے ہوئے لباس جلد میں الرجی پیدا کر سکتے ہیں۔ خصوصاً گرمیوں کے دنوں میں ٹھنڈے سوتی لباس بچے کے بیرونی درجہ حرارت کو اعتدال میں رکھتے ہیں۔ ہلکے اور کھلی ہوئی تراش کے لباس نہایت مناسب ہوتے ہیں اور بچے کو گھنٹوں مطمئن اور خوش و خرم رکھتے ہیں۔ بچوں کو ہلکے ہوا دار کپڑے پہنائیں جن سے ہوا آسانی سے گزر سکے اور وہ پسینہ جذب کرتے ہوں۔بچے زیادہ تر ہوادار کمرے میں کھیلیں۔ گرمیوں میں ہلکے کاٹن کی فراک اور ٹی شرٹ بہتر رہتی ہے۔جب بھی لباس کا انتخاب کریں تو اس کو یقینی بنائیں کہ ڈوری یا زپ وغیرہ سوتے میں بچے کو تنگ نہ کریں۔ اگر گرمیوں میں موزے پہنانے ہوں تو وہ ہلکے ہونے چاہئیں۔ گرمیوں میں سوتی لباس پہنانا چاہیے۔ بچے اس میں زیادہ آسانی اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ گرمیوں میں کچھ والدین بچوں کے سر سے بالوں کا صفایا کرا دیتے ہیں یعنی ان کی ٹنڈ کرا دیتے ہیں۔ جن کی ٹنڈ ہوجائے وہ پیارے بھی لگتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ اس لیے بچے اسے پسند نہیں کرتے۔ بظاہر یہ مفید ہوتا ہے لیکن اگر بچے اصرار کریں تو زبردستی ٹنڈ نہیں کرنی چاہیے۔ بالوں کو چھوٹا بھی کرایا جا سکتا ہے۔بعض بچے گرمیوں میں پانی میں کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ اگر انہیں نیکر پہنا کر کسی ٹب وغیرہ میں پانی ڈال کر بٹھا دیا جائے تو بہت دیر اس میں کھیلتے رہتے ہیں۔ پانی سے کھیلنا اچھا ہے لیکن یہ حد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے ورنہ بچے بیمار پڑ سکتے ہیں۔ پانی میں کھیلنے والے چھوٹے بچوں پر نظر ضرور رکھنی چاہیے۔ بچوں کی سانس کی نالی میں پانی جانے اور ان کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ گرمیوں میں زود ہضم غذائیں کھلانا بہتر ہوتا ہے۔ اسی طرح بچوں میں پانی 
کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ گرمیوں میں سونے کے لیے گرم کی جگہ ہلکا پھلکا بستر ہونا چاہیے۔
(روزنامہ دنیا 22 مئی 2018ع)

روزہ: فضیلت اور احکام


حافظ محمد ادریس
ماہِ رمضان ہم پر سایہ فگن ہو چکاہے۔ الحمد للہ زندگی میں ایک بار پھر یہ عظیم مہمان ہمارے نصیب میں لکھا 
گیا ہے۔ مہمان، جو دیتا بہت کچھ ہے، ہم سے لیتا کچھ بھی نہیں۔ یہ ماہِ مبارک از اول تا آخر خیر ہی خیر ہے۔اس کا پہلا عشرہ رحمت،دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے خلاصی کی نوید لے کر آتا ہے۔حضورنبی اکرمؐ ماہِ رجب اور شعبان ہی میں استقبال رمضان کے لیے کمرہمت باندھ لیا کرتے تھے۔ آپؐ کی مشہور دعا ہے ''اللھم بارک لنافی رجب و شعبان و بلغنا رمضان‘‘ (اے اللہ ہمیں رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما۔) آپ ؐ عام دنوں میں بھی نیکی کے کاموں میں مشغول رہتے‘ مگر رمضان میں بہت زیادہ عبادت الٰہی کا اہتمام فرماتے۔ہمیں بھی ماہِ شعبان کے آتے ہی اپنے تمام امور و معاملات کو اس نقطۂ نظر سے منضبط کر لینا چاہیے کہ رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی ہمارے لیے مفید اور با برکت ثابت ہو۔
٭روزے کی فرضیت:روزے کی فرضیت کا حکم ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد مدینہ منورہ میں وحی کے ذریعے آنحضور ؐ پر نازل ہوا۔''اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،تم پر روزے فرض کر دیے گئے،جس طرح تم سے پہلے انبیاکے پیروکاروں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ ان سے تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں۔اگرتم میں سے کوئی بیمارہویا سفرپر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں)تو وہ فدیہ دے دیں۔ایک روزے کا فدیہ‘ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے‘تو یہ اُسی کے لیے بہترہے‘لیکن اگر تم سمجھو تو تمھارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزے رکھو‘‘۔(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر183،184)
یہ حکم 2ہجری کا ہے۔ اس سے اگلی آیت نمبر185 میں، جو ایک سال بعد نازل ہوئی، حکم دے دیا گیا کہ روزے میں چھوٹ محض معذور ودائمی مریض لوگوں کے لیے ہے۔ تندرست وتوانا لوگوں کو روزہ ہی رکھنا ہوگا۔''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ‘جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لاز م ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیاہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر185)
٭تقویٰ کا معیار:روزہ،دین اسلام کا چوتھا رکن ہے۔عربی زبان میں روزے کو صوم کہا جاتا ہے،جس کی جمع صیام ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے مطابق روزے کی فرضیت کی اصلی غایت اہل ایمان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔بلاشبہ روزہ اس کا بہترین ذریعہ ہے۔نبی رحمتؐ کی حدیث کے مطابق ''تقویٰ کا منبع دل ہے‘‘اور روزے کی حالت میں واقعتاً دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ شدید بھوک اور پیاس کے باوجود مکمل تنہائی میں بھی کوئی روزہ دار کسی مشروب کا ایک قطرہ یا کسی غذا کا ایک ذرہ بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں جانے دیتا۔یہی تصور بندے اور رب کے درمیان وہ تعلق قائم کرتاہے ،جسے تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔روزے کو حدیث میں ڈھال بھی قرار دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ ڈھال دشمن کے مقابلے میں اپنے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔نفس امارہ،فسق و فجور سے بھرا ہوا ماحول اور شیطان لعین ہر وقت انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہِ رمضان کے روزے مسلسل تربیت کا موثر کورس ہیں۔اس تربیت کے اثرات اگر باقی گیارہ مہینوںمیں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہو گیا ہے اور روزہ دار سرخرو ہے۔خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہو تو روزہ محض بھوک پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔ایسے روزے سے روزہ دار کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
٭نیکیوں کاموسم بہار:ماہِ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور خوش قسمت ہیں‘ وہ لوگ جو اپنا دامن خیروبرکت سے بھرلیں۔ ماہِ رمضان کی آمد کے باوجود جن لوگوں کو نیکی کی جانب قدم بڑھانے کی توفیق نہیں ملتی،ان کی بدنصیبی اس سے عیاں ہے کہ جبریل امین ؑنے ان کے حق میں تباہی و بربادی کی دعا فرمائی اور اللہ کے رسولؐ نے اس پر آمین کہا۔اس مہینے کے فضائل بے شمار ہیں۔حدیث میں فرمایا گیاکہ اس مہینے میں نفل عبادات کااجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ رمضان کو صبر کا مہینہ قرار دیاگیا ہے اور صبر کا بدلہ جنت بتایا گیا ہے۔روزہ محض معدے کا نہیں ہوتا بلکہ پورے اعضا ؛آنکھ،کان،ناک،زبان،ہاتھ، پائوں ،دل و دماغ،فکروسوچ،غرض ہرچیز پر محیط ہوتا ہے۔
٭روزہ اور جہاد:ماہِ رمضان ہر سال آتا ہے اور ایک پیغام دے کر چلا جاتا ہے۔ماہِ رمضان کے دوران جہاد اور مجاہدین سے مکمل وابستگی،ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے‘جس سال روزے فرض ہوئے ،اس سال ماہِ رمضان ہی میں کفرواسلام کا پہلا معرکہ بدر کے میدان میں برپا ہوا،جسے قرآن نے یوم الفرقان کہا ہے۔آنحضورؐ کو فیصلہ کن فتح 8ہجری میں رمضان ہی میں نصیب ہوئی، جب مکہ سرنگوں ہوا اور جزیرۂ نمائے عرب سے کفر کا خاتمہ ہوگیا۔ ہمیں پاکستان کی نعمت بھی اسی مہینے میں عطا کی گئی، جس کی قدر ہم نہ کرسکے۔ آج بھی اپنا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ اسلام جہاد اور شہادت سے مزّین ہے۔ پہلی شہادت تومکہ میں ایک صحابیہ سیّدہ سمیّہؓ کے حصے میں آئی۔ پھر اس فہرست میں ایک ہی روز یعنی یوم بدر(17؍رمضان المبارک2ھ) کو چودہ عظیم المرتبت شہدا کا اضافہ ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جہاد جاری ہے اورقیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ جہاد کے خلاف آج داخلی وخارجی ہر محاذ پر انتہائی گھناؤنی سازشوں کا جال بچھا دیا گیا ہے‘ مگر ہمیں بطور مسلمان اللہ اور اس کے رسول کا یہ حکم ہے کہ ہم ان سازشوں کا مقابلہ کریں اور جہاد میں حصہ لیں۔ جو شخص خود عملاً جہاد میں شریک نہ ہوسکے وہ کسی مجاہد کو زادِجہاد فراہم کردے یا اس کے پیچھے اس کے اہلِ وعیال کی خبر گیری میں لگ جائے یا شہدا کے خاندانوں کا کفیل بن جائے‘ تو وہ بھی عملاً جہاد میں شریک شمار ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا اجر حدیث پاک میں مجاہدین کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
٭رویتِ ہلال:ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام اسلام میں ضروری ہے۔ الحمد للہ اس مرتبہ بھی شعبان کے ایام مکمل ہونے کے بعد رمضان کا چاند نکلا تو اہل ایمان نے مسرت کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ رمضان کی برکات و رحمتیں امتِ مسلمہ کے شامل حال ہوگئیں اور مخلص اہل ایمان ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ بعض لوگوں کے نزدیک خوشی اور مبارک باد محض عید کا چاند دیکھنے پر ضروری ہے، یہ درست نہیں۔ دونوں مواقع بندۂ مومن کے لیے بابرکت ہیں۔ رمضان کا چاند اس لیے کہ وہ رحمت، مغفرت اور دوزخ سے 
خلاصی کے تحائف لے کر آتا ہے اور شوال اس لیے کہ اس میں اللہ مخلص بندوں کو انعام دیتا ہے۔ 
روزامہ دنیا  22 مئی  2018ع

اتوار، 20 مئی، 2018

بڑے شاہی محلات کے چھوٹے مکین



جوں جوں نئی نئی چیزوں کا علم ہوتا ہے تو دل دکھی ہوتا ہے۔
ملائشیا کے مہاتیر محمد نے وزیراعظم بنتے ہی جو احکامات جاری کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ سابق وزیراعظم نجیب رزاق اور ان کا خاندان ملک سے باہر نہیں جاسکتا ۔ دوسرا حکم یہ دیا اس کے گھر پر چھاپہ مارا جائے۔ 
مہاتیر محمد اپنے سابق وزیراعظم نجیب رزاق جسے انہوں نے ہی سیاسی طور پر پالا پوسا اور بڑا کیا اور ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں دے کر ریٹائر ہوگئے تھے‘ اب نو مئی کو ہونے والے انتخابات جیت کر واپس لوٹے ہیں ۔ جب پولیس نے گھر پر چھاپہ مارا تو سابق وزیراعظم کی بیوی کے زیورات برآمد ہوئے جن کی مالیت تین کروڑ ڈالر یا ساڑھے تین ارب روپے بنتی ہے۔ 
جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو جتنے اعلیٰ عہدے پر بیٹھتا ہے وہ اتنا ہی جواب دہ ہوتا ہے۔ سیاست میں عموماً عوام ایسے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کی رائے ہوتی ہے کہ وہ ذہین انسان اور امیر لوگ ہیں۔ اس لیے پاکستان جیسے ملکوں میں آپ دیکھیں گے جس کے پاس بڑی گاڑیاں، بڑا گھر، اور چند نوکر ہیں وہ اگر الیکشن میں کھڑا ہوجائے تو اس کے جیتنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ عام انسانوں کو لگتا ہے وہ بندہ ایک کامیاب انسان ہے۔ ایک ایسا انسان جو اپنی قسمت بدل چکا اب وہ اپنی ذہانت سے ان کی زندگیاں بھی بدل دے گا ۔ یہ عام ووٹر کی وہ نفسیات ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے جیسے پھکڑ کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ اپنے سے مالی اور سماجی طور پر بہتر انسان کو چنتے ہیں ۔ 
ایسا انسان جو بڑی گاڑی پر سفر کرتا ہو، بڑے گھر میں رہتا ہو، اور نوکروں کی ایک فوج ہو وہ دراصل عام انسانوں کا ایک رول ماڈل ہوتا ہے۔ ہر کوئی وہی لائف گزارنا چاہتا ہے جو ان کے دروازے پر ووٹ مانگنے کے لیے آیا ہوا ایک امیر انسان گزار رہا ہوتا ہے۔ اس عام ووٹر کو لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی ہے کہ آج بھگوان ان کے دروازے پر خود ہی چل کر آ گیا ہے ۔ یوں وہ بڑا آدمی اس سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ووٹ لیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عام ووٹر کے خواب پورے کیوں نہیں ہوتے؟ اس سے دھوکا کون کرتا ہے؟ یا ایسا ووٹر خود اپنی بربادی کا ذمہ دار ہوتاہے؟
اس سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ بڑا آدمی جو سیاستدان کا روپ دھار کر اس کے پاس آتا ہے اس کے پاس تو وہ کچھ ہے جو اس کے حلقے کے لوگ ترستے ہیں۔ پھر وہ کیوں ان کا مال ہی لوٹنے پر لگ جاتا ہے؟
مان لیتے ہیں ہر انسان کو طاقت، اختیار اور دولت چاہیے ہوتا ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں اختیار اور طاقت کی کوئی حد نہیں ہوسکتی۔ ہر انسان اپنے مطابق اس کا فیصلہ کرتا ہے اور ہمیشہ زیادہ کا طلب گار رہتا ہے۔ لیکن ایک سوال دولت بارے ضرور بنتا ہے ایک انسان کو کتنی دولت ایک زندگی گزارنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے؟ اس سے بڑا سوال یہ ہے وہ کیوں سات نسلوں کی دولت خود کما کر اس دنیا سے جانا چاہتا ہے؟ کالم نگار دوست ہارون الرشید کا ایک خوبصورت جملہ یاد آتا ہے کہ امیر انسان کو غریبوں سے زیادہ دولت چاہیے ہوتی ہے۔ 
لیکن سوال وہی کس قیمت پر؟ 
اب یہی دیکھ لیں جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو ان کے خاندان پر یہی الزام لگتے تھے۔ ان کے بیوی بچوں بارے یہی کہانیاں مشہور تھیں۔ ترکی کی خاتون اول کے دیئے ہوئے ہیروں کے ہار کا قصہ بھلا کس کو بھول سکتا ہے؟ تو کیا ملا پھر گیلانی کو وہ ایک ہار لے کر؟ کیا آٹھ دس لاکھ روپے کے ہار کی قیمت اور قدر ایک وزیراعظم سے بہت زیادہ تھی لہٰذا اس کے لیے وہ اپنی عزت بھی دائو پر لگا بیٹھے؟ 
اس طرح بینظیر بھٹو پر سوئٹزرلینڈ میں ایک مقدمہ چلا۔ ان پر الزام تھا انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک نیکلس خریدا جس کی ادائیگی ایک پارٹی نے کی تھی۔ تو کیا پانچ دس لاکھ روپے کا نیکلس اس قابل تھا کہ ایک ملک کی وزیراعظم اس کے لیے سوئٹزر لینڈ میں مقدمے کا سامنا کرتیں؟ یہ وہی نیکلس ہے جس کے لیے زرداری نے پچھلے سال ایک خط سوئس حکام کو لکھا وہ اس کی مرحومہ بیوی کا تھا اور وہ وصول کر بھی لیا ہے۔ سوال یہ ہے جونیکلس بینظیر بھٹو کے گلے میں ایک پھندا بن گیا تھا وہ اس کے وارثوں کو کوئی خوشی دے سکے گا ؟ 
مجھے یاد ہے میں نے ایک سٹوری کی تھی جس میں جنرل مشرف اور شوکت عزیز کو غیرملکی دوروں میں ملنے والے تحائف کی تفصیلات دی گئی تھیں ۔ جنرل مشرف کی بیگم کو سعودی عرب سے ہیروں کے ہار، سونے کے زیورات اور بھرے ہوئے جیولری باکس ملے تھے جو وہ گھر لے گئی تھیں ۔ میں ان سرکاری دستاویزات کو دیکھ کر پری کی کہانی کی طرح ہنسا بھی تھا اور رویا بھی۔ ہنس اس لیے پڑا تھا کہ بینظیر بھٹو مرتے دم تک دس لاکھ روپے مالیت کے ایک نیکلس کا مقدمہ سوئٹزر لینڈ میں بھگتتی رہیں جب کہ جنرل مشرف کی بیگم نے ایک ہی ہلے میں سعودی عرب سے ایک کروڑ روپے مالیت کے قریب ہیرے جواہرات اور زیوارت چپکے سے لے لیے تھے۔ 
بعد میں اسی جنرل مشرف نے سعودی بادشاہ سے ایک ارب روپے کیش تحفہ بھی قبول کر لیا۔ شوکت عزیز کی بیگم صاحبہ کو بھی اسی طرح سونے کے زیورات اور ہیرے جواہرات تحفے میں ملے تھے۔ شوکت عزیز نے تو تحفے میں ملنے والی مفت بنیان، نکر، انڈروئیر تک نہیں چھوڑے تھے اور قیمتی تحائف کا ایک پورا کنٹینر بھر کر پاکستان سے باہر لے گئے تھے۔ نواز شریف کو بھی اس طرح تحائف ملتے رہے ہیں لیکن وہ اس کی تفصیل بتانے کو تیار نہیں تھے۔ قومی اسمبلی میں کہا گیا نواز شریف کو ان چار سالوں میں ملنے والے تحائف کی تفصیل دی جائے تو کابینہ ڈویژن کے زکوٹا جنوں نے جواب دیا کہ نواز شریف کو ملنے والے سب تحائف کی تفصیل ایک ایسا قومی راز ہے جو قوم کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاسکتا ۔
مریم نواز کے تحائف کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا ان کی لندن چھوڑیں پاکستان تک میں کوئی جائیداد نہیں ۔ جب پاناما سکینڈل سامنے آیا تو پتہ چلا نہ صرف ان کی پاکستان میں بہت بڑی جائیداد ہے بلکہ لندن میں بھی ہے۔ اس پر ہمیں بتایا گیا انہیں ان کے والد نے کروڑوں روپے تحفہ کے طور پر دیے تھے۔ نواز شریف سے پوچھا گیا آپ کے پاس کروڑوں روپے کہاں سے آئے تھے تو انہوں نے جواب دیا میرا بیٹا لندن دبئی میں بزنس کرتا ہے اور اس نے مجھے سو ارب روپے نقد تحفہ دیا ہے جس میں سے میں نے پچاس کروڑ روپے کے قریب اپنی بیٹی کو تحفہ دے دیا۔ بیٹی سے پوچھا گیا کہ یہ سچ ہے؟ وہ بولیں جی سچ ہے لیکن میں نے وہ اب نقد تحفہ باپ کو واپس کردیا ہے۔ بیٹے حسین نواز سے پوچھا گیا جناب آپ کے پاس اربوں ڈالرز کہاں سے آئے تو وہ بولے آپ مجھ سے میرے ذرائع نہیں پوچھ سکتے کیونکہ میں برطانوی شہری ہوں۔
ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نجیب کی بیوی سے پولیس چھاپے میں برآمد ہونے والے ساڑھے تین ارب روپے کے ہیرے جواہرات اور زیورات کی تفصیل پڑھتے ہوئے حیران ہو رہا ہوں انسان کی لالچ اور حرص کی سرحد کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے؟ کیا ایک عورت ساڑھے تین ارب روپے کے زیورات اپنی پوری عمر میں پہن سکتی ہے؟ وزیراعظم نجیب جس کی تنخواہ دس لاکھ روپے کے قریب ہو کیا اس کی بیوی ساڑھے تین ارب روپے کے زیورات افورڈ کرسکتی ہے جب تک اس کا خاوند کوئی بڑا ڈاکا نہ مارے اور اپنی پوزیشن کا غلط استعمال نہ کرے؟ 
اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایک مرد کو اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لے اس حد تک جانا چاہیے؟ چلیں عام انسان چھوڑیں کیا ایک وزیراعظم کی بیوی کو یہ کام کرنا چاہیے جس پر کروڑوں لوگوں نے اپنی زندگیاں بہتر کرنے کا بھروسہ کررکھا ہو؟
اپنا ایک قریبی دوست یاد آیا۔ ایک دن اس کی بہن اپنے میاں کا گھر چھوڑ کر آگئی ۔ اپنا بیٹا بھی ساتھ لے آئی۔ وجہ پوچھی تو بولی میرا خاوند رشوت لیتا ہے۔ میں حرام کی کمائی سے اپنے بیٹے کو کھانا نہیں کھلائوں گی ۔ وہ اس وقت گھر واپس گئی جب اس کے خاوند نے اپنے چھوٹے بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ آئندہ وہ رشوت نہیں لے گا ۔ 
حیران ہوتا ہوں شاہی محل کے مکینوں ، دنیا کے پانچ ملکوں میں جائیدادوں کے مالک ، منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے بادشاہوں کے بیوی بچوں میں اتنی سی بھی خودی ، ایمانداری، عزت نفس اور حرام کی دولت سے نفرت نہیں جو میرے دوست کی ایک عام سی بہن نے دکھائی تھی ؟ 
(رئوف کلاسرا)
(روزنامہ دنیا 20 مئی 2018ع)

جمعہ، 18 مئی، 2018

نواز شریف : شاہ جہاں یا اورنگزیب...؟


رئوف کلاسرا
نواز شریف کے مسلسل بیانات اور دھمکیاں سن اور پڑھ کر شیکسپیئر یاد آتا ہے ۔ جب دیوتا کسی کو سزا دینے پر تل جاتے ہیں، تو وہ سب سے پہلے اس بندے کا دماغ خراب کردیتے ہیں ۔ دماغ خراب کرنے کے بعد اسے کسی سزا کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ انسان سب سزائیں خود کو دیتا رہتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔
نواز شریف اور ان کے حواریوں نے شیکسپیئر ین ٹریجڈی ڈرامے پڑھے ہوتے تو انہیں پتہ ہوتا ،ہر بادشاہ کا ایک Tragic flaw ہوتا ہے ،جو اس کے زوال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ایک ایسی کمزوری جو اس بادشاہ کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ وہ بادشاہ فرسٹریشن یا غصے یا اپنی مجروح انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا نیچے گرتا ہے کہ وہ جنگلوں کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔ رات محل میں سویا تھا، تو اگلا دن وہ جنگل میں بھوکا پڑا تھا۔ بادشاہ ایک مرحلے پر خود کو دیوتا سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے بغیر نہ ریاست چلے گی اور نہ ہی انسان زندہ رہیں گے۔ ہر وقت کا پروٹوکول اور ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات پوری ہونے کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ انسان اس میں ڈھل جاتا ہے۔ ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے، بادشاہ کے جلالی قصے کہانیاں، دربار میں درباریوں کے کورنش اور مسخروں کی جگت بازی بادشاہ کے لیے اہم ہوتے ہیں ۔ دربار میں وفادار ہی بیٹھ سکتا ہے،جو جتنا بڑا قصیدہ لکھ سکتا ہے، جو خوشامدی شاعری کر سکتا ہے، بادشاہ کے آبائو و اجداد کی شان و شوکت کے قصے سنا سکتا ہے، وہی بادشاہ کی رحمتوں کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ ایسے بادشاہوں کو یہ یقین درباری دلاتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں اپنے جیسے لوگوں پر راج کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ ان کے اندر کچھ خاص ہے، جو باقی ریاست کی رعایا میں نہیں ہے۔ خدا نے صرف اسے کیوں بادشاہ چنا۔۔۔آخرکچھ تو اس میں خاص بات ہوگی۔۔۔!
یوں دھیرے دھیرے ایسے انسان کی نفسیات میں یہ بات بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے کہ وہ عام انسان نہیں ہے۔ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے اور اسے ہر حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور اس کی کبھی کوئی باز پرس نہیں کرسکتا ۔ بادشاہ کوئی غلطی نہیں کرسکتا اور یوں بادشاہ کے اندر اپنی ذات سے اتنی محبت بھر جاتی ہے کہ وہ ابنارمل انسان بن جاتا ہے، جسے ہر وقت اقتدار میں رہنا ہے، چاہیے اس کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ انسانوں پر حکومت کرنے کا اپنا ایک نشہ ہے، جو دنیا کے سب نشوں پر بھاری ہے۔ پرانے زمانوں کو چھوڑ دیں ۔ اگر آپ جدید دور کی بھی بات کریں، تو بھی آپ کو نظر آئے گا، آج بھی بادشاہ یہی کچھ کرتے ہیں ۔ بادشاہ یہ مان ہی نہیں سکتاکہ اب ان کا زوال شروع ہو چکا۔ لیبیا کے کرنل قذافی کو دیکھ لیں۔ دیوار پر لکھا تھا کہ بغاوت ہوچکی یا کرائی جا چکی۔ وہ عوام کے ہاتھوں ایک پل کے نیچے زندہ مارے گئے، لیکن وہ ایک سائیڈ پر نہیں ہوئے۔ صدام حسین ایک بل سے پکڑے گئے، لیکن انہوںنے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ اب عراق کے صدر نہیں رہے۔ حسنی مبارک کے ساتھ یہی کچھ ہوا ۔ایک رات محل میں سوئے اگلی صبح جیل سے اسٹریچر پر ڈال کر عدالت میں ایک پنجرے میں قید تھے۔بہت سارے لوگ کہیں گے وہ بہادر لیڈر تھے، جو اپنے ملک سے بھاگے نہیں۔ ایسی بات نہیں تھی۔ صدام جس حالت میں ملے کہیں سے نہیں لگتا تھا، وہ مزاحمت کررہے تھے۔ وہ اس معاملے کو بہتر انداز میں حل کرسکتے تھے اور لاکھوں عراقیوں کی زندگیاں بچا سکتے تھے۔ وہ آخر دم تک اس حقیقت کو نہ مان سکے کہ آسمان ان کا دشمن ہوچکا تھا ۔ قذافی کا بھی یہی خیال تھا کہ ان کی آنکھیں کھلیں گی ،تو وہ دوبارہ صحرا میں اپنے شاہی خیمے میںاپنی خوبصورت خواتین گارڈز کے جھرمٹ میں ہوں گے۔ 
یہی خیال اب نواز شریف کا ہے۔ وہ اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں کہ ان کا دشمن آسمان ہوچکا، لہٰذا وہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتے جارہے ہیں۔ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ ایک ٹوٹی ہوئی پتنگ کے دھاگے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ شاید ڈور دوبارہ ہاتھ میں آجائے۔ اقتدار ایک ایسی ڈور ہے ،جو ایک دفعہ ہاتھ سے پھسل جائے، دوبارہ ہاتھ نہیں آتی۔ ممکن ہے کہ لوگ کہیں تین دفعہ تو اقتدار نواز شریف کو ملا۔۔۔اب چوتھی دفعہ بھی مل جائے گا۔ اگر یہ بات ہوتی، تو آج قذافی ، صدام اور حسنی مبارک بھی اپنے تخت پر بیٹھے ہوتے۔ وقت سب کو روند کر نکل جاتا ہے۔ نواز شریف کے ہاتھ سے بھی وقت نکل چکا ۔ لاکھ ان کے حواری ان کو یقین دلاتے رہیں کہ ماضی کی طرح وہ دوبارہ کم بیک کرسکتے ہیں ، بات نہیں بنے گی۔ یہ نواز شریف کو بھی پتہ ہے کھیل ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس لیے وہ سب کشتیاں جلا رہے ہیں ۔ رہی سہی کسر وہ ممبئی حملوں پر بیانات دے کر پوری کرچکے ہیں، جس سے ان کی اپنی پارٹی ڈر گئی ہے اور اب پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے کم لوگ ہی تیار ہے ۔ اب پانچ دن کی تاریخ مزید بڑھائی گئی ہے۔ نواز شریف تو اپنی سب کشتیاں جلا چکے ہیں،لیکن ان کے ساتھی خوفزدہ ہیں۔ وہ اس سب بغاوت کے لیے تیا رنہیں ہیں۔
اب پارٹی کے اندر بھی لڑائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ''دنیا ‘‘اخبار کے شاندار رپورٹر طارق عزیز جو اندر کی سیاسی خبریں لانے میں کمال رکھتے ہیں کی خبر ہے کہ پچھلے اجلاس میں نواز شریف کی موجودگی میں سعد رفیق کو آصف کرمانی کے ہاتھوں ذلیل کروایا گیا ۔ یہ نواز شریف کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ ماضی میں بھی جاوید ہاشمی کو نواز شریف پارٹی لیڈروںکے ہاتھوں ذلیل کروا کے مزے لیتے تھے۔ جاوید ہاشمی کو ذلیل کروا کے نواز شریف کو دلی سکون ملتا تھا ، پھر یہ کام چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ہونا شروع ہوا۔چوہدری نثار کو پہلے چوہدری اعتزاز احسن کے ہاتھوں قومی اسمبلی میں ذلیل کرایا گیا ، پھر پرویز رشید کو استعمال کیا گیا۔ چوہدری نثار کو دیگر وزراء کے ساتھ ایک کرسیوں کی قطار میں تیسرے چوتھے نمبر پر بٹھایا جاتا تھا جبکہ عرفان صدیقی، نواز شریف کے ساتھ برابر کرسی پر بیٹھتے تھے۔ نواز شریف کو علم تھا کہ چوہدری نثار پر اگر ذہنی تشدد کرنا ہو تو انہیں نظرانداز کرو یا پروٹوکول نہ دو۔ یہ حربہ کامیاب رہا اور چوہدری نثار کو آرام سے ایک سائیڈ پر کر دیا گیا۔ اب یہی حربہ کرمانی کے ذریعے خواجہ سعد رفیق پر آزمایا گیا ہے۔ 
یوں اگر دیکھا جائے ،تو نواز شریف ہر اس انسان سے خوفزدہ ہیں، جو ان کے سامنے بات کرنے کی جرأت رکھتا ہو یا تھوڑی سی خودی اس میں باقی ہو۔ جاوید ہاشمی کو دیکھ کر انہیں احساس جرم ہوتا تھا کہ وہ پانچ سال جیل میں رہا جبکہ وہ جنرل مشرف سے ڈیل کر کے جدہ نکل گئے تھے۔ لہٰذا جب جاوید ہاشمی کی ان کی موجودگی میں بے عزتی ہوتی تھی، تو وہ مزے لیتے تھے۔ ان کا احساس جرم کم ہوتا تھا ۔ 
سیانے کہتے تھے جب برا وقت چل رہا ہو تو اس وقت خاموشی سے ایک طرف ہو جانا چاہیے۔گاڑی کا ٹائر پھٹ جائے تو سمجھدار اسے آہستہ کرنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں ،نہ کہ اچانک ریس پر پائوں ڈال دیتے ہیں ۔ یہاں الٹ ہورہا ہے، اگر نواز شریف کا کلیہ ایک عالمی حقیقت ہوتا تو پھر ہندوستان کا بادشاہ شاہ جہاں اپنے تین بیٹوں سمیت اورنگزیب کے ہاتھوں شکست خوردہ نہ ہوتا۔ دلی کی راجدھانی تو شاہ جہاں کے پاس تھی اور اورنگزیب دلی سے سینکڑوں کلو میٹر دور بیٹھا تھا ۔ جب آسمان ہی ہندوستان کے شہنشاہ شاہ جہاں کا دشمن ہوگیا تھا ،تو پھر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں ۔ شاہ جہاں قید ہوا تو اس کے تین بیٹے اور خوبصورت پوتے اورنگزیب کے ہاتھوں ذبح ہوئے۔ شاہ جہاں کی شہزادی بیٹی اپنے باپ اور بھائیوں کے جھگڑے نمٹانے کے لیے کتنے ترلے منتیں کرتی ۔ کبھی باپ کے پائوں پکڑتی تو کبھی اپنے بھائی اورنگزیب کو بہن کی محبت کا واسطہ دے کر خط لکھتی کہ تم آجائو سب کچھ بیٹھ کر طے کر لیں گے۔ اورنگزیب کو خطرہ تھا کہ اس کا باپ اور بھائی اس کی پیاری بہن کو استعمال کر کے اسے بلا کر مار ڈالیں گے۔
یہ کچھ ہوتا ہے جب اقتدار کی جنگ شروع ہوتی ہے، تو پہلے اپنے خون کے رشتوں سے اعتبار ختم ہوتا ہے ۔ نواز شریف اورنگزیب ہیں اور نہ ہی داراشکوہ ۔ ہاں! نوازشریف ہندوستان کے ایک غمزدہ بادشاہ شاہ جہاں کی پوزیشن میں ضرور ہیں، جن سے اقتدار چھن چکا یا پھر ایک تنہا ، غمزدہ اور کنگ لیئر جوگلہ پھاڑ کر جنگلی طوفان میں تقدیر سے پوچھتا پھرتا تھا کہ اس کا کیا قصور تھا ، اسے کیوں ریاست سے دربدر کر دیا گیا ؟ نواز شریف اب شاہ جہاں کی طرح وہ شہنشاہ ہے، جو شاہی قلعے کی فلک بوس فصیلوں کے اندر قید تو ہوسکتا ہے، لیکن دلی کی راجدھانی پر دوبارہ سنہری تاج پہن کر تخت نشین نہیں ہوسکتا ۔ قدرت اور ہزاروں برس پرانی انسانی تاریخ نواز شریف کے لیے اپنے ابدی اصول اور تکلیف دہ سبق تو بدلنے سے رہی۔۔۔!


بدھ، 16 مئی، 2018

یہ جگر کی آگ کیسے ٹھنڈ ی ہوگی ؟


 ایاز امیر
ذوالفقار علی بھٹو تختہ ِ دار پر چڑھ گئے ، جنرل ضیاء الحق کو برا بھلا کہا، لیکن بطور ادارہ فوج کے خلاف کوئی بات نہ کی ۔ سینے میں دَبے ایٹمی راز کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہ کہا ۔ قومی مفاد کے خلاف کچھ نہ بولے ۔ نوازشریف کیسے رہنما ہیںکہ نااہلی کی وجہ سے سینے میں سُلگتے اَنگاروں کو تسکین دینے کیلئے قومی مفاد کو داؤ پہ لگا رہے ہیں ۔ ممبئی حملوں کے بارے میں وہ کچھ کہہ گئے کہ ہندوستانیوں کو سمجھ نہیں آرہا کہ کوئی پاکستانی رہنما ہندوستان کی بولی اس طرح سے بولے گا۔ ہندوستانی میڈیا کی حیرانگی اورخوشی تھمنے کو نہیں آرہی ۔ 
بجائے شرمندگی یا نظر ثانی کے نوازشریف اس خطرناک بیان پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ مقصد اُن کا صاف ظاہر ہے ۔ سزا اگر احتساب عدالت سے ہوتی ہے تو دنیا کو باور کرانا چاہیں گے کہ سزا اُنہیں دراصل اُن کی دہشت گردی پہ مؤقف کی بناء پہ ملی ہے ۔ مزید کہتے ہیں کہ حق بات کرتا رہوں گا چاہے کچھ بھی سہنا پڑے ۔ یہ وہ شخص کہہ رہاہے ،جس نے پانامہ کیس کے معاملے میں دروغ گوئی کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے ۔ ایک لفظ بھی صداقت پہ مبنی لبوں سے ادا نہیں ہوسکا۔خاندان کے ہر فرد کا مؤقف ایک دوسرے سے جدا ہے ۔یہ ہیں ہمارے حق بات کے چیمپئن۔
عدلیہ اورفوج تو کیا اُنہوں نے براہ راست حملہ ریاست پہ کیاہے۔ ریاست پاکستان کا مؤقف ممبئی حملوں پہ کچھ اور ہے، لیکن نوازشریف اُس سے بالکل اُلٹ کہانی بیان کررہے ہیں ۔ اس طریقے سے وہ ریاست ِ پاکستان کو اقوام عالم میں جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ایسے غیر ذمہ دارانہ رویے کی شاید ہی کوئی نظیر ملتی ہو ، جو اُونچے عہدوں پہ رہے ہوں وہ اپنے ملک کے خلاف بات نہیں کرتے، چاہے کسی مسئلے پہ اُن کے تحفظات کچھ بھی ہوں ۔ امریکہ میں عراق پہ حملہ وسیع حلقوں میں امریکی پالیسی کا بہت بڑا بلنڈر سمجھا جاتاہے، لیکن امریکی سیاستدان یا سابقہ صدور اِس بلنڈر کا ڈھنڈورا دنیا میں نہیں پیٹتے ۔
نوازشریف کا کمال ہے کہ پاکستان کے دُشمنوں کی ترجمانی کی ہے۔ صرف اس لئے کہ امریکی ہمدردیاں حاصل کرسکیں شاید اِس اُمید پہ کہ اُن کی داخلی مصیبتوں میں اُنہیں کچھ ریلیف مل سکے ۔ باالفاظ دیگر ،ملک اوراُس کا مفاد جائیں بھاڑ میں، بس نوازشریف اورخاندان کیلئے آسانیاں پیدا ہوں۔پاکستان کا خیال تو نہ آیا کچھ اپنی جماعت کا سُوچ لیتے ۔نوازشریف کابیان نون لیگ پہ بجلی کی مانند گراہے ۔اُس کے دیگر لیڈران کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کہیں۔شہبازشریف ہر لحاظ سے بڑے بھائی کے بیان سے مکمل منحرف ہوگئے ہیں ۔کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف ایسی بات کرہی نہیں سکتے اوریہ کہ اُن کی باتیں سیاق وسباق سے ہٹ کے پیش کی گئی ہیں ۔ یہ بھی عجیب مؤقف ہے ۔ نوازشریف کا انٹرویو کسی غیر ملکی اخبار میں شائع نہیں ہوا۔ خود نوازشریف اپنی بات پہ قائم ہیں۔وزیراعظم البتہ اپنے قائد کا دفاع کررہے ہیں اوراس طریقے سے کہ اپنے آپ کو جوکر بنا کے رکھ دیاہے۔ نہ اپنے عہدے کا خیال ہے نہ ملک کی عزت کا ۔ 
جو باتیں نوازشریف نے کی ہیں ،وہ کوئی سندھی یا پیپلز پارٹی کا کوئی رکن کرتا تو پنجاب میں ایسا طوفان آتا کہ تھمنے کا نام نہ لیتا ۔ ایساکہنے والے کو زندہ چبا لیا جاتا۔ رونا یہ ہے کہ نوازشریف پنجاب کے لیڈر ہیں اورپنجاب آبادی اوروسائل کے اعتبار سے ملک کا سب سے طاقتور صوبہ ہے۔ 1947ء سے لے کر اب تک حُب الوطنی کا ٹھیکہ اسی صوبے نے لے رکھاہے ۔ اسی صوبے کا لیڈر اب ہندوستان کی بولی بول رہا ہے ۔ 
نوازشریف کے بنیادی مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اُنہیں سیاسی لیڈر فوج اورایجنسیوں نے بنایا ۔ لیکن جب لیڈر بن گئے تو اُنہی ہاتھوں کو برداشت نہ کرسکے جو اُن کے بنانے میں پیش پیش تھے ۔ اسی لئے یہ عجیب منظر دیکھنے کو آیا کہ تین مرتبہ بننے والے وزیراعظم کی کسی ایک آرمی چیف سے نہ بن سکی ۔ ہر ایک سے اُن کے پرابلم کھڑے ہوگئے ۔ کس کس کا نام لیا جائے ۔اسلم بیگ کو نہ برداشت کرسکے ۔ آصف جنجوعہ سے باقاعدہ جنگ چھڑ گئی ۔ وحید کاکڑ نے اِنہیں گھر بھیجا ۔ جہانگیر کرامت سے زیادہ شریف النفس آرمی چیف ہو نہیں سکتاتھا ۔ اُن سے بھی اِن کی اَن بَن ہوگئی ۔ مشرف کور کمانڈر منگلا تھے ۔وہاں سے اُن کی کھوج لگا کر اُن کو آرمی چیف بنایاگیا اس خیال سے کہ اُردو سپیکنگ ہیں اورفوج میں اُن کا زیادہ حلقہ ِ اَثر نہ ہوگا۔ یہ ایک بیوقوف آدمی کی ہی سوچ ہوسکتی تھی ۔ پاکستان آرمی کا جو بھی کمانڈر ہو ۔۔۔مہاجر ، پختون ، پنجابی یا فارسی نژاد یحییٰ خان ۔۔۔حکم اُسی کا چلتاہے۔ یہ کوئی نسلی یا لسانی فوج نہیں ہے ۔ چاہے کسی کو اچھا لگے یا نہیں ،یہ قومی فوج ہے اوراسی کے وجود سے ریاست قائم ہے ۔ بعد میں جو مشرف اورنوازشریف کے درمیان ہوا وہ ہم جانتے ہیں۔ 
مشرف کو نکالنا تھا تو معرکہ کارگل کے موقع پہ نکالتے ۔ مشرف نے بغیر اجازت کارگل کا محاذ کھولا اورہمارے زیرک وزیراعظم کی سمجھ میں بات نہ آئی کہ اس محاذ آرائی کے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں۔بجائے سوال پوچھنے کے جنگی جنون کا حصہ بن گئے اورپھر جب معاملہ گمبھیر ہوا تو واشنگٹن کے اچانک دورے پہ نکلے ۔ آگ کے شعلو ں میں سے پاکستان کا بچاؤ امریکی مدد سے کیاگیا۔ لیکن اُس وقت مشرف کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی اورمہینوں بعد اکتوبر 1999ء میں جس کارروائی کی کوشش کی گئی اُس کا جواز نہ تھا۔ فوجی کمان نے بغاوت کردی اورہمیں پتہ ہے کہ اُس ساری صورتحال کا نتیجہ کیا نکلا۔ 
جنرل راحیل شریف سے تعلقات ٹھیک نہ رہ سکے اوراگر جنرل راحیل کے بارے میں کہا جائے کہ وہ آگے قدم رکھنے والے انسان تھے تو دھیمے مزاج کے جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی نوازشریف کے تعلقات زیادہ دیر ٹھیک نہ رہ سکے ۔ تو سوال اُٹھتاہے کہ نوازشریف چاہتے کیا ہیں ۔اُن کا فوج سے مسئلہ کیاہے؟مسئلہ یہی ہے کہ ذہنی برابری کی سطح پہ فوجی جرنیلوں سے بات کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی لئے دل میں خواہش رکھتے ہیں کہ فوجی جرنیل بھی وہ خوشامد اورتابعداری دکھائیں جو پنجاب کی سول انتظامیہ کے افسران دکھاتے ہیں۔ نوازشریف سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاک فوج کا سربراہ آئی جی یا چیف سیکرٹری پنجاب کی طرح تابعداری نہیں دِکھا سکتا ۔ یہ اُن کو ناگوار گزرتی ہے اورجلد بگاڑ پیدا ہوجاتاہے ۔ اس صورتحال کاکوئی حل نہیں ۔ نہ نوازشریف کی ذہنی سطح بلند ہوسکتی ہے نہ فوج کا کمانڈر انچیف اتنا نیچے آسکتاہے ۔ 
اَب کی بار معاملہ اورنازک ہوگیاہے ۔نوازشریف اقتدار سے معزول ہوچکے ہیں اوراگر ہم شواہد اورآثارپہ جائیں تو نیب عدالت سے سزا زیادہ دورنہیں۔ اس لئے تمام احتیاط کو ایک طرف پھینک کے وہ خطرناک جواء کھیلنے پہ تیار ہوگئے ہیں ۔ حملہ اُنہوں نے پاکستان اوراُس کی سکیورٹی پالیسیوں پہ کر ڈالاہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ چیلنج دے رہے ہیں کہ میں نے یہ کردیاہے، آپ نے جو کرناہے کریں ۔ 
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ بھی لمبی تاویلوں میں پڑ گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے یہ کچھ کیا اورہندوستان نے فلاں فلاں چیز نہیں کی۔ ایسی تاویلوں کی چنداں ضرورت نہ تھی ۔ اعلامیہ مختصر ہوتا اورصاف کہتا کہ سابقہ وزیراعظم نہایت غیر ذمہ دارانہ رویے کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اس سے زیادہ کی ضرورت نہ تھی ۔ البتہ اس پہ غور کیا جاسکتاتھا کہ آیا سابقہ وزیراعظم کو یہ کھلی چھٹی ملنی چاہیے کہ جو جی میں آئے وہ کہیں اورذرائع ابلاغ اُن کے خیالات کی بھر پور تشہیر کریں۔ 
مصیبت یہ ہے کہ حکومت بھی اِ ن کی اورحزب اختلاف کا کردار بھی یہ ادا کررہے ہیں ۔ باقی اس حکومت کی زندگی پندرہ روز رہ گئی ہے اورقوم کو یہ صورتحال اس عرصے کیلئے برداشت کرنی پڑے گی ۔ اُس کے بعد شاید حالات میں بہتری آئے ،لیکن نوازشریف نے جو حملہ ملک پہ کرنا تھا، وہ کردیا۔ 

(روزنامھ دنیا 16 مئی 2018ع)

منگل، 15 مئی، 2018

پونے دو مشیر، بیانیہ کی کمبختی اور بلیدان کا امکان


 خالد مسعود خان
پونے دو مشیروں نے میاں نواز شریف کو پوری طرح ڈبونے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ نام لینا ضروری نہیں، سب کو پتا ہے کہ وہ کون کون ہیں۔ ایک تو پورا مشیر ہے۔ ایک آدھا اور ایک چوتھائی۔ یہ کل مل کر پونے دو بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشاورت کا دروازہ بند ہے۔ سو چوہدری نثار علی خان جیسے لوگ اس دروازے کے باہر کھڑے ہیں اور میاں صاحب کی آہستہ آہستہ ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو افسوس اور ملال کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
میاں صاحب کی اس ساری سیاسی بربادی کا آغاز بھی ڈان میں چھپنے والے سرل المیڈا کے کالم سے ہوا تھا اور گمان ہے کہ انجام بھی اسی اخبار اور اسی اخبار نویس کے ہاتھوں ہو گا۔ میاں صاحب کو دھکے سے بہادر بنانے کی اس مہم کا سارا نقصان صرف اور صرف میاں نواز شریف کو ہو گا اور رہ گئی بات ووٹ کو عزت دینے کی تو بات ووٹ کو عزت دینے سے نہیں ووٹر کو عزت دینے سے بنے گی اور میاں صاحبان (چھوٹے اور بڑے دونوں سمیت) ووٹر تو رہ گئے ایک طرف ووٹوں سے (جن کی عزت کا وہ راگ آج کل الاپ رہے ہیں) منتخب ہو کر آنے والے عوامی نمائندوں کی رتی برابر عزت نہیں کرتے۔ ووٹوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کے ساتھ وہ جو سلوک کرتے رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ میاں صاحبان نے سارے اہم سیاسی فیصلے پارلیمنٹ یا کابینہ سے مشورہ گھر بیٹھ کر کیے ہیں۔ خاص طور پر میاں نواز شریف کی ساری سیاسی مشاورت جاتی امراء تک محدود تھی۔ وہ پارلیمنٹ میں کم گئے اور برطانیہ زیادہ گئے۔ ان کے غیر ملکی دوروں کی تعداد ان کی پارلیمنٹ میں حاضری سے دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ ان کے نزدیک صرف ان کو منتخب کرنے والے ایک فورم کا نام تھا جس کا کام ان کو منتخب کرنے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ کیونکہ وہ ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے تھے۔ اس لئے ان کے نزدیک ساری اہمیت صرف ووٹ کی ہے اس لئے وہ ووٹ کی عزت کا نعرہ لگا رہے ہیں اور آپ کو تو علم بھی ہو گا کہ ووٹ کی ساری اہمیت صرف اس وقت تک ہے جب تک اس کی گنتی نہ کی جائے اس کے بعد تو وہ بوریوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں اور عدالتی اصرار کے باوجود ان کو دوبارہ پیش کرنے میں اس لئے ٹال مٹول بھی کیا جاتا ہے کہ ووٹ کی حرمت کے ساتھ جو سلوک ہوا ہوتا ہے وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ عدالت میں پیش کیا جا سکے۔ کہیں مہر نہیں لگی ہوتی۔ کہیں گنتی کے متعلقہ فارم موجود نہیں ہوتے۔ کہیں ریٹرننگ افسر کے دستخط نہیں ہیں اور کہیں ووٹر کا انگوٹھا ہی سرے سے موجود نہیں اور کہیں کہیں تو ووٹ کی عزت کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک شخص نے بیس بیس لوگوں کی جگہ اپنا انگوٹھا لگا کر ثابت کیا ہے کہ یہ لوگ ووٹ کی عزت کے لئے کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن فی الحال میاں نواز شریف کے تازہ بیان پر بات ہو رہی تھی۔
میاں نواز شریف فی الحال (اس کالم کے لگنے تک) صرف انٹرویو دے کر خود خاموش ہیں۔ باقی ساری جنگ ان کے گھر والے اور طبلچی برگیڈ لڑ رہی ہے۔ خاندانی کیمپ بھی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے ایک کی قیادت مریم نواز شریف کر رہی ہیں اور وہ ''ون مین آرمی‘‘ ہیں۔ خود ہی کمانڈر ہیں اور خود ہی اس کمانڈر کی قیادت میں لڑنے والا جنگجو دستہ۔ دوسری طرف میاں شہباز شریف ہیں اور ان کے ساتھ حمزہ شہباز شریف ہیں۔ یہ دستہ دو نفری ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس دستے کو بھی ''یک نفری‘‘ ہی سمجھا جائے کہ حمزہ شہباز شریف کی حیثیت ایک طفیلی سپاہی سے زیادہ نہیں ہے اس کے ساتھ اگر ''شہباز شریف‘‘ کا لاحقہ لگا ہو تو اس کی اہمیت کچھ بھی نہیں۔ بلکہ اگر سچ پوچھیں تو حمزہ شہباز شریف اپنے والد گرامی کے لئے ایک ''Liability‘‘ سے زیادہ نہیں کیونکہ شہباز شریف حکومت کی کرپشن کی بات ہو تو اس کا آغاز بھی حمزہ شہباز کے نام سے ہوتا ہے اور اختتام بھی حمزہ کے نام پر ہوتا ہے۔ ملتان میٹرو کے بارے میں بہت سی کہانیوں میں سب سے زور دار کہانی یہ تھی کہ اس پراجیکٹ کے تمام بڑے بڑے ذمہ داران کا رابطہ براہ راست حمزہ شہباز شریف سے بتایا جاتا تھا۔
نواز شریف اور شہباز شریف کیمپ کا ''بیانیہ‘‘ مختلف ہے۔ ویسے یہ لفظ ''بیانیہ‘‘ جتنا بے عزت اور بے وقعت پاکستان میں اب ہوا ہے اس کی مثال اردو تاریخ میں پہلے کہیں نہیں ملتی۔ ہم کسی ایک لفظ کو پکڑ لیتے ہیں اور اسے اتنا بے توقیر کر دیتے ہیں کہ وہ لفظ اللہ سے پناہ مانگنے پر آ جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم لوگوں نے کئی الفاظ کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ ایک لفظ ''تزویراتی گہرائی‘‘ یعنی Stratagic Depth کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا حتیٰ کہ یہ لفظ اپنی ہی کھودی ہوئی ''تزویراتی گہرائی‘‘ میں کہیں دفن ہو گیا۔ اب یہ 'بیانیہ‘‘ ہماری روزمرہ کی زندگی میں اس طرح داخل ہوا ہے کہ اللہ کی پناہ، خاص طور پر میاں نواز شریف کا تو ہر بیان ہی ''بیانیہ‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔ خواہ وہ انتہائی احمقانہ ہی کیوں نہ ہو۔
ویسے تو میاں نواز شریف کا ہر دوسرا بیان ہی احمقانہ ہوتا ہے مگر کیونکہ وہ بیان نہیں ''بیانیہ‘‘ ہوتا ہے اس لئے وہ احمقانہ نہیں سمجھا جاتا۔ ویسے بھی جہاں آپ کے سیاسی ورکر دراصل سیاسی ورکر کے بجائے پیروکار، تابع فرمان، مقلد، مرید، معتقد، بلکہ غلام بن چکے ہوں ،وہاں کوئی بیان احمقانہ نہیں ہوتا اور ایسا ہر بیان دراصل ''بیانیہ‘‘ بن جاتا ہے۔ ان سیاسی غلام زادوں کی بات چھوڑیں، ہماری نوجوانی کے وہ لکھنے والے جن کو ہم آئیڈیل سمجھا کرتے تھے اور انہوں نے حق لکھنے کا ایک ایسا معیار بنا دیا تھا کہ اس معیار پر پورا اترنا بھی صرف انہی کا کام تھا ان میں سے بچے ہوئے ایک آدھ قلم کے مجاہد نے بھی اپنا قلم اور زور زبان میاں نواز شریف کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ کئی ایسے شاندار لکھنے والے جن کا سارا ماضی ان کے دائیں بازو کے ہونے کا گواہ ہے۔ انہوں نے بھی اپنی ساری صلاحیتیں اس میاں نواز شریف کیلئے وقف کر دی ہیں، جس کا اب دائیں بازو سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کو میاں نواز شریف نے اور بائیں بازو کو ذوالفقار علی بھٹو نے کس طرح اغوا کیا؟ یہ ایک بڑی مزیدار کہانی ہے جو کبھی پھر سہی۔ تاہم یہ دونوں اغوا کی کہانیاں اس اغوا کی کہانی سے قطعاً مختلف ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کے پورے دیو بندی مکتب فکر کو کس طرح اغوا کیا۔ لیکن افسوس ان دائیں بازو کے لکھنے والوں پر ہوتا ہے۔ 
اب میاں نواز شریف خود کو لبرل کے طور پر سامنے لا رہے ہیں اور اس ساری نظریاتی (اگر واقعتاً وہ نظریاتی تھے بھی) تبدیلی کے پیچھے بھی ان کی صاحبزادی کا ہاتھ ہے۔ اس سارے کھیل میں جس کی ابتدا ''ڈان لیکس‘‘ سے ہوئی تھی۔ میاں نواز شریف نا اہلی سے ہوتے ہوئے تا عمر نا اہل تک آ گئے ہیں اور اب وہ خلائی مخلوق سے جنگ لڑتے لڑتے ممبئی حملہ تک آ گئے ہیں۔ مریم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ''میاں صاحب نے جو کہا، ملک کے بہترین مفاد میں کہا۔ ملک کو کیا بیماری کھوکھلا کر رہی ہے؟ میاں صاحب سے بہتر کوئی نہیں جانتا، وہ علاج بھی بتا رہے ہیں‘‘۔ یعنی مریم نواز شریف ،میاں نواز شریف کے بیان کی تائید کر رہی ہیں۔ خرم دستگیر اور میاں شہباز شریف اس بیان کی توجیہات، تشریحات اور تاویلات دے رہے ہیں۔ لیکن اب معاملہ قومی سلامتی کونسل کے پاس ہے۔ سو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن اس سارے معاملے میں نواز شریف کا ''بلیدان‘‘ نہ ہو جائے۔ جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اگر یہ ہوا تو اس کے ذمہ دار خود نواز شریف ہونگے جو پونے دو مشیروں کے نرغے میں ایک عرصے سے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ایک مشیر ان کے گھر کا ہے۔ آدھا مشیر میرا ایک دوست ہے اور چوتھائی بھی ایسا ہی سمجھ لیں۔
ملک خالد نے صبح فون پر پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ میاں صاحب نے ایسا بیان کیسے دے دیا؟ میں نے کہا اللہ کا وعدہ ہے کہ کوئی شخص اس دنیا سے ایسے رخصت نہ ہو گا کہ اس کا اصل لوگوں کے سا منے نہ آ جائے۔ کالم چھپنے سے پہلے کئی باتیں سامنے آ چکی ہونگی مگر اب کی بار میاں صاحب اکیلے نہیں، بمعہ مشیران وغیرہ من جملہ ڈوبیں گے۔
 (روزنامہ دنیا)

اتوار، 13 مئی، 2018

آخری ایام میں للکار


نوازشریف کی للکار سب نے سن لی ہے چیئرمین نیب ثبوت دیں یا استعفیٰ ۔پُرعزم اور پُرجوش سابق       وزیراعظم نے کہا سزا ہوئی تو معافی نہیں مانگوں گا، خلائی مخلوق کو زمینی مخلوق شکست دے گی گویا دونوں     مخلوقوں کے مابین جنگ ہونے جا رہی ہے سیاست میں ایسے استعارے اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تھے جنہیں خلائی مخلوق کیا جا رہا ہے وہ بھی اس تشبیہ پہ ضرور حیران ہوں گے کہ وہ تو زندگی مٹی چٹانوں، پہاڑوں، صحراﺅں میں گزار دیتے ہیں خلا سے تو ان کا کہیں دور کا بھی واسطہ نہیں۔ نوازشریف نے طبل جنگ بجا دیا ہے پتہ نہیں وہ تین محاذوں پر اکیلے کیسے جنگ لڑیں گے۔ خلائی مخلوق، عدالت عظمیٰ اور نیب،             نوازشریف کو یقین ہے، پی ٹی آئی میں لوگ جا نہیں بھجوائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں جمہوری قانون چلے گا یا ڈکٹیٹر کا، ان کے خیال میں خلائی مخلوق میں ضرور کوئی ڈکٹیٹر ہے جس کا فرمان چل رہا ہے۔ دوسری جانب شہبازشریف کا کہنا ہے کہ کوئی خلائی مخلوق ہے نہ ہم خوف زدہ۔ گویا خلائی مخلوق کے حوالے سے نواز اور شہباز ایک پیج پر نہیں۔ کامیاب قوالی کیلئے سب کا ہم نوا ہونا ضروری ہے ۔ ساز اور آواز میں تال میل نہ ہو تو قوالی بے سری ہو جاتی ہے اور مجمع بکھر جاتا ہے۔                                                    چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اعلان کیا ہے کہ کرپشن کے متعلق سوالات پوچھنا جرم ہے تو یہ ہوتا رہے گا باالفاظ دیگر چیئرمین ثبوت دیں گے نہ استعفیٰ ،بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے، وزرائے اعلیٰ کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی طلب کئے گئے ہیں۔ شریف، عباسی پانچ سالہ دور حکومت ختم ہونے میں اب چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اس دور کی تاریخ لکھی جائے گی تو ساری خوبیوں، خامیوں کا تذکرہ ہوگا          مورخ کسی کو بھی معاف نہیں کرتے۔ پانچ سال کے اخبارات کی فائلیں اور الیکٹرانک میڈیا کا آنکھوں دیکھا حال کون جھٹلائے گا؟ پاکستانیوں کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی، زندگی بھلی گزرے یا بری گزر تو جاتی ہے۔         دیکھنا یہ ہے کہ کتنے پاکستانی غریب سے متوسط طبقے کی صف میں شامل ہوئے اور کتنے غریب تر ہو گئے۔ سماجی اور اخلاقی قدریں ملیا میٹ ہو گئیں یا پھر محبت مودت، رواداری، صبروتحمل، برداشت غالب آ گئی یا مغلوب ہو گئی۔ دین کے رات دن چرچے، وعظ نصیحت لیکچروں نے کیا کام دکھایا؟ جرائم اور درندگی نے پسپائی اختیار کی یا پھر پہلے سے زیادہ سر اٹھا لیا۔ عوام کی قوت خرید جواب دے گئی یا پھر دس روپے کا نوٹ سو روپے جتنا طاقت ور ہو گیا۔ سیاست میں ایک دوسرے پر جھپٹنے میں کمی آئی یا پھر چھینا جھپٹی پہلے سے زیادہ ہو گئی۔ نوازشریف، زرداری اور عمران خان عوام کے دلوں میں اتر گئے یا پھر دلوں سے اتر گئے۔ اقتدار کے آخری ایام میں حکمران جماعت کا امتحان سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام نے 70سال میں کسی بھی چیف جسٹس کو اتنا فعال اور فکر مند نہیں پایا تھا جتنا جسٹس میاں ثاقب نثار کو پایا ہے۔ کاش ہر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم انہی کی طرح عوام کے درد سے سرشار ہوتا اور ایک ایک ادارے کو خود جا کر دیکھتا اور ذمہ           داروں کی گوشمالی اور سرزنش کرتا جمہوریت کے نام لیواﺅں نے جلسوں اور ریلیوں کے سوا کچھ نہ کیا۔             اشتہارات میں اپنی تصویریں چھپوائیں اور کارکردگی کے دعوے کئے۔ کون سا وزیراعظم ایسا گزرا ہے جس نے وزرائے اعلیٰ کو جواب دہی کیلئے طلب کیا ہو۔ گورننس کے حوالے سے دور حاضر میں جسٹس ثاقب نثار           لاریب رول ماڈل ہیں۔ عادل حکمران ایسے ہی شخص کو کہتے ہیں۔ ادھر نیب نے بہت سوں کا سر چکرا رکھا ہے۔ صاحبان اختیار نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ اپنے اعمال کی جواب دہی کیلئے طلب کئے جائیں گے۔ سوال بلکہ اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں تھمائے جائیں گے اور پھر پارلیمنٹ بھی ان کے کام نہ آئے گی۔ اصغر خان کیس نے پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ 2012ءمیں آیا اس وقت سے اب تک حکومت نے چپ سادھ رکھی تھی ”خلائی مخلوق“ نے ماضی میں جو کردار ادا کیا تھا اس کے عینی شاہد اسلم بیگ اور اسد درانی سچ پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ حالات کا رخ اس طرف جا رہا ہے کہ اب کوئی بھی نیب کا قانون اور ججوں کی تقرری و برطرفی کا طریقہ نہیں بدل سکتا۔                    
دراصل 28جولائی 2017ءسے احتساب کا غیر اعلانیہ دور شروع ہے۔ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر،           سٹیٹ بینک سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، عدلیہ کے تابع نہیں۔ اب کوئی بھی وزیراعظم ان پر اثر انداز ہونے کی جرات نہیں کر سکتا ان اداروں کیلئے ملامتی بیان جاری کر سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب کے نوٹس کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے پر اپوزیشن اختلاف کا شکار ہو گئی ہے۔   وزیراعظم عباسی کا مطالبہ ہے پارلیمنٹ چیئرمین نیب کو بلائے، نیب قانون بدلا جائے ان کے نزدیک نوازشریف پر رقم بھارت بھیجنے کا الزام قبل از وقت الیکشن دھاندلی ہے۔ شہبازشریف نے ٹھیک کہا کہ چیئرمین نیب نوٹس لیں کس نے نوازشریف کے خلاف نوٹیفکیشن پر دستخط کرائے۔ ادھر جاوید ہاشمی نے جنوبی پنجاب صوبہ تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن جیتنے کیلئے سب ہی جنوبی پنجاب کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ بلاول نے یقین دلایا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہی بنائے گی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ، تحریک انصاف میں ضم ہو چکا۔ عمران خان سے معاہدہ طے پا گیا کہ پی ٹی آئی کو اقتدار ملنے کے 100دن میں صوبہ بنے گا۔ خسرو بختیار کی نگاہ میں تحریک انصاف سے ملنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ تو سچ ہے کہ جنوبی پنجاب والے 5سال اقتدار میں رہے لیکن زبان سے جنوبی پنجاب کیلئے ایک لفظ نہ نکلا۔     2018ءکے انتخابات کیلئے انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔                                                                 
رمضان المبارک کے  بعد مہم زور پکڑے گی اس وقت تک نگران حکومت بھی قدم جما چکی ہو گی۔ دینی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل دوبارہ بیدار ہو چکی ہے۔ دینی حلقوں کے ووٹ ہر وقت ان کی جیب میں ہوتے ہیں، عام ووٹران سے کم ہی متاثر ہوتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ مولویوں کی حکمرانی زیادہ سخت ہو سکتی ہے۔ شریعت کی پابندی کرنا آسان نہیں اسی لئے لوگ بالخصوص عورتیں اور نوجوان لبرل ازم کی طرف بھاگتے ہیں۔ میوزک اور ڈھول کی تاپ ان کا دل بہلاتی ہے انہیں آزاد ماحول کا احساس ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی لبرل ازم کی علمبردار ہیں، انہوں نے اپنے اوپر مذہب کا خول نہیں چڑھا رکھا۔ مولویوں کا اعلان ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو سیکولر، لبرل اور جمہوری عناصر سے بچانا چاہتے ہیں۔ بھٹو کےخلاف پی این اے کی تحریک چلانے والے بھی یہی لوگ تھے انہیں ہر دور میں اسلام خطرے میں دکھائی دیا حالانکہ کتاب اللہ اور دین الٰہی کی حفاظت اور بقاءکا ذمہ خود اللہ نے لیا ہوا ہے ۔کون اسلام کو خطرے میں ڈالنے کی جرا¿ت کر سکتا ہے؟ ظاہری لبادے کے بغیر کروڑوں پاکستانی اسلام قرآن اور ناموس رسالت پر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے ہروقت تیار رہتے ہیں ۔ رمضان نشریات کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا ٹی وی چینلوں پر نیلام گھر اور سرکس بند کرنے اور پانچوں وقت اذان اور مغرب کی اذان سے 5منٹ پہلے درود شریف یا قصیدہ بردہ شریف نشر کرنے کے حکم کا اسلامیان پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو ووٹروں کے دلوں میں گھر بنانے کیلئے باقاعدہ منشور دینا ہوگا۔ عمران کو یہودیوں کا ایجنٹ کہہ دینے سے ووٹ نہیں ملیں گے۔ ن لیگ کے پاس بھی ”ووٹ کو عزت دو“ کے سوا کوئی نعرہ نہیں۔ ساری ملکی سیاست شخصیت پرستی کے گرد گھوم رہی ہے۔ نوازشریف کا بیانیہ اس سے زیادہ نہیں کہ پاکستان پر حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کے سوا کسی کو حاصل نہیں، روٹی کپڑا اور مکان بھی ایک زمانے میں طاقتور نعرہ تھا لوگ اس نعرہ کے پیچھے دوڑتے تھے۔ نعرے کی عملی تعبیر آج تک دکھائی نہیں دی ہندوستان میں بھی غریبی مٹاﺅ جیسے نعرے لگے تھے۔ عمران نے اپنے 11نکات میں کوالٹی ایجوکیشن کا ذکر کیا ہے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کوالٹی ایجوکیشن ہے کیا؟ ووٹ کی خاطر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ بھی کر بیٹھے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں سیاسی منشور کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے جو پارلیمنٹ میں بجٹ کی کتابوں کے ساتھ ہوتا ہے، ایک روز پرانے اخبار کو ردی کہا جاتا ہے۔ لوگوں کے کانوں میں جو باتیں پڑ جاتی ہیں وہ انہی کو سچ سمجھ لیتے ہیں جیسے ”نوازشریف 4.9ارب ڈالر بھیجے بھارت والی جعلی خبر پر چیئرمین نیب کے نوٹس نے مایوس کیا۔ عالمی بینک اور سٹیٹ بنک کی تردید کے بعد تو کچھ باقی نہیں رہتا۔ سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات پر ہوشربا ٹیکسوں کے اطلاق کا نوٹس لیا ہے۔ حکومت یوٹیلیٹی سٹورز پر ایک ارب 73 کروڑ کی سبسڈی دے رہی ہے حکومت پنجاب 11ارب کی سبسڈی دے رہی ہے لیکن رمضان المبارک سے پہلے اور بعد میں ریڑھی والوں پر اپنی رٹ قائم نہیں          رکھتی ۔ انہیں کامیاب حکمران کون کہے گا؟          
(روزنامہ   نوائے  وقت 13 مئی 2018ع)                                                                                              


ہفتہ، 12 مئی، 2018

شاعری کی زباں :ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد 



ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بیدرد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستہ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

فیض احمد فیض

بدھ، 28 مارچ، 2018

ریاست کے اندر ریاستیں


23 مارچ سب نے مل کر منایا ، عظیم الشان پریڈ ہوئی ، اعزازات کی ریوڑیاں ہر صوبائی دارالحکومت کے گورنر ہائوس اور ایوان صدر میں بہ مقدار وافر تقسیم کی گئیں۔ بیانات داغے گئے اور اس طرح داغے گئے جیسے 21، 21 توپیں داغی گئیں یہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور 23 مارچ کو اس کا خاکہ مرتب کیا گیا تھا۔14 اگست کو وجود میں آیا اور مذاہب کے نام پر ہی ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے فون کا نذرانہ لے کر وجود میں آیا مگر یہ واحد قوم ہے جس نے اتنے بڑے سانحے اور واقعے کو اپنے باطن کے اندر سمویا جس کا نتیجہ صاف ہے کہ ملک ایک ہے 23 مارچ ایک ہے 14 اگست ایک ہے مگر حکومتیں ایک نہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں تو سمجھ میں آتی ہیں حکومت کے اندر حکومتیں سمجھ میں نہیں آ رہی۔ برسر اقتدار حکومت بھی ان کی ہے جو اس کے خلاف تحریک برپا کیے ہوتے ہیں ۔ دیگر پارٹیاں تو حکومت سے باہر ہیں ان کی الگ الگ بولی تو ان کی مجبوری ہے اس طرح صدر وفاق کو ایک اکائی قر ار دے رہے ہیں مگر وزیراعظم سینٹ کے نو منتخب چیئرمین پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں ۔چیف جسٹس تمام گڈ گورننس کے دعوئوں کو غلط قرار دے کر ازخود نوٹس لے رہے ہیں اور سیاستدان اپنی دوکان چمکانے کے لئے جوڈیشنل مارشل لاء کا تصور دے رہے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی بے چارا جو سبھی کا موضوع ہے مگر سبھی کے ہاں اس کی دو کوڑی کی عزت نہیں۔ اس پر بوجھ ڈال کر اور اسے زد و کوب کرکے تمام حکومتی و سیاسی اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں۔ اگر ڈالر کی قیمت میں ایک ہفتے کے اندر چار روپے اضافہ ہوتا ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہے اور نقصان کس کو یہ اب واضح ہے کہ ایسے فیصلوں کے تمام منفی نقصانات عام لوگوں کو ہی برداشت کرنے ہیں ۔ جو وزیر خزانہ بیرون ملک میڈیکل تعطیل پر ہیں، سارا ملبہ مشیر خزانہ پر ڈال رہے ہیں اور مشیر خزانہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو ملکی ترقی کے لئے بہتر قر ار دے رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان جیسے اس نازک موقع پر پوری توانائی کے ساتھ حرکت میں آنا چاہیے تھا خاموش ہے اور اس کی خاموشی ’’نیم رضا‘‘ والی          خاموشی ہے۔ یوں لگتا ہے جسے وہ کافی عرصے سے روپے کی قدر میں کمی کرنا چاہ رہا تھا مگر عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں ڈالر کی خود ساختہ اڑان نے اس کا کام آسان کردیا۔ اس طرح کے حالات میں 23 مارچ کی عظیم الشان پریڈ کو دیکھ کر ہی تسلی دی جا سکتی ہے کہ پاکستان مضبوط ہاتھوں میں ہے ورنہ معاشی اور اقتصادی حالات تو اتنے اچھے نہیں کہ مستقبل قریب میں عام پاکستانیوں کے لئے کسی بہتری کی توقع وابستہ کی جائے۔ 
35 پنکچروں کے معروف فنکار نجم سیٹھی نے لاہور اور کراچی کی خوشیاں واپس لوٹانے کا دعوی کیا ہے مگر مخالفین اس کو اس لئے تسلیم کرنے سے عاری ہیں کہ چند غیر معروف انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی اتنی زیادہ سکیورٹی اور لاہور اور کراچی کی کئی سڑکیں بند کرنے کے بعد کرکٹ کی رونقیں بحال کرنے کا دعوی واقعی محل نظر ہے مگر چیف جسٹس نے نجم سیٹھی کی دعوت قبول کرکے لاہور کا میچ دیکھ کر تاثر تبدیل کیا ہے۔ جس میں پشاور زلمے کے کامران اکمل نے اگرچہ چوکے چھکے لگا کر اپنی ٹیم کو فتح دلائی مگر اپنے کوچ اور کپتان کے نزدیک بطور وکٹ کیپر اپنی پوزیشن بحال نہ کر سکے ۔ پی ایس ایل ٹرافی کے کچھ میچ متحدہ عرب امارات میں ہوئے کچھ لاہور میں اور فائنل کراچی میں یعنی کرکٹ کی خوشویں کو مرحلہ وار بلکہ شہر وار واپس لینے کا عمل جاری ہے جو اپنی مکمل کامیابی کے لئے کچھ سال اور توجہ طلب کرے گا۔                                             
سپریم کورٹ نے لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق کا سیل قائم کرنے کا حکم جاری کیا ہے ، یہ حکم یوں تو ہر رجسٹری میں انسانی حقوق کا سیل قائم کرنے کے لئے جاری کیا جانا چاہیے تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی کی صورت حال کسی ایک رجسٹری تک محدود نہیں تاہم اس سے لاہور اور پنجاب سنٹرل کے لوگوں کے مرید ریلیف ملنے کی توقع ہے اور مستقبل قریب میں خیبرپختوانخواہ اور بلوچستان کے لوگ بھی ایسا ہی ریلیف چاہیں گے ۔یہ حکم دراصل گڈ گورننس کے ڈھڑوں کی جانچ پرکھ کے لئے جاری کیا گیا ہے یقیناً عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں بھی ازخود احکامات جاری کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگا، کیونکہ یہ بھی انسانی حقوق کی بحالی میں ایک اہم قدم شمار ہو سکتا ہے اس کے علاوہ بڑے بڑے ہائوسنگ گروپ جو لوگوں کی بچتیں ہتھیا کر دوسرے ملکوں میں انویسٹمنٹ کر رہے ہیں ۔ وہ بھی اس کا موضوع ہوں گے کیا ہی اچھا ہو کہ کسی ایسے ہی از خود نوٹس پر یہ حکم جاری کیا جائے کہ جو لوگ اپنے پلاٹوں کی کل قیمت ادا کر چکے ہیں انہیں ہائوسنگ ادارے پلاٹ دیں یا ان کی مکمل رقم واپس کریں ، کیونکہ مکمل رقم وصول کرنے کے بعد دھوکہ دہی کا کوئی جواز نہیں۔ سرائے عالمگیر میں غربت کے باعث ایک والد نے اپنے چار بچے قتل کر دئیے اس سے قبل ایک عورت کی اپنے تین جگر گوشوں کے قتل کی خبریں دل ہلا چکی ہیں کہ یہ غربت کی بدترین شکل ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے لگے ہیں۔ بیٹے کے ہاتھوں والدہ یا والد کے قتل کی خبر بھی اس سلسلے کی کڑی ہے الحذر الحذر… کہ بڑھتی ہوئی ناآسودہ خاموشیوں کے باعث سوسائٹی اپنا فطری توازن کھو رہی ہے اس کو سنبھالا دینے کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو رول آف لاء اور دوسرا غربت میں کمی ،دونوں ہی اس ملک میں اپنا اعتبار کھو رہے ہیں اس لیے گریبان میں منہ دے کر رونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ یہاں رونے کے لئے کسی بڑے تکلف کی ضرورت نہیں کہ ہر بڑی خبر آنسوئوں کو آنکھوں کے اور قریب کر رہی ہے اور یہ آنسو دل سے آنکھوں کی طرف بڑھتے ہیں کہ آنسو بہانے والے اس ملک کے حوالے سے درد دل رکھتے ہیں اور اس ملک کے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو اپنے تمام حقوق سے محروم کر دئیے گئے ہیں اور ان میں تفرقہ اس لحاظ سے ہے کہ کوئی گروپ کسی سیاستدان کو نجات دہندہ سمجھ رہا ہے کوئی کسی اور کو مگر کوئی بھی ان کا طرفدار نہیں!!!                                                                   
حلقہ ارباب ذوق لاہور کے گزشتہ سالانہ جلسہ میں سینئر ترین ادیب اکرام اللہ نے طویل خطبہ پیش کیا اور صدق دل سے ملک کی بگڑی ہوئی تاریخ کا احاطہ کیا انہوں نے نہ صرف مسائل کا ادراک کیا بلکہ اصلاح        احوال کیلئے بھی تجاویز دیں اس سے قبل غلام حسین ساجد نے جو کہ سابق سیکرٹری تھے اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کی اور اس پر داد حاصل کی۔بعدازاں انتقال اقتدار کی رسم منعقد ہوئی جس میں حلقہ اربات ذوق و لاہور کی زمام نوجوان سیکرٹری عقیل اختر اور جوائنٹ سیکرٹری بابر کے حوالے کی گئی جنہوں نے جونیئر اور سینئر ادیبوں کے تعاون کی درخواست سے مشروط اپنی آئندہ سال کی کارکردگی بہتر بنانے کا اعلان کیا۔ حلقہ کے پہلے ماہ کا تنقیدی اجلاسوں کا پروگرام بھی جاری کیا گیا ہے جس میں ان کے دعوئوں کی تصدیق کا سامان موجود ہے۔ سالانہ جلسہ کے اختتام پر حلقہ ارباب ذوق کے گلوکار ممبران نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا خاص طور پر کلاسیکل گلوکار ندیم ریاض نے اپنے خوبصورت فن کا مظاہرہ کیا اور خوبصورت راگ کو اہتمام کے ساتھ گا کر ثابت کیا کہ کلاسیکل میوزک کو سننے والے آج بھی پوری توانائی کے ساتھ اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
۪روزنامہ نوائے وقت ۲۸ مارچ ۲۰۱۸ع۫

منگل، 27 مارچ، 2018

"ووٹ کو عزت دو"



شفیق الرحمن شاکر
"پاکستانی سیاست میں آج کل ایک نیا نعرہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ خوب زور و شور سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ یہ نعرہ ایک ایسے وقت میں لگایا جا رہا ہے جب نعرہ لگانے والے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے نااہل ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف قائم متعدد مقدمات کے متوقع فیصلے ان کے خلاف آنے کے قوی امکانات ہیں۔ ایسے میں انہوں نے ان ناگوار نتائج پر اثرانداز ہونے اور لوگوں کی توجہ اصل حقائق سے موڑنے کے لئے یہ خوبصورت لیکن گمراہ کن نعرہ ایجاد کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لفظ سیاست اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ اب اسے صرف منفی معنوں میں ہی لیا جاتا ہے اور اس لفظ کو اتنا آلودہ کرنے میں سب سے بڑا حصہ خود سیاستدانوں کا ہے۔ ان سیاستدانوں نے گزشتہ نصف صدی سے اپنی سیاست کے ایسے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ اب سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور پاکستانی نہ تو ان کی باتوں کو سنجیدہ لیتا ہے اور نہ ہی ان پر اعتبار کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا پاکستانی سماج اور قوم بحیثیت مجموعی ان کے چنگل میں ایسے برے طریقے سے پھنسی ہوئی ہے کہ ہم جتنا اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے جا رہے ہیں‘ اتنا ہی مزید پھنستے جا رہے ہیں۔ ایسے منافع خور سیاستدانوں بلکہ سیاستکاروں سے نجات پانا ناممکنات میں سے نہیں لیکن پتا نہیں کیوں لوگ ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔ شاید ان کے پُردرد الفاظ میں ایسا کیف اور ان کی تقاریر میں ایسا جادوئی کرشمہ پنہاں ہے جو وہ مسلسل عوام پر مصائب و آلام کے پہاڑ گرانے کے باوجود بھی آسانی سے مظلومین کی صف میں جگہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اچانک ان کی آواز بھراتی ہے، آنکھوں میں آنسوئوں کی لڑیاں سج جاتی ہیں، زبانوں پر عوامی خدمت اور ووٹ کی عزت بحال کرانے کی بامشقت جدوجہد کے جرم میں ان کے اوپر ڈھائے گئے مظالم کی حکایات و شکایات جاری ہو جاتی ہیں۔ اس طرح وہ دردناک افسانے سناکر خود بھی رونے اور اپنے ساتھ عوام کو بھی رلانے کا انوکھا فن رکھتے ہیں۔ اپنی تمام تر بربادیوں اوربدحالیوں کے باوجود ہمیں اس معصوم مخلوق سے کوئی شکایت نہیں رہتی۔ اکیلے سیاستکار ہی نہیں جنہوں نے ہمارا بیڑہ غرق کیا ہے، ان کے ساتھ مفت خوروں کی ایک نہ ختم ہونے والی بارات ہے۔ ڈھول پیٹنے والے، شہنائی نواز، طوطاری، ٹھمریاں گانے والے گویے، سازندے اور باجا بجانے والے، رقاص، داستان گو، قصیدہ خوان، نعرہ باز اور نعروں کا جواب دینے والے، لعنتیں بھیجنے والے، مصنوعی رونے اور ہنسنے والے، پھول اور نوٹ پھینکنے والے، مخالفین کو چیلنج کرنے اور انہیں گالیوں سے نوازنے والے، اپنے رہبروں پر سو بار جان قربان کرنے کی دھمالیں ڈالنے والے، دانشور، ادیب و نام نہاد تجزیہ کار‘ کس کس کا بیان کیا جائے کہ عشق کے ان سیاسی آستانوں پر نجانے کتنے سر صدقہ ہونے‘ اور کتنے قلب قربان ہونے کے مشتاق رہتے ہیں۔ ہماری تو عقل ہی دنگ رہ جاتی ہے اور زباں سے بے اختیار یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔اگر ان سیاستکاروں کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو سمجھو کہ جمہوریت کو بلکہ ملک کی سالمیت کو ہی خطرہ ہے۔ اگر انہیں اپنے افعال، اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے کرسی سے الگ کیا جائے تو سمجھو کہ عوام کے ووٹ کی عزت برباد ہو گئی۔ جتنے بھی پاکستانی ملک میں قانون کی بلاامتیاز حکمرانی کی بات کرتے ہیں، وہ سب عوام کے ووٹ کی توہین کرتے ہیں؟ جو بھی عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس لوٹانے کا مطالبہ کرتا ہے‘ وہ جمہوریت دشمن اور سازشی قوتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے؟ عوام کے ووٹ کی عزت کی حسین دیوی‘ جس پر آپ اس وقت اچانک جان و دل قربان کرنے کو تیار ہو گئے ہیں، کا الیکشن کے بعد بھی خیال رکھیں گے؟ ووٹ لینے کے بعد آپ کتنے مہینے بعد اس عوام کو ملاقات کا شرف بخشتے اور کتنے سالوں بعد انہیں اپنی صورت دکھاتے ہیں؟ چلیں تسلیم کرتے ہیں کہ عوام کے ووٹ کی آبرو نہ رکھنے والے حلقے کافی مضبوط ہیں لیکن یہ کیسی بے بسی اور بے اختیاری ہے کہ خود آپ کے اثاثوں میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے؟ لوگوں کے ووٹ کی عزت کی منزل ابھی دور ہے، پہلے یہ تو تسلیم کریں کہ جو لوگ آپ کو ووٹ دیتے ہیں وہ انسان ہیں،جیتی جاگتی انسانی مخلوق۔ جن کے وجود میں سانس چلتی ہے، جن کے پیٹ میں بھی بھوک کا دوزخ جلتا ہے، جن کے جگر ٹکڑے بھی بیمار ہوتے ہیں، ان کے سینوں میں بھی چھوٹی چھوٹی تمنائیں سلگتی اور بجھتی ہیں۔ اگر گندگی کی ڈھیروں تلے اپنا رزق تلاش کرنے والے کم عمر بچوں کے میلوں میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی تو پھر دوسروں سے عوام کے ووٹ کی عزت کا مطالبہ کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب ضرور چاہیے کہ عوام سے ووٹ لیکر حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں نے عوام کے ووٹ کا خود کتنا مان رکھا ہے؟ "
۪ روزنامہ دنیا نیوز ۲۷ مارچ ۲۰۱۸ع  ۫


پیر، 26 مارچ، 2018

وفاق کی علامت سینٹ : وزیراعظم کا بیانیہ


وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوچستان سے منتخب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی جو ’عزت افزائی‘ کی، سرشرم سے جُھک گیا۔ وجہ شخصی احترام کے علاوہ بلوچستان بھی ہے۔ رونا یہ آیا کہ وزیراعظم ہوکر وفاق کی علامت ادارے کے وقار کو الزامات سے آلودہ کیا گیا۔ جرا¿ت اظہار اچھی بات ہے۔ سیاستدان اکثر ’پھنس‘ جانے پر’جالب‘ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آسانی آنے پر پھر سے ’بھٹو‘ اور ’ضیائ‘ بن جاتے ہیں۔
وفاداری بشرط استواری تو سُنا تھا لیکن وفاداری کا یہ اندازہ لگتا ہے ۔ ملک میں مارشل لاءکی راہ ہموار کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے ہماری خوش گمانی دھری کی دھری رہ گئی کہ ایک پڑھا لکھا دراز قد انسان وطن عزیز میں مثبت طرح ڈالے گا۔ سُلجھے انداز میں شفاف طرز پر ملک کی خدمت کا نیا سلیقہ متعارف ہوگا۔ جالب ہی کی فریاد میں، انہیں خوشنودی شاہاں کا دائم پاس رہتا ہے۔ نوازشریف ’ایکس فیکٹر‘ سے وہ نجات پا نہیں سکے۔ معاملہ بے وفائی کا نہ تھا لیکن کوئی اصول تو انسان کو اپنانا چاہئے؟ جب آپ وطن عزیز کی اتنی اعلیٰ ترین امانت کے پاسدار ہوں لیکن انداز....افسوس صد افسوس۔ وفاق کی علامت سینٹ کی توہین جس انداز میں کی گئی۔ لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ وہ انداز ہے جس سے مسلم لیگ (ن) اور ’اس کا وزیراعظم‘ بلوچستان کی محرومیوں پر مرہم رکھنا چاہ رہا ہے؟ شاہد خاقان بولے کہ ’ہم سینٹ میں غیر متنازعہ اور متفقہ امیدوار لانا چاہتے تھے۔ اس لئے رضا ربانی کا نام لیا۔ ہم اب بھی سینٹ میں متفقہ امیدوار لانے کے حق میں ہیں۔ لیکن زرداری نے ہماری بات نہیں مانی اور ایک ایسے شخص کو سینٹ کا چیئرمین بنا دیا ہے جسے پاکستان میں کوئی نہیں جانتا جس کا کوئی سیاسی وجود نہیں۔‘ کرب کا اندازہ اس گفتگوسے لگائیے ’سینیٹرز بناتے وقت زرداری نے منڈی لگائی۔ لوگوں کے ضمیر خریدے کروڑوں روپے کی خرید و فروخت ہوئی۔ ہم اگر چاہتے تو اپنا چیئرمین سینٹ بنا سکتے تھے لیکن ہم نے شکست قبول کر لی اور اصولوں پہ سودے بازی نہیں کی۔‘ یہی کہا
 جا سکتا ہے کہ عباسی صاحب! اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
یہ بیان اُن کا سُن کر مجھے ماضی کے واقعات یاد آنے لگے جو چھانگا مانگا، مری ریسٹ ہاﺅس جیسے ’تابناک کارناموں‘ کی صورت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’رقم‘ ہیں۔ چیئرمین سینٹ کا تعلق کسی پارٹی سے نہ ہونے اور ’خریدے ہوئے ووٹوں سے منتخب‘ ہونے کا قلق ہے، تو وزیراعظم اور ان کے حامیوں کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ’لنگوٹ‘ کس کر راجہ ظفرالحق کو ’دھکا‘ دیں اور انتخاب بھی لڑیں؟ کیا ان ’خریدے‘ ہوﺅں سے مسلم لیگ (ن) کے ’صادق‘ اور ’امین‘ رابطے میں نہ تھے؟ کیا ان کی ہمدردیاں خریدنے کی کوئی کوشش نہ ہوئی تھی؟ ’اصولی‘ وزیراعظم کو پنجاب میں چوہدری سرور کو ووٹ دینے والے اپنے پارٹی ارکان کیوں بھول گئے؟ کیا اُن کا حساب وہ کر بیٹھے ہیں؟ ۔ ’فروخت کئے گئے ووٹوں کی وجہ سے صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ بنے ہیں‘ اور اس بناءپر وزیراعظم کو دنیا میں پاکستان کی عزت کی فکر لاحق ہے تو پھر پاناما دستاویزات سے جو شور مچا ہے، اس سے پاکستان کی ’قدر و منزلت‘ میں جو اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر عباسی صاحب کے کیا ’وچار‘ ہیں؟ ان کے لئے شاید یہ ’نیک نامی‘ ہے؟ عزت کا کیا مقام تراشا ہے؟ واہ۔ وزیراعظم نے بس نہیں کی۔ بولے ’چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں لوگوں کا ایمان اور ضمیر خریدا گیا۔ چیئرمین سینٹ صدرمملکت ہوتے ہیں۔ اس طرح چیئرمین سینٹ کا انتخاب بے عزتی کا مقام ہے۔ کیا اس طرح ملک کی عزت دنیا میں ہو سکتی ہے؟۔برادر عزیز سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے کیا برمحل اور شاندار تبصرہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”نئے سوشل کنٹریکٹ کے لئے ’سیاستدان، جج اور جرنیل مذاکرات کریں‘ لیگی صدر کا یہ بیان آئین سے کُھلی بغاوت ہے۔ محمد علی درانی کا یہ کہنا درست ہے کہ ’دستور اداروں کے گرد ذمہ داریوں کی واضح لکیر کھینچ چکا ہے۔ ایسی صورت میں عدلیہ اور فوج کو مذاکراتی سیاست میں اُلجھانا چال ہے۔ درانی صاحب گزشتہ کئی برس سے سوئیٹزرلینڈ اور یورپ سمیت بیرونی ممالک میں لُوٹ کا چُھپایا مال وطن واپس لانے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں انہوں نے ایک مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے جس کا مقصد اقوام متحدہ کی ایک قانون سازی کا سہارا لے کر پاکستان کے غریبوں کی لُوٹی دولت وطن واپس لانے کے لئے قانونی عمل شروع کروانا ہے۔ اس تناظر میں ان کی یہ دلیل رد نہیں ہو سکتی کہ ’شریف خاندان کے خلاف فوج، عدلیہ یا کوئی اور ادارہ سازش نہیں کر رہا۔ اب مغرب ترقی پذیر ممالک کے اُن سیاسی لیڈروں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو غریب عوام کے سرمایہ پر ڈاکہ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور مغرب نے سخت ترین قانون سازی کرکے کرپٹ سیاسی قیادت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ ہی اب کرپٹ لوگوں کو بچا سکتا ہے۔‘ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بھی خادم حسین رضوی اور ان کے ہم خیال کئی مذہبی پیشواﺅں کو یقین ہے کہ ’اب اللہ بھی انہیں نہیں بچائے گا ۔ ہم تو پھر بھی توبہ واستغفار کی بات کرتے ہیں۔ حماقتیں انسانی فطرت میں ہوتی ہیں لیکن بدنیتی کا کیا علاج۔ محسن بے مثل مرحوم ومغفور مجید نظامی کے مشن سے جو لوگ پھر گئے ہوں۔ اُن کا خون جگر جنہوں نے کیا ہو، ان کو کیا یاد دلانا۔ یاد بھی اُن کو دلائی جاتی ہے    جن کی آنکھ کا ’پانی‘ خ±شک نہ ہوگیا ہو۔ 
حرف آخر یہ کہ چیئرمین سینٹ کے لئے کیا ’فرشتوں‘ کا ووٹ حاصل کریں گے۔ اگر یہی سینیٹرز ہی ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے تو پھر صادق سنجرانی ہی کا کیا قصور ہے؟؟؟ 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

۪روزنامہ نوائے وقت ۲۶ مارچ ۲۰۱۸ع۫