بدھ، 22 جنوری، 2020

عمران خان کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟



حبیب اکرم
دو ہزار آٹھ میں شہباز شریف دوسری بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے چند ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو مشورے کے لیے بلایا۔ اس مجلس میں شامل تمام لوگ ایسے تھے جو حکومتی کاروبار سے اچھی طرح واقف تھے‘ اس لیے ان کے دیے ہوئے مشورے بیش قیمت تھے اور قابل عمل بھی۔ مجلس میں موجود لوگوں میں سے کسی نے سڑکوں کی تعمیر کی طرف توجہ دلائی، کوئی بجلی کے معاملات پر بولا تو کسی نے صحت و تعلیم میں بہتری کا کہا۔ وزارت خارجہ سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ افسر خاموش بیٹھے تھے۔ شہباز شریف نے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ ان صاحب کو حکمرانوں کی توجہ کے قلیل دورانیے اور ذہنی سطح کا خوب اندازہ تھا۔ انہوں نے چند الفاظ میں ملک میں گورننس کی صورتحال کا تجزیہ کرکے بتا دیا کہ کہنے کو انیس سو نوے کی دہائی گزرے صرف آٹھ برس ہوئے ہیں‘ لیکن دنیا اس عرصے میں کئی دہائیاں آگے نکل گئی ہے‘ اس لیے حکومت کو نیا انداز اختیار کرنا ہو گا۔ شہباز شریف نے پوچھا: وہ کیسے؟ جواب ملا، اصلاحات۔ اصلاحات کا لفظ ابھی بولنے والے کے لبوں سے نکل کر کمرے میں موجود لوگوں کی سماعت تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ شہباز شریف نے بیک وقت سر اور دایاں ہاتھ انکار میں ہلا دیے۔ زبان سے کئی بار نہ نہ کی تکرار کی اور بولنے والے کو تنبیہ کی کہ آئندہ اصلاحات کی بات ان کے روبرو نہ کی جائے۔ تھوڑی دیر بعد مشاورت کا یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور شہباز شریف اپنی توانا شخصیت کے ساتھ پنجاب میں کام پر جُت گئے۔ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے انہوں نے ایک انتظامی آمریت قائم کرڈالی۔ صوبے میں رائج ایک بہترین بلدیاتی نظام کو تباہ کر ڈالا، بیوروکریسی میں گریڈ اور تجربے کا فرق مٹا کر صرف ایسے لوگوں کو اپنے قریب رکھا جو کام نکالنا جانتے تھے۔ چند ماہ میں ہی نوبت یہ آگئی کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کوئی بڑے سے بڑا سرکاری افسر ایسا نہ رہا جو شہباز شریف کا حکم ٹال سکے۔ اپنے اسی انداز میں انہوں نے صوبہ چلایا، اپنی پارٹی کو دوہزار تیرہ کا الیکشن جتوایا‘ اس کے بعد اپنے اندازِ حکومت میں مزید راسخ ہوگئے اورمزید پانچ سال یوں حکومت کی کہ ملک بھر میں ان کی حکومت ہی کارکردگی کا پیمانہ بن گئی۔ ان کی کارکردگی کے سیاسی نتائج بلاشبہ مثبت رہے لیکن انتظامی حوالے سے پنجاب سینکڑوں سال پیچھے چلا گیا۔ انہوں نے اپنی غیرمعمولی توانا شخصیت کے پیچھے بیوروکریسی کی نااہلی، سرکاری ضابطوں کی فرسودگی اور ریاستی مشین کی روایتی سستی کو یوں چھپا لیا تھا کہ سوائے حکومت کی کارکردگی کے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ وفاق میں تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد نواز شریف نے کیا۔ انہوں نے نظام میں کوئی اصلاح کرنے کے بجائے اپنے اہداف پر کام کیا اور ان اہداف کے حصول کے راستے میں جو آیا اسے ہٹنا پڑا۔ انہوں نے بھی گریڈ کو نظرانداز کرکے صرف ایسے افسر اپنے اردگرد رکھے جو اپنے ذمے لگنے والے کام پورے کرنے کے لیے دن رات میں کوئی فرق ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کا اندازِ حکومت بھی عوام میں پذیرائی پا گیا اور 'ستارے‘ دشمن نہ ہوجاتے تو شاید آج بھی وہ پاکستان کے وزیراعظم ہوتے۔
نواز شریف اور شہباز شریف کے اپوزیشن میں جانے کے بعد عمران خان وزیراعظم بنے تو وہی نظام جو پہلے ٹھیک ٹھاک چلتا دکھائی دے رہا تھا، یکایک رُک گیا۔ مسلم لیگ ن کے مقابلے میں تحریک انصاف کی گرفت حکومتی معاملات پر اتنی کمزور ہے کہ وزیراعظم کے احکامات تک پر عملدرآمد نہیں ہو پارہا۔ کاروباری تنظیموں کے لوگ ٹی وی پر آکر بتا چکے ہیں کہ وزیراعظم ان سے جو بات کرتے ہیں بعد میں پوری نہیں ہوتی۔ ایک موقع یہ بھی آیا کہ کاروباری لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال کرنے کے لیے خود چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو میدان میں آنا پڑا۔ سولہ مہینے گزرجانے کے باوجود تحریک انصاف کوئی ایک ایسا کام نہیں کر پائی جسے دکھا کر وہ عوام کو مزید اچھے دنوں کی امید دلا سکے۔ لگتا ہے‘ حکمران اور حکومت لطیفہ بن چکے ہیں۔ نااہلی، نالائقی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کبھی افسروں کے ردوبدل میں نظر آتا ہے تو کبھی گندم کے بحران میں۔ ان سے بجلی چوری پر قابو پایا جاتا ہے نہ چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت پر۔ اس حکومت کے اتحادی اس کی کارکردگی سے خوش ہیں نہ اس کے اپنے اراکین اسمبلی میں اپنے حلقوں کا رُخ کرنے کی ہمت باقی رہی ہے۔ تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کو چلانا ہے تو مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کو حکومت دینا ہو گی۔ ان کے علاوہ اگر کوئی چلا سکتا ہے تو فوج ہے۔ ہرگزرتا دن تحریک انصاف کی وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں کو غیر متعلق کیے جاتا ہے اور حالت یہاں تک آ گئی ہے کہ حکومت اگر گر بھی جائے تو اس پر آنسو بہانے والا کوئی نہ ہوگا۔ دنوں میں تحریک انصاف کا نام ونشان بھی تاریخ کے کوڑے دان میں چلا جائے گا۔ 
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی نظام کیوں چلا سکتی ہیں اور تحریک انصاف کیوں نہیں؟ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ پہلی دونوں جماعتوں میں کوئی غیر معمولی صلاحیت کے لوگ نہیں ہیں لیکن اس معاملے میں تحریک انصاف تو ایک بازیچۂ اطفال کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مختلف پارٹیوں کے منتخب نالائق جس طرح اس جماعت میں جمع ہوئے ہیں ان کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن نالائقی کا یہ طوفان تصویر کا ایک رخ ہے۔ فرض کریں دو ہزار آٹھ میں شہباز شریف کو اصلاحات کا جو مشورہ دیا گیا تھا وہ مان لیا جاتا۔ ملک کی بیوروکریسی کو ڈسٹرکٹ مینجمنٹ افسروں پر چھوڑنے کی بجائے پیشہ ورانہ بیوروکریسی کی بھرتی اور ترقی کا سلسلہ شروع ہو جاتا‘ پنجاب پولیس لندن اور نیویارک کی پولیس کی طرح منظم کردی جاتی۔ دوہزار ایک کے بلدیاتی نظام کے تحت اب تک تین الیکشن ہوچکے ہوتے تو کیا ہوتا؟ ہوتا یہ کہ آج بیشتر صوبائی محکموں کے سیکرٹری متعلقہ شعبے کے ماہرین ہوتے۔ پولیس لوگوں کو مارنے کی بجائے ان کی معاون و محافظ بن چکی ہوتی۔ جو اراکین صوبائی و قومی اسمبلی آج عمران خان کو ترقیاتی فنڈز کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں وہ یاتو سلیقے سے قانون سازی کرتے یا واپس اپنے ضلعوں میں جا کر بلدیاتی سیاست کرتے۔ ملک کے ہر ضلعے میں ایسی قیادت پیدا ہو چکی ہوتی جو نہ صرف عثمان بزدار بلکہ عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کا متبادل ہوتی۔ اگر اس صورتحال میں تحریک انصاف جیسی جماعت کو حکومت مل بھی جاتی تو اس کے نیچے نظام اتنا مستحکم ہوتا کہ اس کی نالائقی سے نظام کو کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ اگر عمران خان واقعی وہ کرنا چاہتے جو کہہ کر انہوں نے الیکشن جیتاتھا تو اوپر سے نیچے تک انہیں ایسی تجربہ کار ٹیم میسر ہوتی جو ان کے خواب پورے کر دکھاتی۔ 
کبھی کبھی لگتا ہے کہ عمران خان صاحب کو الیکشن سے پہلے اپنی پارٹی اور ساتھیوں کے کھوکھلے پن کا اندازہ تھا، اسی لیے وہ طاقتور بلدیاتی نظام، پولیس اصلاحات اور پیشہ ورانہ بیوروکریسی کی بات کیا کرتے تھے۔ وہ آتے ہی یہ تین کام کر گزرتے تو اب تک انہیں ایسی ٹیم مل چکی ہوتی جس کے بل پر وہ اگلے تین سالوں میں پاکستان میں اصلی تبدیلی لے آتے۔ لیکن انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بچھائے ہوئے جال میں قدم رکھا دیا۔ انہوں نے اسی ازکارِ رفتہ بلکہ مردہ نظام سے کام لینے کی کوشش کی جس کو تھوڑا بہت چلانے کا منتر صرف مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ جیسے ہی یہ لوگ اپوزیشن میں گئے پورا نظام ہی بیٹھ گیا۔ عمران خان صاحب اگر وہ اصلاحات کرڈالتے جو وہ کہتے رہے ہیں تو پاکستان میں یاد رہ جانے والے لیڈر بن جاتے مگر انہوں نے کچھ لوگوںپر بھروسہ کیا تو تباہ ہوگئے۔ خان صاحب نے اصلاحات کے جہاز کا پائلٹ بننے کی بجائے اسی کھٹارہ رکشے کا ڈرائیور بننے کو ترجیح دی جسے صرف شہباز شریف اور نواز شریف چلا سکتے ہیں۔ اس میں وہ اتنی بری طرح ناکام ہوئے کہ مذاق بن کر رہ گئے۔ انہیں یہ بھی کوئی نہیں سمجھا پا رہا کہ انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ مذاق بھی زیادہ دیر نہیں چلے گا۔
(روزنامہ دنیا 22 جنوری 2020ع)

منگل، 21 جنوری، 2020

سبق آموز باتیں : گورنر کامحاسبہ، سینہ چیر دینے والا واقعہ



گورنر کامحاسبہ سینہ چیر دینے والا واقعہ
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک علاقے کے گورنر تھے اسوقت امیر المومنین شہر کی جامعہ مسجد میں جاتے اور عام لوگوں سے گورنر کی بابت پوچھتے کے لوگوں تمھیں گورنر سے کوئ شکایت تو نہیں
جب حضرت عمر فاروق نے حضرت سعید بن عامر کی بابت لوگوں سے پوچھا کہ گورنر سے کوئ شکایت تو نہیں تو لوگوں نے جواب دیا چار شکایتیں ھیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گورنر کو بلایا اور فرمایا چار شکایتیں ھیں لوگوں کو آپ سے پہلی یہ کہ آپ لوگوں سے فجر کے وقت نہیں ملتے اشراق کے وقت ملتے ھیں
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری بیوی جسنے تیس سال میری خدمت کی اب بیماری کی وجہ سے معزور ھو گئی ھے میں صبح نماز پڑھ کر اپنی بیوی کو ناشتہ بنا کر دیتا ھوں اسکے کپڑے رھوتا ھوں اسکا پاخانہ صاف کرتا ھوں اسلیے دیر ھو جاتی ھے لوگوں سے ملنے میں ابھی جب لوگوں نے پہلی شکایت کا جواب سنا تو انکے رونگٹے کھڑے ھوگۓ
دوسری شکایت یہ ھے کہ آپ ھفتے میں ایک دن ملتے نہیں لوگوں سے
سعید بن عامر بولے میں اسکا جواب ہرگز نہ دیتا اگر پوچھنے والے آپ نہ ھوتے بہرحال بتا ریتا ھوں میں گورنر ضرور ھوں لیکن بہت غریب ھوں میرے پاس یہی ایک جوڑا کپڑوں کا ھے جسے میں ھفتے میں ایک دن دھوتا ھوں پھر سوکھنے تک میں اپنی بیوی کے کپڑے پہنتا ھوں اسلیے لوگوں کے سامنے نہیں آتا اس دن یہ سنکر عمر فاروق رونے لگے اور سعید بن عامر کے بھی آنسو جاری ھوڑی گے
تیسری شکایت یہ کہ آپ رات کو ملتے نہیں
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے دن سارا مخلوق کی خدمت کرتا ھوں میری داڑھی سفید ھو چکی ھے مطلب کہ کسی وقت بھی مالک کا بلاوا آسکتا ھے اسلیے پوری رات اس رب زوالجلال کی عبادت کرتا ھوں کہیں دن حشر کو رسوا نہ ھو جاؤں
چھوتی شکایت ان لوگوں کی یہ ھے کہ آپ بے ھوش کیوں ھو جاتے ھیں
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے میں چالیس سال کی عمر میں مسلمان ھوا ان چالیس سالوں کے گناہ یاد کر کے روتا ھوں کیا پتا میرے مالک مجھے بخشے گا بھی یا نہیں بس خشیت الہی سے میں بے ھوش ھو جاتا ھوں اے عمر رضی اللہ عنہ ان شکایتوں کے نتیجے میں جو میری سزا بنتی ھے دے دو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ھاتھ اٹھے اور رب سے التجا کی یا اللہ اسطرح کے کچھ اور گورنر مجھے عطا کیے جائیں مجھے ان پر فخر ھے,.

وسیم اکرم پلس یا مائنس



صابر شاکر
تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے کیسے فارغ کیاجائے؟عثمان بزدار کو گھر کیسے بھیجا جائے؟اِن ہاؤس تبدیلی یا نئے انتخابات؟وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شہباز شریف‘شاہد خاقان عباسی ‘ خواجہ آصف‘ شاہ محمود قریشی ‘محمد میاں سومرو یا پھر کسی چھوٹے صوبے سے کوئی بے ضرر سا وزیراعظم؟پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے چوہدری پرویز الٰہی ہاٹ فیورٹ ‘ پوراملک انہی افواہوں کی لپیٹ میں ہے۔جونہی کوئی سیاسی تحرک پیدا ہوتاہے یا غیرسیاسی تجارتی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ ہو‘ اتحادی ناراض ہوں یا اپنے ہی وزرا ناخوش‘سب کا نتیجہ ایک ہی نکالا جاتا ہے کہ حکومت کے جانے کا وقت آچکا ہے اور آج گئی یا کل‘لیکن پھر کہیں سے کوئی آکسیجن ملتی ہے اورکچھ ملاقاتیں ہوتی ہیں ‘کچھ باتیں مان لی جاتی ہیں‘ کچھ کا وعدہ کیا جاتا ہے اور کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فی الحال ان کو رہنے دیں‘ ان کو میں ہینڈل کر لوں گا اور معاملات کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوتا ہے۔
سروسز ایکٹ میں ترامیم کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان قدرے بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوگئی تھی اور متعدد امور پر قانون سازی کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر مثبت پیش رفت جاری ہے۔اتحادی جماعتوں کے ناز نخرے تو فطری ردعمل ہے‘ اپوزیشن کا حکومت کے خلاف چارج شیٹ بھی اس کا اصل ہدف تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن اگر وزیراعظم عمران خان کی اپنی کابینہ کے وزرا وزیرعظم کی حکومت کو اوروزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کابینہ کے وزرا انہیں چارج شیٹ کرنا شروع کردیں تو کوئی بھی ذی شعور شخص یہ اندازہ باآسانی لگا سکتا ہے کہ اس بغاوت اور سرکشی کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں‘ پہلی یہ کہ ان باغیوں کو وزیراعظم سے بھی طاقتوروں کی پشت پناہی حاصل ہے ‘دوسری وجہ یہ کہ سیاسی وانتظامی بدنظمی انتہا درجے کو پہنچ چکی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی وزرا اور ارکان پر گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔دونوں ہی صورتوں پر اگر قابو نہ پایا گیا تو نقصان وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ہی ہوگا۔
فیصل واوڈا کے اپوزیشن کو بوٹ چاٹنے کے طعنے نے صورتحال کو کافی بگاڑ دیا تھا۔فواد چوہدری جو وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب ہیں اور کابینہ کے اہم رکن ہیں‘ لیکن انہوں نے وزیراعظم سے براہ راست بات کرنے کے بجائے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف ایک خط لکھا اور پھر وہ خط سوشل میڈیا پر بھی یکایک پھیل گیا‘ جو حکومت کیلئے کافی سبکی کا باعث بنااور پھر پنجاب کے صوبائی وزرا وفاقی وزیر کے خلاف پریس کانفرنسز کرتے ہوئے نظر آئے۔گویا اب پی ٹی آئی کو باہر سے اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہی‘ یہ کردار بھی پی ٹی آئی کے وزرا اور ارکان نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔فواد چوہدری کے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں ایک تیر سے دو شکار ہدف معلوم ہوتے ہیں؛پہلا عثمان بزدار اور دوسرا ‘جو زیادہ خطرناک لگتا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو یہ کہنا کہ امورِ مملکت آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلائے جارہے ‘انتہائی خطرناک اور باریک سیاسی واردات ہے۔
ماضی بعید میں جھانکیں تو صدر غلام اسحاق خان کی نوازشریف سے ان بن شروع ہوئی تو حکومت کے چل چلاؤ کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔تب نوازشریف کابینہ کے رکن وزیرمملکت حامد ناصر چٹھہ نے ایک روز استعفیٰ دے دیا اور صدر غلام اسحاق خان کو ایک خط بھی لکھ دیا۔جب صدر غلام اسحاق خان نے نواز حکومت برطرف کی تو حامد ناصر چٹھہ کے اس خط کو صدر نے نوازشریف کے خلاف ایک ریفرنس کے طور پر استعمال کیا تھا‘پھر جب سپریم کورٹ میں صدر غلام اسحاق خان کے اقدام کو چیلنج کیاگیا تواٹارنی جنرل نے صدر کے اقدام کے حق میں اسی نوعیت کے خطوط‘مختلف انٹرویوز‘ تجزیے اوراخبارات کی خبریں سپریم کورٹ میں پیش کی تھیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو بھی جب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اس میں جو دلائل دیے گئے تھے‘ ان میں ملکی معیشت کی بدتر صورتحال کو خاص طور پر نوازشریف حکومت کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کیاگیا تھااور شائع شدہ بہت سی خبریں ‘کالم‘ تجزیے عدالت میں پیش کیے گئے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آج جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے‘ اسے تحریری طور پر ریکارڈ پر لایا جارہا ہے‘ تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
آٹے کے حالیہ بحران سے بھی ایک واقعہ ذہن میں آگیا کہ2007ء میں مسلم لیگ (ق )کی حکومت پانچ سال پورے کرکے عام انتخابات کی طرف جارہی تھی‘ اس دوران پرویز مشرف سے این آر او کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف وطن واپس آچکے تھے۔ صدر پرویز مشرف کو سو فیصد یقین تھا کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) ہی کامیاب ہوگی اور اگلی حکومت بھی ان کی ہوگی۔ وہ اس بارے میں بہت زیادہ پُراعتماد تھے‘ انہیں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے کوئی خوف نہیں تھا۔ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن صدر پرویز مشرف کا ہفتہ وار پروگرام ایوان صدر میں ریکارڈ کرتا تھا‘ جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کو بلایا جاتا تھا‘ جو براہِ راست صدر مشرف سے سوالات پوچھتے تھے۔کافی کھلا ڈُلا ماحول ہوتا تھا۔پروگرام کے میزبان برادر کامران شاہد ہوتے تھے۔27 دسمبر 2007ء کو بھی ایوان صدر میں پروگرام کی ریکارڈنگ تھی‘ صحافیوں میں سے مْجھے اور محترم حافظ طاہر خلیل کو مدعو کیاگیا تھا۔پروگرام کی ریکارڈنگ سے پہلے صدر مشرف سے چائے کی میز پر بڑی بے تکلفانہ گپ شپ ہوئی۔ریکارڈنگ کے دوران سوالوں کے جواب میں صدر مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو کے پری پول رگنگ کے الزامات مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ شوکت عزیز اور پرویز الٰہی نے پانچ سالوں میںبے پناہ ترقیاتی کام کئے ہیں‘ جس کی بنیاد پر وہ الیکشن جیتیں گے‘ تمام سروے ان کے حق میں آرہے ہیں اوربے نظیر کو اپنی شکست نظر آرہی ہے اس لیے وہ' کرائنگ بے بی‘ بنی ہوئی ہیں اورچیخ چلا رہی ہیں۔ہم ایوان صدرسے نکلے تو ٹی وی چینلز پر نوازشریف کی گاڑی پر فائرنگ کی خبریں نشر ہورہی تھیں ‘تاہم نواز شریف خوش قسمتی سے محفوظ رہے اور پھر اسی شام محترمہ بے نظیر کو قتل کردیا گیا اور انتخابات ملتوی ہوگئے‘تاہم جب دوبارہ الیکشن کا شیڈول آیا تو تو پاور پلیئر زتبدیل ہوچکے تھے۔صدر پرویز مشرف کی گرفت کمزور پڑچکی تھی اور ڈرائیونگ سیٹ پر جنرل اشفاق پرویز کیانی آچکے تھے‘ جنہوں نے پی پی پی پر دستِ شفقت رکھا اور عین انتخابات سے چند روز پہلے پنجاب میں آٹے کا سنگین بحران پیدا ہو گیا۔ مارکیٹ سے آٹا غائب کردیا گیا اور قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں‘ جس کا مسلم لیگ( ن) نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور( ق) لیگ الیکشن ہار گئی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب مسئلہ سیدھی انگلی سے حل نہ ہورہا ہو تو پھر ٹیڑھی انگلی کا استعمال کیا جاتا ہے۔باقی رہا پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کا وزیراعلیٰ بننے کے امکانات کا معاملہ تو یہ واقعہ پہلے بھی پنجاب میں وقوع پذیر ہوچکا ہے۔وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں اورسپیکر میاں منظوراحمد وٹو تھے۔بغاوت ہوئی اور چند ووٹوں کے حامل میاں منظور وٹو پی پی پی کے اکثریتی ووٹوں سے وزیراعلیٰ بن گئے‘ پھر منظور وٹو فارغ ہوئے تو سردار عارف نکئی وزیراعلیٰ بنے‘ جس کے بعد شریف فیملی نے پنجاب کسی اور کے حوالے نہیں کیا۔موجودہ نمبرز گیم بھی وہی ہے‘ سپیکر میاں منظور وٹو اورسپیکر چوہدری پرویز الٰہی میں نمبر گیمز کے ساتھ ساتھ کافی مماثلت پائی جاتی ہے اور خاص طور پر جب پی ٹی آئی کے ناراض ارکان پنجاب اسمبلی بھی اپنے الگ اجلاس شروع کردیں۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے شاید ٹیڑھی انگلی کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کپتان وسیم اکرم کو مائنس ہونے سے بچا پائیں گے یا نہیں؟ 
(روزنامہ دنیا 21 جنوری 2020ع)

"نیک نام فردوس اعوان"



وقار نسیم وامق
دنیا آئینہ حیرت ہے جس قدر دیکھتے جائیں حیرت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، نامور امریکی مصنفہ اور سیاسی سماجی کارکن ہیلن کیلر کو یہ دنیا بہت خوبصورت لگی گو کہ وہ سماعت و بصارت کی نعمت سے محروم تھی لیکن اس دنیا کے آئینے نے اسے بھی ورطہء حیرت میں مبتلا رکھا اور اس نے اپنے محسوسات کو اپنے قلم کے ذریعے اس دنیا تک پہنچایا کئی کتابیں لکھیں، سیاست اور عوامی خدمت میں اپنا نام کمایا، آج بھی دنیا میں ان کی نیک نامی ہے. ہیلن کا تذکرہ تو بہرحال درمیان میں آگیا اصل بات یہ ہے کہ دنیا والے اکثر حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اس حیرت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے جب دنیا والوں کے ساتھ شہرت کے حصول کی خاطر کوئی ڈھونگ کیا جاتا ہے. 
ایسی ہی ایک واردات نظر سے گزری جس میں وطنِ عزیز پاکستان کی معروف سیاستدان معاونِ خصوصی برائے وزارتِ اطلاعات و نشریات محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان خون کا عطیہ محض تشہیر کی خاطر دیتی دکھائی دیں، ویڈیو کلپ میں پیغام واضح تھا کہ لوگ موصوفہ کو دیکھ کر خدمتِ خلق کے اس عمل کی جانب راغب ہونگے لیکن ویڈیو کلپ کے وائرل ہونے سے لینے کے دینے پڑ گئے اور ڈھونگ بے نقاب ہوگیا. 
محترمہ فردوس عاشق اعوان کے ناقدین اور حامیوں کی کمی نہیں، عام انتخابات میں انہیں اپنے حلقہء انتخاب سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے ان کے حریف امیدوار کو ان سے بہتر جانا لیکن اس دیوی پر قسمت کا دیوتا مہربان ہوا اور الیکشن میں شکست کے باوجود تقریباً ایک برس میں ہی انہیں وفاقی کابینہ میں شمولیت کا پروانہ مل گیا. 
خدمتِ خلق پر مبنی اس ویڈیو کے وائرل ہونے سے یہ تو پتہ چل گیا کہ وہ خون کا عطیہ دینے سے گریزاں تھیں اور یہ محض ایک فوٹو سیشن تھا جس سے براہ راست خود عوامی توجہ حاصل کرنا اور عوام کو اس خدمت کی جانب مبذول کروانا بھی مقصود تھا، تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ منو بھائی کی دوسری برسی کے موقع پر تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے لئے قائم کئے گئے ادارے سندس فاؤنڈیشن لاہور میں پیش آیا.
قارئینِ کرام، دنیا میں مستقل نیک نامی ڈھونگ رچانے سے نہیں بلکہ سچے اور بہتر عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے، محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایک عوامی خاتون ہیں، گزشتہ ادوار میں بھی وزارت کے اہم منصب پر فائز رہ چکی ہیں، اپنے حلقے میں عوامی فلاح و بہبود کے بیشتر منصوبے کامیابی سے مکمل کر چکی ہیں، اب بھی وزارتِ اطلاعات و نشریات کا اہم منصب ان کے پاس ہے، انہیں ہرگز ایسا ڈھونگ رچانا زیب نہیں دیتا، ان کے لئے دعاء اور ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کچھ ایسا کر جائیں جو ان کی نیک نامی کا باعث بن جائے. 
(روزنامہ پاکستان 21 جنوری 2020عہ)