اتوار، 31 جولائی، 2016

’’ملیریا‘‘ انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری قرار


 اگر آپ ایبولا، زیکا، برڈ فلو یا ایڈز کو انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری سمجھتے ہیں تو اپنی غلط فہمی دور کرلیں کیونکہ آسٹریلوی سائنسدانوں نے ’’ملیریا‘‘ کو انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری قرار دیا ہے۔
آسٹریلوی جریدے ’’بزنس انسائیڈر‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ’’ملیریا‘‘ انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے جو عام لوگوں کے علاوہ کئی مشہور ہستیوں تک کو ہلاک کرچکی ہے۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہےکہ اس کرہ ارض پر اب تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ہیں ان میں سے کم و بیش 50 فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انسان اور ملیریا طفیلیے ’’پلازموڈیم‘‘ میں مڈبھیڑ کی تاریخ کم و بیش 2 کروڑ سال پرانی ہے جس کے دوران یہ مرض متعدد بار وبائی شکل اختیار کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں معمول کے حالات میں  بھی ملیریا کی تباہ کاریاں کچھ نہیں رہیں۔ مثلاً 1900 سے 1950 کے دوران صرف ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 10 کروڑ رہی، جو ’’اسپینش فلو‘‘ کی عالمی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے بھی دُگنی ہے۔
انسانی تاریخ کے دوران ملیریا نے بڑے بڑوں تک کو نہیں  بخشا۔ مثلاً چنگیز خان اور اٹیلا ہُن کے لشکروں میں ملیریا کی وبا نے بھیانک تباہی مچائی اور انہیں عرصے تک پیش قدمی سے روکے رکھا۔ جارج واشنگٹن، تھیوڈور روزویلٹ، ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی جیسے مشہور امریکی صدور بھی ملیریا کے باعث بیمار پڑے۔ ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی مشہور تاریخی شخصیات میں 6 عدد پوپ، سکندرِ اعظم اور فرعون توتنخ آمون تک کے نام شامل ہیں۔
1946 میں امریکی ادارے ’’سینٹر فار ڈزیز کنٹرول‘‘ (سی ڈی سی) کا قیام ہی ملیریا پر قابو پانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ تب سے آج تک نت نئی کیڑے مار دواؤں اور ملیریا کی دواؤں کی بدولت اس بیماری پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن آج بھی بیشتر غریب اور پسماندہ ممالک میں اس کی شدت برقرار ہے اور یہ ہر سال 5 لاکھ سے زائد افراد کی جان لے لیتی ہے۔
واضح رہے کہ انوفلیز مچھر کی مادّہ میں ملیریا کا طفیلیہ ’’پلازموڈیم‘‘ پروان چڑھتا ہے اور اسی مادہ مچھر کے کاٹنے سے ملیریا ہوتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ افراد ملیریا میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً 2700 لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

عجیب اور دلچسپ : بھوک اور موت سے جڑی اس تصویر کی کہانی

آپ نے یہ تصویر تو کافی دفعہ دیکھی ہوگی لیکن شائد آپ اس تصویر سے جڑی عجیب و غریب داستان سے واقف نہیں ہوں گے ؟ آئیے اپنے پیج کے دوستوں کو اس کے بارے دوبارہ بتاتے ہیں۔
مارچ1993ء میں کیون کارٹر نے یہ تصویر کھینچی اس تصویر نے انعام بھی جیتا تھا۔یہ تصویر سوڈان میں لی گئی جب وہاں خوراک کا قحط تھا اور اقوام متحدہ کے تحت وہاں وہاں خوراک کے مراکز قائم کیے گئے تھے۔فوٹو گرافر کیون کارٹر کے مطابق وہ ان خوراک کے مراکز کی فوٹو گرافی کرنے جا رہا تھا جب راستے میں اس لڑکے کو دیکھا جو کہ انہی مراکز کی جانب جانے کی کوشش میں تھا لیکن بھوک کمزوری فاقوں کی وجہ سے اس کایہ حال تھا کہ اس سے ایک قدم اٹھانا دوبھر تھا۔آخر یہ لڑکا تھک ہار کر گر گیا اور زمین سے سر لگا دیا۔تصویر میں دیکھیں پیچھے ایک گدھ موجود ہے جو کہ اس انتظار میں ہے کب یہ لڑکا مرے کب میں اسے کھاوں۔بس اسی منظر نے اس تصویر کی تاریخ کو آنسووں سے بھر دیا۔کیون کارٹر نے یہ تصویر نیو یارک ٹائمز کو بیچی اور نیویارک ٹائمز کے مطابق جب انھوں نے یہ تصویر شائع کی تو ایک دن میں ان سے ہزاروں لوگوں نے رابطہ کیا اور اس لڑکے کا انجام جاننا چاہا کہ کیایہ بچ گیا تھا؟لیکن نیو یارک ٹائمز والے خود اس کے انجام سے بے خبر تھے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔فوٹوگرافر کیون کارٹر جس نے یہ سارا منظر کیمرے میں قید کیا وہ اس تصویر کے بعد اکثر اداس رہنے لگا اور ڈپریشن کا مریض بن گیا آخر اس میں موجود منظر نے اس فوٹو گرافر کو اپنی جان لینے پر مجبور کر دیا۔کیون نے تینتیس سال کی عمر میں خود کشی کر لی۔اس کی خود کشی کا طریقہ بھی بہت عجیب تھا۔وہ اپنے گھر کے پاس والے اس میدان میں گیا جہاں وہ بچپن میں کھیلتا تھا اس نے اپنے کار کے سائلنسرمیں ایک ٹیوب فکس کی اور اس ٹیوب کو ڈرائیورنگ سیٹ والی کھڑکی سے کار کے اندر لے آیا تمام کھڑکیاں تمام دروزے لاک کر دیے اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔۔گاڑی میں سائلنسر سے نکلتا ہوا دھواں بھرنا شروع ہوا دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ ہوتی ہے جو کہ جان لیوا ہوتی ہے اسی کاربن مونو آکسائیڈ نے کیون کی جان لے لی۔اس نے جو تحریر چھوڑی اس کا ایک حصہ یہ بھی تھا۔
" درد،بھوک ،اور فاقوں سے مرتے بچوں کی لاشوں کا مجھ پر سایہ ہے."
کچھ لوگوں کے مطابق اس کی موت کی وجہ اس کے ضمیر کی خلش تھی جو اسے دن رات سونے نہیں دیتی تھی ۔جب اسے تصویر کھینچنے کے بعد انعام دیا گیا تو بہت سی تنظیموں نے اس پہ شدید اعتراضات کیئے ۔لوگ اس سے پوچھتے تھے کہ اس نے تصویر تو بنا لی مگر اس نے اس بے بس بچے کو بچانے کے لیئے کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا ۔وہ چاہتا تو اسے بچا بھی سکتا تھا مگر اس نے ایسا کیوں نہ کیا ؟ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اگر اس نے کچھ کیا ہوتا تو یقینا اپنی زبان کھولتا ۔ اسے اس بچے سے زیادہ اپنے فوٹو گرافی کے پیشے سے زیادہ پیار تھا ۔ بس یہی خیالات اسے رات بھر ستاتے رہتے اور وہ چین کی نیند نہیں سو سکتا تھا۔ اور اسی تصویر نے اسے دنیا میں شہرت دی اور یہ ہی تصویر اس کی خودکشی کی وجہ بھی بنی۔
(حکایات اولیاء فیس بک وال سے)

شاعری کی زباں : اس وقت تویوں لگتاہے (فیض احمد فیض)





اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب  نہ   سورج،    نہ اندھیرا    نہ    سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی  چلمن
اور دل  کی  پناہوں  میں  کسی  درد   کا  ڈیرا
ممکن  ہے  کوئی  وہم تھا،  ممکن  ہے سنا ہو
گلیوں میں  کسی  چاپ  کا  اک    آخری پھیرا
شاخوں  میں  خیالوں   کے گھنے پیڑ کی شاید
اب  آ کے  کرے گا  نہ  کوئی   خواب   بسیرا
اک  بَیر،  نہ  اک  مہر،  نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا  کوئی  اپنا،  نہ    پرایا    کوئی      میرا
مانا    کہ یہ  سنسان  گھڑی   سخت کڑی ہے
لیکن  مرے دل  یہ تو  فقط  اک ہی گھڑی ہے
ہمت  کرو   جینے  کو   تو اک عمر پڑی ہے
فیض احمد فیض


طنز و مزاح : اخبار کی فنکاری


محمد اسد

سابق صدر و جنرل پرویز مشرف کے دور میں موصوف اور ان کے اتحادیوں کے جلسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد سے شروع شروع ہم بہت متاثر ہوا کرتے تھے. صدر صاحب کا راولپنڈی میں جلسہ ہو، ق لیگ کا لاہور میں یا کسی دوسری اتحادی جماعت کا ملک کے کسی دوسرے حصہ میں' اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے ہم عوامی طاقت کا عملی مظاہرہ دیکھنے سعادت حاصل کرلیتے تھے. پھر کسی نے 'اندر کی خبر' دی کہ بھئی یہ تو سب کرائے کا مجمع ہوتا ہے. سو دوسو روپے دے کر بندوں کو بلالیا جاتا ہے اور پھر جو چاہو وہ نعرہ لگوالو. ایک پوری سوزوکی بھی کرائے پر لی جاسکتی ہے جس کے ساتھ 10+ 5 کی آفر بھی موجود ہوتی ہے. پھر کیا تھا جناب. . . ہم تو ان لوگوں میں شامل ہوگئے جو حکومت کی بے روزگاری کے خاتمہ کی اس مہم میں بھی کیڑے نکالنے لگے. اور ہمارا اس پر یقین مستحکم ہوگیا کہ جس کے پاس پیسہ زیادہ ہے، اسی کا جلسہ سب سے کامیاب ہے.
بہرحال یہ تو پرانے وقتوں کی بات تھی. پچھلے دنوں ایک واقعہ کے بعد ہماری ان تمام 'غلط فہمیوں' کا صفایہ ہوگیا جو ہم حکمران اتحادی جماعتوں کے جلسے جلوسوں سے منسوب کرچکے تھے. واقعہ کچھ یوں ہوا کہ روزنامہ ایکسپریس میں 6 نومبر 2009ء بروز جمعہ کے اخبار کے بالکل پہلے صفحہ پر موجود تصویر کو دیکھ کر ہم تو دنگ ہی رہ گئے. اس تصویر میں متحدہ قومی موومنٹ کے 'بھرپور عوامی' جلسے سے قائدتحریک جناب الطاف حسین خطاب فرمارہے تھے. لوگوں کی تعداد دیکھ کر تو ہم 'عش عش' کر اٹھے. لیکن برا ہو اس آنکھ کا جو گرافک ڈیزائننگ کا کمال بھانپ گئی. تصویر کو ذرا دائیں بائیں کر کے دیکھا لیکن کچھ نظر نہیں آیا. جب اوپر نیچے کا موازنہ کیا تو کچھ کچھ نظر آہی گیا. اب ذرا آپ بھی تصویر کا بغور معائنہ کریں اور اس دال میں موجود کالے کی نشاندہی کریں.
mqm-skardo-sml
اگر بہت غور و خوص کے بعد بھی 'کمال' نظر نہ آئے تو پھر یہاں کلک کر کےگرافک ڈیزائننگ کا کمال دیکھ لیں. اب آپ اس تصویر کے متعلق جو مطلب اخذ کریں وہ اپنی جگہ. ہم تو جناب یہ بات بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ آج کل ہونے والے جلسوں کے متعلق ہمارے خیالات بوسیدہ ہوچکے ہیں. کیوں کہ اب تو کرائے کے پٹواری کی جگہ 'اخبار کی فنکاری' نے لے لی ہے.
(بلاعنوان سے)

عجیب اور دلچسپ : ڈرون


فائزہ نذیر احمد
دنیا بھر میں اب بھی درجنوں ممالک ایسے ہیں جو بارودی سرنگوں سے آلودہ ہیں۔ بارودی سرنگوں کے خاتمے کی مہم جاری ہے تاہم اس مہلک ہتھیار کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔ افریقی ملک سوڈان دنیا کا بارودی سرنگوں سے سب سے زیادہ آلودہ ملک ہے۔ سوڈان کی 17 میں سے دس ریاستیں اس ناسور کا شکار ہیں۔ مشرقی سوڈان، کورڈوفان اور النیل الازرق کے علاقے دھماکہ خیز مواد کے زیر زمین باقیات سے بھرے ہوئے ہیں۔ بارودی سرنگوں کا شکار ہونے والے یا تو جان سے جاتے ہیں یا پھر کسی نا کسی جسمانی عضو سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کیا وقت کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگیں ناکارہ ہو جاتی ہیں؟ اس سوال کا جواب جرمن ماہر یوں دیتے ہیں ، ’’ہوتا بالکل اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی قسم کی بارودی سرنگ ہو اس کا ایک حصہ دھماکہ خیز مواد TNT یا آر ڈی ایکس پر مْشتمل ہوتا ہے۔ یہ دھماکہ خیز مواد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی لچک کھو دیتا ہے۔ اس طرح یہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایک معمولی سی رگڑ دھماکے کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح بارودی سرنگ 80 سے90 سال تک زیر زمین کارآمد رہ سکتی ہے اور اس کے خطرات باقی رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال فرانس میں وردون کا مقام ہے جو پہلی عالمی جنگ کا ایک میدان ہے۔ وہاں موجود بارودی سرنگوں کے ڈیٹونیٹر اب زنگ آلود ہو گئے ہیں تب بھی فعال ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہاں کسی بھی وقت دھماکہ ہو۔‘‘ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں بارودی سرنگوں کا جال اب بھی پھیلا ہوا ہے۔ کئی برسوں سے جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں کام کرنے والے ایک ادارے مائین ایکشن سینٹر کی گزشتہ برس سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں، ہر ماہ اوسطاً 45 افراد، بارودی سرنگوں کے پھٹنے کی وجہ سے ہلاک یا مستقل جسمانی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔اپنے ملک کو اس مصیبت سے نجات دینے کے لیے دو افغان بھائیوں مسعود اور محمود حسنی نے گیند کی شکل کی ایجاد سے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا جو زمین میں دبی بارودوی سرنگوں کو تلاش اور انہیں تباہ کر سکتی تھی۔ اب ان بھائیوں نے ایک اور کامیابی حاصل کی ہے۔ اس وقت یہ دونوں بھائی ہالینڈ میں رہتے ہیں۔ ان کی تازہ ترین ایجاد کم لاگت والا ایک ڈرون ہے جو بارودی سرنگوں کا نہ صرف کھوج لگا سکتا ہے بلکہ ہر سال ہزاروں انسانوں کی جانیں لینے والے اس خطرناک ہتھیار کو تباہ بھی کر سکتا ہے۔ مسعود اور محمود نے 2013ء اپنی ایجاد کی بدولت جسے انہوں نے ’مائن کافون‘ کا نام دیا تھا، پوری دنیا میں شہرت حاصل کی تھی۔ یہ دراصل ایک بہت بڑی گیند کی شکل کی ڈیوائس ہے اور جو ہوا کے زور پر حرکت کر سکتی ہے اور اس دوران زمین میں بچھی بارودی سرنگوں کا کھوج لگا سکتی ہے۔بارودی سرنگیں تلاش کرنے والی ان کی نئی ڈیوائس میں دراصل ڈرون ٹیکنالوجی، تھری ڈی پرنٹنگ اور روبوٹکس کو جمع کر دیا گیا ہے جس میں ایک میٹل ڈیٹیکٹر یعنی دھاتوں کا پتہ لگانے والے آلے سے بارودی سرنگوں کا کھوج لگا کر انہیں تباہ کیا جا سکتا ہے۔مسعود اور محمود حسنی نے تین برس قبل گیند کی شکل کی اس ایجاد سے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا جو زمین میں دبی بارودوی سرنگوں کو تلاش اور انہیں تباہ کر سکتی تھی۔ چھ بازوؤں والے ڈرون پر لگے پنکھے ساڑھے چار کلو وزن کو اڑا لے جانے کی طاقت رکھتے ہیں جبکہ ڈرون کی باڈی پر سخت پلاسٹک سے بنی کیسنگ میں بیٹریاں، کمپیوٹر اور ایک گلوبل پوزیشنگ سسٹم نصب ہے۔ ڈرون کے مرکزی حصے کے نیچے ایک روبوٹک آرم یا بازو ہے جس کے نچلے حصے پر چمٹیوں یا موچنیوں کی شکل کی ڈیوائسز کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ چمٹیاں میٹل ڈیٹیکٹر اور کم مقدار میں دھماکا خیز مواد پکڑ سکتی ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر سے زمین میں نصب بارودی سرنگ کا پتہ لگانے کے بعد اس بارود کے ذریعے چھوٹا سا دھماکا کر کے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ جی پی ایس سسٹم کی بدولت اس کی پرواز کے راستے کو کمپیوٹر کے ذریعے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈرون تین مرحلوں میں کام کرتا ہے، یعنی علاقے کا نقشہ یا میپنگ، بارودی سرنگوں کا کھوج لگانا اور پھر انہیں تباہ کرنا۔ جب بارودی سرنگ تباہ ہو جاتی ہے تو پھر ایک تھری میپنگ سسٹم اْس علاقے کو اسکین کرتا ہے جسے کمپیوٹر ریکارڈ میں بارودی سرنگوں سے پاک قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پہلے سے پروگرام کردہ راستے پر میٹل ڈیٹٹیکٹر کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے یہ ڈرون اس سارے حصے کا اچھی طرح جائزہ لیتا ہے۔

نئے وزیراعلیٰ کی ضرورت کیوں؟


الیاس شاکر
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔
الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ پولیس کی سربراہی میں اسد کھرل کو رہا کروا لیا گیا۔ اس کے بعد سندھ حکومت کو پیغام بھیجا گیا کہ اپنے وزیرداخلہ کو فوری طور پر تبدیل کردو، لیکن یہ بات ''وڈیرہ شاہی‘‘ کو اچھی نہ لگی۔ ان کی شان و شوکت نے اس مشورے کو تسلیم نہ کیا۔ ٹال مٹول شروع ہوگئی۔ رینجرز کے اختیارات کی تاریخ میں اضافے کا ہلکا پھلکا تنازع دوبارہ پیدا ہوا۔ وزیر اعلیٰ کور کمانڈر سے ملاقات کے لئے گئے تو ان کے ہمراہ وزیرداخلہ بھی تھے، کور کمانڈر نے ان کے لئے گرم جوشی کا مظاہرہ نہ کیا۔ وزیرداخلہ ہاتھ بھی نہ ملاسکے۔ اس طرز عمل کو پہلے سندھ حکومت اور جلد ہی دبئی میں بیٹھے ہوئے ''سندھ کے حقیقی حکمران‘‘سمجھ گئے۔ فیصلہ ہوا کہ وزیرداخلہ کو معزول کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ کو ہی فارغ کردیا جائے، اس طرح وزیرداخلہ سہیل انور سیال بھی خود بخود وزارت سے ہٹ جائیں گے اور فریال تالپور کے لئے شرمندگی کا کوئی موقع بھی پیدا نہیں ہوگا۔
ڈیڑھ سال سے بلاول بھٹو زرداری کی خواہش تھی کہ مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ جس وقت بلاول بھٹو نے ان کا نام پیش کیا تھا تو ان دنوں آصف علی زرداری کا خیال تھا کہ بلاول بھٹو ابھی سندھ کے ''سیاسی تالاب‘‘ میں کم تجربہ کار ہے۔ وہ سب کو جانتا اور سمجھتا نہیں ہے۔ لیکن اب بلاول بھٹو سب کو پہچان گیا ہے، سیکھ گیا ہے، سب کی'' قیمت اور طاقت ‘‘کا بھی اسے اندازہ ہوگیا ہے۔ دبئی اجلاس سے قبل بلاول بھٹو نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا تھا جس میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ، مراد علی شاہ، وزیرداخلہ اور کابینہ کے دیگر ارکان موجود تھے۔ اجلاس میں رینجرز کے اختیارات کا معاملہ بھی اٹھا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ میں نے فائل دیکھی ہے، اس کے مطابق سندھ حکومت نے رینجرز کو صرف کراچی میں شہری انتظامیہ کی مدد کے لئے بلایا ہے۔ سندھ میں لاء اینڈ آرڈر کا ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے کہ پولیس اس پر قابو نہ پا سکے۔ پتا نہیں آپ لوگ، خاص طور پر قائم علی شاہ صاحب رینجرز کی کیوں اتنی تعریف کر رہے ہیں۔ بلاول صاحب نے کہا کہ سندھ حکومت نے اندرون سندھ کے لئے رینجرز کو کبھی پاورز نہیں دیں۔ اس میٹنگ میں بلاول بھٹو نے ایک تلخ جملہ ٹھنڈے لہجے میں بولا۔ سمجھنے والے سمجھ گئے کہ بات اتنی آسان نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے اچانک سوال کیا: آپ لوگ رینجرزکی بہت تعریف کر رہے ہیں، کیا آپ لوگ ان کے ساتھ ہیں یا سندھ حکومت کے ساتھ؟اس پر سناٹا چھاگیا اور فیصلہ ہوا کہ دبئی چلتے ہیں اور ''بڑے صاحب‘‘ سے مشورہ کرتے ہیں۔چنانچہ سب نے دبئی جانے کی تیاری شروع کردی۔ 
دبئی کے اجلاس میں زرداری صاحب نے ایک بڑے ڈرامے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے سندھ حکومت کے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ سنایا اور بلاول بھٹو کو موقع دیا کہ وہ اپنے کھلاڑی (مراد علی شاہ) کو میدان میں لے آئیں اور چپکے چپکے اسٹیبلشمنٹ کا یہ مشورہ بھی مان لیا کہ وزیرداخلہ کو کابینہ سے خارج کرو۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوا جیسے ایک ٹیسٹ میچ میں پھنسی ہوئی ٹیم بارش کا فائدہ اٹھا کر''میچ ڈرا ‘‘ کرنے کا اعلان کرتی ہے اور ناکامی کی شرمندگی سے بچ جاتی ہے۔ 
آصف زرداری نے سندھ کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے اعلان کی آڑ میں اپنی یہ بات بھی خاموشی سے منوالی کہ رینجرز کو اختیارات کراچی تک دیے جائیں گے اور رینجرزکو ان کے آبائی علاقوں اور حلقہ انتخاب میں بنائے گئے سیٹ اپ میں مداخلت کرنے کا موقع نہیں دیاجائے گا، رینجرز کراچی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں۔ سندھ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ان کی موروثی ریاست میں کوئی مداخلت ہو اور کوئی آکر جاگیرداروں کی طاقت کو چیلنج کرے۔ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے بعد یہ سوالات بھی پیدا ہوگئے کہ اپیکس کمیٹی کا کیپٹن (سربراہ) کون ہوگا؟ اسے رینجرز کے معاملات کو سمجھنے میں کتنے دن لگیں گے۔ نیا وزیرداخلہ کون ہوگا؟ اور اس کے رینجرز سے معاملات کس طرح چلیں گے؟ نیا وزیراعلیٰ کراچی کے اردو بولنے والوں کے ساتھ کیسا برتائو کرے گا؟ کیا وہ انہیں کابینہ میں شامل کرے گا یا قائم علی شاہ کی طرح سو فیصد سندھی حکومت تشکیل دے گا؟ بہت سارے سوالات ہیں جن سے نئے وزیراعلیٰ کو نمٹنا ہے، سمجھنا ہے اور ایک نئی بنیاد ڈالنی ہے ۔ لیکن ایک آخری بات۔۔۔۔ اسلام آباد میں غیب کا علم جاننے والوں اور ''فرشتوں‘‘ سے رفاقت کی شہرت رکھنے والوں کو زرداری صاحب نے قائم علی شاہ کو قربانی کا بکرا بناکر مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ وہ کہتے تھے''سندھ حکومت جلد جانے والی ہے‘‘۔ اس تبدیلی کے بعد ان کو ''گورنر راج ٹائپ‘‘ کا کوئی ایکشن لینے میں وقت نہیں لگے گا؟ یا انڈہ آملیٹ فوراً تیار ہو جائے گا؟
(روزنامہ دنیا)

گھریلو چٹکلے اور مشورے : شہد کے گھریلو چٹکلے 




شہد کو ایک مفید غذا اور دوا کے طور پر صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پیغمبر اسلام سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث‌میں بھی اسکے خصائص بیان ہوئے ہیں۔
شہد ایک نہایت موثر قدرتی عطیہ ہے جو تقریبا تمام امراض کے لئے ذریعہ شفا ہے۔ شہد کو کسی بھی قسم کے منفی اثرات (Side effects) کے ڈر کے بغیر پورے اطمینان سے کسی بھی قسم کی بیماری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تھکان
اگر آپ تھک تھکا کر نڈھال ہو چکے ہوں تو شہد آپ کی تھکان دور کرنے میں ایک اچھا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ بڑی عمر کے افراد اگر صبح نہار منہ، منہ دھو کر یا رات سونے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ میں 2 چمچے شہد ڈال کر پینے سے چند ہفتوں میں زائل ہوتی ہوئی توانائی بحال ہو جائے گی اور جسمانی قوت اور طاقت میں بہتری سامنے آتی ہے جو ہر عمر کے افراد کے لئے لازمی چیز ہے۔
امراض قلب
شہد اور دارچینی کے پاؤڈر کو ملا کر پیسٹ بنالیں اور اسے ڈبل روٹی کے توسٹ پر لگائیے۔ جام جیلی کی جگہ اسے استعمال کرکے دیکھئیے۔ آپ کی شریانوں میں جمنے والے کولیسٹرول کو نکال باہر کرے گا اور یوں آپ کو دل کے دورے سے محفوظ کر دے گا ۔ یہاں تک کہ جو لوگ پہلے دورہ قلب کا شکار ہو چکے ہیں وہ اس نسخے پر مستقل طور پر عمل درآمد کریں تو اگلے دورے سے بہت زیادہ محفوظ ہو جائیں گے۔
بد ہضمی
دو بڑے کھانے کے چمچے شہد میں کسی قدر دار چینی کاپاوڈر چھڑک کر کھائیے اور پھر کھانے کے ساتھ بھر پور انصاف کریں۔ تکلیف دہ تیزابیت ختم ہو کر بھوک کھل کر لگے گی اور پھر آپ کا معدہ، لکڑ ہضم، پتھر ہضم قسم کا ہو جائے گا ۔
کھانسی
ہلکی کھانسی کے لیے ایک چمچ شہد میں‌ پسی ہوئی کالی مرچ چھڑک کر کھانے اور اسکے بعد ایک گلاس نیم گرم پانی پینے سے کھانسی ٹھیک ہوجائے گی۔
گلے کی خارش اور سخت کھانسی :
سخت کھانسی اور گلے میں خارش کے لیے ناشتے سے پہلے 2 چمچ ادرک کا رس، 1 چمچ شہد ڈال کر مائیکروویو میں 30سیکنڈ گرم کرکے چمچ سے کھائیں۔ افاقہ ہوگا۔
خون میں گرمی :
صبح نہار منہ ایک گلاس ٹھنڈے پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر پینے سے خون اور معدے کی گرمی ختم ہوجاتی ہے۔
گیس ٹربل :
جاپان اور بھارت میں کی جانے والی تحقیق و تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ شہد میں دار چینی کا پاوڈر ملا کر استعمال کرنے سے گیس ٹربل مرض سے مکمل نجات ممکن ہے۔
--------------------------------------
Radionics Computer, Quantum Analyzer in Pakistan

زندہ تحریریں : سیرت النبی ﷺ اور غیر مسلم سیرت نگار


نبی کریم ﷺ کی ذاتِ والا صفات سے محبت اور نسبت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے۔ بڑے بڑے صاحبِ ایمان اور بزرگ ترین لوگ تو ان ﷺ سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں، میرے جیسے نیچ ذات بھی ان ﷺ کے قدموں کی خاک بننے کے تمنائی ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے نبی سائیں ﷺ کا وجود سیاہ رات میں چودھویں کے چاند جیسا ہے۔ وہ ﷺ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ انسانوں میں ان ﷺ سے بلند مرتبہ کسی کا نہ ہوا اور نہ ہو گا۔ ان ﷺ کی ذات کی نسبت سے ہماری نسبت اللہ سائیں کے ساتھ طے ہوتی ہے۔ وہ ﷺ کہتے ہیں کہ رب ایک ہے تو ہم مانتے ہیں کہ رب ایک ہے۔ وہ ﷺ کہتے ہیں کہ رب یہ فرماتا ہے تو ہم مانتے ہیں کہ رب یہ فرماتا ہے۔ ہم اللہ کو رب اس لیے مانتے ہیں کہ محمد الرسول اللہ ﷺ نے ایسا کہا۔ وہ ہمارے سالارِ قافلہ ہیں، ان ﷺ کا کہا ہمارا جزوِ ایمان۔ انہوں ﷺ  نے کہا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو ہم مانتے ہیں کہ قرآن اللہ ہی کا کلام ہے۔

محمد الرسول اللہ ﷺ کی سیرت لکھنے کا باسعادت کام بہت سے علماء نے سرانجام دیا۔ اور آج بھی یہ کام جاری و ساری ہے۔ ان ﷺ کے زندگی کو پڑھنا، ان کے حالات کو جاننا ہمیں ان ﷺ کی پیروی کرنے، ان جیسا بننے کی کوشش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سیرت الرسول ﷺ ایسا بابرکت شعبہ ہے کہ اسلامی تواریخ میں باقاعدہ ایک اہم ترین صنف بن کر ابھرا۔ لیکن سیرت الرسول ﷺ پر صرف مسلم علماء نے ہی نہیں، غیر مسلموں نے بھی بے تحاشا کام کیا۔ بحیثیت قاری میں نے سیرت النبی ﷺ کی ایک آدھ کتاب کا ہی مطالعہ کیا ہو گا۔ لیکن اپنے مشاہدے اور کتب سیرت بارے مطالعہ سے یہ بات ضرور جانتا ہوں کہ مسلمان مصنفین سیرت النبی ﷺ لکھتے ہوئے ایک خاص تقدس اور احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ ان کا یہ طرزِ عمل عین درست ہے چونکہ انہوں نے جن قارئین کے لیے یہ لکھنا ہے وہ بھی حبِ رسول ﷺ کے دعوے دار ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کو جاننا ہو تو کسی نسبتاً دیانت دار اور غیر جانبدار مستشرق کی لکھی ہوئی سیرت بھی پڑھی جائے۔ چونکہ ایسا مصنف ایک مختلف پسِ منظر سے آتا ہے، وہ نبی کریم ﷺ کی ذات کو اپنے مذہبی، سماجی اور ثقافتی آئینے میں دیکھتا ہے، اپنی تہذیب اور روایات کی روشنی میں پرکھتا ہے، اس طرح ہمارے سامنے نبی ﷺ کی ذات کے وہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو مسلم مصنفین عقیدت و احترام اور مانوسیت کی وجہ سے نظر انداز کر جاتے ہیں۔ نبی ﷺ کی ذات والا صفات بارے کسی غیر مسلم کی تحریر ہمیشہ مجھے کشش کرتی ہے۔ جب کوئی ایسا مصنف چاہے ان ﷺ کو نبی اور رسول نہ بھی مانے، لیکن جب وہ ان ﷺ کے کردار، اخلاق اور اعلٰی انسانی صفات کا اقرار کرتا ہے تو اس سے میرا ایمان ان ﷺ کی ذات پر اور بڑھ جاتا ہے کہ وہ واقعی بہترین اخلاق کے مالک تھے۔

میں اپنے قارئین سے بھی درخواست کروں گا کہ نبی ﷺ کی سیرت پڑھنی ہو تو کم از کم کسی ایک غیر مسلم مصنف کی سیرت ضرور پڑھیں۔ ہاں یہ خیال کر لیں کہ مصنف مناسب حد تک دیانت دارانہ رائے دینے کے لیے معروف ہے، چونکہ بعض مستشرقین انتہائی منفی رجحان بھی رکھتے ہیں۔ اس سے فائدہ ہو گا کہ ہمارے علماء اور مصنفین کی تحریر کردہ کتب سیرت سے جو مانوسیت اور تقدس کا ہالا بن جاتا ہے، اس کے پار ایک تیسری آنکھ سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اور کچھ ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جن سے نبی ﷺ کو بطور انسان جاننے میں کچھ مدد ملتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حمید اللہ کی کتب جو انہوں نے غیر مسلموں سے نبی ﷺ کا تعارف کروانے کے لیے لکھیں بھی قابلِ توجہ ہیں۔ اگرچہ مجھے ان میں سے کوئی بھی کتاب پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایک داعی کے نقطہ نظر سے وہ کتب لکھیں، اس لیے ان کے قارئین غیر مسلم تھے۔ چنانچہ ان سے ہمیں نبی ﷺ کو ایک اور انداز میں جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی حوالے سے ایک برطانوی یہودی مصنفہ لیزلی ہیزلیٹن کی سیرت النبی ﷺ پر کتاب دی فرسٹ مسلم بھی قابلِ توجہ ہے۔ مصنفہ معقول حد تک غیر جانبداری سے نبی ﷺ کی زندگی کے واقعات بیان کرتی ہے۔ اور آج کل مجھے اس کتاب کا اردو ترجمہ 'اول المسلمین' ایک دوست بلاگر برادرم عمر احمد بنگش کے توسط سے پڑھنے کو مل رہا ہے۔ ماشاءاللہ ان کی ترجمے کی صلاحیتیں بھی قابلِ داد ہیں، لیکن اصل خوشی یہ ہو رہی ہے کہ ایک غیر مسلم مصنفہ بھی نبی ﷺ پر لکھے تو ان کے اعلٰی کردار اور اخلاق کی تعریف پر خود کو مجبور پاتی ہے۔ نیز اس کا اندازِ تحریر، جو یقیناً ہمارے ہاں لکھی گئی کتب سیرت سے قطعاً مختلف نوعیت کا ہے، مجھے نبی ﷺ اور اس وقت کے عرب سماج کو سمجھنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس کے لیے میں مصنفہ اور مترجم ہر دو کا شکر گزار ہوں۔ آپ احباب سے بھی گزارش ہے کہ نبی ﷺ کی سیرت ویسے تو ہمارے نصاب کا لازمی حصہ ہے، لیکن خود بھی دو تین کتب سیرت ضرور پڑھیں۔ اور ان میں سے کم از کم ایک کسی غیر مسلم مصنف کی تحریر کردہ ہو تاکہ آپ کو نبی ﷺ کے کردار، اعلٰی اخلاق اور بحیثیت انسان ان کی عظمت کا احساس ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہو سکے۔
(آواز دوست سے)

میرے بچے اور کمائی‘ خود اغوا ہوئے


نذیر ناجی
ہمارے تو وزیر اعظم کئی کئی دن لاپتہ رہتے ہیں۔ ہم گمشدہ بچوں کے بارے میں کیا بات کریں؟ میڈیا والے‘
 پولیس کو گمشدگیوں کا ذمے دار قرار دے کر‘ اس پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرتے ہیں۔کسی پر تہمت لگانے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ کیا وہ شخص یا ادارہ‘ ان واقعات کا ذمے دار بھی ہے؟ جس کی بنیاد پر پولیس کو ہر کوئی ذمہ دار ٹھہرا دیتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے پولیس کے بنیادی فرائض یہ ہیں کہ وی آئی پیز کی حفاظت کرے۔ انہیں اغوا کنندگان سے بچائے۔ ان کے ساتھ کوئی شرارت نہ کر پائے۔ چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھے۔ عوام میں کئی سرپھرے‘ وی آئی پیزکو دیکھتے ہی اپنا گلا درست کر کے ان کے خلاف بلا وجہ نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو کام وی آئی پیز کی ذمے داریوں میں شامل نہیں‘ اس کے حوالے سے الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ سبزی مہنگی ہو تو ذمے دار‘ وی آئی پی۔آٹا مہنگا ہو تو ذمے دار‘ وی آئی پی ۔ خواتین کا میک اپ خراب ہو جائے تو ذمے دار وی آئی پی۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ علما کرام پر بھی ایسے الزامات لگانے لگے ہیں۔ مفتی عبدالقوی کو ہی دیکھ لیں۔ کیا میڈیا والوں کو زیب دیتا تھا کہ ایسے پا ک باز انسان پر بے ہودہ الزام لگائے جاتے۔ ایک زمانہ تھا کہ مفتی صاحب کے حجرے سے کوئی خوب صورت ماڈل برآمد ہو بھی جاتی تو عقیدت مند یہی سمجھتے کہ مفتی صاحب‘ برآمد ہونے والی ماڈل کو نیک چلنی کا سبق دے رہے ہوں گے۔ پردے کی اہمیت سمجھا رہے ہوں گے۔ بندوں کے حقوق جتلا رہے ہوں گے۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ماڈل کو گناہ سے تائب ہونے پر مائل کیا اور وہ‘ مفتی صاحب کے حجرے میں پہنچ کر ان سے دعا کی طالب ہوئی کہ اس کے حق میں دعا کریں ۔وہ گناہ کا راستہ ترک کر کے‘ اچھی زندگی گزارنا شروع کر دے۔ غالباً مفتی صاحب ہی کی ہدایت اور رہنمائی کی برکت تھی کہ مذکورہ ماڈل نے اپنے خاندان کی طرف رجوع کیا‘ لیکن اس کے بھائی ایسے بے ہدایت نکلے کہ اپنی بہن ہی کی جان لینے کے درپے ہو گئے۔ سزا کے حق دار مرحومہ کے بھائی قرار پائیں گے کیونکہ مرحومہ نے بری زندگی چھوڑ کے‘ اچھی زندگی کے لئے‘ خدا کے ایک نیک بندے کی طرف رجوع کیا ۔ا س کہانی سے استفادہ کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس میںپوشیدہ سبق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ 
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پولیس والوں کا کام ہی‘ وی آئی پیز کی حفاظت کرنا ہے۔ انہیں بے راہ روی سے بچانا ہے۔ان پر نظر رکھنا ہے کہ وہ محافظوں سے نظر بچا کر‘مفتی عبدالقوی کی طرح نہ دھر لئے جائیں۔پولیس کی ڈیوٹی ‘خدا کی طرف سے بندوں کی کڑی آزمائش ہے۔ لیکن میڈیا انہیں نیکی اور پاک بازی کے راستے پر چلنے نہیں دیتا۔ بچے ناراض ہو کر یا آوارگی کا راستہ اختیار کر کے‘ خود گھروں سے بھاگتے ہیں اور الزام پولیس پر لگا دیا جاتا ہے کہ وہ ان بچوں کو تلاش نہیں کرتی۔ میرے ذہن میں برے برے خیالات آرہے ہیں۔ فرض کیا مفتی صاحب کی حفاظت کرنے اور ان پر نظر رکھنے کے لئے پولیس کی ایک گارد کی ڈیوٹی لگائی جائے اور گارد کے جوان‘ اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے‘ مفتی صاحب کے تخلیے میں جا دھمکیں تو ان پر کیسی کیسی تہمتیں لگائی جاتیں؟ حالانکہ وہ بیچارے فرض کے ہاتھوں مجبور ہو کر‘اپنی خواہش کے خلاف مفتی صاحب پر ''نظر ‘‘ رکھنے کا فرض ادا کرنے کی غرض سے اس کمرے میں گئے تھے۔ ہم اپنی پولیس کو جانتے ہیں۔ نیکی کا راستہ بار بار اس کے سامنے آتا ہے مگر کیا مجال ہے کہ پولیس والے ‘اس راستے پر قدم رکھیں۔بچوں کے اغوا کے واقعات کتنے دردناک اور تکلیف دہ ہیں؟ پولیس چاہے تو بچے کواغوا کرنے والے بدمعاشوں سے‘ چند ہی دنوں میں بازیاب کرا کے‘ انہیں والدین تک پہنچا سکتی ہے۔ آپ نے متعدد پولیس افسروں کے بیانات میں فرض شناسی کا جذبہ دیکھا ہو گا۔آج ہی ایک فرض شناس پولیس افسر کا یہ بیان دیکھنے میں آیا کہ ایک باپ مبینہ طور پر اپنے اغوا شدہ بچے کو ڈھونڈتا ہوا پولیس کے پاس پہنچا۔ پولیس اسے تھانے کے اندر ''خاطر مدارات‘‘ کے لئے مخصوص کمرے میں لے گئی۔اس کمرے کے اندر ‘حواس باختہ باپ کی ''اصلاح‘‘ کی گئی اور کمرے سے باہر نکلتے ہی وہ باپ یہ کہتا ہواپایا گیا کہ '' میرا بچہ خود ناراض ہو کر گھر سے بھاگا ہے‘‘۔پولیس افسر نے ‘حواس باختہ باپ کا یہ بیان اپنی نگرانی میں میڈیا کے سامنے پیش کیا اور ثابت کر دیا کہ اگراغوا شدہ بچے کا باپ‘ اپنے منہ سے یہ کہہ دے کہ وہ ناراض ہو کر گھر سے بھاگا ہے تو سارے مسائل ختم ہو گئے۔ پولیس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔اگر قارئین میں سے کسی کو اس باپ کی حالت دیکھنے کا موقع ملا ہو‘ جو بدحواسی کے عالم میں یہ کہہ رہا تھا کہ'' مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ میرا سر چکرا رہا ہے۔میرا بیٹا ناراض ہو کر‘ خود ہی گھر سے چلا گیا تھا‘‘۔گویا باپ اقرار کر رہا تھا کہ میرا بچہ گھر سے ناراض ہو کر نکلا تھا۔ خدا اسے خود ہی بازیاب کر دے گا۔ خدا ہمیشہ پولیس والوں کی مدد کرتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں میں جتنے بھی لیڈر‘ قائدین اور رہنما‘ ہمارے سامنے زندہ سلامت پھر رہے ہیں۔ یہ صرف پولیس والوں کی مہربانی ہے اور پولیس والوں پر خدا کا کرم ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں‘ نہایت خلوص نیت کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ اپنے فرائض نبھا رہے ہیںاور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام ان لیڈروں کے لئے کیا کیا دعائیں کر رہے ہیں؟شاید پولیس والے یہ سوچتے ہوں کہ عوام اپنے لیڈروں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام کے جس جس محبوب لیڈر نے جتنی دولت بھی کمائی ہے‘ وہ حریص اور لالچی پاکستانیوں کے برے ارادوں سے بچی رہے۔ کوئی اس پر ہاتھ نہ مارے۔ کوئی اسے لوٹ نہ پائے۔ہمارے ارباب اقتدار اگر پاناما جیسے دور افتادہ مقامات پر عوام کی دولت ‘ان سے چھین کر محفوظ نہ کریں‘ تو پاکستان کنگال ہو جائے۔ حکومت پاکستان نے کرپٹ رہنمائوں کے لئے‘ ایسے ایسے قوانین بنا دئیے ہیں کہ جو رہنما کرپشن کے ذریعے جتنی زیادہ دولت جمع کرتا ہے‘ اسے اتنا ہی تحفظ دیا جاتا ہے۔ہمارے جو ادارے ناجائز دولت کمانے والوں کو پکڑنے پر مامور ہیں‘ اگر انہیں یہ شکایت ملے کہ فلاں شخص نے ناجائز دولت جمع کی ہے اور ادارے کے افسران یہ رپورٹ لکھ دیں کہ گرفت میں آیا ہوا شخص‘ بے گناہ ہے تو قوم کو ڈانٹ کر بتایا جاتا ہے کہ ہم نے اسے ایک مرتبہ بے گناہ قرار دے دیا ہے۔ اب کوئی بد زبان اس پر الزام نہ لگائے۔ اس کے پاس جتنی بھی دولت ہے‘ آئندہ ہم اس کی حفاظت کریں گے اور سچی بات ہے کہ وہ قول کے پکے ہیں۔ اختیارات اور اتھارٹی رکھنے والے کتنے لوگوں نے کرپشن کر کے‘ اتنی دولت جمع کی ہے ‘ وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئی۔دنیا میں بڑے بڑے دولت مندوں نے مل کر جو قواعد و ضوابط طے کئے ہیں ‘ ان کے تحت جتنی بھی ناجائز دولت یکجا کر کے‘ مشترکہ تحفظ میں دے دی گئی ہے ‘ اسے وہ شخص زندگی بھر آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا‘ جس سے یہ چھینی گئی ۔پاکستان میں جتنے لوگوں سے لوٹ کر یہ دولت جمع کی گئی‘ ان کی اکثریت دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔سانس پھولی ہوئی ہے۔ پسلیوں کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ ایسی دولت پاکستان کے پندرہ بیس خاندانوں کے پاس ہو گی۔اس کی حفاظت کا انتہائی تسلی بخش نظام بنا دیا گیا ہے۔اپنی اغوا شدہ کمائی اور اغوا شدہ بچوں کو‘ بے چارگی کے عالم میں ڈھونڈنے والے غریب پاکستانیوں کے پاس ‘ایک ہی راستہ ہے کہ مدد کے لئے پولیس کے پاس جائیں اور پولیس ان سے یہ بیان دلوائے کہ '' میرا بچہ ناراض ہو کر گھر سے بھاگا ہے اور میرا پیسہ‘ میری جیب سے اچھل کر‘ حکمرانوں کے قدموں میں گرا ہے۔ یہاں میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ میرے بچے بھی اور خون پسینے کی کمائی بھی‘‘۔ 
(روزنامہ دنیا)

سبق آموز باتیں : ‏ایک‬ راز




بہت عرصہ مجھے اس راز کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ ‫ماں‬ کو میرے آنے کی خبر کیسے ہو جاتی ہے۔ میں سکول سے آتا تو دستک دینے سے پہلے دروازہ کھل جاتا۔ کالج سے آتا تو دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ نظر آ جاتا۔
وہ پیار بھری مسکراہٹ سے میرا استقبال کرتی، دعائیں دیتی اور پھر میں صحن میں اینٹوں سے بنے چولہے کے قریب بیٹھ جاتا۔
ماں گرما گرم روٹی بناتی اور میں مزے سے کھاتا ۔
جب میرا پسندیدہ کھانا پکا ہوتا تو ماں کہتی چلو مقابلہ کریں۔
یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا تھا۔
ماں روٹی چنگیر میں رکھتی اور کہتی اب دیکھتے ہیں کہ پہلے میں دوسری روٹی پکاتی ہوں یا تم اسے ختم کرتے ہو۔ ماں کچھ اس طرح روٹی پکاتی ... ادھر آخری نوالہ میرے منہ میں جاتا اور ادھر تازہ تازہ اور گرما گرم روٹی توے سے اتر کر میری پلیٹ میں آجاتی۔
یوں میں تین چار روٹیاں کھا جاتا۔
لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ فتح کس کی ہوئی!
ہمارے گھر کے کچھ اصول تھے۔ سب ان پر عمل کرتے تھے۔
ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے لاھور میں ایک اخبار میں ملازمت ایسی ملی کہ میں رات گئے گھر آتا تھا۔
ماں کا مگر وہ ہی معمول رہا۔
میں فجر کے وقت بھی اگر گھر آیا تو دروازہ خود کھولنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی۔
لیٹ ہو جانے پر کوشش ہوتی تھی کہ میں خاموشی سے دروازہ کھول لوں تاکہ ماں کی نیند خراب نہ ہو لیکن میں ادھر چابی جیب سے نکالتا، ادھر دروازہ کھل جاتا۔
میں ماں سے پوچھتا تھا.... آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں آ گیا ہوں؟
وہ ہنس کے کہتی مجھے تیری خوشبو آ جاتی ہے۔
پھر ایک دن ماں دنیا سے چلی گئی !
ماں کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں گھر لیٹ پہنچا، بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑا رہا، پھر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھٹکٹایا۔ کچھ دیر انتظار کیا اور جواب نہ ملنے پر دوبارہ دستک دی۔ پھر گلی میں دروازے کے قریب اینٹوں سے بنی دہلیز پر بیٹھ گیا۔
سوچوں میں گم نجانے میں کب تک دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتہ نہیں میری آنکھ کب لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ مسجد سےاذان سنائی دی، کچھ دیر بعد سامنے والے گھر سے امّی کی سہیلی نے دروازہ کھولا۔ وہ تڑپ کر باہر آئیں۔
انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی پتر! تیری ماں گلی کی جانب کھلنے والی تمہارے کمرے کی کھڑکی سے گھنٹوں جھانکتی رہتی تھی۔ ادھر تو گلی میں قدم رکھتا تھا اور ادھر وہ بھاگم بھاگ نیچے آ جاتی تھیں۔
وہ بولی پتر تیرے لیٹ آنے، رات گئے کچن میں برتنوں کی آوازوں اور شور کی وجہ سے تیری بھابی بڑی بڑ بڑ کیا کرتی تھی کیونکہ ان کی نیند خراب ہوتی تھی۔
پھر انہوں نے آبدیدہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور بولیں "پتر ھن اے کھڑکی کدے نیئں کھلنی"۔
کچھ عرصہ بعد میں لاھور سے اسلام آباد آ گیا جہاں میں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔
سال میں ایک دو دفعہ میں لاھور جاتا ہوں۔
میرے کمرے کی وہ کھڑکی اب بھی وہاں موجود ہے۔
لیکن ماں کا وہ مسکراہٹ بھرا چہرہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔
ماں باپ کے سایہ کی بے قدری مت کر اے نادان
دھوپ بہت کاٹے گی جب شجر کٹ جائیگا
‏گل_زادی‬

سبق آموز باتیں : ”کونسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ھو ”




ایک بار جناب بہلول کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے - ایک تاجر کا وھاں سے گذر ھوا --- وہ آپ کے پاس آیا اور سلام کر کے مودب سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی.. " حضور ! تجارت کی کونسی ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ھو.. "
جناب بہلول نےفرمایا.. " کالا کپڑا لے لو.. "
تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلاگیا.. جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا..
کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا.. ماتمی لباس کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ھوا.. اب کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا.. اس نے مونہہ مانگے داموں فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ھی امیر کبیر ھو گیا..
کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذرا.. جناب بہلول وھاں تشریف رکھتے تھے.. وہ وہیں گھوڑے پر بیٹھے بولا.. " او دیوانے ! اب کی بار کیا لوں.. ؟"
بہلول نے فرمایا.. " تربوز لے لو.. "
وہ بھاگا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تربوز خرید لئے.. ایک ہی ہفتے میں سب خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا..
اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملاقات جناب بہلول سے ھوگئی تو اس نے کہا.. " یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کِیا..? "
جناب بہلول نے فرمایا.. " میں نے نہیں ' تیرے لہجوں اور الفاظ نے سب کیا.. جب تونے ادب سے پوچھا تو مالا مال ہوگیا.. اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا.. "
اس کو کہتے ہیں...
باادب با نصیب.. بے ادب بے نصیب..!!
(حضرت سجن سائیں کے فیس بک وال سے)

سندھ میں ’’طاقت کا سرچشمہ ‘‘کون ؟


اثر چوہان
بزرگ قائم علی شاہ سبکدوش ہوگئے اور نوجوان مراد علی شاہ آگئے۔ شاعر نے تو بہت پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ؎
’’ یونہی آباد ،رہے گی دُنیا
ہم نہ ہونگے ، کوئی ہم سا ہوگا‘‘
لیکن قائم علی شاہ کے جانے اور مُراد علی شاہ کے آنے کا مطلب ہے کہ ؎
’’ اپنی خوشی سے آئے ، نہ اپنی خوشی چلے‘‘
29 جولائی کو مَیں نے مختلف نیوز چینلوں پر سندھ اسمبلی کے ایوان میں قائم علی شاہ کو خَر خَر خراٹے لیتے اور نوجوان مُراد علی شاہ کو فَر فَر ۔ رٹا رٹایا سبق سُناتے دیکھا اور سُنا تو مجھے پنجابی زبان کا یہ اکھان یاد آیا کہ ۔ ’’ بٹیرے نئیں ، استاداں دے ہتّھ لڑ دے نیں‘‘ اور اُن اُستادوں کے ہاتھ تو بہت ہی لمبے ہوتے ہیں جو سمندر پار بیٹھ کر بھی اپنے بٹیروں کو لڑاتے ہیں ۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی اور حکومت چلانے کے معاملات میں ’’لا شریک ‘‘تھیں لیکن حالات نے جنابِ آصف زرداری، بلاول بھٹو اور محترمہ فریال تالپور کی "Trinity" بنا کر اُن کا دائرہ اختیار بہت ہی مختصر اورمحدود کردِیا۔
ایوان میں نویں نویلے نوجوان وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ کی "Performance" کو دیکھ کر مجھے 1953ء میں پنجابی فلم ’’ شہری بابو ‘‘ یاد آگئی۔ بمبئی اور لاہور کی فلموں میں ہِیرو کا کردار انجام دینے والے ادھیڑ عُمر ہدایت کار اور فلمساز نذیر کے چہرے پر جب بہت سے ’’ چِب‘‘ پڑ گئے تو وہ اپنی ادھیڑ عُمر بیوی سؤرن لتا کو ہیروئن بنا کر نو خیز "Choclate Hero" سنتوش کمار کو مقابلے پر لے آئے۔ فلم ’’ شہری بابو‘‘ باکس آفس پر ہِٹ ہوگئی تھی لیکن نئے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ ’’مقابلہ سخت اور وقت کم ہے ‘‘ کی پوزیشن میں ہیں ۔ اب کیا کِیا جائے کہ اُن کے اقتدار کی مدّت صِرف 22 ماہ ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تِیر ہے لیکن اِس مُدّت میں مُراد علی شاہ کون سا تِیر مار لیں گے ؟۔ جناب فیض احمد فیضؔ نے شاید اُن کے لئے ہی کہا تھا کہ ؎
’’ اِک فرصتِ گُناہ مِلی، وہ بھی چار دِن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے، پروردگار کے‘‘
بہرحال مُراد علی شاہ خُوش قِسمت ہیں کہ اُنہیں پارٹی کی "Trinity" کی شفقت حاصل ہے اور اُن کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی بھی تاریخ سندھ میں کسی نہ کسی رنگ کے حروف سے ضرور لِکھا جائے گا ۔ اُستاد رشکؔ نے کہا تھا ؎
’’ بہار کے لئے بُلبل کا حوصلہ دیکھو!
ہزار رنگ کے ، گُل کھائے ، چار دِن کے لئے‘‘
تصّوف میں ترقی کے لئے مُرید ہر وقت اپنے مُرشد کے دھیان میں رہے تو اُسے ’’ فنا فی الشیخ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ بعض سیاسی خواتین و حضرات بھی اپنے قائدین کے دھیان میں رہتے ہیں اور اُن کے بعد اُن کی اولاد کے بھی ۔6 جنوری 2015ء کو پارلیمنٹ نے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں 21 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دئیے گئے ۔ اُس روز پیپلز پارٹی کے سینیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ ’’50 سال تک فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والا اعتزاز احسن آج فوت ہوگیا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر راہنما میاں رضا ربانی نے آبدیدہ ہو کر کہا تھا کہ ’’ میرا ووٹ میری پارٹی ( دراصل جنابِ زرداری ، بلاول بھٹو اور محترمہ فریال تالپور) کی امانت تھی لیکن مَیں نے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دے دِیا‘‘۔ بہت ہی مشکل کام تھا میاں رضا ربانی کا اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دینا ۔ میاں صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ مَیں آج اتنا شرمندہ ہُوں کہ پہلے کبھی نہیں ہُوا‘‘۔
بیرسٹر اعتزاز احسن تو خیر عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے اور نہ ہی جنابِ زرداری اُنہیں بھگاتے ہیں لیکن میاں رضا ربانی نے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دِیا تو جنابِ زرداری نے اُنہیں سینٹ کی چیئرمین شِپ عطاء کردی پھر صدرِ مملکت کی ملک سے غیر حاضری میں میاں صاحب قائمقام صدر مملکت بھی بنے رہے ۔ قائم علی شاہ بھی ؎
’’ جُھکنے والوں نے رفعتیں پائیں!‘‘
کے فلسفے پر عمل کرتے ہُوئے 9 سال تک بالائے بام ہی رہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے جنابِ زرداری کی وزرائے اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور مُراد علی شاہ اور پنجاب میں بھٹو دَور میں پیپلز پارٹی کے دو سابق وزرائے اعلیٰ محمد حنیف رامے اور نواب محمد صادق قریشی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن 15 جولائی 1975ء کو جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے متوسط طبقے کے ، ادیب ، دانشور اور پیپلز پارٹی کے بانی رُکن وزیراعلیٰ جناب محمد حنیف رامے کو ہٹا کر اُن کی جگہ ملتان کے جاگیردار نواب صادق حسین قریشی کو وزیراعلیٰ مقرر کِیا تو اُن کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اپنا وزیراعلیٰ لانا نصیب نہیں ہُوا۔لاہور میں جنابِ زرداری کا بم پروف ’’بلاول ہائوس ‘‘بنانے کے بعد بھی۔
مُراد علی شاہ کِتنی مُدّت تک وزیراعلیٰ سندھ کی حیثیت سے "Perform" کریں گے ۔ اِس کاانحصار صِرف جنابِ آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور محترمہ فریال تالپور کی "Sweet Will" پر نہیں نہ جانے دستِ قُدرت یا کوئی اور دست کسی اور کے دائیں ہاتھ پر وزارتِ عُلیّہ کی لکیر کھینچ کر اُسے با مُراد بنا دے؟۔
جنابِ بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو چیئرمین شِپ میں لاہور میں پیپلز پارٹی بنائی تو اُس کا ایک رہنما اصول تھا کہ ’’ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ‘‘۔ مَیں دوسرے حکمرانوں کے دَور کی بات نہیں کرتا لیکن جنابِ بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنابِ زرداری کے ادوار میں عوام کو طاقت کا سرچشمہ نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی بننے دِیا گیا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اپنے اِس ’’ راہنما اصول‘‘ سے منحرف ہونے پر جنابِ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اُن کے دونوں بھائیوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کو غیر فطری موت کا سامنا کرنا پڑا۔
جب تک کوئی معجزہ نہ ہو جائے جنابِ زرداری وطن واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ’’ بھٹو ازم‘‘ کوشکست ہو چکی ہے۔ سندھ میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، اغواء کاروں اوربھتہ خوروںکو صرف رینجرز ہی نکیل ڈال سکتے ہیں۔ اگر صِرف سندھ پولیس ہی جرائم پیشہ لوگوں اور اُن کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرسکتی تو کیا ہی بات تھی۔ ایم کیو ایم نے مُراد علی شاہ کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف خیال کِیا۔ کیا کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی ’’ پاکستان بنانے والوں کی اولاد ‘‘ کو اب صِرف لندن میں خاموش بیٹھے اپنے قائد اورکراچی میں زیرِ حراست/ زیر تفتیش قائدین کے لئے ہمدرانہ بول بولنے کے سِوا کوئی اور کام نہیں؟۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جناب خرم شیر زمان ؎
’’ مُقابلہ تو دِل ناتواں نے خُوب کِیا؟‘‘
کی تفسیر بن گئے۔ ڈاکٹر عشرت العباد خان ایم کیو ایم کے کوٹے میں گورنر سندھ بنائے گئے تھے ۔ وہ اب کِس کے کوٹے میں لاٹ صاحب بنے ہُوئے ہیں؟ ایسے حالات میں سندھ اور خاص طور پر کراچی کے دہشت زدہ لوگ اور مسائل زدہ عوام کِس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟۔ کون ہے طاقت کا وہ سر چشمہ جو کمزور ، بے سہارا اورمفلوک اُلحال لوگوں کی فریاد سُنے گا؟۔ کیا مُراد علی شاہ کی لچھے دار تقریر یا ہر رات انہیں ’’ سائیں زرداری دُور کے ‘‘ قِسم کی لوری سُنا کر سلایا جاسکے گا؟۔ کوئی تو بتائے کہ کون ہے سندھ میں طاقت کا سر چشمہ؟۔
(روزنامہ نوائے وقت)

مراد علی شاہ قائم علی شاہ سے مختلف نہیں ہونگے


ڈاکٹر محمد اجمل نیازی


سینئر ترین سیاستدان پیپلز پارٹی کیلئے تین نسلوں کے وفادار قائم علی شاہ نے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ اپنے ہاتھ سے لکھا اور اپنے نام کے نیچے 201 لکھا۔ لگتا ہے کہ وہ بہت پہلے سے ایک مستعفی آدمی کے طور پر کام کر رہے تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کیلئے اتنے وفادار تھے کہ ہر آدمی کی بات کو حکم کا درجہ دیتے تھے اور بلا سوچے سمجھے تعمیل کرتے تھے۔
ان کیلئے پیپلز پارٹی کے کرپٹ لوگ بھی کہتے تھے کہ وہ انتہائی دیانت دار شخص تھے۔ ایک روپے کی کرپشن بھی ان سے منسوب نہیں ہے۔ سابق گورنر پنجاب انتہائی معقول اور دوست سیاستدان مخدوم احمد محمود نے ان کی دیانت کیلئے حلفاً کہا کہ پیپلز پارٹی میں ان جیسا سچا وفا حیا والا اور دیانت دار شخص کوئی نہیں ہے۔
انہیں شہید بی بی بینظیر بھٹو نے وزیراعلیٰ سندھ بنایا تھا۔ 2016ء تک وہ تین بار وزیراعلیٰ رہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے بھی انہیں مسلسل وزیراعلیٰ بنایا۔ پاکستان میں کسی وزیراعلیٰ نے کچھ نہیں کیا۔ البتہ لوٹ مار کی۔ کرپشن کی اور اقربا نوازی کی۔ مگر ایسا کوئی کام قائم علی شاہ نے نہیں کیا۔ انہوں نے ویسے بھی کچھ نہیں کیا تو مجھے بتایا جائے اور کس وزیراعلیٰ نے کچھ کیا ہے۔
اب جو ان کی جگہ وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ وہ بھی کچھ نہیں کریں گے۔ قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ کی عمر میں فرق ہو گا۔ مگر کارکردگی کے اعتبار سے کچھ فرق نہیں ہو گا۔ کام کیلئے جوانی اور بڑھاپے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ بلاول کو نجانے قائم علی شاہ سے کیا پرخاش تھی۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اپنے بیٹے کی مسلسل تکرار کے بعد یہ فیصلہ کیا۔
آصفہ بھٹو زرداری نے قائم علی شاہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو بہت مستحسن اور قابل تعریف ہے۔ ایسے شخص کی تعریف جو ملنگ قسم کا سیاستدان ہو‘ قیادت کا وفادار ہو وہ واقعی تعریف کے قابل ہے۔ اس کی جو تعریف کرے‘ وہ بھی قابل تعریف ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر دوست منور انجم بھی وڈے سائیں کے معترف ہیں۔ منور انجم شہید بی بی ’’صدر‘‘ زرداری اور بلاول کیلئے بھی بہت عزت محبت رکھتے ہیں۔
قائم علی شاہ نے اپنے بچوں کی کبھی سیاسی سرپرستی نہیں کی۔ صرف ایک نفیسہ شاہ سیاست میں آئی ہے مگر وہ ایک نفیس خاتون ہیں۔ ان کی وجہ سے کوئی مسئلہ قائم علی شاہ کیلئے کبھی پیدا نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ کبھی ان کے کسی رشتہ دار کی وجہ سے بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
قائم علی شاہ پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ بھٹو صاحب بینظیر بھٹو اور ’’صدر‘‘ زرداری نے ہمیشہ ان پر اعتماد کیا۔ وہ ہر طرح کے اعتماد پر پورے اترے۔ وہ زندگی میں کبھی لوٹے نہیں بنے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی نہ چھوڑی۔ پارٹی کیلئے جیل کاٹی اور سختیاں بھی جھیلیں۔
قائم علی شاہ بے خوابی کے مریض ہیں رات بھر نہیں سوتے۔ صبح تین چار بجے بستر پر لیٹتے ہیں۔ ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران بڑے بڑے بحران آئے مگر وہ کبھی نہیں گھبرائے۔ ہمیشہ بہت محنت اور لگن کے ساتھ سرکاری امور نپٹائے۔ وزیراعلیٰ کے طور پر بہت چھوٹے چھوٹے کام کر لیتے جو جونیئر افسران کو کرنا چاہئے۔ نہایت شریف النفس انسان ہیں۔
ان کا خیر پور میں ایک عام سا گھر ہے۔ کوئی جائیداد وغیرہ وہاں نہیں بنائی۔ ایک درمیانے سائز کا گھر کراچی میں بنایا ہے۔ ان کیلئے کئی افواہیں اڑائی جاتی رہی ہیں۔ وہ مست رہنے والے آدمی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ’’بھنگ‘‘ پیتے ہیں۔ حالانکہ وہ سگریٹ تک نہیں پیتے۔
گورننس کے معاملے میں کمزور ثابت ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں کوئی حکمران گڈ گورننس تو کجا گورننس کے لحاظ سے بھی قابل ذکر نہیں۔ خیبر پی کے میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کہتے ہیں کہ عمران خان برسوں کا کام مہینوں میں چاہتے ہیں جبکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ خٹک صاحب نے برسوں کا کام بھی نہیں کیا ہے۔
بیوروکریسی پر قائم علی شاہ کا کنٹرول بہت ڈھیلا ڈھالا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے داماد اور بیٹی کو بھی بیوروکریسی سے نہ بچا سکے۔ بیوروکریسی اصل میں برا کریسی ہے اور قائم علی شاہ دل کے بہت اچھے آدمی ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور محترمہ فریال تالپور کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔ عجیب و غریب صورتحال ہے۔ کرپشن کوئی کرتا ہے اور الزام قائم علی شاہ پر لگتا ہے مگر وہ اس طرح کے آدمی ہیں کہ کرپشن کا الزام بھی ان پر نہیں لگ سکتا۔ کئی افسران قائم علی شاہ کو بائی پاس کر کے ’’صدر‘‘ زرداری اور فریال تالپور سے رابطہ رکھتے ہیں مگر قائم علی شاہ دونوں کے وفادار ہیں۔ ان کی حیثیت قربانی کا بکرا اور بگلا بھگت کی ہو کے رہ گئی ہے۔
بڑے شاہ صاحب کی عمر 83 برس ہو چکی ہے مگر اب بھی وہ جوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا کیا علاج کہ انہیں بھولنے کی عادت بھی ہے۔ وہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہیں۔ وہ کسی کے فرنٹ مین نہیں ہیں مگر انہیں ہی آگے کر دیا جاتا ہے۔
نوائے وقت کے مشہور صحافی اور پہلے کالم نگار م۔ ش کے داماد اور میرے دوست میاں عزیز الرحمن ملازمت کے سلسلے میں سندھ کے مختلف علاقوں میں رہے ہیں۔ وہ قائم علی شاہ کے گھرانے اور ان کیلئے بہت جان پہچان رکھتے ہیں۔ میاں عزیزالرحمن بہت اعلیٰ خوبیوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قائم علی شاہ بہت اچھے انسان ہیں اور ان کے گھرانے کو لوگوں نے ہمیشہ پسند کیا ہے اور انہیں ووٹ بھی دیا ہے۔ قائم علی شاہ کے علاوہ ان کی بیٹی نفیسہ شاہ اپنے علاقے سے ہمیشہ کامیاب ہوئی ہیں۔ قائم علی شاہ اشعار سناتے رہتے ہیں۔ شعر کی غلطی کو غلطی نہیں سمجھتے۔ ویسے بھی غلط فہمی بڑی غلطی ہوتی ہے۔ قائم علی شاہ غلطی بھی دانستہ نہیں کرتے مگر غلط فہمی پھیلانا ان کی فطرت میں نہیں ہے۔
سندھ کے وزیراعلیٰ کے طور پر مراد علی شاہ کو لایا گیا ہے۔ اللہ کرے وہ امیدوں پر پورا اتریں۔ مگر ان سے کوئی زیادہ امید نہیں ہے۔ پاکستان میں کسی حکمران نے کچھ نہیں کیا۔ مراد علی شاہ بھی کچھ نہیں کریں گے تو کیا قائم علی شاہ ان سے بہتر وزیراعلیٰ نہ تھے؟
(روزنامہ نوائے وقت)

وال پیپر: سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کی ترجیحات


پیپلز پارٹی کے سید مراد علی شاہ گزشتہ روز بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے سندھ کے 27 ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ نو منتخب وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں صوبے میں امن کے قیام اور تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی کو اپنی حکومت کی اولین ترجیحات قرار دیتے ہوئے نعرہ لگایا کہ انہوں نے صاف ترین کراچی‘ سبز ترین تھر اور محفوظ ترین سندھ کیلئے کام کرنا ہے۔ انکی قیادت میں صوبہ میں گڈ گورننس کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ انکی تقریر کی ڈرافٹنگ بلاشبہ خوبصورت پیرائے میں ہوئی ہے تاہم انکی بیان کردہ ترجیحات فی الواقع ان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ صوبہ سندھ میں اس وقت امن و امان کی یہ صورتحال ہے کہ گزشتہ روز بھی لاڑکانہ میں دہشت گردوں نے رینجرز کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کی صورتحال خاصی دگرگوں ہے۔ 40 فیصد سکول بند پڑے ہیں، تمام شہروں میں ہسپتالوں کا بھی برا حال ہے اور نو منتخب وزیر اعلیٰ کے بقول پورے سندھ میں کرپشن کا بازار گرم ہے کہ جب بھی کرپشن کی بات ہوتی ہے، سندھ کا نام پہلے آتا ہے۔ رینجرز سندھ میں امن و امان کیلئے کام کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت انکے خصوصی اختیارات اور قیام میں توسیع کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہے جس کے باعث جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کارروائی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں نئے وزیراعلیٰ کو حکومت اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں میں تصادم کی اس کیفیت کو بھی دور کرنا ہوگا اور سیاسی جماعتوں بشمول حکمران پیپلزپارٹی کے عسکری ونگز سے بھی کراچی کے عوام کو نجات دلانا ہوگی تاکہ کراچی سمیت سندھ میں امن و امان کا قیام یقینی بنایا جا سکے۔ امید رکھنی چاہیے کہ صوبے کے نئے وزیراعلیٰ اپنے اتحادیوں سمیت اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے اور اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنا کر عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے تاکہ ان کا وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونا محض چہروں کی تبدیلی ثابت نہ ہو۔ گڈ لک ٹو مراد علی شاہ!
(نوائے وقت)


کسب، رزق،برکت(۷)


رضا الدین صدیقی


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
٭ اللہ تبارک وتعالیٰ نرمی کا معاملہ کرنے والا ہے ،اس لیے نرم خوئی کو پسند کرتا ہے ، اور نرمی کرنے والے کو وہ کچھ (خیروبرکت)دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا ،(بلکہ)نرمی کے علاوہ اورکسی چیز پر نہیں دیتا۔(مسلم)
٭ نرمی رزق بڑھاتی ہے اوربرکت لاتی ہے اورجو شخص نرمی سے محروم ہووہ خیر سے محروم ہوجاتا ہے ۔(طبرانی)
٭ جو شخص نرمی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔(صحیح مسلم)
٭ اگر کسی معاملے (Dealing)کے دونوں فریق سچے ہوں اور خرید وفروخت میں ایک دوسرے سے کوئی دھوکہ یا غلط بیانی نہ کریں اورسودے کا کوئی پہلو دوسرے سے نہ چھپائیں توایسے ہر سودے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ان دونوں کو برکت عطاءفرمائے گا، دونوں اس سودے سے نفع اٹھائیں گے اوردونوں کے رزق میں اضافہ ہوگا۔(مسند امام احمد بن حنبل)
٭ اللہ رب العزت کا فرمان (حدیث قدسی)ہے ، جب دومسلمان باہم مل کر کوئی کاروبار کرتے ہیں اوراس میں ایک دوسرے کے ساتھ کسی قسم کی بدنیتی یا خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے تو میں ان دونوں کے ساتھ تیسرا شریک ہوتا ہوں اوران کی حفاظت اورمدد کرتا ہوں اوران کے کاروبار میں برکت عطاءفرماتا ہوں۔(ابوداﺅد)
٭ اپنی حاجتوں کو ان لوگوں سے طلب کرو جن کے مزاج میں نرمی اوررحم موجود ہو، ایسا کرنے سے تمہیں رزق بھی ملے گا اورمقصد میں کامیابی بھی ہوگی۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے، میرے جو بندے رحم دل ہوں ان کے ساتھ میری رحمت شامل حال ہوتی ہے۔(کنزالعمال)
٭ اگر تمہیں کوئی حاجت درپیش ہواور لوگوں سے مددحاصل کرنا ناگزیر محسوس ہونے لگے تو صرف نیک طینت لوگوں سے اعانت طلب کرو، اس طرح اللہ رب العزت کی رحمت بھی تمہارے شامل حال ہوجائے گی اورمراد بھی پوری ہوجائے گی۔(مسند امام احمد بن حنبل)
٭ جب اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تواسے معیشت میں نرمی اورمیانہ روی کی توفیق عطاءفرماتا دیتا ہے۔(شعب الایمان ،بیہقی)
٭ وہ شخص میانہ روی کو اپنا لیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے غنی کردیتا ہے اورجو بے جا اخراجات کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تنگ دستی میں مبتلاءکردیتا ہے ۔(بزار، کنزالعمال)٭ وہ شخص کبھی مفلس وتنگ دست نہیں ہوگا جو میانہ روی اختیار کرے۔(احمد ، دارقطنی) ٭میانہ روی سے رزق میں اضافہ اورخیر وبرکت نصیب ہوتی ہے۔(معجم ، طبرانی)


ہفتہ، 30 جولائی، 2016

عجیب اور دلچسپ : جنگل میں جانوروں کے ساتھ کھیلنے والے بہن بھائی


چھتیس گڑھ: بھارت میں 2 بچے مشہور فلم ’’جنگل بُک‘‘ کے اصل کردار دکھائی دیتے ہیں جو روزانہ گھنے جنگلوں میں بندروں اور دیگر جانوروں کے ساتھ کھیلتے ہیں ۔
چھتیس گڑھ کے رہائشی دونوں بچوں میں بہن اور بھائی شامل ہیں جو قریبی گاؤں میں رہتے ہیں جہاں گھنے جنگل میں بندروں سمیت چیتے بھی پائے جاتے ہیں۔ دونوں بہن بھائی دن بھر جنگل کے درختوں پر اچھلتے کودتے رہتے ہیں اور روزانہ بندروں کے ساتھ کھیلتے ہیں جب کہ اس دوران انہیں جنگل کے جانوروں سے کوئی خوف بھی محسوس نہیں ہوتا۔
بچوں کی ماں کے مطابق دونوں بچے پیدائش کے بعد نارمل تھے لیکن ٹھیک سے بولنا نہیں سیکھا، لڑکا بندروں کے ساتھ کبڈی اور چھپن چھپائی کھیلتا ہے۔ گاؤں کے لوگ اس کے چلنے کے انداز سے اسے گوریلا کہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی بھی جانور نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔
اس علاقے میں بھارت مخالف نکسل باغیوں کا راج ہے۔ بچوں کے باپ کو بھی انہی باغیوں نے مخبر سمجھ کر اس وقت قتل کردیا تھا جب وہ اپنے بچوں کی تلاش میں جنگل میں گئے تھے۔ اسی لیے ان کی ماں ہمیشہ فکر مند رہتی ہے کہ کہیں یہ بچے بھی باغیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ بچے ٹھیک نہیں ہوسکتے کیونکہ بچوں کا دماغ پوری طرح نہیں بن سکا اور اس کا اثر ان کے چہرے اور جسم پر واضح ہے۔
(ایکسپریس نیوز بلاگس)

بچوں کی محفل: جنگل سکول


بچوں کی محفل: ہماری زمیں۔




معجزات نبویﷺ : سورج کاپلٹ آنا:۔


حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سورج پلٹ آنے کامعجزہ بھی بہت ہی عظیم الشان معجزہ اور صداقت ِنبوت کا ایک واضح ترین نشان ہے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت بی بی اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ “خیبر” کے قریب ” منزل صہبا ” میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں اپنا سر اقدس رکھ کر سو گئے اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر اقدس کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر قضا ہوگئی تو آپ نے یہ دعا فرمائی کہ “یااﷲ! یقینا علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے لہٰذا تو سورج کو واپس لوٹا دے تا کہ علی نماز عصر ادا کرلیں۔”
حضرت بی بی اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج پلٹ آیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور زمین کے اوپر ہر طرف دھوپ پھیل گئی۔(زرقانی جلد ۵ ص ۱۱۳ و شفاء جلد ۱ ص ۱۸۵ و مدارج النبوۃ جلد۲ ص ۲۵۲)
اس میں شک نہیں کہ بخاری کی روایتوں میں اس معجزہ کا ذکر نہیں ہے لیکن یاد رکھیے کہ کسی حدیث کا بخاری میں نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ حدیث بالکل ہی بے اصل ہے۔ امام بخاری کو چھ لاکھ حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ انہی حدیثوں میں سے چن کر انہو ں نے بخاری شریف میں اگر مکر رات و متابعات کو شامل کر کے شمار کی جائیں تو صرف نو ہزار بیاسی حدیثیں لکھی ہیں اور اگر مکر رات و متابعات کو چھوڑ کر گنتی کی جائے تو کل حدیثوں کی تعداد دو ہزار سات سو اکسٹھ ۲۷۶۱ رہ جاتی ہیں۔(مقدمه فتح الباری)
باقی حدیثیں جو حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ کو زبانی یاد تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بے اصل اور موضوع نہ ہوں گی بلکہ وہ بھی یقینا صحیح یا حسن ہی ہوں گی تو آخر وہ سب کہاں ہیں؟ اور کیا ہوئیں؟ تو اس بارے میں یہ کہنا ہی پڑے گا کہ دوسرے محدثین نے انہی حدیثوں کو اور کچھ دوسری حدیثوں کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہوگا۔ چنانچہ منزل صہبا میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر کے لیے سورج پلٹ آنے کی حدیث کو بہت سے محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ حضرت امام ابو جعفر طحاوی، احمد بن صالح، و امام طبرانی و قاضی عیاض نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے اور امام طحاوی نے تو یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ امام احمد بن صالح جو امام احمد بن حنبل کے ہم پلہ ہیں، فرمایا کرتے تھے کہ یہ روایت عظیم ترین معجزہ اور علامات نبوت میں سے ہے لہٰذا اس کو یاد کرنے میں اہل علم کو نہ پیچھے رہنا چاہئے نہ غفلت برتنی چاہئے۔(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
بہرحال جن جن محدثین نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے ان کی ایک مختصر فہرست یہ ہے:
مشکل الآثار میں(۱) حضرت امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے
مستدرک میں(۲) حضرت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے
معجم کبیرمیں(۳) حضرت امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے
اپنی مرویات میں(۴) حضرت حافظ ابن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ نے
الذریۃ الطاہرہ میں(۵) حضرت حافظ ابوالبشر رحمۃ اللہ علیہ نے
شفاء شریف میں(۶) حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے
تلخیص المتشابہ میں(۷) حضرت خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے
الزہرالباسم میں(۸) حضرت حافظ مغلطائی رحمۃ اللہ علیہ نے
عمدۃ القاری میں(۹) حضرت علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے
کشف اللبس میں(۱۰) حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے
(۱۱) حضرت علامہ ابن یوسف        دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے
ازالۃ الخفاء میں(۱۲) حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے
مدارج النبوۃمیں(۱۳) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے
زرقانی علی المواہب میں(۱۴) حضرت علامہ محمد بن عبدالباقی رحمۃ اللہ علیہ نے
مواہب لدنیہ میں(۱۵) حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے
اس حدیث پر علامہ ابن جوزی نے اپنی عادت کے موافق جو جرحیں کی ہیں اور اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے، حضرت علامہ عینی نے عمدۃ القاری جلد ۷ ص ۱۴۶ میں تحریر فرمایا ہے کہ علامہ ابن جوزی کی جر حیں قابل التفات نہیں ہیں، حضرت امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو سندیں لکھ کر فرمایا کہھٰذَانِ الْحَدِيْثَانِ ثَابِتَانِ وَرُوَاتُهُمَا ثِقَاتٌ… یعنی یہ دونوں روایتیں ثابت ہیں اور ان کے راوی ثقہ ہیں۔(شفاء شريف جلد۱ ص ۱۸۵)
اسی طرح حضرت شیخ عبدالحق محدت دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی علامہ ابن جوزی کی جرحوں کو رد کردیا ہے اور اس حدیث کے صحیح اورحسن ہونے کی پرزور تائید فرمائی ہے۔(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
اسی طرح ازالۃ الخفاء میں علامہ محمد بن یوسف دمشقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب “مزيل اللبس عن حديث ردالشمس″کی یہ عبارت منقول ہے کہ
اعلم ان هذا الحديث رواه الطحاوي فی کتابه “ شرح مشکل الاثار ” عن اسماء بنت عميس من طريقين و قال هذان الحديثان ثابتان و رواتهما ثقات و نقله قاضي عياض في “ الشفاء ” و الحافظ ابن سيد الناس في “ بشري اللبيب ” و الحافظ علاء الدين مغلطائي في کتابه “ الزهر الباسم ” و صححه ابو الفتح الازدي و حسنه ابو زرعة بن العراقي و شيخنا الحافظ جلال الدين السيوطي في “ الدرر المنتشرة في الاحاديث المشتهرة ” و قال الحافظ احمد بن صالح و ناهيك به لا ينبغي لمن سبيله العلم التخلف عن حديث اسماء لانه من اجل علامات النبوة و قد انکر الحفاظ علي ابن الجوزي ايراده الحديث في “ کتاب الموضوعات ”(التقرير المعقول في فضل الصحابة واهل بيت الرسول ص ۸۸)
تم جان لو کہ اس حدیث کو امام طحاوی نے اپنی کتاب” شرح مشکل الآثار ” میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دوسندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں حدیثیں ثابت ہیں اور ان دونوں کے روایت کرنے والے ثقہ ہیں اور اس حدیث کو قاضی عیاض نے ” شفاء ” میں اور حافظ ابن سیدالناس نے ” بشری اللبیب ” میں اور حافظ علاء الدین مغلطائی نے اپنی کتاب “الزہرالباسم” میں نقل کیا ہے اور ابوالفتح ازدی نے اس حدیث کو “صحیح” بتایا اور ابو زرعہ عراقی اور ہمارے شیخ جلال الدین سیوطی نے “الدر رالمنتشرہ فی الا حادیث المشہترہ ” میں اس حدیث کو ” حسن ” بتایا اور حافظ احمد بن صالح نے فرمایا کہ تم کو یہی کافی ہے اور علماء کو اس حدیث سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے کیونکہ یہ نبوت کے بہت بڑے معجزات میں سے ہے اور حدیث کے حفاظ نے اس بات کو برا مانا ہے کہ ” ابن جوزی ” نے اس حدیث کو ” کتاب الموضوعات ” میں ذکر کر دیا ہے۔