اتوار، 31 جولائی، 2016

سندھ میں ’’طاقت کا سرچشمہ ‘‘کون ؟


اثر چوہان
بزرگ قائم علی شاہ سبکدوش ہوگئے اور نوجوان مراد علی شاہ آگئے۔ شاعر نے تو بہت پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ؎
’’ یونہی آباد ،رہے گی دُنیا
ہم نہ ہونگے ، کوئی ہم سا ہوگا‘‘
لیکن قائم علی شاہ کے جانے اور مُراد علی شاہ کے آنے کا مطلب ہے کہ ؎
’’ اپنی خوشی سے آئے ، نہ اپنی خوشی چلے‘‘
29 جولائی کو مَیں نے مختلف نیوز چینلوں پر سندھ اسمبلی کے ایوان میں قائم علی شاہ کو خَر خَر خراٹے لیتے اور نوجوان مُراد علی شاہ کو فَر فَر ۔ رٹا رٹایا سبق سُناتے دیکھا اور سُنا تو مجھے پنجابی زبان کا یہ اکھان یاد آیا کہ ۔ ’’ بٹیرے نئیں ، استاداں دے ہتّھ لڑ دے نیں‘‘ اور اُن اُستادوں کے ہاتھ تو بہت ہی لمبے ہوتے ہیں جو سمندر پار بیٹھ کر بھی اپنے بٹیروں کو لڑاتے ہیں ۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی اور حکومت چلانے کے معاملات میں ’’لا شریک ‘‘تھیں لیکن حالات نے جنابِ آصف زرداری، بلاول بھٹو اور محترمہ فریال تالپور کی "Trinity" بنا کر اُن کا دائرہ اختیار بہت ہی مختصر اورمحدود کردِیا۔
ایوان میں نویں نویلے نوجوان وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ کی "Performance" کو دیکھ کر مجھے 1953ء میں پنجابی فلم ’’ شہری بابو ‘‘ یاد آگئی۔ بمبئی اور لاہور کی فلموں میں ہِیرو کا کردار انجام دینے والے ادھیڑ عُمر ہدایت کار اور فلمساز نذیر کے چہرے پر جب بہت سے ’’ چِب‘‘ پڑ گئے تو وہ اپنی ادھیڑ عُمر بیوی سؤرن لتا کو ہیروئن بنا کر نو خیز "Choclate Hero" سنتوش کمار کو مقابلے پر لے آئے۔ فلم ’’ شہری بابو‘‘ باکس آفس پر ہِٹ ہوگئی تھی لیکن نئے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ ’’مقابلہ سخت اور وقت کم ہے ‘‘ کی پوزیشن میں ہیں ۔ اب کیا کِیا جائے کہ اُن کے اقتدار کی مدّت صِرف 22 ماہ ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تِیر ہے لیکن اِس مُدّت میں مُراد علی شاہ کون سا تِیر مار لیں گے ؟۔ جناب فیض احمد فیضؔ نے شاید اُن کے لئے ہی کہا تھا کہ ؎
’’ اِک فرصتِ گُناہ مِلی، وہ بھی چار دِن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے، پروردگار کے‘‘
بہرحال مُراد علی شاہ خُوش قِسمت ہیں کہ اُنہیں پارٹی کی "Trinity" کی شفقت حاصل ہے اور اُن کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی بھی تاریخ سندھ میں کسی نہ کسی رنگ کے حروف سے ضرور لِکھا جائے گا ۔ اُستاد رشکؔ نے کہا تھا ؎
’’ بہار کے لئے بُلبل کا حوصلہ دیکھو!
ہزار رنگ کے ، گُل کھائے ، چار دِن کے لئے‘‘
تصّوف میں ترقی کے لئے مُرید ہر وقت اپنے مُرشد کے دھیان میں رہے تو اُسے ’’ فنا فی الشیخ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ بعض سیاسی خواتین و حضرات بھی اپنے قائدین کے دھیان میں رہتے ہیں اور اُن کے بعد اُن کی اولاد کے بھی ۔6 جنوری 2015ء کو پارلیمنٹ نے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں 21 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دئیے گئے ۔ اُس روز پیپلز پارٹی کے سینیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ ’’50 سال تک فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والا اعتزاز احسن آج فوت ہوگیا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر راہنما میاں رضا ربانی نے آبدیدہ ہو کر کہا تھا کہ ’’ میرا ووٹ میری پارٹی ( دراصل جنابِ زرداری ، بلاول بھٹو اور محترمہ فریال تالپور) کی امانت تھی لیکن مَیں نے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دے دِیا‘‘۔ بہت ہی مشکل کام تھا میاں رضا ربانی کا اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دینا ۔ میاں صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ مَیں آج اتنا شرمندہ ہُوں کہ پہلے کبھی نہیں ہُوا‘‘۔
بیرسٹر اعتزاز احسن تو خیر عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے اور نہ ہی جنابِ زرداری اُنہیں بھگاتے ہیں لیکن میاں رضا ربانی نے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دِیا تو جنابِ زرداری نے اُنہیں سینٹ کی چیئرمین شِپ عطاء کردی پھر صدرِ مملکت کی ملک سے غیر حاضری میں میاں صاحب قائمقام صدر مملکت بھی بنے رہے ۔ قائم علی شاہ بھی ؎
’’ جُھکنے والوں نے رفعتیں پائیں!‘‘
کے فلسفے پر عمل کرتے ہُوئے 9 سال تک بالائے بام ہی رہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے جنابِ زرداری کی وزرائے اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور مُراد علی شاہ اور پنجاب میں بھٹو دَور میں پیپلز پارٹی کے دو سابق وزرائے اعلیٰ محمد حنیف رامے اور نواب محمد صادق قریشی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن 15 جولائی 1975ء کو جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے متوسط طبقے کے ، ادیب ، دانشور اور پیپلز پارٹی کے بانی رُکن وزیراعلیٰ جناب محمد حنیف رامے کو ہٹا کر اُن کی جگہ ملتان کے جاگیردار نواب صادق حسین قریشی کو وزیراعلیٰ مقرر کِیا تو اُن کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اپنا وزیراعلیٰ لانا نصیب نہیں ہُوا۔لاہور میں جنابِ زرداری کا بم پروف ’’بلاول ہائوس ‘‘بنانے کے بعد بھی۔
مُراد علی شاہ کِتنی مُدّت تک وزیراعلیٰ سندھ کی حیثیت سے "Perform" کریں گے ۔ اِس کاانحصار صِرف جنابِ آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور محترمہ فریال تالپور کی "Sweet Will" پر نہیں نہ جانے دستِ قُدرت یا کوئی اور دست کسی اور کے دائیں ہاتھ پر وزارتِ عُلیّہ کی لکیر کھینچ کر اُسے با مُراد بنا دے؟۔
جنابِ بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو چیئرمین شِپ میں لاہور میں پیپلز پارٹی بنائی تو اُس کا ایک رہنما اصول تھا کہ ’’ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ‘‘۔ مَیں دوسرے حکمرانوں کے دَور کی بات نہیں کرتا لیکن جنابِ بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنابِ زرداری کے ادوار میں عوام کو طاقت کا سرچشمہ نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی بننے دِیا گیا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اپنے اِس ’’ راہنما اصول‘‘ سے منحرف ہونے پر جنابِ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اُن کے دونوں بھائیوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کو غیر فطری موت کا سامنا کرنا پڑا۔
جب تک کوئی معجزہ نہ ہو جائے جنابِ زرداری وطن واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ’’ بھٹو ازم‘‘ کوشکست ہو چکی ہے۔ سندھ میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، اغواء کاروں اوربھتہ خوروںکو صرف رینجرز ہی نکیل ڈال سکتے ہیں۔ اگر صِرف سندھ پولیس ہی جرائم پیشہ لوگوں اور اُن کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرسکتی تو کیا ہی بات تھی۔ ایم کیو ایم نے مُراد علی شاہ کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف خیال کِیا۔ کیا کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی ’’ پاکستان بنانے والوں کی اولاد ‘‘ کو اب صِرف لندن میں خاموش بیٹھے اپنے قائد اورکراچی میں زیرِ حراست/ زیر تفتیش قائدین کے لئے ہمدرانہ بول بولنے کے سِوا کوئی اور کام نہیں؟۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جناب خرم شیر زمان ؎
’’ مُقابلہ تو دِل ناتواں نے خُوب کِیا؟‘‘
کی تفسیر بن گئے۔ ڈاکٹر عشرت العباد خان ایم کیو ایم کے کوٹے میں گورنر سندھ بنائے گئے تھے ۔ وہ اب کِس کے کوٹے میں لاٹ صاحب بنے ہُوئے ہیں؟ ایسے حالات میں سندھ اور خاص طور پر کراچی کے دہشت زدہ لوگ اور مسائل زدہ عوام کِس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟۔ کون ہے طاقت کا وہ سر چشمہ جو کمزور ، بے سہارا اورمفلوک اُلحال لوگوں کی فریاد سُنے گا؟۔ کیا مُراد علی شاہ کی لچھے دار تقریر یا ہر رات انہیں ’’ سائیں زرداری دُور کے ‘‘ قِسم کی لوری سُنا کر سلایا جاسکے گا؟۔ کوئی تو بتائے کہ کون ہے سندھ میں طاقت کا سر چشمہ؟۔
(روزنامہ نوائے وقت)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں