فائزہ نذیر احمد
دنیا بھر میں اب بھی درجنوں ممالک ایسے ہیں جو بارودی سرنگوں سے آلودہ ہیں۔ بارودی سرنگوں کے خاتمے کی مہم جاری ہے تاہم اس مہلک ہتھیار کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔ افریقی ملک سوڈان دنیا کا بارودی سرنگوں سے سب سے زیادہ آلودہ ملک ہے۔ سوڈان کی 17 میں سے دس ریاستیں اس ناسور کا شکار ہیں۔ مشرقی سوڈان، کورڈوفان اور النیل الازرق کے علاقے دھماکہ خیز مواد کے زیر زمین باقیات سے بھرے ہوئے ہیں۔ بارودی سرنگوں کا شکار ہونے والے یا تو جان سے جاتے ہیں یا پھر کسی نا کسی جسمانی عضو سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کیا وقت کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگیں ناکارہ ہو جاتی ہیں؟ اس سوال کا جواب جرمن ماہر یوں دیتے ہیں ، ’’ہوتا بالکل اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی قسم کی بارودی سرنگ ہو اس کا ایک حصہ دھماکہ خیز مواد TNT یا آر ڈی ایکس پر مْشتمل ہوتا ہے۔ یہ دھماکہ خیز مواد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی لچک کھو دیتا ہے۔ اس طرح یہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایک معمولی سی رگڑ دھماکے کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح بارودی سرنگ 80 سے90 سال تک زیر زمین کارآمد رہ سکتی ہے اور اس کے خطرات باقی رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال فرانس میں وردون کا مقام ہے جو پہلی عالمی جنگ کا ایک میدان ہے۔ وہاں موجود بارودی سرنگوں کے ڈیٹونیٹر اب زنگ آلود ہو گئے ہیں تب بھی فعال ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہاں کسی بھی وقت دھماکہ ہو۔‘‘ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں بارودی سرنگوں کا جال اب بھی پھیلا ہوا ہے۔ کئی برسوں سے جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں کام کرنے والے ایک ادارے مائین ایکشن سینٹر کی گزشتہ برس سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں، ہر ماہ اوسطاً 45 افراد، بارودی سرنگوں کے پھٹنے کی وجہ سے ہلاک یا مستقل جسمانی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔اپنے ملک کو اس مصیبت سے نجات دینے کے لیے دو افغان بھائیوں مسعود اور محمود حسنی نے گیند کی شکل کی ایجاد سے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا جو زمین میں دبی بارودوی سرنگوں کو تلاش اور انہیں تباہ کر سکتی تھی۔ اب ان بھائیوں نے ایک اور کامیابی حاصل کی ہے۔ اس وقت یہ دونوں بھائی ہالینڈ میں رہتے ہیں۔ ان کی تازہ ترین ایجاد کم لاگت والا ایک ڈرون ہے جو بارودی سرنگوں کا نہ صرف کھوج لگا سکتا ہے بلکہ ہر سال ہزاروں انسانوں کی جانیں لینے والے اس خطرناک ہتھیار کو تباہ بھی کر سکتا ہے۔ مسعود اور محمود نے 2013ء اپنی ایجاد کی بدولت جسے انہوں نے ’مائن کافون‘ کا نام دیا تھا، پوری دنیا میں شہرت حاصل کی تھی۔ یہ دراصل ایک بہت بڑی گیند کی شکل کی ڈیوائس ہے اور جو ہوا کے زور پر حرکت کر سکتی ہے اور اس دوران زمین میں بچھی بارودی سرنگوں کا کھوج لگا سکتی ہے۔بارودی سرنگیں تلاش کرنے والی ان کی نئی ڈیوائس میں دراصل ڈرون ٹیکنالوجی، تھری ڈی پرنٹنگ اور روبوٹکس کو جمع کر دیا گیا ہے جس میں ایک میٹل ڈیٹیکٹر یعنی دھاتوں کا پتہ لگانے والے آلے سے بارودی سرنگوں کا کھوج لگا کر انہیں تباہ کیا جا سکتا ہے۔مسعود اور محمود حسنی نے تین برس قبل گیند کی شکل کی اس ایجاد سے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا جو زمین میں دبی بارودوی سرنگوں کو تلاش اور انہیں تباہ کر سکتی تھی۔ چھ بازوؤں والے ڈرون پر لگے پنکھے ساڑھے چار کلو وزن کو اڑا لے جانے کی طاقت رکھتے ہیں جبکہ ڈرون کی باڈی پر سخت پلاسٹک سے بنی کیسنگ میں بیٹریاں، کمپیوٹر اور ایک گلوبل پوزیشنگ سسٹم نصب ہے۔ ڈرون کے مرکزی حصے کے نیچے ایک روبوٹک آرم یا بازو ہے جس کے نچلے حصے پر چمٹیوں یا موچنیوں کی شکل کی ڈیوائسز کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ چمٹیاں میٹل ڈیٹیکٹر اور کم مقدار میں دھماکا خیز مواد پکڑ سکتی ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر سے زمین میں نصب بارودی سرنگ کا پتہ لگانے کے بعد اس بارود کے ذریعے چھوٹا سا دھماکا کر کے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ جی پی ایس سسٹم کی بدولت اس کی پرواز کے راستے کو کمپیوٹر کے ذریعے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈرون تین مرحلوں میں کام کرتا ہے، یعنی علاقے کا نقشہ یا میپنگ، بارودی سرنگوں کا کھوج لگانا اور پھر انہیں تباہ کرنا۔ جب بارودی سرنگ تباہ ہو جاتی ہے تو پھر ایک تھری میپنگ سسٹم اْس علاقے کو اسکین کرتا ہے جسے کمپیوٹر ریکارڈ میں بارودی سرنگوں سے پاک قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پہلے سے پروگرام کردہ راستے پر میٹل ڈیٹٹیکٹر کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے یہ ڈرون اس سارے حصے کا اچھی طرح جائزہ لیتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں