اسرا ر بخاری
بہت سے ذہنوں میں اگر یہ سوال ہلچل مچائے کہ 8 سال بعد قائم علی شاہ کو کیوں سبکدوش کیا گیا اور اول روز سے پیپلز پارٹی کےساتھ وفاداری نبھانے والے ٹھنڈے مزاج کے اس بزرگ سیاستدان کو اس طرح سبکدوش کرنا کہ اس ناخوشگوار خبر کی بجلی صرف دس منٹ پہلے گرائی جائے اس سوال کا دوسرا جزو ان کی جگہ مراد علی شاہ کو کیوں لایا گیا ہے۔ ان دونوں سوالوں کا جواب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر کے اس بیان کے آئینہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاج حیدر نے کہا ”سندھ کا وزیر اعلیٰ ایسے شخص کو بنایا جائیگا جو اسٹیبلشمنٹ سے اسکی زبان میں بات کر سکے تو اسکی (اسٹیبلشمنٹ) سمجھ میں آ جائیگی قائم علی شاہ کی شرافت اور نرم لہجے کو کمزوری سمجھا گیا تھا اس لئے نیا وزیر اعلیٰ لایا جا رہا ہے این ایف سی ایوارڈ روک لیا گیا ہے۔ سندھ پر اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ہے اسٹیبلشمنٹ کی ایک یلغار چل رہی ہے قائم علی شاہ جو زبان بولتے تھے وہ زبان اسٹیبلشمنٹ کی سمجھ میں نہیں آتی تو شاید جواب دینے کیلئے نیاوزیر اعلیٰ لانے کی ضرورت تھی“ اس بیان میں قطعاً کوئی ابہام نہیں ہے آصف زرداری رینجرز کے ساتھ جو طرز عمل چاہتے تھے قائم علی شاہ اپنی نرم خوئی کے باعث وہ اختیار نہیں کر سکے آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی جو دھمکی دی تھی قدرتی طور پر انکی خواہش تھی کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ اپنے طرز عمل سے اس کا بھرم رکھے، ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر عزیر بلوچ کا پکڑا جانا اسکے بعد بچت کے سلسلے میں جو بالواسطہ اور بلاواسطہ کوششیں کی جا رہی تھیں ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ این آر او کی کوشش بھی ناکام ہو گئی ڈاکٹر عاصم، عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد عبدالقادر پٹیل کی گرفتاری، ایان علی کیخلاف مقدمے اور پھر اسد کھرل کی گرفتاری نے تو روشن کر دیا کہ اب پیپلز پارٹی کے بڑوں پر ہاتھ پڑنے والا ہے اسکی دو صورتیں ہیں یا تو خود کو قانون کے حوالے کر دیا جائے یا باقاعدہ کھلی لڑائی کے ذریعے خود کو سیاسی شہید بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ مرنا یعنی انجام کو پہنچنا دونوں صورتوں میں لازم ہے اس لئے دوسرا آپشن اختیار کیا گیا شاید ”سیاسی شہادت“ کی مالا گلے میں پڑ جائے اس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ کو لے آیا گیا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ مراد علی شاہ بطور وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے کتنا مختلف ہو سکیں گے۔ کیونکہ اختیارات کا بڑا مرکز تو بدستور آصف زرداری رہیں گے تمام تر فیصلے دبئی میں ہوں گے۔ مراد علی شاہ سیاسی پس منظر رکھتے ہیں انکے والد عبداللہ شاہ بھی بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے ان پر کرپشن کے الزامات لگے اور وہ دبئی فرار ہو گئے تھے وہاں شدید بیمار ہوئے انہیں کینسر کا موذی مرض لاحق ہو گیا تھا انتہائی مخدوش حالت میں وطن واپس آئے اور کچھ عرصہ بعد انتقال کر گئے تھے۔ اگرچہ مراد علی شاہ پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں مگر پاکستان میں جس طرح کی سیاست کا چلن ہے انکے والد پر کرپشن کے الزامات ان کا پیچھا ضرور کرینگے آصف زرداری رینجرز کے اختیارات کی بحالی کو کسی وزیر رکن پارلیمنٹ یا سرکاری آفیسر کی گرفتاری سے قبل وزیر اعلیٰ سے اجازت سے مشروط کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر عمل درآمد بھی مراد علی شاہ کےلئے بڑا چیلنج ہو گا دوسرے یہ بھی چند روز میں واضح ہو جائےگا کہ مراد علی شاہ کو کیا وزیر اعلیٰ کے حقیقی اختیارات حاصل ہونگے یا قائم علی شاہ کی طرح ان پر بھی اختیارات کی تہمت ہو گی ویسے لگتا ایسے ہی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ زرداری سندھ حکومت پر اپنی گرفت کمزور کر دیں اس کا مطلب ہے سندھ میں تبدیلی محض چہرے کی تبدیلی ہے۔
سندھ کی طرح مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بھی یہ سوال عوامی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وزیراعظم نواز شریف کشمیر کے حوالے سے ایسے اقدامات کریں گے جو عوام کی خواہشات اور امنگوں کا آئیندہ دار ہوں۔
ان پر بھارت کے حکمرانوں کےلئے نرم گوشہ رکھنے بلکہ اس سلسلے میں امریکی دباﺅ کو قبول کرنے اور بھارت سے تجارت کے حوالے سے ایک مدت سے تنقید کے انداز میں جو کچھ کہا جا رہا ہے عوامی سطح پر تذبذب و تجسس فطری امر ہے اس لئے وزیر اعظم نواز شریف کےلئے ضروری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حق میں بیان بازی سے زیادہ عملی اقدامات کریں پہلے قدم کے طور پر بھارت سے جاری تجارت کو ختم نہیں تو معطل ضرور کریں اس تجارت سے پاکستان کو رواں سال میں ایک ارب چالیس کروڑ انانوے لاکھ ڈالر کا خسارہ ہوا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اگر ترکی کے صدر طیب اردگان محض اسلامی جذبہ کے پیش نظر جماعت اسلامی رہنماﺅں کو پھانسی دینے پر بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا کر احتجاج کر سکتے ہیںتو وزیر اعظم ان کشمیریوں کےلئے اپنا ہائی کمشنر واپس کیوں نہیں بلا سکتے جو آزاد ہو کر پاکستان میں شامل ہونے کےلئے جان، مال اور عزتوں تک کو داﺅ پر لگائے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اگر یہ دو قدم نہ اٹھا سکے تو اس کا عوامی سطح پر یہ مطلب لیا جائیگا محض بیان بازی سے وقت گزار کر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک ٹھنڈی پڑ جائے اور مودی سرکار اس مشکل سے نکل جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیر اعظم نواز شریف کا نام لے کر جو مخالفانہ بیان دیا ہے علم سیاسیات کی شدھ بدھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ بعض اوقات مخالفانہ بیان کا مقصد کسی کی ساکھ برقرار رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ مخالفت کا تاثر رکھ کر حمایت کا کام کر سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں ایسا نہیں سوچا جا سکتا لیکن اگر اس موقع پر بھی بھارت کے خلاف عملی اقدامات نہ کئے تو پھر ان کے حوالے سے عوامی سطح پر پھیلے تاثر کو ختم کرنا بہت مشکل ہو جائےگا۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ مراد علی شاہ بطور وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے کتنا مختلف ہو سکیں گے۔ کیونکہ اختیارات کا بڑا مرکز تو بدستور آصف زرداری رہیں گے تمام تر فیصلے دبئی میں ہوں گے۔ مراد علی شاہ سیاسی پس منظر رکھتے ہیں انکے والد عبداللہ شاہ بھی بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے ان پر کرپشن کے الزامات لگے اور وہ دبئی فرار ہو گئے تھے وہاں شدید بیمار ہوئے انہیں کینسر کا موذی مرض لاحق ہو گیا تھا انتہائی مخدوش حالت میں وطن واپس آئے اور کچھ عرصہ بعد انتقال کر گئے تھے۔ اگرچہ مراد علی شاہ پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں مگر پاکستان میں جس طرح کی سیاست کا چلن ہے انکے والد پر کرپشن کے الزامات ان کا پیچھا ضرور کرینگے آصف زرداری رینجرز کے اختیارات کی بحالی کو کسی وزیر رکن پارلیمنٹ یا سرکاری آفیسر کی گرفتاری سے قبل وزیر اعلیٰ سے اجازت سے مشروط کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر عمل درآمد بھی مراد علی شاہ کےلئے بڑا چیلنج ہو گا دوسرے یہ بھی چند روز میں واضح ہو جائےگا کہ مراد علی شاہ کو کیا وزیر اعلیٰ کے حقیقی اختیارات حاصل ہونگے یا قائم علی شاہ کی طرح ان پر بھی اختیارات کی تہمت ہو گی ویسے لگتا ایسے ہی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ زرداری سندھ حکومت پر اپنی گرفت کمزور کر دیں اس کا مطلب ہے سندھ میں تبدیلی محض چہرے کی تبدیلی ہے۔
سندھ کی طرح مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بھی یہ سوال عوامی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وزیراعظم نواز شریف کشمیر کے حوالے سے ایسے اقدامات کریں گے جو عوام کی خواہشات اور امنگوں کا آئیندہ دار ہوں۔
ان پر بھارت کے حکمرانوں کےلئے نرم گوشہ رکھنے بلکہ اس سلسلے میں امریکی دباﺅ کو قبول کرنے اور بھارت سے تجارت کے حوالے سے ایک مدت سے تنقید کے انداز میں جو کچھ کہا جا رہا ہے عوامی سطح پر تذبذب و تجسس فطری امر ہے اس لئے وزیر اعظم نواز شریف کےلئے ضروری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حق میں بیان بازی سے زیادہ عملی اقدامات کریں پہلے قدم کے طور پر بھارت سے جاری تجارت کو ختم نہیں تو معطل ضرور کریں اس تجارت سے پاکستان کو رواں سال میں ایک ارب چالیس کروڑ انانوے لاکھ ڈالر کا خسارہ ہوا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اگر ترکی کے صدر طیب اردگان محض اسلامی جذبہ کے پیش نظر جماعت اسلامی رہنماﺅں کو پھانسی دینے پر بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا کر احتجاج کر سکتے ہیںتو وزیر اعظم ان کشمیریوں کےلئے اپنا ہائی کمشنر واپس کیوں نہیں بلا سکتے جو آزاد ہو کر پاکستان میں شامل ہونے کےلئے جان، مال اور عزتوں تک کو داﺅ پر لگائے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اگر یہ دو قدم نہ اٹھا سکے تو اس کا عوامی سطح پر یہ مطلب لیا جائیگا محض بیان بازی سے وقت گزار کر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک ٹھنڈی پڑ جائے اور مودی سرکار اس مشکل سے نکل جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیر اعظم نواز شریف کا نام لے کر جو مخالفانہ بیان دیا ہے علم سیاسیات کی شدھ بدھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ بعض اوقات مخالفانہ بیان کا مقصد کسی کی ساکھ برقرار رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ مخالفت کا تاثر رکھ کر حمایت کا کام کر سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں ایسا نہیں سوچا جا سکتا لیکن اگر اس موقع پر بھی بھارت کے خلاف عملی اقدامات نہ کئے تو پھر ان کے حوالے سے عوامی سطح پر پھیلے تاثر کو ختم کرنا بہت مشکل ہو جائےگا۔
(روزانہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں