گھنگھور گٹھا تلی کھڑی تھی، پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی، ہمارے گھر زنانہ میلاد شریف تھا اور ملانیاں ابھی تھوڑی دیر ہوئی مولود پڑھ کے گئی تھیں، جو رشتے کی عورتیں دور محلے کی تھیں، انہیں امی نے روک لیا تھا کہ بہن، اس وقت کہاں جاؤ گی۔۔۔ نہ رکشا نہ تانگا اور پھر مینہ کا ہر دم دھڑکا، صبح کو چلی جانا۔
آسمان پر بادل گرج رہے تھے اور بجلی ایسی لپکیں مار رہی تھی کہ زمین سے لگ لگ جاتی تھی، اس ڈر سے کہ کہیں بارش نہ آ جائے ، چارپائیاں برآمدے میں بچائی گئی تھیں۔ بائیں طرف کونے میں ہمارا پلنگ تھا۔ ہمارے برابر ہماری خالہ زاد بہن سیما کا، اس کے بعد نانی ٹخو کا اور پھر امی اور دوسری عورتوں کے ، اب ان نانی ٹخو کا حال سنو۔
یہ نانی ٹخو سارے شہر کی نانی تھیں، ساٹھ سال سے زیادہ عمر ہو گی۔ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، کمر جھک کر زمین کو لگ گئی تھی، چلتیں تو ایسے ، جیسے آٹھ کا ہندسہ لڑھکتا ہوا چلا جا رہا ہے ، شہر میں کہیں شادی بیاہ ہو تو نانی ٹخو سب سے پہلے موجود چاہے جان پہچان ہو یا نہ ہو، لوگ انہیں نانی سیدانی کہتے تھے مگر ہم بچوں نے ان کا نام نانی ٹخو رکھا تھا۔
گیارہ بج چکے تھے مگر باتوں کی کھچڑی پک رہی تھی۔ ایکا ایکی امی کو کچھ خیال آیا اور وہ ہم سے بولیں، بیٹا سعید صبح کو جا کر اس موئے ٹال والے سے کہنا کہ ساری گیلی لکڑیاں ہمارے گھر ہی ڈال گیا ہے توبہ آنکھیں پھوٹ گئیں پھونکتے پھونکتے اور لکڑیاں تھیں کہ جلنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔
ہم بولے امی، یہ صحبت خان بڑا لڑاکا آدمی ہے ، لوگ اسے مصیبت خان کہتے ہیں، زیادہ تین پانچ کرو تو کہتا ہے خو بھئی، لکڑی گیلا ہے کیا ہوا۔ چولہے میں جلے گا تو سوکھ جائے گا۔
سیما بولی، تو آپ اس سے لاتے ہی کیوں ہیں، دو قدم آگ بڑھ کر دوسری ٹال سے لے آیا کیجئے۔
جی ہاں، زیان ہلا دینا بہت آسنا ہے اور کرنا بہت مشکل، ہم نے کیا، آپ ہی اسکول سے آتے وقت لیتی آیا کیجئے نا۔
لیجئے خالہ جان، سیما ہاتھ نکال کر بولی۔ بھلا کہیں لڑکیاں بھی لکڑیاں لاتی ہیں۔
جی ہاں، لڑکیاں ہوائی جہاز چلا سکتی ہیں، توپوں اور بندوقوں سے لڑسکتی ہیں، لکڑیاں کیوں نہیں لا سکتیں، اور پھر لکڑی اور لڑکی میں فرق ہی کتنا ہے۔ کاف کو یے سے ملا دو تو لڑکی بن گئی اور لام سے ملا دو تو لکڑی۔
اس پر اتنے زور کا قہقہہ پڑا کہ برآمدے کی چھت ہلنے لگی۔ امی نے بڑے پیار سے ہماری طرف دیکھا اور انجم آپا سے بولیں، بڑا سمجھ دار بچہ ہے ماشاء الہ چھٹی جماعت میں فسٹ آیا ہے۔ اپنے ابا سے تو ایسی بحثیں کرتا ہے کہ بے چارے حقہ لے کر بیٹھک میں بھاگ جاتے ہیں پر بیٹی، ہے بہت شریر۔
انجم آپا بولیں، اے خالہ، تیز دماغ کے بچے شریر ہوا ہی کرتے ہیں۔
واہ، رٹا لگا کے فسٹ آئے تو کیا آئے ، سیما منھ بنا کر بولی، اس طرح تو طوطا بھی فسٹ آسکت ہے ایک دن بڑا مزہ آیا، خالہ جان، ذرا سنیئے۔ آپ کمرے میں بیٹھے جھوم جھوم کر جغرافیہ رٹ رہے تھے ، مان سون ہوائیں بارش برساتی ہیں۔ بارش برماتی ہیں۔ میں نے کہا بھائی جان، بارش برسانا تو سنا تھا، یہ برمان کیا ہوا۔ بولے بکو مت، کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے۔ میں نے کتاب دیکھی تو واقعی میں چھپائی کی غلطی سے برسنا کی “س” موٹی ہو کر “م” بن گئی تھی۔ ہی ہی ہی۔۔۔
ہم نے غصے سے کہا۔ امی، اسے سمجھا لیجئے۔ ایسا نہ ہو کرہ میری تلوار تڑپ کر نیام سے باہر نکل آئے اور میدان جنگ میں کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔
اے بیٹے ، خدا کا نام لے ، امی بولیں، کسی بری فالیں منھ سے نکالتا ہے ، ویسے ہی سنا ہے جنگ چھڑنے والی ہے۔ چل، بتی بجھا دے اور پنکھا تیز کر دے ، نیند آ رہی ہے ، موا حبس کتا ہے ، اری ناصرہ، تجھے ہوا آ رہی ہے۔
ناصرہ باجی پرلے کونے میں سے بولیں، ہاں، کبھی کبھی کوئی بچا کچھا جھونکا آ ہی جاتا ہے ، ارے سعید، یہ پرویز کی سیٹی اپنے پاس رکھ لے ورنہ صبح اٹھتے ہی بجا بجا کر سب کو جگا دے گا۔
ہم نے سیٹی لے کر تکیے کے نیچے رکھ لیل اور بتی بجھا کر لیٹ گئے۔ مگر نیند کوسوں دور تھی۔ اتنا بڑا برآمدہ اور ایک پنکھا، پسینے چھوٹ رہے تھے ، تھوڑی دیر بعد سب سوگئے اور برآمدہ ہلکے ، بھائی، سریلے اور بے سرے خراٹوں سے گونجنے لگا۔ ان میں نانی ٹخو کے خراٹے سب سے بلند تھے۔ وہ ایسی ڈراؤنی آوازیں نکال رہی تھیں جیسے بلیاں لڑ رہی ہوں۔
ہم نے بے چینی سے کروٹ بدلی تو سیما بولی، بھائی جان جاگ رہے ہو۔
تمہیں بھی نیند نہیں آتی۔ ہم نے پوچھا۔
نیند کیا خاک آئے ، وہ بولی، ایک تو گرمی اور اوپر سے نانی ٹخو کے خراٹے۔ کوئی کہانی سنائیے۔
کہانی سناؤں کہ تماشا دکھاؤ۔
یہ کہہ کر ہم نے نانی ٹخو کی طرف دیکھا۔ وہ چت لیٹی بالکل سے خبر سو رہی تھیں اور سانس کے ساتھ ان کے ہونٹ ایسے پھڑ پھڑا رہے تھے جیسے لوہار کی دھونکنی سے بھٹی میں شعلے پھڑ پھڑاتے ہیں۔
تماشا۔۔۔۔ وہ کہنی کے بل اٹھ کر بولی، تماشا کیا۔
ایسا دلچسپ اور مزے دار کہ تم نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ ہم نے کہا اور تکیے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
دکھائیے۔ وہ آہستہ سے بولی۔ اندھیرے میں اس کی آنکھیں حیرت اور دلچسپی سے چمک رہی تھیں۔
پہلے وعدہ کرو کہ بھانڈا نہیں پھوڑو گی کیوں کہ جوتے کھانے کا خطرہ ہے۔
جوتے پڑے تو دونوں آدھوں آدھ کر لیں گے۔ وہ بولی، شروع کے تم کھا لینا اور آخر کے میں۔
آخر کے کیوں، ہم نے پوچھا۔
بولی، آخر میں مارنے والے کے ہاتھ جو تھک جاتے ہیں۔
بڑی ہوشیار ہو، پھر بھی امتحان میں تھرڈ ہی آتی ہو،
تمہاری طرح رٹا جو نہیں لگاتی جناب۔۔۔۔۔۔ دماغ سے کام لیتی ہوں۔۔۔ اچھا، چھوڑو، ان باتوں کو، تماشا دکھاؤ۔
ہم نے تکیے کے نیچے سے سیٹی نکالی اور چپکے سے سیما کے پلنگ پر چلے گئے۔ نانی ٹخو کو تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ ایسی سو رہی تھیں جیسے اب کبھی نہیں اٹھیں گی۔ ہم نے سیٹی ان کے منہ میں ٹھوسی اور دونوں ہونٹ بند کر دیے۔ بے چاری کا پوپلا منہ تھا، سیٹی ہونٹوں سے ایسے چپک گئی جیسے لیئی لگا دی گئی ہو، اب جو نانی ٹخو سانس لیتی ہیں تو آواز نکلتی ہے ، پھرررر پیں۔ پھرررر پیں۔ سیما کا یہ حال کہ ہنسی روکے نہ رکے۔
ہم جلدی سے اپنے پلنگ پر آ گئے اور ایسے بن گئے جیسے پتا ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے ، ادھر نانی ٹخو برابر پھر رررر پیں۔ پھرررر پیں کیے جا رہی تھیں۔
یکایک نانی ٹخو نے ایک لمبی سی سانس لی اور سیٹی میں سے ایسی زور کی آواز نکلی کہ امی گھبرا کر اٹھ بیٹھیں، انہوں نے حیرت سے نانی ٹخو کو دیکھا اور بولیں اے نانی، او نانی، یہ کیا کر رہی ہو۔
نانی ٹخو بولیں۔ پھرررر پیں۔
اس پر امی کا پارہ چڑھ گیا۔ چلا کر بولیں۔ اے بی، ذرا اس بڑھیا کو تو دیکھو۔ یہ عمر اور یہ چونچلے ، اے نانی، سیٹی بجانے کے لیے یہ رات ہی رہ گئی تھی، سارے گھر کی نیند حرام کر دی لے کے۔
یہ کہہ کر انہوں نے نانی ٹخو کو زور سے جھنجھوڑا۔ وہ سمجھیں کوئی آفت آ گئی ہے۔ جلدی سے جوتیاں ہاتھ میں لیں اور ہو ہو کرتی صحن میں دوڑنے لگیں۔ شور سن کر تمام عورتیں جاگ گئیں، انہوں نے سمجھا کوئی چور گھس آیا ہے سب بے تحاشا چیخنے لگیں۔ اس چیخم دھاڑ میں بچوں کی بھی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے ایسی دہائی دی کہ سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔
غل غپاڑے کی آواز بیٹھک میں گئی تو ابا جان ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ، ان دنوں ڈاکے بہت پڑ رہے تھے ، وہ سمجھے ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا ہے۔۔۔۔ جھٹ بندوق لے کر اندر گھس آئے۔ کچھ دیر ہکا بکا کھڑے نانی اور امی کو گھورتے رہے پھر بولے ، لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔ یعنی یہ کیا ہو رہا ہے ، حد ہو گئی، میں کہتا ہوں یہ پاگلوں کی طرح شور کیوں مچا رہی ہو۔
امی ہانپتی ہوئی بولیں، اس بڑھیا نے تو قیامت برپا کر دی۔ غضب خدا کا۔ ایک تو سیٹی بجا رہی تھی اور میں نے روکا تو بھاگنا شروع کر دیا۔
سیٹی بجا رہی تھی، ابا جان تعجب سے بولے ، لاحول ولاقوۃ، دماغ چل گیا ہے اس کا۔
سیما منہ میں دوپٹا ٹھونسے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر اس سے ضبط نہ ہوسکا تو کھل کھلا کر ہنس پڑی۔
ابا جان نے مڑ کر حیرت سے اسے دیکھا اور بولے ، اس کا کیا مطلب۔۔۔۔۔ سچ سچ بتا کیا معاملہ ہے ، ورنہ یاد رکھ، میری بندوق بھری ہوئی ہے۔
بندوق کا نام سنا تو سیما کی روح فنا ہو گئی، جلدی سے تھوک نگل کر بولی، ب ب ب بات یہ ہے ، خ خ خالو جان، کہ نانی ٹخو کے منہ میں بھائی جان نے ، سیٹی ٹھونسی تھی اور۔
اے ہے ، امی نے سر پر ہاتھ مار کر کہا تو یہ سعید صاحب کی کارستانی تھی۔
کہاں ہے یہ سعید کا بچہ، ابا جان نے ہماری طرف بڑھتے ہوئے کہا اور پاس آ کر کان پکڑ کر جو کھینچا تو ہم ایک دم اسٹینڈ اپ ہو گئے۔ چل، میرے پاس بیٹھک میں سونا، شیطان کہیں کا۔
اس دن سے نانی ٹخو ہمارے گھر کبھی نہیں آئیں۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
(ہنسی ہنسی میں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں