میں نے کبھی ایسا کوئی شعر نہیں کہا جسے اپنے قلب میں محسوس نہ کیا ہو، اور محض عقل کے زور سے کہہ دیا ہو۔ میرے اشعار میں فکر اور جذبہ دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ یکم مئی 1933ء میکلوڈ روڈ پر علامہ اقبالؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کچھ دیر بعد جناب میکش (مرتضیٰ احمد مرحوم) ملنے آگئے۔ کچھ دیر کی باتوں کے بعد علامہ ؒ نے میکش صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا: چند روز ہوئے سردار عبدالرسول خان اور ان کے ایک دوست میرے پاس آئے تھے، کہتے تھے کہ ’’ہم دونوں ابھی فریضہ حج سے فارغ ہو کر آئے ہیں۔ سلطان ابن سعود نے بہت برا کیا کہ زائرین کو روضہٗ اقدس کی جالیوں کو بوسہ دینے سے روک دیا۔ مجھے سلطان نے عصرانے پر مدعو کیا تھا لیکن میں نے ان کی دعوت اس لئے رد کر دی کہ انہوں نے ہمارے جذبات کا احترام نہیں کیا۔‘‘ یہ سن کر میکش کہنے لگے کہ میری رائے میں سلطان نے صحیح کیا۔ کیونکہ جالیوں کو بوسا دینا ایک مشرکانہ فعل ہے۔ اس پر علامہ نے فرمایا کہ میں اس بات میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ اگر کوئی شخص فرط محبت سے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لے اور اس کی پیشانی چوم لے تو یہ شرک کیسے ہوگیا؟ یہ تو اظہار محبت ہے۔ اسی طرح حضور انورﷺ کے روضہٗ اقدس کی جالیوں کو چومنا، مشرکانہ فعل نہیں ہے۔ بلکہ حضور پر نورﷺ سے محبت کا اظہار ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ میں خدائی صفات تسلیم کرتا ہے یا آپﷺ کو الوہیت میں شریک کرتا ہے تو وہ بلاشبہ مشرک ہے۔ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ جو مسلمان جالیوں کو چومتے ہیں وہ فرطِ محبت و عقیدت سے ایسا کرتے ہیں اور یہ فعل مشرکانہ نہیں ہے۔ اس پر میکش کہنے لگے کہ محبت یہ نہیں ہے کہ جالیوں کو بوسہ دیا جائے، محبت یہ ہے کہ محبوب کے مقصد حیات کی حمایت کی جائے اور اس کی اتباع کی جائے۔ یہ سن کر علامہؒ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آپ کو یہ غلطی، محبت کے مدارج میں امتیاز نہ کر سکنے کی وجہ سے لا حق ہوئی ہے۔ محبت کے مختلف مدارج ہیں۔ ایک شخص اگر محبت میں اس قدر بلند مرتبہ حاصل کرلے کہ محبوب کے رنگ میں رنگین ہو جائے یا اس کے لئے اپنی جان قربان کردے تو یہ اس کی انتہائی خوش نصیبی ہے۔ مگر سب لوگ اس بلند مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے۔ جو شخص اپنے محبوب کے لئے جان نہیں دے سکتا ظاہر ہے کہ اس کی محبت ادنیٰ درجے کی ہے لیکن آپ اس کی محبت کی مطلق نفی نہیں کر سکتے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے سرے سے محبت ہی نہیں۔ آپ محبت کو منطق کے پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ اصول ہی غلط ہے، محبت منطق سے بالا تر ہے۔ دراصل یہ انسان کے مزاج پر موقوف ہے۔ بعض لوگوں کی عقل ان کی محبت کے تابع ہوتی ہے اور بعض کی محبت ان کی عقل کے تابع ہوتی ہے اور دونوں قسم کے آدمی دنیا میں پائے جاتے ہیں مثلا: حضرت علیؓ اگرچہ علم و فضل کے اعتبار سے بہت بلند مرتبے پر فائز تھے، لیکن حب رسولﷺ کا جذبہ ان کی عقل پر غالب تھا وہ بعض باتیں ایسی کرتے تھے جن پر منطقی اعتراض وارد ہو سکتا ہے۔ مثلا وہ جب کبھی اس درخت کے نیچے سے گزرتے تھے جس کے نیچے سے ایک مرتبہ حضور انورﷺ گزرے تھے تو جھک کر گزرے تھے حالانکہ وہ قصیر القامتہ تھے۔ اس لئے اس کی مطلق ضرورت نہ تھی، جب لوگوں نے سبب دریافت کیا تو کہا، حضور انورﷺ جھک کر گزرے تھے۔ میں جھک کر اپنے محبوب کے فعل کی تقلید کرتا ہوں۔ دوسری مثال حضرت بایزید بسطامیؒ کی ہے جنہوں نے ساری عمر خربوزہ نہیں کھایا کیونکہ انہیں کوئی حدیث مبارکہ ایسی نہیں ملی جس سے حضورﷺ کا خربوزہ کھانا ثابت ہوجاتا۔ اس لئے میں نے لکھا: کامل بسطامی در تقلید فرد اجتناب از خوردنِ خربوزہ کرد ان کے برعکس حضرت فاروق اعظمؓ کی عقل غالب تھی۔ قصہٗ مختصر علیؓ اور عمرؓ کو حضورﷺ سے محبت تھی لیکن طبائع کے اختلاف کی بنا پر ان کی محبتوں کی نوعیت اور کیفیت جداگانہ تھی۔ ہر شخس کو اختیار ہے کہ اپنی افتاد طبع کی روشنی میں جو رنگ مرغوب نظر آئے اختیار کرے۔ اس میں کسی مباحثے کی ضرورت نہیں بلکہ گنجائش ہی نہیں ہے۔
ملفوظات علامہ اقبال رح
(حضرت سجن سائیں کے فیس بک وال سے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں