جمعرات، 28 جولائی، 2016

سبق آموز باتیں : توحید فی العلم اور شرک فی العلم



توحید فی العلم اور شرک فی العلم کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں اور مغالطے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے علمِ غیب کو ثابت کرنا شرک ہے چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کے باب میں وہ زیادہ بحث علم الغیب کے حوالے سے کرتے ہیں۔ اس مغالطے کو دور کرنے کے لئے آیت الکرسی کا مطالعہ بہت اہم ہے، جس سے اللہ رب العزت کی شانِ علم کا مکمل ادراک ہو جاتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاءَ

’’جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہو چکا) ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ) سب جانتا ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہےo‘‘

البقرۃ، 2 : 255

بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا علم بحرِ بے کراں ہے جس کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ علم یا تو کُلیات پر محیط ہے یا جزئیات پر۔ اب کوئی یہ دعویٰ تو کرسکتا ہے کہ اس کے پاس جو علم ہے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم کا ایک جزو ہے، اگر اللہ رب العزت کا علم سمندر ہے تو اس کا علم محض ایک قطرہ ہے یعنی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے علم کے فیض سے اپنے دامن میں خیرات تو لے سکتا ہے لیکن اللہ رب العزت کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم جو ساری کائنات اور مَا کَانَ وَمَا يَکُونُ یعنی ابتدائے کائنات سے انتہائے کائنات تک، تحت الثریٰ سے فوق العرش تک ہر شے پر حاوی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ کے تحت اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں محض ایک جزو ہے۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احاطہِ علم کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی متنفس میرے علم میں سے کسی شے کا احاطہ نہیں کر سکتا، بات مطلق علم کی نہیں کہ جو میں جانتا ہوں اسے کوئی اور نہیں جان سکتا۔ اس مقام پر اِلَّا بِمَا شَائَ میں اِلَّا کلمہِ عام ہے یعنی اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اس قدر علم کے جو اللہ چاہے اور جس کے لئے چاہے۔ اللہ رب العزت پر کوئی پابندی تو نہیں کہ کتنا چاہتا ہے اور کتنا نہیں چاہتا۔ وہ مالک ہے جسے جتنا چاہے عطا فرمائے۔ وہ کسی سے پوچھ کر عطا کرنے کا پابند تو نہیں۔ لہٰذا اب اس بحث میں پڑنا کہ اس سے مراد کتنا علم ہے اور کتنا نہیں؟ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کتنا علم ہے اور دیگر انبیاء کے پاس کتنا؟ یہ ایک بلاجواز بحث ہے جو بارگاہِ اُلوہیت و رسالت میں گستاخی و بے ادبی کے مترادف ہے۔

اﷲ تبارک تعالیٰ نے یہاں خود اپنے علم کے باب میں استثناء پیدا کر دیاکہ مخلوق میں سے کوئی اس کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا سوائے اس قدر علم کے جو اﷲ تعالیٰ چاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے، جس قدر چاہتا ہے، اپنی بارگاہ سے علم عطا کرنے کے لئے اسے مستثنیٰ کر دیتا ہے اگر عقلِ سلیم سے کام لیا جائے تو بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے خود علم کے باب میں استثنائی شق رکھی ہے۔

اﷲ تعالیٰ کا علم خالق ہونے کی شان کے مطابق ہے۔ مخلوق کا کل (Total) علم اﷲ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں ایک جزو ہے کیونکہ اﷲ رب العزت کا علم غیر محدود اور غیر متناہی ہے۔ اس لئے شرک فی العلم کا سوال ہی خارج از بحث ہے۔ شرک کا ارتکاب تب ممکن ہے اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص کا علم اﷲ تعالیٰ کے علم کے برابر ہے خواہ یہ برابری کا دعویٰ ایک چھوٹے سے جزو میں ہی کیوں نہ ہو اور اگر اﷲ تعالیٰ کے علم کے برابر کسی کا علم ہونے کا کوئی بھی عقیدہ ہی نہیں رکھتا تو پھر شرک کا سوال ہی نہ رہا لہٰذا آیتِ مبارکہ میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کے ساتھ کسی اور کے علم کی برابری کے امکان کو بھی ختم کر دیا گیا۔

اس آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْھِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ فرما کراپنے علم کی دو خاصیتیں اور خوبیاں بیان فرمائی ہیں جو علم الشہادت اور علم الغیب پر مبنی ہیں۔ پھر اگلے حصے میں دو کلیے بیان فرمائے :

کلیہ عدمِ احاطہ : ( وَلاَ يُحِيطُونَ َ کے ذریعہ)
کلیہ استثنائ : ( إِلاَّ بِمَا شَاءَ کے ذریعہ)
1۔ علم الشہادت

جو مخلوق کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے علم الشہادۃ (knoweldge of seen) ہے، اللہ رب العزت اسے جانتا ہے۔ قرآن نے فرمایا :

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ

’’جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہوچکا ہے وہ) سب جانتا ہے۔‘‘

2۔ علم الغیب

اس سے مراد وہ پوشیدہ علم جو مخلوق کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے جو پسِ پشت ہو رہا ہے اسے بھی اللہ رب العزت ہی جانتا ہے۔ فرمایا :

وَمَا خَلْفَهُمْ

’’اور جوکچھ ان کے بعد ہونے والا ہے (وہ بھی جانتا ہے)۔‘‘

پس اللہ تعالیٰ کے علم کی یہ خوبی ہے کہ اس کا علم، علم الشہادت پر بھی محیط ہے اور علم الغیب پر بھی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کی یہ دونوں شانیں یکساں ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔ علمِ الٰہی کے باب میں جب کسی کے لئے لَا يَعْلَمُ کی بات آتی ہے تو اس سے دونوں شانیں مراد ہوتی ہیں کہ کوئی بھی شخص ذاتی طور پر نہ علم الشھادۃ حاصل کرسکتا ہے اور نہ بغیر عطائے الٰہی علم الغیب سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی لَا يَعْلَمُ سے مراد لَا يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ اور لَا يَعْلَمُ مَا خَلْفَهُمْ دونوں ہیں۔ اگر کلیہِ عدمِ احاطہ کا اطلاق بغیر استثناء ہر علم پر کیا جائے تو پھر ہر جاننے والا خواہ وہ علم الشہادۃ جانتا ہو یا علم الغیب مشرک قرار پائے گا اور کائنات میں ہر طرف شرک ہی شرک کارفرما ہو جائے گا۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ عطائِ الٰہی اور اذنِ الٰہی کے ساتھ کلیہِ استثناء کا اطلاق عین منشائِ قرآن ہے۔

علم الغیب کی طرح علم الشھادۃ بھی اللہ تعالیٰ کی شان ہے

بعض لوگ کم فہمی کی بناء پر علم الغیب پر شرک کا فتویٰ عائد کر دیتے ہیں جبکہ علم الشہادت پر شرک کا حکم نہیں لگاتے۔ یہ ایک بڑا اعتقادی التباس اور ناقابلِ معافی علمی خیانت ہے کیونکہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے علم کے بارے میں یہ فرمان تو نہیں کہ جو پردئہ غیب میں ہوتا ہے میں صرف وہ جانتا ہوں۔ اس کا فرمان تو یہ ہے کہ جو سامنے ہوتا ہے وہ بھی میں جانتا ہوں اور جو آنکھوں سے پوشیدہ ہوتا ہے وہ بھی۔ اﷲ رب العزت نے تو اپنے علم کی دونوں قسمیں برابر بیان کی ہیں۔ آیت الکرسی کے علاوہ قرآن مجید کے اور مقامات سے اس پر چند آیات مبارکہ درج ذیل ہیں۔

1۔ سورۃ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق علم الشہادۃ اور علم الغیب کے بارے میں فرمایا :

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًاo

’’وہ ان (سب چیزوں) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اپنے ) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘

طہ، 20 : 110

2۔ سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَo

’’وہ (اﷲ ) ان چیزوں کو جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اس کے حضور) سفارش بھی نہیں کرتے مگر اس کے لئے (کرتے ہیں) جس سے وہ خوش ہوگیا ہو اور وہ اس کی ہیبت و جلال سے خائف رہتے ہیںo‘‘

الانبیائ، 21 : 28

2۔ سورۃ الحج میں ارشاد فرمایا :

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُo

’’وہ ان (چیزوں) کو (خوب) جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں، اور تمام کام اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیںo‘‘

الحج، 22 : 76

بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے علم کو دو ٹکڑوں میں بانٹ کر صرف ایک ٹکڑے ’’علم الغیب‘‘ کے ساتھ شرک مختص کر دیا گویا ان کی نظر میں غیب کا علم کسی اور کو ہو تو شرک ہے۔ کوئی پوچھے علم الشہادت کو انہوں نے کیوں مستثنیٰ کیا؟ اس پر شرک کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے؟ ان مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی دو خوبیاں اور خاصیتیں بیان فرمائیں۔ پہلے علم الشہادت کا اثبات کیا پھر علم الغیب کا لہٰذا ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ پہلے علم الشہادت کو شرک کا ہدف بنائیں کیونکہ روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھوں ایسے واقعات ہمارے اردگرد پوری دنیا میں ہو رہے ہیں جن تک ہمارے علم کی رسائی ہے۔

اگر صرف علم کی رسائی پر ہی شرک کا اطلاق کیا جائے تو پھر نہ کوئی حال کا علم جانے، نہ ماضی کا اور نہ ہی مستقبل کا، نہ کسی کو آنکھوں کے سامنے کی خبر ہو اور نہ آنکھوں کے پیچھے کی خبر ہو تب جا کر اﷲ کا علم شرک سے محفوظ ہو سکے گا لہٰذا ہمارے نزدیک یہ ساری تشریح ہی جاہلانہ ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے واضح اور قطعی طور پر فرما دیا ’’ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ‘‘ یعنی علم الٰہی کے لئے کوئی استثنائی شق نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو قادر ہے جو سامنے ہو رہا ہے وہ بھی جانتا ہے اور جو پیچھے ہو رہا ہے اسے بھی جانتا ہے۔ جبکہ مخلوق کو عطاء کرنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی دو خصوصیات بیان فرمائیں اور دو کلیے واضح کئے وَلَا یُحِيْطُوْنَ کے ذریعے کلیہِ عدم احاطہ اور إِلَّا بِمَا شَآئَ کے ذریعے کلیہِ استثناء متعین فرمایا اور مخلوق کے لئے علم بالعطا کے اثبات کو اپنی مشیت قرار دیا۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس مقام پر علم میں استثناء کی یہ شق علم شہادت کے لئے ہے۔ تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ علم شہادت کے حصول میں کسی پر کوئی قدغن نہیں؟ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ کوئی شخص جتنا چاہے علمِ شہادت حاصل کر کے مخلوق میں سب سے بڑا عالم بن جائے تو اس سے کوئی شرک واقع نہ ہوا اور اگر کسی نے علمِ غیب کے بارے میں کوئی بات کہہ دی تو وہ شرک کا مرتکب ہوجائے؟ صحیح عقیدہ کے مطابق یہ بات درست نہیں۔ اس کا ادراک وہ شخص کرسکتا ہے جس نے قرآن کا عمیق اور گہرا مطالعہ کیا ہو۔ سو یہاں استثناء علمِ شہادت کے بارے میں ہرگز نہیں کیونکہ مشاہداتی علم حواسِ خمسہ کے ذرائع سے حاصل ہوتا ہے جو اﷲ تعالیٰ نے انسان کو خود عطا کئے ہیں۔
‫#‏گل_زادی‬

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں