پیر، 22 اگست، 2016

جِنّات


مفتی منیب الرحمٰن
انگریزی میں کسی ایک کلمے میں ایک حرف ایک ہی جگہ دوبار آئے ،تو اُسے ہم Doubleسے تعبیر کرتے ہیں ،اِسی کو عربی میں مُشدَّد سے تعبیر کرتے ہیںاورپہلے حرف کو ساکن کر کے دوسرے میں مُدْغَم (Merge)کردیتے ہیں ۔اِسی قاعدے کے تحت لفظِ ''جِنّ‘‘کا نون مُشدَّد ہے۔عربی زبان میں ''ج +ن+ن‘‘سے جتنے بھی کلمات بنتے ہیں ،اُن سب میں ستراور پوشیدگی کا معنی پایا جاتا ہے ، جیسے دل کو ''جَنَان‘‘،رِحمِ مادر میں بچے کو ''جَنین‘‘، دماغ پر پردہ پڑنے کو ''جُنون‘‘،ایسے گھنے باغ کو جس کے نیچے کی زمین نظر نہ آئے ''الْجَنَّۃ‘‘،پردے کو ''الجُنَّۃ‘‘،ڈ ھال کو ''الْجُنّۃ، الْجَنَان اور الْمِجَنّ ‘‘اورقبر کو ''اَلْجَنَنْ‘‘کہتے ہیں ۔پس اسی معنی کی مناسبت سے ناری مخلوق کو'' جِنّ اور جَانّ ‘‘کہتے ہیں ،جو نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ہمارے بعض دانشوروں نے ،جنہیں علومِ قرآنی اور عربی دانی کا زعم تھا ،انسانوں سے جدا ایک نوعِ مخلوق ہونے کے اعتبار سے جنّات کا انکار کیا ہے۔غلام احمد پرویز لکھتے ہیں:''عربوں میں ''اَلاِنْس‘‘اُن قبیلوں کو کہتے تھے جو ایک مقام پر مستقل طور پر سکونت پذیر ہوجائیں ،لیکن ''جِنٌّ‘‘ وہ قبائل تھے جو جنگلوں اور صحرائوں میں جا بہ جا پھرتے رہتے اور اس طرح شہر والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے تھے ،انہیں خانہ بدوش قبائل(Nomadic Tribes)کہاجاتا ہے ۔۔۔آگے چل کر لکھتے ہیں: ''اِن مقامات پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں ''جِنٌّ‘‘سے مراد انسان ہی ہیں ،یعنی وہ وحشی قبائل (Gypsies) ہیں جو صحرائوں میں رہا کرتے تھے ، (لغات القرآن ،ص:446)‘‘۔
سرسید احمد خان لکھتے ہیں: ''اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام علمائے اسلام نے جنّوں کو ایسی ہی جداگانہ مخلوق قرار دیا ہے جیسے کہ انسان ،مگر قرآنِ مجید سے جنّوں کی ایسی مخلوق ہونے کا ثبوت نہیں ۔۔۔طویل بحث کرنے کے بعد آگے چل کر لکھتے ہیں: ''مشرکینِ عرب جو جنّوں کا یقین رکھتے تھے، وہ اُن کو جنگلوں اور پہاڑوں میں انسانوں سے مخفی رہنے والے جانتے تھے اور شریر اور زبردست قوی ہیکل خیال کرتے تھے اور اِس قسم کے انسانوں پر بھی جنّ کا اطلاق کرتے تھے ،قرآنِ کریم میں کہیں بطورِ استعارہ جنّ کا اطلاق انسان کو گمراہ کرنے والے شیطان پر ہوا ہے اور کہیں وحشی اور شریر انسانوں پر ،(تفسیر القرآن ،ج:2،ص: 505-511، ملخَّصاً)‘‘۔مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:''جنّوں کے جس تاثّر کا ''سورۃ الجنّ‘‘میں حوالہ دیا گیا ہے ،اس سے اگرچہ وہ لوگ متاثر نہیں ہوں گے جو صرف محسوسات کے غلام ہیں اور اُن چیزوں کے سِرے سے وجود ہی کے منکر ہیں ،جواُن کے محسوسات کے دائرے سے باہر ہیں ،(تدبرقرآن،ج: 8،ص:609)‘‘۔معروف اسکالرسرسید احمد خان اورغلام احمد پرویز معجزات کے منکر ہیں اور وہ اُن کی طرح طرح کی تاویلیں کرتے رہتے ہیں ،چنانچہ معراج النبی ﷺ کے بارے میں عام مسلمانوں کے عقیدے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:''رسول اللہﷺ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور عقلاً محال ہے۔ اگر معراج النبی ﷺ کے راویوں کو ثقہ بھی مان لیا جائے ،تو یہی کہا جائے گا کہ انہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اِس پر قادر ہے ،یہ جاہلوں اور مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے، یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں ،سچے مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو انہوں نے راوی کے سَہو اور خطا، دوراَزکار تاویلات، فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا، (تفسیر القرآن، ج:2، ص: 122-123)‘‘۔
اِن اہلِ علم نے وحیِ ربانی اور دینِ اسلام کے مُغَیِّبَات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر رَد کرنے کا شِعار اختیار کیا اور عقل یا اپنے الفاظ میں قوانینِ فطرت کو اٹل اور ابدی تسلیم کیا،یہاں تک قرار دیا کہ فاطِروخالق سبحانہٗ وتعالیٰ بھی اِن قوانینِ فطرت کا پابند ہے ۔ظاہر ہے اللہ تعالیٰ تو وہی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے ،ہر چیز پر حاکم ہے اور تمام ممکنات اُس کی قدرت کے تابع ہیں ۔کسی بھی چیز میں کوئی کمال ذاتی نہیں ہے ، بلکہ ہرچیز میں جو بھی کمال ہے ،وہ اللہ تعالیٰ کے خَلق اور اُس کی عطاسے ہے اور وہ جس طرح کسی چیز میں کوئی کمال یا خاصیت پیدا کرنے پر قادر ہے ،اِسی طرح اُسے سَلب کرنے اورقلبِ ماہیت پر بھی قادر ہے ،ارشاد فرمایا:''ہم نے حکم دیا :اے آگ!تو ابراہیم پر ٹھنڈک اور سلامتی ہوجا،(الانبیائ:69)‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جنات کے بارے میں فرمایا(1): ''اور جنّ کو خالص آگ کے شعلے سے پیدا کیا،(الرحمن:15)‘‘۔ (۲):''اوراس سے پہلے ہم نے جنّات کو بغیر دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا،(الحجر:27)‘‘۔الغرض قرآنِ کریم میں صراحت ہے کہ جنّ انسانوں سے جدا ایک نوعِ مخلوق ہے اور اُس کا مادّہ ٔ خلقت آگ ہے ۔سورۂ احقاف اور سورۃ الجنّ میں جنّات کی رسول اللہﷺ کے پاس آمد کا ذکر ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''آپ کہیے!میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنّات کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا: ہم نے عجیب قرآن سنا ہے ،جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے ،پس ہم اُس پر ایمان لائے اور ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور بے شک ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے ،نہ اُس نے کوئی بیوی بنائی ہے اور نہ اولاد، (الجن:1-3)‘‘۔ سورۃ الجن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین وجنّات عالَمِ بالا میں جایا کرتے تھے، وہاںگھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور فرشتوں کی باتوں کی سُن گُن لیتے تھے اور کوئی ناتمام بات سُن لیتے تو اُس میں اپنی طرف سے آمیزش کر کے کاہنوں کو پہنچادیتے اور وہ لوگوں کو اپنے دامِ عقیدت میں پھنساتے اور گمراہ کرتے۔لیکن اچانک عالَمِ بالا میں تبدیلی آئی اور جنّات وشیاطین کا داخلہ بند ہوگیا ،تو وہ اس تلاش میں نکل کھڑے ہوئے کہ آخر اس تبدیلی کا سبب کیا ہے ؟۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:''(جنّات نے کہا:) اور ہم نے آسمانوں کا جائزہ لیا تو ہم نے اُسے سخت پہرے داروں اور آگ کے گولوں سے بھرا ہوا پایا ،اور (اس سے پہلے )ہم سُن گُن لینے کے لیے گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے ، سو اب جو کوئی بھی (عالَمِ بالا کی باتیں )سننے لگے تو وہ اپنے لیے آگ کا شعلہ تیار پاتا ہے ،اور ہمیں معلوم نہیں کہ (اس بندش سے) زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کے رب نے اُن کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا ہے اور بے شک ہم میں سے کچھ لوگ نیک ہیں اور کچھ اس کے برعکس ،ہماری راہیں جدا جدا ہیں، (الجنّ: 8-11)‘‘۔پھر فرمایا: ''اوربے شک ہم میں سے چند اطاعت گزار ہیں اورکچھ سرکش ہیں ،(الجنّ:14)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کے حضورجنّات کی آمد کی تفصیل حدیث پاک میںموجود ہے:''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنّات پر قرآن مجید نہیں پڑھا تھا اور نہ ان کو دیکھا تھا، نبی ﷺ اپنے اصحاب کی جماعت کے ساتھ عُکاظ کے بازار میں گئے اور آسمان کی خبر اور شیاطین کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی تھی اور ان کے اوپر آگ کے شعلے پھینکے جاتے تھے، پس شیاطین اپنی قوم کی طرف گئے اور انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی ہے اور ان کے اوپر آگ کے شعلے پھینکے جاتے تھے؟۔ انہوں نے کہا: ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے،زمین کے شرق وغرب میں سفر کرو اور تلاش کرو کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کیا چیز حائل ہوگئی ہے، پھر انہوں نے زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کیا، ان کی ایک جماعت تہامہ کی طرف گئی اور وہاں نبی ﷺ عُکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے ،جب انہوں نے قرآن کو سنا تو انہوں نے کہا: یہی وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمان کے درمیان حائل ہوگئی ہے، پھر وہ اپنی قوم کے پاس گئے اور کہا: اے ہماری قوم!ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے ،ہم اُس پر ایمان لے آئے اور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیں گے ،(صحیح البخاری:4921)‘‘۔
اس مضمون کو سورۃ الاحقاف میں بیان کیا ہے :''اور یاد کیجیے !جب ہم نے جنّات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا جو توجہ سے قرآن سنتے تھے ،پس جب وہ وہاں حاضر ہوگئے ،تو آپس میں کہا:خاموش رہو، پھر جب قرآن پڑھا جاچکا ،تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈر سناتے ہوئے پلٹے، آپس میں کہا: اے ہماری قوم!ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام )کے بعد نازل کی گئی ہے ،جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ،حق اور سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتی ہے ،(الاحقاف: 29-30)‘‘۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے ماننے والے تھے۔
سو جنّات کا وجود ایک حقیقت ہے ،اس پر ہمارا ایمان ہے اور قرآن اس پر شاہد ہے ۔ان میں مسلمان بھی ہیں اور کفار بھی، صالح بھی ہیں اور فاسق وفاجر بھی۔لیکن آج کل عجیب وغریب ہیئت کے حامل لوگ اورجنّات کے عامل ہونے کے دعویدار سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں ، لوٹ رہے ہیں، بلیک میل کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں توَہُّم پرست عورتوں کو پھنسا کر اُن کی آبروریزی کرتے ہیں اور میڈیا بھی اپنے کاروبار کے لیے ایسے لوگوں کو پروموٹ کر رہا ہے ،ان جعلی عاملوں کے لیے سخت تعزیری قوانین کی ضرورت ہے۔
(روزنامہ دنیا)   

طنز و مزاح : گھریلو ٹوٹکا اور رہنمائے باورچی خانہ


ظفر اقبال
سالن میں نمک زیادہ
سالن میں نمک کی کمی بیشی اکثر اوقات ہی رہتی ہے جس پر تلخی وغیرہ بھی ہوتی رہتی ہے اور میاں کی سرزنش بھی‘ ظاہر ہے کہ نمک کی زیادتی کھانے کی ساری لذت ہی کو شرما کر رکھ دیتی ہے۔ حتّیٰ کہ شاعر لوگ بھی بلبلا اٹھتے ہیں: مثلاً غالباً شاد عارفی کا شعر ہے ؎
نمک سالن میں اتنا تیز توبہ
مزعفر ڈالڈا آمیز توبہ
یعنی ایک نمک کی زیادتی ہی سے آدمی توبہ توبہ کر اٹھتا ہے۔ سو‘ سالن میں نمک کم کرنے کے کوئی سائنسی طریقے بھی ضرور ہوں گے کیونکہ سائنس جتنی ترقی کر چکی ہے وہ پریشان کن بھی ہے۔ اسی لیے سائنس سے دور دور رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم اگرچہ سائنسدان نہیں ہیں اور الحمدللہ کہ نہیں ہیں اور اس بدمزگی کو دور کرنے کے لیے جو طریقہ ہم نے ایجاد کیا ہے وہ سہل الحصول بھی ہے اور اس پر کچھ زیادہ خرچہ بھی نہیں اٹھتا‘ اور وہ یہ ہے کہ نمک زدہ سالن میں دو چمچ بھر کر پسی ہوئی سرخ مرچوں کے ڈال دیں اور سالن کو اچھی طرح سے ہلائیں اور گھمائیں! حتّیٰ کہ مرچیں سالن میں اچھی طرح سے مکس ہو جائیں‘ اور جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نمک کی تلخی نیست و نابود ہو جائے گی بلکہ کھانے والوں کو یاد ہی نہیں رہے گا کہ سالن میں کبھی نمک زیادہ بھی تھا ‘یعنی مرچوں کی زیادتی نمک کی زیادتی کو بالکل زائل کر دے گی اور نمک کی زیادتی کی وجہ سے شُوں شُوں کرنے والے شُوں شُوں بھول کر شاں شاں کرنے لگیں گے اور اگر تھوڑی بداحتیاطی سے سالن میں مرچیں زیادہ ہو جائیں تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس میں دو چمچ نمک کے ڈال کر اس کو دہرائیں‘ خاطر خواہ نتائج حاصل ہونگے۔
رہنمائے باورچی خانہ
خواتین خانہ کی سہولت کے لیے ہم نے یہ نہایت مفید کتاب تیار کروائی ہے تاکہ وہ ہر قسم کے کھانے گھر پر ہی تیار کر سکیں اور اپنے میاں کی بھی منظور نظر رہیں کیونکہ بقول شخصے خاوند کی محبت اس کے پیٹ کے راستے سے آتی ہے۔ اگرچہ موجودہ حالات میں وہ بے چارہ ماسوائے محبت کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ اگرچہ گھر سے باہر رہنے میں وہ زیادہ سکون محسوس کرے گا لیکن کڑا پہنانا سراسر زیادتی ہے۔ بلکہ اب تو مزید سہولت ہو گئی ہے کہ برتن وغیرہ صاف کرنے کے علاوہ وہ دفتر یا دکان سے گھر آ کر رات کا کھانا بھی تیار کر سکتا ہے۔ کھانوں کی اس شہرہ آفاق کتاب کا دیباچہ ہماری خصوصی درخواست پر میاں نوازشریف نے لکھی ہے اور بہت مزے لے لے کر لکھا ہے جس میں قسم قسم کے کھانوں کی ترکیبیں پوری تفصیل سے بیان کر دی گئی ہیں جو کہ ماشاء اللہ باتصویر ہیں اور ہر پکوان کی رنگین تصویر بھی شامل کر دی گئی ہے۔ کتاب ہذا میں صاحب موصوف کے چوبیس باورچیوں کے تفصیلی انٹرویوز بھی شامل کئے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے کام سے بوقت طعام کس طرح عہدہ برا ہوتے ہیں کیونکہ اکثر اوقات انہیں ڈبل ڈیوٹی بھی ادا کرنا پڑتی ہے اور ہر وقت انہیں اپنی نوکری کے لالے پڑے رہتے ہیں۔
فاضل دیباچہ نگار نے کھانوں کی تیاری کے علاوہ انہیں کھانے کے طریقے بھی وضاحت سے بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے کس طرح زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو کھانے اور اپنی عبادت کرنے ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر تیاری کے دوران کھانا کچا رہ جائے یا زیادہ پک جائے تو اس کو صبر و شکر کے ساتھ کھانے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ اسے کسی صورت بھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ نیز یہ کہ کھانا اگر ضرورت سے زیادہ تیار ہو جائے تو محفوظ کرنے کی بجائے اللہ کا نام لے کر اسے بھی کھا جانا چاہیے کیونکہ ایک تو باسی ہو کر اس کی غذائیت کم ہو سکتی ہے اور دوسرے لوڈشیڈنگ کے اس زمانے میں فریج وغیرہ بھی متاثر ہوتے رہتے ہیں اور کھانا خراب ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔
صاحب موصوف نے رنگ رنگ کے کھانوں کے علاوہ انہیں ہضم کرنے کے لیے طرح طرح کی پھکیاں تیار کرنے کے طریقے بھی بیان کر دیئے ہیں تاکہ اگر ضرورت سے زیادہ بھی کھا لیا جائے تو اسے اچھی طرح ہضم بھی کیا جا سکے کہ اوّل تو ہر شریف آدمی کا معدہ لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم ہونا چاہیے کہ اسے پھکیاں وغیرہ استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے‘ تاہم پھکیوں کے ساتھ ساتھ مختلف چورن تیار اور استعمال کرنے کے طریقے بھی اس ازحد مفید کتاب میں بتائے گئے ہیں۔ مزید برآں یہ سنہری نسخہ بھی بیان کر دیا گیا ہے کہ اگر پھکی اور چورن استعمال کرنے کے باوجود کھانا ہضم نہ ہو رہا ہو یا پھکی وغیرہ ہر وقت دستیاب نہ ہو تو اوپر سے دبا کر مزید کھا لینا چاہیے تاکہ اس کے بوجھ تلے آ کر پہلا کھانا بھی ہضم ہو جائے۔
فاضل دیباچہ نگار نے اپنی پسندیدہ ڈشیں تیار کرنے کا طریقہ بطور خاص بیان کیا ہے جو تقریباً 125 بنتی ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان سب کو اگر ایک ساتھ یعنی ایک ہی وقت میں کھانا مطلوب ہو تو اس کا کیا طریقہ ہے کہ معدے کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ صاحب موصوف کے نظریے کے مطابق خدا اگر توفیق دے تو ہر وقت کھاتے رہنا چاہیے بصورت دیگر یہ کفران نعمت میں شمار ہو سکتا ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے آپ عاقبت کی فکر سے بھی فارغ ہو جائیں گے کیونکہ کھانا بجائے خود ایک عبادت ہے کہ ساتھ ساتھ آپ اللہ کا شکر بھی ادا کرتے جاتے ہیں۔ کھانوں میں جن جن جانوروں اور پرندوں کا گوشت استعمال ہوتا ہے صاحب موصوف نے ان سب کے خواص بھی دل کھول کر بیان کر دیئے ہیں کہ کس کس جانور یا پرندے کا گوشت کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے اور کون سا قوت مردی میں اضافہ کرتا ہے‘ کون سا جسم کو چاق و چوبند رکھتا ہے اور کس کے کھانے سے ہاضمہ تیز ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ آپ جناب نے تیتر‘ تلور‘ بٹیر‘ تلیئر‘ کبوتر‘ مرغابی‘ مرغ‘ فاختہ‘ ہریل‘ مچھلی‘ ہر قسم کا بکرا‘ مینڈھا‘ دنبہ‘ گائے‘ بھینس‘ ہرن‘ خرگوش اور دیگر خوردنی جانوروں اور پرندوں کے خواص کھول کر بیان کر دیئے ہیں تاکہ قوم اس سے صحیح معنوں میں استفادہ کر سکے۔ ہر جانور اور پرندے کی رنگین تصویر چھاپنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جو اپنے طور پر بیحد اشتہا انگیز ہے۔
اس مقبول عام کتاب کا یہ ایک سو آٹھواں ایڈیشن ہے جس کی قیمت صرف 500 روپے رکھی گئی ہے۔ موجودہ ایڈیشن کی ایک کاپی خریدنے والے کو سابقہ ایڈیشن کے دو نسخے مفت پیش کئے جائیں گے۔ نیز دیباچہ نگار نے کھانا بنانے‘ کھانے اور پھکی اور چورن استعمال کرتے ہوئے ہرپوز میں رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جس کی وجہ سے کتاب ماشا اللہ دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہے اور سابقہ سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ موجودہ ایڈیشن ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے جس میں دیباچہ نگار کی کچھ مزید پسندیدہ ڈشوں کا اضافہ کیا گیا ہے ''پہلے آئو‘ پہلے پائو‘ ‘ نقالوں سے ہوشیار رہیں۔ سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ایسی مفید عام کتابیں ہر روز شائع نہیں ہوتیں۔ عقلمنداں را اشارہ کافی است۔دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
آج کا مقطع
محبت سربسر نقصان تھا میرا ظفرؔ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا مگر ہونے دیا میں نے 
(روزنامہ دنیا)   

صحافت کے طلبہ کے لئے


عامر خاکوانی
صحافت کے طالب علموں کی صلاحیت کے حوالے سے ہمارا تاثر کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ خاص طور سے ان کی مطالعہ سے عدم دلچسپی ناگوار لگتی ہے۔ کتاب تو دور کی بات ہے، ان میں سے بیشتر اخبار تک نہیں پڑھتے۔ جو نیک بخت کسی اخبار میں ملازم ہیں، وہ اپنا اخبار بھی پڑھنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ کوئی پوچھ تو لے تو مزے سے فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اخبار پڑھنے کا وقت نہیں ۔ دنیا کی شاہکار کتابیں، شاہکار فلمیں، مشاہیر علم وادب وفنون لطیفہ ... ان سب سے نابلد رہتے ہیں اور افسوس کہ اس کمی یا خامی کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارا سسٹم اور میڈیا کی موجودہ حالت ان خامیوں کے باوجود انہیں نہ صرف قبول کر لیتی ہے، بلکہ چند سال گزرنے کے بعد یہ پڑے پڑے سینئر ہوجاتے ہیں اور پھر اپنی جہالت اور کم علمی کے اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سے اگلی نسل کا بیڑا غرق کرنے میں جت جاتے ہیں۔ویسے تو یہ صورتحال آج کی نہیں ، پچھلے دو عشروں میں ایسی بہت سی مثالیں میرے سامنے ہیں، ایک دو بار ان کے حوالے بھی دے چکا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ سترہ اٹھارہ برس پہلے ایک بڑے اخبار کے نیوز روم میں کام کرتا تھا۔ انہی دنوں میرا آرٹیکل ایک معروف جریدے میں شائع ہوا۔ ایک ساتھی سب ایڈیٹرکو فخریہ دکھایا تو اس نے تیزی سے رسالہ چھینا اور اسے ڈیسک کی دراز میں رکھ دیا، پھر سرگوشی میں کہا ، ایسی چیزیں دکھاتے نہیں، چھپایا کرتے ہیں۔ حیرت سے میں ان کا چہرہ دیکھتا رہا کہ یہ عجب تماشا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نیوز روم کے ایک اعلیٰ افسر اس قسم کی'' غیر نصابی سرگرمیوں‘‘کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ موصوف کبھی کبھار نیوز روم آ کر بیٹھ جاتے اور اپنی گرجدار آواز میں مختلف معاملات پر تبصرے فرماتے ۔ ایک بات وہ زور دے کر کہا کرتے کہ سب ایڈیٹر کو ''علم دشمن‘‘ ہونا چاہیے۔کتابیں وغیرہ پڑھنے میں وقت ضائع کرنے کی قطعی ضرورت نہیں، ایسے لوگوں کا نیوز روم میں کوئی کام نہیں۔ یہ بات سن کر میرے جیسے اکا دکا کتاب میں دلچسپی رکھنے والے سہم کر دبک جاتے ہیں کہ کہیں کوئی کم بخت ہماری طرف انگلی نہ اٹھا دے...ع 
اکبر نام لیتا ہے '' کتاب‘‘ کا اس زمانے میں
بات صحافت کے طالب علموں سے شروع ہو ئی تھی، گزشتہ روز ایک سینئر صحافی نے اپنے کالم میں مختلف یونیورسٹیوں کے ماس کمیونیشن طلبہ کے حوالے سے افسوسناک انکشافات کئے ہیں۔ان کے بقول ایک بہت بڑی اکثریت کتاب پڑھتی ہے نہ اخبار اور نہ ہی کسی کو کوئی نیوز ٹاک شو دیکھنے کی توفیق ہوئی۔ معلومات اس قدر کمزور کہ کسی نے قذافی کا نام لیا تو اسے یہ نہیں معلوم کہ اس کا تعلق کس ملک سے تھا۔ صدام اور حسنی مبارک سے وہ ناواقف تھے۔ یہ نوجوان صدر پاکستان، چاروں صوبوں کے گورنر، تین صوبوں کے وزیراعلیٰ، سپیکرز، چئیرمین سینیٹ وغیرہ کے ناموں سے بے خبر تھے۔ (ہمیں پنجاب حکومت کا شکرگزار ہونا چاہیے، جس نے پتے پتے، بوٹے بوٹے پر خادم اعلیٰ پنجاب کی تصویر اور نام لکھ لکھ کر کم از کم یہ نام تو نوجوانوں کو ازبر کرا دیا، ورنہ صحافی موصوف کو مزید دھچکا لگتا)۔ ان یونیورسٹیوںکے بیشتر نوجوان ابھی تک کلنٹن کو امریکہ کا صدر اور بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، انہیں نائن الیون کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، یہ نہیں جانتے کہ مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہتے تھے ؟
یونیورسٹی طلبہ کی اس حالت کو دیکھ کرایک سینئر کالم نگار نے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات اور ماس کمیونکیشن ڈیپارٹمنٹس کے سربراہان کو مشورے بھی دئیے، ان میں کچھ پر تو ضرور عمل ہونا چاہیے ۔انہوں نے لکھا:''شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر جبکہ دوسرا انٹلکچوئل تعلیم پر مشتمل ہو۔سو کتابوں، پچاس فلموں اور پچیس مقامات کی فہرست بنائیں ، یہ تینوں فہرستیں صحافت کے طلبہ کے لئے لازمی قرار دی جائیں۔کتابوں میں پچاس کلاسیکل ، پچیس پچھلے دو برسوں کی بیسٹ سیلر اور پچیس تازہ ترین کتب ہوں۔یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علموں دونوں کے لئے لازمی ہوں۔فلموں میں پچیس آل ٹائم فیورٹ، پندرہ پچھلے دس برسوں کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اور دس تازہ ترین یعنی اسی سال کی ہوں۔پچیس مقامات میں قومی اسمبلی، سینیٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنرہائوسز، وزیراعلیٰ ہائوسز، دنیا کے پانچ بڑے ممالک کے سفارت خانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہائوسز شامل ہوں۔نائن الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ناکام بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز نصاب میں شامل کئے جائیں۔ یہ ایشوزطلبہ کو ازبر ہونے چاہئیں۔ ملک کے بیس بڑے ایشوز جیسے بجلی کا بحران، گیس، پانی کا مسئلہ، دہشت گردی، سیلاب، صنعتیں، بے روز گاری، صحت، تعلیم، ٹریفک ، منشیات، انسانی سمگلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلائو،ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی وغیرہ کو مختلف طلبہ میں تقسیم کر دیا جائے۔ وہ ان میں مہارت حاصل کریں اور دوسروں طلبہ کو بھی پریزینٹیشن کے ذریعے آگاہ رکھیں،وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘
یہ سب عمدہ تجاویز ہیں ، میری خواہش ہے کہ کسی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو تو ان تجاویز کو الگ سے موٹے الفاظ میں کمپوز کرا کر اپنی سامنے دیوار پر لگانا چاہیے اور اپنے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں ان اصلاحات کونافذ کرے۔ جب وہ ایسا کر لے تو پھر اسی پیٹرن کو مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ان کی ضرورتوں کے مطابق نافذ کرے۔ اگر ایسا ہوگیا تو صرف دو تین برسوں کے اندر ہماری یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری آجائے گی۔ 
جن طلبہ کو یہ چیزیں مشکل لگ رہی ہیں یا ان کے پڑھے لکھے والدین کو یہ خدشہ ہو کہ ان کی اولاد اس پر عمل نہیں کر پائے گی، انہیں پہلے مرحلے پر اخبارپڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ گھروں میں اخبار لگوا لیں۔میں اپنے اکثر عزیزوں اور دوستوں کو کہتا ہوں کہ اردو کا اخبار کا ماہانہ بل چار سو روپے بھی نہیں ہوتا۔ جولائی کا روزنامہ دنیا کا بل تین سو ساٹھ روپے تھا۔ اتنی معمولی رقم کے عوض پورا مہینہ اخبار پڑھنے کی عیاشی اور اس سے قارئین کو جس قدر معلومات حاصل ہوں گی ، اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ ہماری پڑھی لکھی مڈل کلاس جس کی یہ خواہش تو رہتی ہے کہ ان کی اولاد میں مطالعہ کی عادت پیدا ہو، وہ کتابیں پڑھے ، مگر اس کے لئے وہ پہلا قدم یعنی اخبار لگوانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اتنی معمولی رقم جس سے آج کے دور میں ایک معقول قسم کا برگر بھی نہیں آ سکتا، اخبار پر وہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اب انٹرنیٹ پر اخبار پڑھ لیتے ہیں، وہ بھی بالکل مفت۔ خود میرے بڑے بھائی صاحب نے اپنا اخبار بند کرا کر اسے موبائل نیٹ پر پڑھنا شروع کر دیا ہے۔جب کبھی ویک اینڈ پر وہ تشریف لاتے ہیں، پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک طمانیت انگیز مسکراہٹ کے ساتھ لاہور کے کسی شاندار ریستوران کا تذکرہ کرتے اور وہاں ڈیڑھ دو ہزار کے عوض دئیے جانے والے شاندار بوفے ڈنرکے قصیدے پڑھتے ہیں۔اپنے ہر وزٹ میں وہ ہمیں فاتحانہ مسکراہٹ سے یہ بتانا نہیں بھولتے کہ میں نے اخبار بند کر کے ماہانہ ساڑھے تین سو روپے کی بچت کر لی ہے۔ ہم میاں بیوی ان کی اس ''بچت‘‘کو سن کر ہمیشہ مسکراتی نظروں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ بھائی صاحب مگر مطمئن اور آسودہ ہیں کہ نیٹ پر مفت اخبار اور کالم پڑھنے کا فائدہ ہو رہا ہے، یہ اور بات کہ ہر ماہ وہ کئی ہزار اپنے کھابوں پر اڑا دیتے ہیں۔
میں اپنے دوستوں سے اکثر یہ کہتا ہوں کہ آپ بے شک موبائل پر اخبار پڑھیں بلکہ کتابیں بھی دیکھیں، کہ مستقبل کامیڈیم یہی موبائل ہی نظر آ رہا ہے، لیکن اخبار کی افادیت تسلیم شدہ ہے۔ جس تیزی سے اور کم وقت میں اخبار پڑھا جا سکتا ہے، موبائل پر اس سے کہیں زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ پھر اخبار گھر میں لگوانے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچوں کو اخبار پڑھنے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اخبار لگوانا پہلا قدم ہے، بچوں کو اس جانب راغب کرنا دوسرا اور باقاعدہ قسم کا مرحلہ ہے۔ اس کے لئے بچوں کو ان کی پسند کی خبریں، بچوں کے ایڈیشن، کہانیوں وغیرہ کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ ان میں چھوٹے چھوٹے مقابلے کرانے ہوں گے، بلند آواز سے ریڈنگ کی مشق کرانی پڑے گی، اچھے نتائج پر انعامات دینے پڑیں گے، پھر کہیں جا کر بچوں کی دلچسپی پیدا ہوگی۔ ایک مرتبہ یہ مشکل کام اگر ہوگیا تو پھر آپ کے لئے آسانی پیدا ہوجائے گی۔ اخبار سے کتاب پر چھلانگ لگانا بہت آسان ہے ۔ کچھ نہ پڑھنے والے سے البتہ یہ توقع کی جائے کہ وہ اچانک ہی ناول پڑھنا شروع کر دے گا، یہ خام خیالی ہے۔ اپنے گھر میں اور نئی نسل میں مطالعہ کی عادت ڈالنے کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑے گی۔ یاد رکھا جائے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم جو نسل تیار کریں گے، وہ مطالعے سے نابلد، معلومات سے خالی ، صرف ناک کی سیدھ میں دیکھنے اور رٹا لگا کرنمبر لینے والی مشینیں ہوں گی۔ زندگی کے امتحان میںان سے اعلیٰ کارکردگی دکھانے اور کچھ نیا ، غیر معمولی تخلیق کرنے کی خواہش رکھنا پھر زیادتی ہوگی۔ 
(روزنامہ دنیا)   

وزیراعظم چودھری نثار کو فارغ کیوں کرینگے؟


نصرت جاوید

ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کئے بغیر لکھنے کا دعویٰ صرف غالب ہی کرسکتا تھا۔وہ بھی شاعرانہ تعلی کے ایک خاص لمحے میں۔عمر ساری تو اس بے چارے کی اپنے ہی ایک عزیز کے ہاتھوںدبائی اور تشویش ناک حد تک کم ہوئی پنشن کو انگریزوں سے براہِ راست حاصل کرنے میں صرف ہوگئی۔ اس شاہ خرچ اور بے تحاشہ مہمان نواز کو قرض اٹھاکر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا پڑا۔ 6برس کے لئے بہادر شاہ ظفر کے دربار میں نوکری ملی تو اس کے بارے میں وہ اتراتا رہا۔ اس احساس کے ساتھ کہ وگرنہ شہر میں غالب کی کوئی آبرو نہیں۔

غالب ایسے نادرِ روزگار کو پنشن ،نوابوں کے لئے قصیدے اور شاہ کی مصاحبت حاصل کرنے کے لئے اپنی انا کو دن میں کئی بار فراموش کرنا پڑتا تھا،تو مجھ ایسا بے ہنر ستائش کی تمنا اورصلے کی پرواہ کئے بغیر لکھنے کا دعویٰ کس منہ سے کرسکتا ہے۔

سچ اور صرف سچ ہے تو یہ کہ لکھنے والوں اور خاص طورپر روزانہ اخبارات کے لئے کالم نگاری کے نام پر مجھ ایسے قلم گھسیٹنے والوں کے دل ودماغ پر یہ گماں طاری رہتا ہے کہ قاری ان کے ”گرانقدر “خیالات کے منتظر رہتے ہیں۔ ان دنوں ویسے بھی آپ صرف اخبارات ہی کے لئے نہیں لکھتے۔کالم شائع ہوکر صرف اخبار کے ہاکر کے ذریعے قاری کے گھرتک نہیں پہنچتا۔انٹرنیٹ پر Postبھی ہوتا ہے۔ وہاں کالم پوسٹ ہوجائے تو ہر صورت دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ اسے کتنے لوگوں نے Likeکرکے دوسروں کے ساتھ Shareکیا۔ اس پر کس نوعیت کی تبصرہ آرائی ہوئی۔ کتنی تعداد نے اپنی طرف سے تعریف کے چند کلمات لکھ کر اس کالم کو Re-tweetکیا۔

انٹرنیٹ پر آپ کے لکھے کسی کالم کی پذیرائی کو جانچنے کے پیمانے بہت کڑے ہیں۔ دھوکہ دہی کی اس میں گنجائش ہی نہیں۔ناپ تول کا اعشاری نظام ہے۔ اس نظام کے ہوتے ہوئے دُنیا کے مالدار اور مو¿ثر اخبارات کے لئے لکھنے والوں کو بھی معاوضے میں اضافے کی توقع کے ساتھ اپنی تحریروںکے بارے میں Re-tweets'Likesاور تبصرہ آرائی کی شدید طلب محسوس ہوتی ہے۔

ان سب حقائق کے تناظر میں چند ہفتوں سے میں نے ذرا غور سے انٹرنیٹ پر پوسٹ ہوئے اپنے اس کالم کا جائزہ لیا تو احساس ہوا کہ قارئین کی اکثریت کو وہ کالم زیادہ پسند آئے جس میں کسی نہ کسی نامور سیاستدان کی بھداُڑائی گئی تھی۔ یہ پذیرائی مگر Do Moreکے تقاضوں کے ساتھ ہوتی ہے۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط عصر تو میرے Do Moreسے گھبراکر جھوٹی کہانیاںتراشتے ہوئے میرے ساتھ حساب برابر کرنے کی لگن میں جت گئے ہیں۔ میرا نام لے کر تہمت بھری کہانیاں گھڑتے ہوئے ہمارے انقلابی بقراط کو یاد ہی نہیں رہا کہ ان کا اصل مقام اور ہدف تو پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو آئندہ ”سو دنوں“ میں فارغ کروانا ہے۔ ان کے ”سودن“ جولائی کی کسی تاریخ سے شروع ہوئے تھے۔ 30ستمبر کئی حوالوں سے ان”سودنوں“ کی Cut Offتاریخ ہے۔ انقلابی بقراط کی جانب سے اپنا ہدف بھول کر مجھے نشانہ بنانے کی تڑپ نے مجھے تو مسکرانے پرمجبور کردیا ہے۔ میں ان کی بے بسی کا لطف اٹھاتا ہوں، مگر سوشل میڈیا پر موصوف کی گھڑی تہمتوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ”شیر بن شیر“ کے مشورے دئیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ مشورے نظرانداز کرنا ہوتے ہیں کیونکہ اخبارات کے صفحات ذاتی حساب برابر کرنے میں ضائع نہیں کئے جانا چاہئیں۔

تشویش البتہ یہ دریافت کرنے کی وجہ سے لاحق ہوئی کہ کئی لوگوں کی دانست میں چودھری نثار علی خان کو نواز شریف کے دربار سے فارغ کروانے کی گیم لگ چکی ہے۔ میں ان کے بارے میں تواتر کے ساتھ تنقیدی فقرے لکھ کر شاید اس گیم میں حصہ ڈالنا چاہ رہا ہوں۔حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔

چودھری نثار علی خان کے اندازِ سیاست سے مجھے سواختلاف ہیں مگر 1985ءسے ان کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ بھی بدستور قائم ہے۔ اس رشتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے یہ جان کر بلکہ افسوس ہوا کہ ان کے کسی مخالف نے، جسے میں بااعتبار اور ان دنوں نوازشریف کے دربار میں مو¿ثر سمجھتا ہوں،مجھے یہ جھوٹ بتایا تھا کہ جس روز چودھری نثار علی خان کی تقریر کے بعد خورشید شاہ پوری اپوزیشن کو لے کر قومی اسمبلی کے ایوان سے احتجاجاََ باہر چلے گئے تھے تو وزیر اعظم نے اپنے وزیر داخلہ سے تین بار یہ درخواست کی کہ وہ خود جاکر ناراض اپوزیشن کو راضی کریں۔ وہ تیار نہ ہوئے تو نواز شریف کو بذاتِ خود خورشید شاہ کے چیمبر جانا پڑا۔ میں نے Double-Checkکئے بغیراپنی سورس کا بتایا قصہ لکھ ڈالا جوحقیقت پر مبنی نہیں تھا۔ساری زندگی رپورٹنگ کی نذر کرنے کے باوجود،کالم میں چسکہ ڈالنے کی حرص میں یہ بات لکھ ڈالی۔

احتیاطاََ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مجھے مذکورہ بات خواجہ آصف یا ان کے کسی دوست نے نہیں بتائی تھی۔ خواجہ صاحب میرے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے۔ اگرچہ ان سے ملے عرصہ ہوگیا ہے۔ ایسا کوئی واقعہ حقیقتاََہوا بھی ہوتا اور کسی نہ کسی طرح خواجہ آصف کی وساطت سے مجھ تک پہنچتا تو ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتا۔ دربار کے مصاحبین میں ہوئی گروہ بندی کے تناظر میں رپورٹر کا محتاط رہنا اشد ضروری ہوتا ہے۔

میری تمام تر احتیاط کے باوجود جمعرات کی شام سے کئی سینئر اور جونیئر ساتھیوں نے براہِ راست ملاقاتوں اور ٹیلی فونوں کے ذریعے مجھ سے اس ”خبر“ کی تصدیق چاہی کہ وزیر داخلہ کو ان کے منصب سے فارغ کیا جارہا ہے۔ دو کھانے کی محفلوں میں بھی اکثر احباب مجھ سے یہی سوال پوچھتے رہے۔ ثابت ہوا کہ اسلام آباد میں درباری سازشوں پر گہری نظر رکھنے والوں نے اپنے تئیں یہ طے کرلیا ہے کہ چودھری نثار کی ”فراغت“ کی گیم لگ چکی ہے۔ مجھے اس گیم کی نہ صرف خبر ہے بلکہ اس میں اپنا حصہ ڈالنے کو بھی میں بے قرار ہوں۔ حقیقت مگر اس کے بالکل برعکس ہے۔ بنیادی طورپر ایک رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے صرف اس کھیل پر تبصرہ آرائی کی عادت ہے جو کھلی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوتا ہے۔ درباری مصاحبین کی گروہ بندی میں مجھے کسی فریق کا ساتھ دینے کی بیماری لاحق نہیں۔ اپنی اصل اوقات تک محدود رہتا ہوں۔

چودھری نثار علی خان کی ممکنہ ”فراغت“ سے جڑی داستانوں کو سن کر لطف اٹھانے والوں کو ٹھنڈے دل سے یہ جان لینا چاہیے کہ ہر جماعت کی ایک Core Constituencyہوا کرتی ہے۔امریکی اسے Baseکہتے ہیں۔مثال کے طورپر ڈونلڈٹرمپ، ری پبلکن پارٹی کے بہت سارے خاندانی اور تگڑے رہنماﺅں کو کچلتا ہوا اس جماعت کا صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب ہوا تو اصل وجہ اس کی یہ تھی اس نے وہ سب کچھ گلی کی زبان میں برسرِعام کہنا شروع کردیا جو ری پبلکن پارٹی کی Baseکے دلوں میں شدید تعصب کی صورت کئی دہائیوں سے موجود رہا ہے۔

اصلی اور وڈے مسلم لیگی،جو ان دنوں نواز شریف کی قیادت تلے جمع ہیں،پیپلز پارٹی کو اس کے قیام کے پہلے دن ہی سے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹونے،ان کی نظر میں ،مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کے کھیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد وہ اقتدار میں آئے تو صنعتوں کو نیشنلائزکرکے مسلم لیگ کی Baseکی نظر میں بھٹو نے اس ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی۔ بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر ضیاءالحق نے فوجی آمریت کے جو گیارہ سال گزارے، ان سے مسلم لیگیوں کو کوئی خاص تکلیف نہیں۔ جنرل ضیاءالحق نے کئی حوالوں سے ،بلکہ ان کی نظر میں،پاکستان کا ”اسلامی تشخص“ بحال کیا ہے۔

اپنے تندوتیز بیانات سے چودھری نثار علی خان،پیپلز پارٹی کی نفرت میں مبتلا مسلم لیگی Baseکو خوش کردیتے ہیں۔ اس Baseکی نظر میں وزیر داخلہ نے اپنے بیانات کے ذریعے پیپلز پارٹی کوایک حوالے سے گویا”تحریکِ دفاعِ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی“بنادیا ہے۔وزیر اعظم انہیں اس ”جرم“ پر فارغ کیوں کریں گے؟۔ بہرحال 2018ءمیں انہیں اوران کی جماعت کو ایک اور انتخاب بھی تولڑنا ہے۔

انتخابی لڑائی صرف تحریک انصاف تک محدود رہے تو کام آسان ہوجائے گا۔پیپلز پارٹی نے آئندہ انتخاب سے قبل پنجاب میں کسی نہ کسی اپنا طرح اپنا احیاءکرلیا تو نواز لیگ کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔

وقتی مصلحت کا اگرچہ تقاضہ یہی ہے کہ فی الوقت تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو احتجاجی کنٹینر پر اکٹھا ہونے سے روکا جائے۔ نواز شریف اس مصلحت کے تقاضے اپنے نرم رویے اور اسحاق ڈار کی سفارت کاری کے ذریعے پورے کررہے ہیں۔ چودھری نثار علی خان کی تندوتیز باتیں،ان کا کام مشکل ضرور بنادیتی ہیں۔طویل المدتی تناظر میں لیکن انہیں نہ صرف برداشت کرنا ہوگا بلکہ دل ہی دل میں ”لگے رہو منّا بھائی“ بھی کہنا ہوگا۔

(روزنامہ نوائے وقت)  

وال پیپر: سندھ حکومت کا دینی مساجد مدارس کی دوبارہ، رجسٹریشن کافیصلہ


سندھ کابینہ نے مساجد مدارس کی نئے سرے سے رجسٹریشن سے متعلق بل کے مسودے کی منظوری دی ہے جس کے تحت دینی مساجد مدارس کی رجسٹریشن اور ان کی فنڈنگ کا نیا نظام وضح کیا جائے گا۔ نئے قانون کے تحت سوسائٹیز ایکٹ 1860ء کے تحت رجسٹرڈ مدارس کی رجسٹریشن کالعدم قرار پائے گی۔ نئی رجسٹریشن محکمہ داخلہ سندھ اور صوبائی وزارت مذہبی امور کرے گی۔ نئے دینی مساجد مدارس کے قیام کیلئے مجاز کنٹرولنگ اتھارٹی سے این او سی حاصل کرنا لازمی قرار دیتے ہوئے صوبے بھر میں مساجد کے آئمہ اور منتظمین کی رجسٹریشن کے ساتھ نماز جمعہ کیلئے ایک ہی خطبے کا قانون بنانے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ سندھ اسمبلی سے منظوری کے بعد این جی اوز اور دیگر سماجی تنظیموں کی نگرانی ہوگی اور ان کے اکائونٹس کا آڈٹ ہوگا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے بقول نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد نہ ہونا وفاقی حکومت کی نا اہلی اور ناکامی ہے۔ سندھ میں اس پر ہر صورت عمل ہوگا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اس سمت پہلا قدم ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کا عزم خوش آئند ہے تاہم الزاماتی سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن بجا طور پر اہم، ضروری اور وقت کا تقاضا ہے۔ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے مکمل غیر جانبداری اور شفافیت کا اہتمام کرنا ضروری ہے حکومت مدارس انتظامیہ کے تحفظات دور کر کے ان کی بھر پور مدد کرئے اور مدارس کو بھی وسیع تر ملکی مفاد میں خوشدلی سے تعاون کرنا چاہئے
(روزنامہ نوائے وقت)

راہ ہدایت: نماز کی تاکید

رضا الدین صدیقی


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور نماز قائم رکھو اور تم مشرکوں میں سے نہ ہو جائو‘‘۔ (الروم: ۳۱) ’’(جنتی مجرموں سے سوال کرینگے) تم کو کس چیز نے دوزخ میں داخل کر دیا؟ وہ کہیں گے: تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔ (المدثر: ۴۳۔۴۲) حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: کسی شخص اور اسکے کفر اور شرک کے درمیان (فرق) نماز کو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم) یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اور مشرکوں کا کام ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائیگا وہ نماز ہے، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائیگی اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائیگا دیکھو کیا اسکی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اسکے فرض کی کمی کو پورا کر دیا جائے، پھر باقی اعمال کا اسیطرح حساب لیا جائیگا۔ (سنن نسائی) حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں۔ (مسند احمد بن حنبل) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی رحمتﷺ نے فرمایا: سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور دس سال کی عمر میں انکو سرزنش کر کے ان سے نماز پڑھوائو، اور انکے بستر الگ الگ کر دو۔ (سنن ابودائود) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں رسول اکرمﷺ کا وصال ہوا اس میں آپ بار بار فرماتے تھے: نماز اور غلام۔ (سنن ابن ماجہ) ابو عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کیساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوں نے ایک خشک شاخ پکڑ کر اسکو ہلایا حتیٰ کہ اسکے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کروگے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہﷺ نے اسیطرح کیا تھا، میں آپ کیساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کروگے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اور پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اسکے گناہ اسطرح جھڑ جاتے ہیں جسطرح اس درخت کے پتے گر رہے ہیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اور دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز کو قائم رکھو، بیشک نیکیاں، برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ ان لوگوں کیلئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنیوالے ہیں‘‘۔ (ھود: ۱۱۴) (مسند احمد)

اتوار، 21 اگست، 2016

گھریلو چٹکلے اور مشورے : جامن کھائیے








جامن استوائی خطے کا ایک سدا بہار درخت ہے جس کا اصل وطن پاکستان ، بھارت ، نیپال ، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا ہے۔ یہ کافی تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے جو مناسب حالات میں 30 میٹر کی اونچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ درخت اکثر 100 سال سے زیادہ کی عمر پاتا ہے۔ اس کے پتے گھنے اور سایہ دار ہوتے ہیں اور لوگ اسے صرف سایہ اور خوبصورتی کے لیے بھی لگاتے ہیں۔ لکڑی بہت مظبوط ہوتی ہے جس پر پانی اثر نہیں کرتا۔ اپنی اس خصوصیت کے باعث اس کی لکڑی ریلوے لائنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ جامن کےدرخت پر موسم بہار میں چھوٹے چھوٹے خوشبودار پھول آتے ہیں۔ برسات کے موسم تک پھل تیار ہوجاتا ہے۔ پھل کے باہر نرم چھلکا ، پھر گودا اور درمیان میں ایک بیج ہوتا ہے۔ پھل کا رنگ جامنی ہوتا ہے، رنگ کا نام اسی پھل کی نسبت سے ہے۔ جامن کے فوائد جامن ایک سستا اور آسانی سے حاصل ہونے والا پھل ہے- اس پھل کی آمد موسم برسات میں ہوتی ہے اور اسی موسم میں اس کا اختتام بھی ہو جاتا ہے۔ یہ پھل شمالی پاکستان سے لے کر جنوبی ہند تک عام پایا جاتا ہے۔ اطباء کے نزدیک جامن کا مزاج دوسرے درجے میں سرد و خشک ہے۔
 اللہ تعالٰی نے حضرت انسان کیلئے پھل سبزیو ں کی صورت میں جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے موسمی تقاضوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ جامن کی بطور پھل غذا بخشی اپنی جگہ مگر یہ متعدد عوارضات میں تدبیر کا بھی کام دیتا ہے اس طرح جامن کو ان پھلوں میں شمار کر سکتے ہیں جوغذائی و دوائی فوائد سے مالا مال ہیں۔-
 جامن کی اقسام: جامن چھوٹا بھی ہوتا ہے جسے دیسی جامن کہتے ہیں اور بڑا بھی جو پھلندا کہلاتا ہے جبکہ ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے جس کا گودا بہت کم ہوتا ہے۔ جامن کے قیمتی طبی فوائد: جامن کے بے شمار طبی فوائد ہیں اور یہ کئی امراض کے علاج میں فائدہ ثابت ہوا ہے۔ 
جامن ذیابیطس کنٹرول کرنے میں انتہائی مفید ہے۔ ذیابیطس ٹائپ ون کی بجائے ذیابیطس ٹائپ ٹو میں جامن کا استعمال زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے لیکن اس مرض کی دیگر مروجہ ادویات کے بجائے صرف جامن ہی کے استعمال پر انحصار کسی طور پر مناسب نہیں۔ شوگر کے مریض اگر کبھی کبھار آم کھالیں تو اس کے بعد جامن کھانے سے شوگر لیول اعتدال پر رکھا جاسکتا ہے نیز اس سے آم کی حدت بھی معتدل ہوجاتی ہے- 
موسم برسات میں اسہال\' گیسٹرو اور دیگر پیٹ کے امراض کیلئے بھی جامن کا سرکہ فائدہ مند ہے جو صدیوں سے مستعمل ہے۔ لو لگنے کی صورت میں جامن کھانے سے لو کے اثرات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ 
پھوڑے پھنسیوں سے محفوظ رہنے کیلئے جامن نہایت مفید ہے۔ چہرے کے داغ دھبے\' چھائیاں\' جامن یا جامن کے شربت کے مسلسل استعمال کرنے سے دور ہوجاتی ہیں اور چہرے کی رنگت نکھر جاتی ہے۔ چہرے کی شادابی\' داغ\' دھبے\' چھائیاں دور کرنے کیلئے جامن کا بیرونی استعمال بھی کیا جاتا ہے اس مقصد کیلئے جامن کی گٹھلیوں کو پانی میں رگڑ کر اس کا پیسٹ بنائیں اور چہرے پر اس کا لیپ کریں۔ 
جامن جسم کو تقویت دیتا ہے۔ جامن پیشاب کی جلن میں بھی مفید ہے۔ اگر منہ پک جائے تو جامن کے نرم پتے ایک پاؤ لے کر ایک کلو پانی میں جوش دیں بعد ازاں چھان کر کلیاں کرنے سے فائدہ ہوجاتا ہے۔ جامن کا کھانا آواز کو درست اور گلے کو صاف کرتا ہے۔
 رات کو سوتے وقت منہ سے پانی بہنے کی شکایت (بادی کیفیت) کو دور کرتا ہے۔ جامن تیزابیتِ معدہ کا خاتمہ کرتا ہے۔ معدہ اور آنتوں کی کمزوری کو دور کرنے کیلئے ایک پاؤ جامن کے سرکے میں تین پاؤ چینی ملا کر سکنجبین بنائیں اور صبح وشام استعمال کریں۔
 بواسیر کا خون بند کرنے کیلئے بیس گرام جامن کے پتے ایک پاؤ دودھ میں رگڑ کر چھان کر پلانا مفید ہے۔ جامن کو رطوباتی قے اور جی متلانے کے عوارضات میں مفید پایا گیا ہے اور ایسے دست جو موسم برسات میں رطوبا کی وجہ سے ہوجاتے ہیں ان کے لئے جامن کا استعمال ایک مفید غذائی دوائی تدبیر کا درجہ رکھتا ہے- 
 جامن کے استعمال سے خون کا گاڑھاپن اور بڑھتی ہوئی موسم تیزابیت ختم ہو جاتی ہے- اسی سبب یہ خون کے سرطان (کینسر )میں بھی فائدہ مند قرار دیا گیا ہے اپنے سروخشک مزاج کے سبب جسم کی فلاتو رطوبات کو جذب کر تا ہے جگر اور تلی کے ورم میں اچھے اثرات ظاہر کر تا ہے- 
جامن میں فولاد کی موجودگی کی وجہ سے خون کے سرخ ذرات کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔ جامن کے کیمیائی تجزیہ کے مطابق اس میں فولاد بھی پایا جاتا ہے اس طرح خون کی کمی والے حضرات کے لئے بھی مفید ہے ۔ 
جامن وٹامن (حیاتین ج)کا قدرتی خزانہ ہے اس لئے جن لوگوں کو وٹامن سی کے کمی کے نتیجہ میں مسوڑھوں سے خون آتا ہے جامن کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کے پتوں سے بھی استفادہ کریں کیوں کہ جامن کے پتے اور درخت بھی کام آتے ہیں مسوڑھوں سے خون آنے کی صورت میں جامن کے پتوں کو پانی میں جوش دے کر تھوڑا سا نمک ملا کر غر غرے کرنا مفید ہے- 
جامن کا سرکہ مندرجہ ذیل طریقے سے بنایا جا سکتا ہے: 
جامن کا رس حسب ضرورت نکال کر مٹی کے گھڑے میں ڈال کر اچھی طرح بند کر کے دھوپ میں رکھ دیں -اس میں تھوڑی سی پسی ہوئی رائی بھی ڈال دیں دو ماہ بعد گھڑے میں جو کچھ ہو چھان لیں جامن کا سرکہ تیار ہے- یہ سرکہ جامن معدہ اور آنتوں کو طاقت دیتا ہے اس سے نہ صرف نظام ہضم صحیح رہتا ہے بلکہ غذا بھی جلد ہضم ہوتی ہے ۔ بھوک صحیح لگتی ہے ۔
 جامن مفرح قلب ہے: گھبراہٹ و بے چینی اور ایگزائٹی میں فائدہ مند ہے۔ 
جامن کا موسم نہ ہونے کی صورت میں غرض ذیابیطس کیلئے جامن کی گٹھلیوں کا سفوف تین گرام صبح نہار منہ اور شام پانچ بجے کھانا چاہیے۔ مزید برآں ذیابیطس کے مریض اگر تخم جامن تیس گرام' طباشیر نقرہ دس گرام' دانہ الائچی خورد پندرہ گرام کاسفوف بنالیں اور صبح و شام ایک چمچ (چائے والا) ہمراہ تازہ پانی متواتر 21 روز استعمال کریں تو شوگر کنٹرول ہوجاتی ہے۔ 
جریان کیلئے نسخہ: جامن کی گٹھلیوں کو خشک کرکے ان کو باریک پیس لیں اور یہ سفوف تین گرام کی مقدار میں صبح نہار منہ اور شام پانچ بجے تازہ پانی سے بیس یوم استعمال کرنے سے انشاءاللہ بدخوابی و جریان کامرض جاتا رہے گا۔ نوجوان لڑکیاں اور خواتین لیکوریا کا علاج: لیکوریاکے مرض میں جامن کی گٹھلیاں پچاس گرام باریک پیس لیں اور اس میں کشتہ بیضہ مرغ دس گرام شامل کرلیں' یہ سفوف دو سے تین گرام بلحاظ عمر صبح نہارمنہ اور شام پانچ بجے دودھ یا سادہ پانی سے استعمال کریں (دوران حیض استعمال نہ کریں) بیس روز کا استعمال شافی و کافی ہوتا ہے۔ 
خواتین میں کثرت حیض کو کنٹرول کرنے کیلئے جامن کے پتے سایہ میں خشک کرکے سفوف بنالیں اور روزانہ صبح نہار منہ ایک چمچ (چائے والا) ہمراہ تازہ پانی استعمال مفید ہوتا ہے۔ 
جامن کی گٹھلیوں کا سفوف خونی اسہال اور پیچش میں بھی مؤثر ہے۔ اس سلسلے میں شربت انجبار کے ساتھ اس کا استعمال بہتر نتائج دے گا۔ جامن کے درخت کی چھال کو جوش دے کر پینے سے بھی مندرجہ بالا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مسوڑھوں سے خون آنے کی صورت میں جامن کے پتوں کو پانی میں جوش دیکر تھوڑا سا نمک ملا کر غرغرے کرنا مفید ہے۔ اپنے افعال وخواص کے لحاظ سے یہ بھوک لگاتاہے، گرمی دور کرتاہے، خون کا جوش اور تیزابیت دور کرتاہے۔ گرم مزاج والوں کیلئے ایک عمدہ تحفہ ہے۔ 
 جامن کے چند طبی استعمالات: مضبوط دانت اور مسوڑھے: جامن کی لکڑی کا کوئلہ پیس کر قدرے نمک اور سیاہ مرچ ملا کر منجن کی طرح استعمال کرنے سے دانت اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔ اس طرح جامن کے درخت کی چھال کے جوشاندے سے بھی یہی فوائد ملیں گے۔ 
 منہ کے چھالے: منہ کے چھالوں میں بغیر نمک جامن کا استعمال مفید ہے۔
 دمہ اور کھانسی: جامن کے درخت کا چھلکا دو تولہ آدھے کلو پانی میں جوش دیں۔ جب ایک پاؤ پانی باقی رہ جائے تو چار رتی نمک ملا کر صبح وشام پینے سے مرض دمہ اور کھانسی میں مفید ہوتا ہے۔
 زخم: جامن کا چھلکا ، پانچ تولہ کو ایک کلو پانی میں جوش دیں ۔جب ایک پاؤ پانی رہ جائے تو چھان کر اس نیم گرم پانی سے زخموں کو دھوئیں زخم صحیح ہو جائیںگے۔ 
 نکسیر: جامن کے پھول خشک کر کے خوب باریک پیس کر ہلاس کی طرح استعمال کرنے سے نکسیر رک جاتی ہے۔ 
 تلی کا ورم: جامن کا سرکہ کھانے اور ورم پر لگانے سے ورم تلی میں فائدہ ہوتا ہے- 
 جامن کھانے کا صحیح طریقہ: جامن کھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ نمک اور سیاہ مرچ پیس کر کے اس کے ساتھ کھایا جائے- احتیاطی تدابیر: جس طرح ہر شے میں اعتدال ہی مناسب راہ عمل ہے اس طرح جامن بھی حد اعتدال میں استعمال کریں۔ اس کا زیادہ استعمال قبض کرتا ہے۔ ہمیشہ کھانے کے بعد کھائیں خالی پیٹ کھانے سے درد پیدا کر دیتا ہے.
tibbiilaaj.blogspot.com

زندہ تحریریں : محبت


جب محبت تمہیں اشارا کرے تو اُس کی اقتدا کرو۔
اگرچہ اُس کی راہیں کٹھن ہیں اور دشوار ہیں۔
اور جب وہ تمہیں اپنے پروں میں بھینچنا چاہے، تو بھی اُس کی اُس آرزو کوتسلیم کرو!
خواہ اُس کے پروں میں پنہاں خنجر تمہاری روح کو زخما ہی کیوں نہ دے۔
اور جب وہ تم سے کلام کرے تو اُس پر ایمان لے آؤ۔
خواہ اُس کی آواز تمہارے خوابوں کے پیرہن کو تار تار ہی کیوں نہ کر دے، جس طرح بادِ شمال باغوں کے حسن کو پا مال کر دیتی ہے
ہاں ! محبت تمہیں تاج و تخت بھی عطا کرتی ہے، وہ تمہیں مصلوب بھی کر دیتی ہے۔
وہ تمہاری پرورش بھی کرتی ہے اور تمہاری تہذیب بھی۔
جس طرح وہ تمہیں بلندیوں سے سرفراز کرتی ہے اور تمہاری نازک ترین دھوپ میں لہلہاتی شاخوں کوبوسے دیتی ہے۔
اسی طرح وہ مٹی کی گہرائیوں سے پیوست تمہاری جڑوں کو ہلا کے رکھ دیتی ہے اور مٹی سے تمہارا رشتہ توڑ دیتی ہے۔
وہ اپنے لیے تمہیں غلّے کے گٹھوں کی طرح سمیٹتی ہے۔
پھر وہ تمہیں پھٹکتی ہے تاکہ تم اپنے پوست سے باہر نکلو۔
پھر وہ تم سے تمہاری بھوسی الگ کرنے کی خاطر تمہیں چھانتی بھی ہے۔
پھر وہ تمہیں پیستی ہے تاکہ تمہارا میدہ حاصل کرے۔
پھر وہ تم میں نرمی اور لوچ پیدا کرنے کے لیے تمہیں گوندھتی ہے۔
پھر وہ تمہیں اپنی مقدس آگ میں پکاتی بھی ہے تاکہ تم خدا کی مقدس تقریب کے لیے پاکیزہ روٹی بن جاو۔
محبت تمہارے ساتھ یہ سب کرتی ہے تاکہ تم اپنے اسرارِ پنہاں سے باخبر ہو سکو۔
قلبِ زیست کا حصہ بن سکو، وجودِ حیات کے لیے ایک عمدہ خِلعت۔
اگر تم اپنے خوف کے باعث صرف محبت سے سکون اور مسرت کے آرزو مند ہو، تو تمہارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ تم اپنی عریانیوں کو ملبوس کر کے محبت کے کھلیانوں سے باہر نکل جاؤ تاریک، بے موسم اور بے تغیر دنیاؤں کی طرف۔
جہاں تم ہنسو گے مگر اپنے سب قہقہے نہیں۔
اور روؤ گے مگر اپنے سب آنسو نہیں۔
محبت تمہیں کچھ بھی عطا نہیں کرتی مگر خود اپنا آپ ہی تمہیں بخش دیتی ہے اور محبت کسی سے کچھ نہیں چاہتی مگر وہ خود اپنی تکمیل کی خواہاں ضرور ہوتی ہے۔
محبت کسی پر قابض ہوتی ہے اور نہ کوئی اُس پہ قابض ہو سکتا ہے۔
محبت کے لیے یہی سب کچھ ہے کہ وہ محبت ہے۔
جب تم محبت کرو تو مت کہو کہ محبوبِ ازل میرے دل میں مقیم ہے۔
بلکہ کہو کہ میں اُس کے دل میں رہتا ہوں۔
مت سوچو کہ تم محبت کی جولاں گاہوں کا تعین کر سکتے ہو۔
ہاں ! اگر وہ تمہیں اس اہل پائے تو وہ تمہاری جولاں گاہ کا تعین ضرور کر دیتی ہے۔
محبت کوئی تقاضا نہیں کرتی۔۔۔۔مگر اپنی تکمیل کا۔
اگر تم محبت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ تمہاری آرزوئیں بھی ہوں تو پھر اس کی آرزوؤں کو ہی اپنی آرزو بنا لو۔
پگھل جاؤ اور وہ چشمہ آبِ رواں بن جاؤ جو رات کی خاموشیوں میں شیریں نغمے گنگناتا ہے۔
محبت کے درد کو اور اس کے کرب کو، اس کی شفقت اور اس کا احسان سمجھو۔
اور اپنے شعورِ بیدار کے ساتھ محبت کے زخم خوردہ بنو۔
اور مسرور و شاداں اپنا لہو بہنے دو۔
قلبِ مسرور کے ساتھ جب تم طلوعِ سحر کے ساتھ اٹھّو تو ایک اور محبت بھرے دن کے لیے شکرگزار ہو جاو۔نصف النہار کے وقت، جب کہ تم استراحت فرماؤ تو محبت کی عنایات کا تصور کرو۔
شام کے دھندلکوں میں جب گھر لوٹو تو محبت کے لیے ممنونیت اور تشکر کے ساتھ۔
اور پھر جب تم رات کو سونے لگو تو تمہارے دل میں محبوب کے لیے دعا ہو اور تمہارے ہونٹوں پہ اس کے لیے نغمہ تحسین ہو۔

بچوں کی محفل: نرالے طریقے


کتنی پیاری اور خوبصورت گڑیا ہے یہ کاش یہ میرے پاس ہوتی، اس بڑی سی دکان کے بڑے سے شوکیس میں رکھی ہوئی گڑیا کو دیکھ کر نازش نے دل ہی دل میں سوچا اور اس کے بڑھتے قدم وہیں تھم گئے ، اس کی نظریں شوکیس میں سجی گڑیا پر جم کر رہ گئی تھیں۔
دس سال کی عمر کی نازش پانچویں کلاس کی طالبہ تھی، تین سال پہلے ٹریفک کے ایک حادثے میں اس کے والد عرفان صاحب اپنی زندگی سے ہار کر اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ چکے تھے اور تب سے ہی اس کی امی عقیلہ خاتون اس کی والدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے والد ہونے کے فرائض بھی ادا کر رہی تھیں۔
روز ہی وہ اسکول سے گھر واپس جاتے ہوئے اس گفٹ سینٹر کے سامنے سے گزرتی تھی اور ہر روز ہی گفٹ سینٹر کے سامنے پہنچ کر اس کے قدم ٹھٹک جاتے اور نظر اس شوکیس میں رکھی خوبصورت گڑیا کے وجود پر جم جاتی تھیں، کافی دیر تک وہ شوکیس میں رکھی گڑیا کو نظر میں جمائے دیکھتی رہتی جیسے وہ اسے نظروں ہی نظروں میں اپنے دل میں اتار لے گی، نازش کو اس گڑیا کی آنکھیں خصوصی طور پر بہت پسند تھیں، تھیں بھی وہ آنکھیں بہت بڑی بڑی اور خوبصورت، ان میں بلا کی کشش تھی، وہ گڑیا کی طرف دیکھتی تو اسے محسوس ہوتا جیسے وہ گڑیا کو دیکھ رہی ہو اور مسکرا کر اسے خوش آمدید کہہ رہی ہو اور نازش بھی اس کی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرا دیتی، یہ سلسلہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری تھا۔
ایک دن نازش نے ہمت کر کے سیلز مین سے گڑیا کی قیمت پوچھ ہی لی، تین سو روپیہ، کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے سیلز مین نے جواب دیا اور یہ قیمت سن کر بے چاری نازش اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
انکل اتنی مہنگی گڑیا، مگر میرے پاس تو اتنے سارے پیسے بھی نہیں ہیں۔ نازش بولی۔
تو بیٹی گھر جاؤ، یہاں رش مت لگاؤ، جب اتنے پیسے تمہارے پاس جمع ہو جائیں، تب گڑیا لے جانا آ کر، سیلز مین نے اس سے کہا اور نازش خاموشی سے سرجھکائے اپنے گھر واپس پہنچ گئی، اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں، نازش اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کی امی مہینے بھر سخت محنت کرتی ہیں تب کہیں جا کر گھر میں دو وقت کا کھانا اور جیسے تیسے اس کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے ہیں۔
آج اگر میرے ابو زندہ ہوتے تو شاید، سوچتے ہوئے اس کا دل بھر آیا، جیسے تیسے اس نے کھانا تو کھا لیا مگر چہرے پر رنج و ملال کے بادل دیر تک قبضہ جمائے رہے ، لبوں کی مسکراہٹ ماند اور آنکھوں کے جگنو بجھ کر رہ گئے۔
اگلے دن اسکول سے چھٹی ملنے کے بعد وہ جب گفٹ سینٹر کے سامنے پہنچی تو اس کے بڑھتے قدم سینٹر کے سامنے ہی تھم گئے اس کی نظر میں اپنی پسندیدہ گڑیا کے وجود پر جم گئیں۔
پاپا آئسکریم والا، وہ دیکھیے ، ادھر نازش کی توجہ یہ آواز سن کر گڑیا کی طرف سے ہٹ گئی، دیکھا ایک چھ، سات سال کی بچی اپنے پاپا سے آئسکریم کھلانے کے لیے کہہ رہی ہے۔
بیٹے آج تو میں تمہیں آئسکریم ضرور ہی کھلاؤں گا، کہتے ہوئے اس کے پاپا نے اشارے سے آئسکریم والے کو قریب بلایا اور اپنی بیٹی کو آئسکریم دلوا دی۔
آئسکریم والے کو پیسوں کی ادائیگی کے بعد جب اس لڑکی کے پاپا اپنا پرس پینٹ کی جیب میں رکھنے لگے تو بے خیال وہ پرس وہیں گر گیا، نازش نے وہ گرا ہوا پرس اس وقت دیکھا جب وہ صاحب اپنی بیٹی کے ہمراہ وہاں سے جا چکے تھے۔
اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا پرس کو اٹھائے ، نازش نے جھک کر وہ پرس اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے بستے میں رکھ کر گھر کی طرف بڑھنے لگی، وہ راستے میں کہیں اور نہیں رکی، گھر پہنچ کر ہی اس نے سانس لی۔
گھر آ کر اس نے بستہ اپنی جگہ رکھا، یونیفارم تبدیل کر کے گھریلو لباس زیب تن کیا، پھر منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئی، کھانے سے فارغ ہوئی تو اسے پرس کا خیال آیا، بستے میں سے پرس نکالا…. اس میں ہزار اور پانچ پانچ سو والے کئی نوٹ تھے ، چھوٹا نوٹ تو ایک بھی نہیں تھا پرس میں، اتنے سارے روپے اتنی چھوٹی سی عمر میں اس نے پہلی مرتبہ دیکھے تھے ، وہ پریشان ہو گئی۔
اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں، نوٹوں سے بھرا پرس ہاتھ میں لیے وہ سوچ رہی تھی کہ ان کا کیا کرے ، دوسروں کے پیسے اپنے پاس رکھنا اچھی بات تو نہیں، اپنے پیسے تو وہی ہوتے ہیں جو اپنی محنت سے کام کر کے بطور اجرت حاصل کیے جائیں، جیسے اس کی امی سلائی، کڑھائی، بنائی کر کے پیسے کماتی ہیں، یہ پیسے اپنے پاس رکھ لیے تو خالق کائنات ناراض ہو جائے گا، پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہو گی یہ بات، پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق کہلاتے تھے اور امین بھی، وہ ان کی امتی ہے ، وہ ان کی تعلیمات کے خلاف کیسے کر سکتی ہے ، یہ ساری باتیں ذہن میں آتے ہی نازش نے دوبارہ پرس کھول کر دیکھا، اس میں کئی خانے تھے۔ کئی پورشن تھے ، ایک پورشن میں اسے ایک وزیٹنگ کارڈ ملا، اس نے کارڈ نکال کر دیکھا، اس پر عبدالکریم خان اکاؤنٹس منیجر لکھا ہوا تھا، کمپنی کے نام کے ہی ساتھ ایک کونے میں فون نمبر بھی درج تھا، نازش نے اپنی امی کو یہ بات بتائی، امی خوش ہو گئیں، کہنے لگیں بیٹی تم نے یہ بہت اچھا کیا، لاؤ میں اس کمپنی کے نمبر پر فون کر کے پتا کرتی ہوں، اگر پرس کمپنی کے فرد کا ہے تو میں ان سے کہوں گی کہ وہ پرس کی نشانی اور پرس میں رکھی رقم کی تعداد بتا کر میرے گھر سے اپنا پرس لے جائیں۔
پھر نازش کی امی نے گلی کے پی سی او سے اس کمپنی کے نمبر پر فون کیا، اتفاق کی بات یہ کہ فون اٹھانے والے عبدالکریم خان صاحب ہی تھے ، نازش کی امی نے ان سے دریافت کیا۔ آج آپ کا کوئی پرس کھوگیا ہے ، جواب ملا۔ جی ہاں، یہ تقریباً ساڑھے بارہ بجے کی بات ہے ، آپ کون ہیں اور کہاں سے بات کر رہی ہیں۔ کیا آپ کو میرے پرس کے متعلق کچھ معلوم ہے۔
نازش کی امی نے عبدالکریم خان کو یہ بات بتا دی کہ آپ کا پرس میری بیٹی کو اسکول سے گھر آتے ہوئے ملا تھا، آپ یہ بتائیں اس پرس میں آپ کی کتنی رقم ہے۔
عبدالکریم خان نے پرس میں موجود رقم کی تعداد بتا دی، جو بالکل صحیح تھی، نازش کی امی نے اب اپنے گھر کا پتا عبدالکریم خان کو اچھی طرح سمجھا دیا اور کہا وہ شام کو اس پتے پر آ کر اپنا پرس واپس لے جائیں۔
شام ہوئی تو عبدالکریم خان دیے ہوئے پتے پر نازش کے گھر پہنچ گئے ، انہوں نے پرس ہاتھ میں لے کر رقم گنی جو پچیس ہزار پوری تھی، انہوں نے نازش کو دیکھا، گھر کی حالت کا اندازہ لگا کر کہا۔ بیٹی اتنی بڑی رقم دیکھ کر تمہارے دل میں ذرا بھی خیال نہ آیا کہ اسے واپس کر دینے کے بجائے اپنے ہی پاس رکھ لو، اتنی رقم سے تمہاری کتنی ضروریات پوری ہوسکتی تھیں۔
نازش نے کہا: انکل ضروریات رقم سے نہیں اللہ تعالیٰ کی مدد، اس کے فضل و کرم سے پوری ہوتی ہیں، میری امی نے مجھے بتایا ہے اور یہ تربیت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے ، جو اس کے امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کو اپنے فضل و کرم، اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے ، یہ پیسہ تو چند روز کی ہی ضرورت پوری کر سکتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی رحمت تو تمام زندگی کام آتی ہے۔
عبدالکریم خان نازش کایہ جواب سن کر خوش ہو گئے ، انہوں نے کہا، افشاں میری بیٹی ہے ، آج سے تم اس کی بڑی بہن، تم بھی ہمارے ہی ساتھ رہو گی، کہہ کر وہ نازش کو اس کی امی کے ساتھ اپنے گھر لے آئے۔
اب نازش ایک اچھے صاف ستھرے ماحول میں رہ رہی تھی، اس کے پاس وہ گڑیا بھی تھی جسے دیکھنے کے لیے وہ گفٹ سینٹر کے سامنے رک جاتی تھی، وہ سوچ رہی تھی واقعی اللہ تعالیٰ کے دینے اور نوازنے کے طریقے بھی نرالے ہیں۔
(مزیدار-کہانیاں)

راہ ہدایت: سلام کا جواب دینا



ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابی سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرد مسجد میں آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے انہوں نے نماز ادا کی پھر حاضر خدمت ہوئے سلام عرض کیا۔ آپ نے فرمایا وعلیک السلام۔

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلمان، زکریا، شعبی، ابی سلمہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے کہا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کر رہے ہیں انہوں نے جواب میں کہا وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ
(سنن ابن ماجہ)

راہ ہدایت: جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا


:۳۰:اے رسول۔ اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انہوں نے کہا کہ کیا اسے بنائے گاجو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو
۲:۳۱:اور خدا نے آدم علیہ السّلام کو تمام اسماء کی تعلیم دی اور پھر ان سب کو ملائکہ کے سامنے پیش کر کے فرمایا کہ ذرا تم ان سب کے نام تو بتاؤ اگر تم اپنے خیالِ استحقاق میں سچّے ہو
۲:۳۲:ملائکہ نے عرض کی کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے بتایا ہے کہ تو صاحبِ علم بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی
۲:۳۳:ارشاد ہوا کہ آدم علیہ السّلام اب تم انہیں باخبر کر دو۔ تو جب آدم علیہ السّلام نے باخبر کر دیا تو خدا نے فرمایا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمان و زمین کے غیب کو جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو یا چھپاتے ہو سب کو جانتا ہوں
۲:۳۴:اور یاد کرو وہ موقع جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم علیہ السّلام کے لئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کر لیا۔ اس نے انکار اور غرور سے کام لیا اور کافرین میں ہو گیا
۲:۳۵:اور ہم نے کہا کہ اے آدم علیہ السّلام ! اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ جنّت میں ساکن ہو جاؤ اور جہاں چاہو آرام سے کھاؤ صرف اس درخت کے قریب نہ جانا کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے
۲:۳۶:تب شیطان نے انہیں فریب دینے کی کوشش کی اور انہیں ان نعمتوں سے باہر نکال لیا اور ہم نے کہا کہ اب تم سب زمین پر اتر جاؤ وہاں ایک دوسرے کی دشمنی ہو گی اور وہیں تمہارا مرکز ہو گا اور ایک خاص وقت تک کے لئے عیش زندگانی رہے گی
۲:۳۷:پھر آدم علیہ السّلام نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی برکت سے خدا نے ان کی توبہ قبول کر لی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے
۲:۳۸:اور ہم نے یہ بھی کہا کہ یہاں سے اتر پڑو پھر اگر ہماری طرف سے ہدایت آ جائے تو جو بھی اس کا اتباع کر لے گا اس کے لئے نہ کوئی خوف ہو گا نہ حزن
(القرآن سورہ بقرہ)