جمعرات، 18 اگست، 2016

سبق آموز باتیں حضرت علی رضہ کی امام حسن رضہ کو وصیتیں



اسلام کے بنیادی عقائد پر مبنی اخلاق و عادات کا جو خاکہ اس مکتوب میں پیش کیا گیا ہے، اس میں اصلاح اعمال و تعمیر کردار کا کوئی گوشہ باقی نہیں چھوڑا گیا۔ فرماتے ہیں۔
“دل شکستہ، بے بس، بیزار دنیا، مسافر عدم آباد، کہن سال پدر کی وصیت۔۔۔۔۔
کم سن آرزو، راہرو راہ مرگ، ہدف امراض، اسیر دنیا، تاجر غرور، مقروض اجل، قیدی موت، حلیف تردد، نشانہ آفات، مغلوب نفس، جانشین اموات، نوخیز فرزند کے نام!
فرزند! زمانہ کی گردش، دنیا کی بے وفائی، آخرت کی نزدیکی نے مجھے ہر طرف سے غافل کرکے صرف آنے والی زندگی کے اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب مجھے صرف اپنی فکر ہے۔ تمام نشیب و فراز پیش نظر ہیں، بے نقاب حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے۔ سچا معاملہ روبرو ہے۔ اسی لیے میں نے یہ وصیت تیرے لیے لکھی ہے۔ خواہ تیرے لیے زندہ رہوں یا فنا ہو جاؤں، کیونکہ مجھ میں اور تجھ میں کوئی فرق نہیں۔ تو میری جان ہے، میری روح ہے، تجھ پر آفت آئے گی تو مجھ پر پہلے آئے گی۔ تیری موت میری موت ہوگی۔
فرزند! (میں تجھے وصیت کرتا ہوں) خدا سے خوف کر، اس کے حکم پر کاربند ہو، اس کے ذکر سے قلب کو آباد کر، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام، کیونکہ اس رشتے سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ نہیں جو تجھ میں اور تیرے خدا میں موجود ہے، بشرطیکہ تو خیال کرے۔
فرزند! دل کو موعظت سے زندہ کر، زہد سے مار، یقین سے قوت دے، حکمت سے روشن کر، موت کی یاد سے اس پر قابو پا، فانی ہونے کا اس سے اقرار لے، مصائب یاد دلا کے اسے ہوشیار بنا، زمانے کی نیرنگیوں سے اسے ڈرا، بچھڑ جانے والی حکایتیں اسے سنا، گزرے ہوؤں کی تباہی سے اسے عبرت دلا۔ ان کی اجڑی ہوئی بستیوں میں گشت کر۔ ان کی عمارتوں کے کھنڈر دیکھ اور دل سے سوال کر کہ ان لوگوں نے کیا کیا؟ کہاں چلے گئے؟ کدھر رخصت ہو گئے؟ کہاں جا کے آباد ہوئے؟
ایسا کرنے سے تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اپنے دوست احباب سے جدا ہو گئے، ویرانوں میں جا بسے اور تو بھی بس دیکھتے دیکھتے انہیں جیسا ہو جائے گا، لہذا اپنی جگہ درست کر لے۔ آخرت کو دنیا کے بدلے نہ بیچ، بے علمی کی حالت میں بولنا چھوڑ دے، بے ضرورت گفتگو سے پرہیز کر، جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس سے باز رہ، کیونکہ قدم کا روک لینا، ہولناکیوں میں پھنسنے سے بہتر ہے۔
تو نیکی کی تبلیغ کرے گا تو نیکوں میں سے ہو جائے گا۔ برائی کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی زبان سے برا ثابت کر۔ بروں سے الگ رہ، خدا کی راہ میں جہاد کر، جیسا حق ہے جہاد کرنے کا، خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈر، حق کے لیے مصائب کے طوفان میں پھاند پڑ، دین میں تفقہ حاصل کر، مکروہات کی برداشت کا عادی بن، کیونکہ برداشت کی قوت بہترین قوت ہے۔ سب کاموں میں اپنے لیے خدا کی پناہ تلاش کر، اس طرح تو مضبوط جائے پناہ اور غیر مسخر قلعہ میں پہنچ جائے گا۔
خدا سے دعا کرنے میں کسی کو شریک نہ کر، کیونکہ بخشش و عطا سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ استخارہ زیادہ کر، میری یہ وصیت خوب سمجھ لے۔ اس سے روگردانی نہ کرنا۔ وہی بات ٹھیک ہوتی ہے جو مفید ہوتی ہے۔ بے فائدہ علم بے کار اور اس کی طلب ناروا ہے۔
فرزند! جب میں نے دیکھا کہ آخر عمر کو پہنچ گیا ہوں اور ضعف بڑھتا جاتا ہے تو یہ وصیت لکھنے میں مجھے جلدی کرنی پڑی۔ میں ڈرا کہ کہیں وصیت سے پہلے ہی مجھے موت نہ آ جائے یا جسم کی طرح عقل بھی کمزور پڑ جائے یا تجھ پر نفس کا غلبہ ہو جائے یا دنیاوی فکریں تجھے گھیر لیں اور تو سرکش گھوڑے کی طرح قابو سے باہر ہو جائے۔ نو عمروں کا دل زمین کی طرح ہوتا ہے جو ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے۔
اسی خیال سے میں نے وصیت لکھنے میں جلدی کی تاکہ دل کے سخت ہونے اور ذہن کے دوسری طرف لگ جانے سے پہلے ہی تو اس معاملے کو سمجھ لے جس کے تجربے اور تحقیق سے اگلوں نے تجھے بے نیاز کر دیا ہے اور اس کی راہ کی تگ و دو اور تجربے کی تلخیوں سے تجھے بچا لیا ہے۔ وہ چیز تیرے پاس بلا کلفت پہنچ رہی ہے جس کی جستجو میں ہمیں خود نکلنا پڑا تھا، اب وہ سب تیرے سامنے آ رہا ہے جو شاید ہماری نگاہوں سے بھی اوجھل رہ گیا ہو۔
فرزند! میری عمر تو اتنی دراز نہیں جتنی اگلوں کی ہوا کرتی تھی تاہم میں نے ان کی زندگی پر غور، ان کے حالات پر تفکر کیا ہے۔ ان کے پیچھے بحث و جستجو میں نکلا ہوں، حتیٰ کہ اب میں انہیں میں سے ایک فرد ہو چکا ہوں بلکہ ان کے حالات سے حد درجہ واقف ہونے کی وجہ سے گویا ان کا اور ان کے بزرگوں کا ہم سن بن گیا ہوں۔ اسی طرح یہاں کا شیریں و تلخ، سفید و سیاہ، سود و زیاں، سب مجھ پر کھل گیا ہے۔ ان سب میں سے میں نے تیرے لیے ہر اچھی بات چن لی ہے۔ ہر خوشنما چیز منتخب کر لی ہے، ہر بری اور غیر ضروری بات تجھ سے دور رکھی ہے اور چونکہ مجھے تیرا ویسا ہی خیال ہے جیسا کے شفیق باپ کو بیٹے کا ہوتا ہے اس لیے میں نے چاہا ہے یہ وصیت ایسی حالت میں ہو کہ تو ابھی کم عمر ہے، دنیا میں نووارد ہے، تیرا دل سلیم ہے، نفس پاک ہے۔
پہلے میں نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے صرف کتاب اللہ اور اس کی تفسیر کی شریعت اور اس کے احکام حلال و حرام کی تعلیم دوں گا۔ پھر خوف ہوا مبادا تجھے بھی اسی طرح شکوک و شبہات گھیر لیں، جس طرح لوگوں کو نفس پروری کی وجہ سے گھیر چکے ہیں۔ لہذا میں نے یہ وصیت ضروری سمجھی۔ یہ تجھ پر شاق ہو سکتی ہے لیکن میں نے اسے پسند کر لیا اور گوارہ نہ کیا کہ ایسی راہ میں تجھے تنہا چھوڑ دوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ امید ہے خدا میری وصیت کے ذریعے تجھے ہدایت دے گا اور سیدھی راہ کی طرف تیری رہنمائی فرمائے گا۔
فرزند! تیری جس بات سے میں خوش ہوں گا، وہ یہ ہے کہ تو خدا سے خوف کرے، اس کی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرے، اپنے اسلاف اور خاندان کے پاک بزرگوں کی راہ پر گامزن ہو، کیونکہ جس طرح آج تو اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اسی طرح کل وہ بھی اپنے آپ کو دیکھتے تھے اور جس طرح تو غور کرتا ہے، وہ بھی غور کرتے تھے۔ آخر تجربوں نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ سیدھی راہ پر آ جائیں اور فضول باتوں سے پرہیز کریں لیکن اگر تیری طبیعت یہ قبول نہ کرے اور انہی کی طرح بذاتِ خود تجربہ کرنے پر مصر ہو تو بسم اللہ۔ تجربہ شروع کر، مگر عقل و دانائی کے ساتھ، شبہوں اور بحث میں بے عقلی سے الجھ کر نہیں اور اس سے پہلے کہ یہ کام تو شروع کرے، اپنے خدا سے مدد کا خواستگار ہو، اس کی توفیق کا طالب ہو اور ہر قسم کے شبہات سے پرہیز کر، کیونکہ شبہات تجھے حیرت و گمراہی میں ڈال دیں گے اور جب تجھے یقین ہو جائے کہ قلب صاف ہو کر قبضے میں آ گیا ہے، عقل پختہ ہو کر جم گئی ہے اور ذہن میں یکسوئی پیدا ہو چکی ہے تو اس وقت اس وادی میں قدم رکھ، ورنہ تیرے لیے یہ راہ تاریک ہوگی اور تو اس میں بھٹکتا پھرے گا، حالانکہ طالب دین کو نہ بھٹکنا چاہیے نہ حیرت میں پڑنا چاہیے، ایسی حالت میں طالب دین کے لیے اس راہ سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔
فرزند! میری وصیت خوب سمجھ اور جان لے کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے۔ جو پیدا کرنے والا ہے، وہی مارنے والا بھی ہے، جو فنا کرتا ہے وہی حیات نو بھی بخشتا ہے اور جو مصیبت میں ڈال کر امتحان لیتا ہے وہی نجات بھی دیتا ہے۔ یقین کر، دنیا کا قیام اللہ کے اس ٹھہرائے ہوئے قانون پر ہے کہ انسان کو نعمتیں بھی ملتی ہیں اور ابتلا و آزمائش بھی پیش آتی ہے، پھر آخرت میں آخری جزا دی جاتی ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ اگر کوئی بات تیری سمجھ میں نہ آئے تو انکار نہ کر بلکہ اسے اپنے کم سمجھی پر محمول کر کے غور کر، کیونکہ اول اول تو نہ جاننے والا ہی پیدا ہوا تھا۔ پھر بتدریج علم حاصل ہوا اور ابھی نہیں معلوم کتنی باتیں ہیں جن سے تو لاعلم ہے، ان میں تیری عقل حیران رہ جاتی ہے اور بصیرت کام نہیں دیتی، لیکن بعد چندے ان کا علم تجھے ہو جاتا ہے، پس تیری وابستگی اسی ذات سے ہو جس نے تجھے پیدا کیا، رزق دیا ہے اور تیری خلقت پوری کی ہے۔ اسی کے لیے تیری عبادت ہو، اسی کے روبرو تیرا سر جھکے، اسی سے تیری خشیت ہو۔
فرزند! خدا کی بابت کسی نے ایسی تعلیم نہیں دی جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا رہنما بنا اور نجات کے لیے انہیں کو رہبر تصور کر۔ میں نے تجھے نصیحت کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور یقین کر کہ اپنی بھلائی کے لیے تو کتنا ہی غور کرے، میرے برابر غور نہ کر سکے گا۔
فرزند! اگر تیرے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے، اس کی سلطنت و حکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے، اس کے افعال و اعمال بھی ظاہر ہوتے، مگر نہیں وہ اللہ تو ایک ہی ہے جیسا کہ خود اس نے اپنے بارے میں فرما دیا ہے۔ اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں، ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، سب سے اول ہے مگر خود اس کی ابتداء نہیں، سب سے آخر ہے مگر خود اس کی انتہا نہیں، اس کی شان اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ قلب کے تصور اور اجر کے ادراک پر اس کی ربوبیت موقوف ہو۔
پس تیرا عمل ویسا ہو جیسا اس شخص کا ہوتا ہے جس کی حیثیت چھوٹی ہے، مقدرت کم ہے اور اپنے پروردگار کی طرف اس کی اطاعت کی جستجو میں ، اس کی عقوبت کی دہشت میں اور اس کے غضب کے خوف میں، جس کی محتاجی بہت بڑی ہے۔ یاد رکھ، تیرے پروردگار نے تجھے اچھی باتوں کا حکم دیا ہے اور صرف برائیوں سے منع کیا ہے۔
فرزند! میں نے تجھے دنیا کا نقشہ دکھا دیا ہے۔ اس کی حالت بتا دی ہے، اس کے نا پائیدار اور ہرجائی ہونے کی خبر سنا دی ہے۔ آخرت کی حالت بھی تیرے پیش نظر کر دی ہے اور اس کی لذت و نعم کی خبر بھی دے دی ہے۔ میں نے مثالیں دے کر سمجھایا ہے تاکہ تو عبرت حاصل کرے اور ان پر عمل پیرا ہو۔ جن لوگوں نے دنیا کو پرکھ لیا ہے، اس کی جدائی سے گھبراتے نہیں، ان کی مثال ایسے مسافروں کی ہے جو ناموافق اور قحط زدہ علاقے کو چھوڑ کر سرسبز اور زرخیز علاقے کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ یہ مسافر راہ کی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، احباب کی جدائی گوارہ کرتے ہیں، سفر کی مشقتیں اٹھاتے ہیں، خوراک کی خرابی سہتے ہیں تاکہ کشادہ اور آرام دہ مقام تک جائیں، کسی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے، کسی خرچ سے جی نہیں چراتے، ان کے لیے ہر وہ قدم جو منزل مقصود کی طرف بڑھتا ہے، سب سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے لیکن جو لوگ دنیا سے چمٹے ہوئے ہیں، اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے، ان کی مثال اس مسافر جیسی ہے جو سرسبز و شاداب زمین چھوڑ کر قحط زدہ زمین کی طرف چلا ہے۔ اس کے لیے یہ سفر بدترین اور خوفناک سفر ہوگا، اصلی مقام کی جدائی اور نئے مقام پر آمد کو بھیانک مصیبت سمجھے گا۔
فرزند! اپنے اور دوسرے کے درمیان خود اپنی ذات کو میزان بنا۔ جو بات تجھے اپنے لیے پسند ہے، وہی ان کے لیے بھی پسند کر اور جو بات خود اپنے لیے نا پسند کرتا ہے، وہ ان کے حق میں بھی نا پسند کر، کسی پر ظلم نہ کر، کیونکہ دوسرے کا ظلم تو اپنے آپ پر نہیں چاہتا۔ سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ، جس طرح تیری خواہش ہے کہ وہ تجھ سے پیش آئیں۔ لوگوں کی جو باتیں ناپسند ہوں وہ اپنے لیے بھی نا پسند کر، اگر لوگ تجھ سے وہی برتاؤ کریں جو تو ان سے کرتا ہے، تو اسے ٹھیک سمجھ، بغیر علم کے کچھ نہ کہہ، اگرچہ تیرا علم کتنا ہی کم ہو اور ایسی بات کسی کے حق میں ہرگز نہ کہہ جو خود تو اپنے لیے سننا نہیں چاہتا، خود پسندی حماقت ہے اور نفس کے لیے ہلاکت لہذا سلامت روی سے اپنی راہ طے کر۔ دوسروں کے لیے خزانچی (بخیل) نہ بن اور جب تجھے خدا سے روشنی مل جائے تو تیرا تمام تر خوف صرف اپنے پروردگار سے ہو۔
فرزند! تیرے سامنے ایک دور دراز، دشوار گزار سفر درپیش ہے، اس سفر میں حسن طلب کی بڑی ضرورت ہے، اس سفر میں تیرا زاد راہ ضرورت سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ اگر تو طاقت سے زیادہ بوجھ اپنی پیٹھ پر اٹھا کے چلے گا تو تیرے لیے وبال جان بن جائے گا، لہذا اگر بھوکے مزدور تیرا زاد راہ قیامت تک کے لیے اٹھانے کو مل رہے ہوں تو انہیں غنیمت جان اور اپنا بوجھ ان پر رکھ دے تاکہ کل ضرورت پر یہ توشہ تجھے کام دے۔ مقدرت کی حالت میں تیرا توشہ بار ہو جانا چاہیے کہ مبادا ضرورت آ گھیرے اور تو کچھ نہ پائے۔ دولت مندی کے زمانہ میں اگر کوئی قرض مانگے تو فوراً دے دے تاکہ ناداری کے زمانے میں وہ تجھے واپس مل جائے۔
فرزند! میرے سامنے ایک کٹھن گھاٹی ہے، اس گھاٹی میں ایک ہلکا پھلکا آدمی بوجھل آدمی سے بہتر ہے اور سست رفتار تیز رفتار سے بدتر ہے۔ تیرا اس گھاٹی سے گزرنا لازمی ہے، اس کے بعد جنت ہے یا دوزخ، لہذا آخری منزل پر پہنچنے سے پہلے اپنا پیش خیمہ بھیج دے اور قیام سے پہلے ہی جگہ ٹھیک کر لے، کیونکہ مر جانے کے بعد نہ معذرت ممکن ہوگی نہ دنیا کی طرف واپسی۔
یقین کر، جس کے تصرف میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں اس نے مانگنے کی اجازت دے دی ہے اور قبول کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے۔ اس نے کہا “مانگ” مل جائے گا، رحم کی التجا کر، رحم کیا جائے گا، اس نے اپنے اور تیرے درمیان حاجب کھڑے نہیں کئے جو تجھے اس کے حضور پہنچنے سے روکیں، نہ سفارش ہی کا تجھے محتاج بنایا ہے جو اس کے سامنے تیری سفارش کریں، تیری توبہ ٹوٹ جاتی ہے تو بھی تجھے محروم نہ کرتا ہے، نہ تجھ سے انتقام لیتا ہے اور جب تو دوبارہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ نہ تجھ پر طعنہ زن ہوتا ہے، نہ تیری پردہ داری کرتا ہے حالانکہ تو اس کا مستحق ہوتا ہے، وہ توبہ کے قبول کرنے میں حجت نہیں کرتا۔ اپنی رحمت سے مایوس ہونے نہیں دیتا بلکہ اس نے توبہ کو نیکی قرار دیا ہے۔ ایک بدی کو وہ بزرگ و برتر ایک ہی گنتا ہے مگر ایک نیکی کو دس شمار کرتا ہے۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ وہ تیری پکار سنتا ہے، تیری مناجات پر کان دھرتا ہے، تو اس سے مرادیں مانگتا ہے، دل کی حالت بیان کرتا ہے، اپنی بپتا سناتا ہے، اپنی مصیبتوں کی فریاد کرتا ہے، اپنی مشکلوں میں مدد مانگتا ہے تو اس کی عمر کی درازی، جسم کی تندرستی، رزق کی کشادگی چاہتا ہے اور اس کی رحمت کے ایسے ایسے خزانے طلب کرتا ہے جو اس کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ غور کر اس نے طلب کی اجازت دے کر اپنی رحمت کے خزانوں کی کنجیاں تیرے حوالے کر دی ہیں۔ تو جب چاہے دعا کر کے اس کی نعمتوں کے دروازے کھلوا لے، رحمتوں کا مینہ، برسوا لے لیکن اگر اجابت دعا میں اس لیے دیر ہوتی ہے کہ سائل کو زیادہ ثواب ملے، امیدوار کو زیادہ بخشش دی جائے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی مانگتا ہے اور محروم رہتا ہے مگر جلد یا بدیر طلب سے زیادہ اسے دے دیا جاتا ہے یا پھر محرومی ہی اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔ نہیں معلوم کتنی مرادیں ایسی ہیں کہ اگر پوری ہو جائیں تو انسان کی عاقبت ہی برباد ہو جائے پس تیری دعا انہی باتوں کے لیے ہو جو تیرے لیے سود مند ہیں اور جو نقصان دہ ہیں، وہ دور رہیں، سن لے، مال و دولت بڑی چیز ہیں، مال تیرے لیے ہے، تو مال کے لیے نہیں ہے۔
فرزند! تو آخرت کے لیے پیدا ہوا ہے نہ کہ دنیا کے لیے، فنا کے لیے بنا ہے نہ کہ بقا کے لیے، تو ایک ایسے مقام میں ہے جو ڈانواں ڈول ہے اور تیاری کرنے کی جگہ یہ محض آخرت کا راستہ ہے۔ موت تیرے تعاقب میں لگی ہوئی ہے، تو لاکھ بھاگے بچ نہیں سکتا۔ ایک نہ ایک دن تجھے شکار ہو جانا ہی ہے لہذا ہوشیار رہ کہ موت ایسی حالت میں نہ آجائے کہ تو ابھی توبہ و انابت کی فکر ہی میں ہو اور وہ درمیان میں حائل ہو جائے، ایسا ہوا تو بس تونے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔
فرزند! موت پر، اپنے عمل پر، اور موت کے بعد کی حالت پر ہمیشہ تیرا دھیان رہے تاکہ جب اس کا پیام پہنچے تو تیرا سب کچھ پہلے سے ٹھیک ٹھاک ہو اور تجھے اچانک اس پیام کو نہ سننا پڑے۔
فرزند! دنیا میں دنیا داروں کی محویت اور اس کی طلب میں ان کی مسابقت تجھے فریب نہ دے کیونکہ خدا نے دنیا کی حقیقت کھول دی ہے، خدا ہی نے نہیں خود دنیا ہی نے بھی اپنی فانی ہونے کا اعلان کر دیا ہے، اپنی برائیوں سے نقاب اٹھا دیا ہے۔ دنیا دار تو بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں جو ایک دوسرے پر غراتے ہیں، طاقت ور کمزوروں کو کھاتے ہیں، بڑے چھوٹوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں، ان میں کچھ تو بندھے ہوئے اونٹ ہیں جو نقصان کرنے سے مجبور ہیں اور کچھ چھٹے ہوئے اونٹ میں جو ہر طرح کا نقصان کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی عقل گم ہے، انجان راستوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ مصائب کی نا ہموار وادیوں میں بلائیں اور آفتیں چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہیں، نہ کوئی ان کا گلہ بان ہے نہ رکھوالا، دنیا انہیں تاریک گزر گاہوں میں لے گئی ہے۔ روشنی کے مینار ان کی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ دنیا کی بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں، ان کی لذتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، انہوں نے اسی کو اپنا رب بنا لیا ہے، وہ ان کے ساتھ کھیل رہی ہے اور وہ اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ افسوس انہوں نے آنے والی زندگی بالکل فراموش کر دی ہے۔ عنقریب تاریکی چھٹ جائے گی اور قافلہ منزل پر پہنچ جائے گا۔ لیل و نہار کے مرکب پر جو سوار ہے وہ تو برابر رواں دواں ہی ہے، چاہے کسی جگہ کھڑا ہی کیوں نہ ہو، مسافر ہے، گو بآرام کہیں مقیم ہی کیوں نہ ہو۔
فرزند! تو اپنی سب امیدوں میں کامیاب ہو نہیں سکتا۔ زندگی سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ تو بھی اسی راستے پر چلا جا رہا ہے جس پر تجھ سے پہلے لوگ جا چکے ہیں، لہذا اپنی طلب میں اعتدال مد نظر رکھ، کمائی میں سلامت روی سے تجاوز نہ کر، یاد رکھ کوئی طلب ایسی ہوتی ہے جو حرماں نصیبی کی طرف لے جاتی ہے، نہ ہر مانگنے والے کو ملتا ہے، نہ ہر خوددار محروم رہتا ہے۔ ہر قسم کی ذلت سے بچنا چاہیے وہ کیسی ہی مرغوبات کی طرف لے جانے والی ہو، کیونکہ عزت کا معاوضہ تجھے کبھی مل ہی نہیں سکتا۔ دوسروں کا غلام نہ بن کیونکہ خدا نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے وہ بھلائی، بھلائی نہیں جو برائی سے آئے، وہ دولت، دولت نہیں جو ذلت کی راہ سے حاصل ہو۔
خبردار، خبردار! تجھے حرص و ہوس ہلاکت کے گھاٹ پر لے جائے، جہاں تک ممکن ہو اپنے اور خدا کے درمیان کسی کا احسان نہ آنے دے کیونکہ تجھے تیرا حصہ بہرحال مل کر رہے گا۔ خدا کا دیا ہوا تھوڑا، مخلوق کے دئیے ہوئے بہت سے کہیں زیادہ ہے اور شریفانہ بھی، اگرچہ مخلوق کے پاس بھی جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے۔ خاموشی کی وجہ سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کا تدارک آسان ہے، مگر گفتگو سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے، اس کا تدارک مشکل ہے، کیا تونے نہیں دیکھا کہ مشک کا منہ باندھ کر ہی پانی روکا جاتا ہے؟ اپنا مال خرچ نہ کرنا، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کہیں اچھا ہے۔ مایوسی کی تلخی، سوال کرنے سے بہتر ہے اور آبرو کے ساتھ محنت مزدوری، بدکاری کی دولت سے بہتر ہے، آدمی اپنا راز خود ہی خوب چھپا سکتا ہے۔ کبھی آدمی اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لیتا ہے، جو زیادہ بولتا ہے، زیادہ غلطی کرتا ہے۔
نیکوں کی صحبت اختیار کرو، نیک ہو جاؤ گے، بدوں کی صحبت سے پرہیز کرو، بدی سے دور ہو جاؤ گے، حرام کھانا بدترین کھانا ہے۔ کمزور پر ظلم کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ جب نرمی سختی بن جائے تو سختی نرمی بن جاتی ہے، کبھی دوا بیماری ہو جاتی ہے اور بیماری دوا۔ کبھی بدخواہ خیر خواہی کر جاتا ہے اور خیر خواہ بد خواہی، موہوم امیدوں پر تکیہ نہ کرو، کیونکہ یہ مردوں کا سرمایہ ہیں، تجربے یاد رکھنے کا نام عقل ہے۔ بہترین تجربہ وہ ہے جو نصیحت آموز ہو، موقع سے فائدہ اٹھاؤ اس سے پہلے کہ وہ تمہارے خلاف ہو جائے، ہر کوشش کرنے والا کامیاب نہیں ہوتا۔ ہر جانے والا واپس نہیں آیا، مال کا ضائع کرنا اور عاقبت کا بگاڑنا فساد عظیم ہے، انسان کی قسمت مقدر ہو چکی ہے جو کچھ تیرے نوشہت تقدیر میں ہے، جلد یا بدیر سامنے آ جائے گا۔ تاجر ایک لحاظ سے قمار باز ہوتا ہے، کبھی قلت میں کثرت سے زیادہ برکت ہوتی ہے۔
توہین کرنے والے مددگار اور سوء ظن رکھنے والے دوست میں ذرا بھلائی نہیں۔ جب تک زمانہ ساتھ دے زمانے کا ساتھ دو، حرص تجھے اندھا نہ کر دے اور عداوت تجھے بے عقل نہ بنانے پائے۔ دوست دوستی توڑے تو تم اسے جوڑ دو، وہ دوری اختیار کرے تو تم نزدیک ہو جاؤ، وہ سختی کرے تو تم نرمی کرو، وہ غلطی کرے تو تم اس کے لیے عذر تلاش کرو، دوست کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، گویا تم غلام ہو اور وہ آقا لیکن خبردار یہ برتاؤ اپنے محل نہ ہو، نا اہل کے ساتھ نہ رہو، دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ دوست بھی دشمن ہو جائے گا، دوست کو بے لاگ نصیحت کرو، اچھی لگے یا بری لگے، غصہ پی جایا کرو، میں نے غصے کے جام سے زیادہ میٹھا جام نہیں دیکھا۔ جو تم سے سختی کرے تم اس سے نرمی کرو، خود بخود نرم پڑ جائے گا۔ دوستی کاٹنا ضروری ہی ہو تو بھی کچھ نہ کچھ لگاؤ باقی رکھو، تاکہ جب چاہو دوستی کو جوڑ سکو۔ جو تم سے حسن ظن رکھے اس کے حسن ظن کو جھوٹا نہ ہونے دو۔ دوست کے حقوق اس گھمنڈ میں تلف نہ کرو کہ دوست ہے کیونکہ جس کے حقوق تلف کر دئیے جاتے ہیں وہ دوست نہیں رہتا۔ ایسے نہ ہو جاؤ کہ تمہارا خاندان ہی تمہارے ہاتھوں سب سے زیادہ بدبخت بن جائے۔ جو کوئی بے پروائی ظاہر کرے، اس کی طرف نہ جھکو، دوست دوستی توڑنے میں اور تم دوستی جوڑنے میں برابر ہو، تمہارا پلا ہمیشہ بھاری رہے۔ نیکی سے زیادہ بدی میں تیز نہ ہو۔
فرزند! ظالم کے ظلم سے تنگ دل نہ ہو، کیونکہ وہ خود اپنا نقصان اور تمہارا نفع کر رہا ہے۔ جو تمہیں خوش کرے اس کا صلہ یہ نہیں کہ تم اسے رنج پہنچاؤ۔
فرزند! رزق دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ جس کی تو جستجو کرتا ہے، دوسرا وہ جو تیری جستجو کرتا ہے، پس اگر تو جستجو چھوڑ دے تو رزق خود ہی تیرے پاس آ جائے گا۔ دنیا میں تیرا حصہ بس اتنا ہے، جتنے سے تو عاقبت درست کر سکے۔ اگر تو اس چیز پر رنج کرتا ہے جو تیرے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو ہر اس چیز پر رنج کر جو تیرے ہاتھ میں نہیں آئی۔ آئندہ کو گزشتہ سے غیر سمجھ۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا جن پر نصیحت نہیں، ملامت اثر کرتی ہے، دانا آدمی معمولی تادیب سے مان جاتا ہے مگر چوپایہ مار سے باز آتا ہے۔
خواہشوں اور دل کے وسوسوں کو صبر و یقین کی عزیمتوں سے زائل کرو، جو کوئی راہِ اعتدال سے تجاویز کرتا ہے، بد راہ ہو جاتا ہے، دوست رشتہ دار کی طرح ہے، سچا دوست وہی ہے جو پیٹھ پیچھے حق دوستی ادا کرے۔ نفس کی خواہشوں اور بد بختیوں میں ساجھا ہے۔ کتنے اپنے ہیں جو غیروں سے زیادہ غیر ہیں اور کتنے غیر ہیں جو اپنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔
جس نے راہ حق چھوڑ دی اس کا راستہ تنگ ہے۔ جو اپنی حیثیت پر رہتا ہے اس کی عزت باقی رہتی ہے۔ سب سے زیادہ مضبوط تعلق وہ ہے جو آدمی اور خدا کے مابین ہے جو کوئی تیری پرواہ نہیں کرتا وہ تیرا دشمن ہے، جب امید میں موت ہو تو نا امیدی زندگی بن جاتی ہے۔ نہ ہر عیب ظاہر ہوتا ہے، نہ ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کبھی آنکھوں والا ٹھوکر کھا جاتا ہے اور اندھا سیدھی راہ چلا جاتا ہے، بدی کو خود سے دور رکھو کیونکہ جب چاہو گے لوٹ آئے گی، احمق سے دوستی گانٹھنا عقلمند سے دوستی جوڑنے کے برابر نہیں ہے۔
جو دنیا پر بھروسا کرتا ہے، دنیا اس سے بے وفائی کر جاتی ہے اور جو دنیا کو بڑھاتا ہے، دنیا اسے گرا دیتی ہے۔ ہر تیر نشانے پر نہیں بیٹھتا۔ جب حاکم بدلتا ہے تو زمانہ بھی بدل جاتا ہے۔ سفر سے پہلے سفر کے ساتھیوں کو دیکھ لو۔ ٹھہرنے سے پہلے پڑوسیوں کی جانچ کر لو۔
خبردار! تمہاری گفتگو میں ہنسانے والی کوئی بات نہ ہو، اگرچہ کسی دوسرے کا مقولہ ہی کیوں نہ ہو۔ خبردار! عورتوں سے مشورہ نہ کرنا کیونکہ ان کی عقل کمزور ہوتی ہے اور ارادہ ضعیف، پردے میں بٹھا کر ان کی نگاہوں کی حفاظت کرو۔ بداطوار لوگوں کی ان میں آمدورفت ان کے بے پردہ رہنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ حتی الوسیع اپنے سوا کسی سے انہیں مطلب نہ رکھنے دو۔ عورت کو اس کی ذات کے سوا کسی بات میں خودمختار نہ ہونے دو کیونکہ عورت پھول ہے، جلاد نہیں۔ عورت کو لوگوں کی سفارش کرنے کا عادی نہ بناؤ۔ بے جا رقابت ظاہر نہ کر کیونکہ اس سے پاکباز اور بے لاگ عورت کی بھی رہنمائی برائی کی طرف ہوتی ہے۔
اپنے نوکروں میں سے ہر ایک کے ذمہ کوئی نہ کوئی کام رکھو تاکہ وہ تمہاری خدمت کو ایک دوسرے پر نہ ٹالیں۔ اپنے کنبے کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارا بازو ہے، جس سے اڑتے ہو، بنیاد ہے جس پر ٹھہرتے ہو، ہاتھ ہے جسے لڑتے ہو۔
فرزند! میں تیری دنیا و عقبیٰ خدا کے سپرد کرتا ہوں اور دونوں جہاں میں اس ذات برتر سے تیرے لیے فلاح و بہبود کی دعا کرتا ہوں۔

(ہمارے اسلاف کی دانشمندانہ تحریریں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں