جمعرات، 18 اگست، 2016

عجیب اور دلچسپ : اولمپکس کی تاریخ کے 9 یادگار ترین لمحات


گرمائی اولمپکس ہر چار سال بعد ہوتے ہیں اور ہر مرتبہ کھیلوں کا یہ عالمی میلہ ہمیں ایک ہی بات یاددلاتا ہے ’ دنیا بھر کے لوگوں کو ایک مقام پر اکٹھا کرنا اور کھیل کے ذریعے انہیں ایک دوسرے کے قریب لانا‘ لیکن تاریخ میں کئی ایسے مواقع آئے کہ جب اولمپکس کو کھیل کی وجہ سے یاد نہیں کیا گیا بلکہ یہ دیگر واقعات تھے، جنہوں نے تاریخ میں جگہ پائی۔عالمی اقتصادی فورم نے ان 9 اہم ترین تاریخ ساز لمحات کو اکٹھا کیا ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں: 1۔ عورتوں کی پہلی بار شرکت عورتوں نے پہلی بار 1900ء میں ہونے والے اولمپکس میں حصہ لینا شروع کیا تھا ،جس میں وہ پانچ کھیلوں میں شریک تھیں: ٹینس، کشتی رانی، کروکیٹ، گھڑ سواری اور گالف۔ اس کے بعد سے اب تک بہت کچھ تبدیل ہوچکا۔ 2012ء میں ہونے والے لندن اولمپکس میں پہلی بار ہر کھیل میں عورتیں موجود تھیں جبکہ ریو میں جاری اولمپکس میں 45 فیصد ایتھلیٹ خواتین ہیں۔ 2۔ جیسی اوونز اور ایڈولف ہٹلر اولمپکس سے جڑے ایسے بہت کم نام ہوں گے، جیسا کہ امریکا کے جیسی اوونز کا ہے۔ 1936ء میں نازی جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہونے والے اولمپکس میں اوونز نے چار سونے کے تمغے جیتے تھے۔ 3۔ پیرالمپکس کا آغاز 1948ء میں برطانیہ میں معذوری کا شکار ہونے والے فوجیوں کے لیے کام کرنے والے ایک ڈاکٹر لڈوگ گٹمان نے اپنے مریضوں کی بحالی کے لیے کھیلوں کا آغاز کیا۔ اس پروگرام نے اتنی کامیابی حاصل کی کہ کئی ہسپتالوں نے اسے نقل کیا اور پھر ان اداروں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہونے لگے، پھر 1960ء کے روم اولمپکس میں وہ 400 وہیل چیئر پر موجود مریضوں کو لے کر آئے، جنہیں پیریلل گیمز یعنی متوازی کھیل کہا گیا۔ اسے بعد میں پیرالمپکس کا نام دیا گیا اور یہ بہت کامیاب ہوئے۔ لندن 2012ء میں 164 ممالک کے 4302 کھلاڑیوں نے پیرالمپکس میں حصہ لیا۔ 4۔ بلیک پاور سلیوٹ اولمپکس کے کھیلوں میں سیاسی مظاہرے کی سب سے بڑی مثال 1968ء کے میکسیکو سٹی اولمپکس میں 200 میٹر فائنل کے بعد ہونے والی تقریب تھی۔ اپنے ملک میں نسلی بنیادوں پر ہونے اولی تفریق کے خلاف سیاہ فام امریکی کھلاڑیوں ٹومی سمتھ اور جان کارلوس نے اس وقت ’’بلیک پاور‘‘ سلیوٹ مارا جب تقریب کے دوران امریکا کا پرچم قومی ترانے کی دھن کے ساتھ بلند ہورہا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جو امریکا میں شہری حقوق کی جدوجہد کو عالمی منظرنامے پر لایا اور آج بھی اس بارے میں بات کی جاتی ہے۔ 5۔ میونخ میں دہشت کھیلوں کے اس بین الاقوامی میلے میں جو ہمیشہ امن و اتحاد کو فروغ دیتا ہے، 1972ء کے میونخ اولمپکس میں پیش آنے والا واقعہ ایک سیاہ دھبہ ہے۔ بلیک ستمبر نامی ایک گروپ نے اولمپکس ولیج میں داخل ہوکر اسرائیل کے 11 کھلاڑیوں کو قتل کردیا۔ اس واقعے کے بعد سے اب تک اولمپکس کے انعقاد میں سکیورٹی کو بہت اہم گردانا جاتا ہے۔ 6۔ افریقی بائیکاٹ 1976ء کے اولمپکس میں جب نیوزی لینڈ کی رگبی ٹیم کو نسل پرست جنوبی افریقا کے دورے کے باوجود کھیلنے کی اجازت دی گئی، تو افریقا کے 25 ممالک نے مونٹریال اولمپکس کا بائیکاٹ کردیا۔ اس بائیکاٹ میں عراق اور گیانا نے افریقی ممالک کا ساتھ دیا۔ کینیا نے کہا تھا کہ کینیا ملک کے عوام اور حکومت سمجھتی ہے کہ اصول، تمغوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔ 7۔ محمد علی اور اولمپک مشعل اولمپکس کی تاریخ میں جتنے بھی یادگار لمحات رہے ہیں،ان میں سے کوئی بھی 1960ء کے گولڈ میڈلسٹ محمد علی کی جانب سے 100 ویں جدید اولمپکس کی مشعل روشن کرنے سے زیادہ یادگار نہیں ہوگا۔ محمد علی جو مسلمان ہونے سے قبل کاشیئس کلے تھے، نے روم اولمپکس میں امریکا کے لیے سونے کا تمغہ جیتا تھا، جسے انہوں نے ملک میں نسلی امتیاز کے خلاف احتجاجاً دریا میں پھینک دیا تھا۔ 36 سال بعد رعشہ جیسے مرض میں مبتلا محمد علی نے اولمپک مشعل کو روشن کیا۔ 8۔ کیتھی فری مین اور آسٹریلیا کا اتحاد 2000ء کے گرمائی اولمپکس آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہوئے تھے، جہاں میزبان ملک کے 628 رکنی دستے میں 11 ایسے کھلاڑی بھی شامل تھے، جو آسٹریلیا کے حقیقی باسی ،یعنی ایبوریجنل تھے۔ ان میں اولمپک مشعل جلانے والی کیتھی فری مین بھی شامل تھیں، جنہوں نے بعد میں خواتین کی 400 میٹر دوڑ میں سونے کا تمغہ جیتا اور آسٹریلیا اور ایبوریجنلز کے پرچم کے ساتھ میدان کا چکر لگایا۔ 9۔ متحدہ کوریا سڈنی اولمپکس میں ایک بہت بڑی سیاسی پیشرفت یہ بھی ہوئی تھی کہ شمالی و جنوبی کوریا کی ٹیموں نے جزیرہ نما کوریا کے یکساں پرچم کے ساتھ افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ ان کے کھلاڑی بھی ایک جیسی وردی پہنے میدان میں داخل ہوئے۔ (اُردو ٹرائب سے ماخوذ) - 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں