ہفتہ، 20 اگست، 2016

کرپشن پر سزائے موت کا قانون کیوں نہیں


رحمت خان وردگ

بدقسمتی سے پاکستان میں تمام جمہوری ادوار میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا اور یہاں سیاست میں دولت کا عنصر حاوی ہوتا چلا گیا اور اس وقت یہ عالم ہے کہ عام آدمی سیاست میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور ہماری نوجوان باصلاحیت نسل ملک کیلئے کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے کیونکہ ایک دولت مند‘ بااثر مافیا اقتدار پرقابض ہے اور ایک دوسرے سے باریاں بدل بدل کر یہ کے ایوان پر قابض ہیں۔ اس وقت اپوزیشن کی جماعتوں میں بھی اکثریت ایسے افراد کی ہے جو پہلے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہی رہے ہیں اسی لئے اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپوزیشن میں بھی ایسی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ ہمیں عوام کی خدمت کا موقع نہیں ملا لیکن انہوں نے بھی اپنے اقتدار میں یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ کرپشن پر سزائے موت کا قانون منظور کرتے۔ بہرحال اس وقت کی اپوزیشن نے بھی کبھی پارلیمنٹ میں یہ قرارداد پیش نہیں کی کہ کرپشن پر سزائے موت کا قانون منظور کیا جائے۔
1984ء میں ملکی سیاست میں دولت اور کرپشن کا عنصر متعارف ہوا اس سے قبل کرپشن اس قدر نہیں تھی اور نہ ہی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا تھا اور عام آدمی بھی سیاست کرسکتا تھا لیکن 1984ء میں جاگیرداروں کے بعد صنعتکاروں نے بھی سیاست میں قدم رکھا اور اپنا قبضہ جمانا شروع کیا۔ جمہوری ادوار میں یہاں تو راتوں رات بینک کھلوا کر ڈالرز بیرون ملک منتقل کئے گئے اور اگلے ہی دن تمام غیر ملکی کرنسی اکائونٹس منجمد کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یہاں پارلیمنٹ کی نشست اس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک کم از کم ایک کروڑ روپیہ آپ خرچ نہ کر لیں اور یہ عام آدمی کی سوچ سے بھی باہر ہے کہ اس قدر دولت کہاں سے آئیگی؟ سیاست پر جو لوگ قابض ہیں انہوں نے ہمیشہ جمہوری ادوار میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اہم قومی اداروں کو معاشی زبوں حالی کا شکار کیا اور سیاسی‘ سفارشی اور رشوت کی بنیاد پر گنجائش سے دوگنی بھرتیاں کرکے اہم قومی اداروں کو بھاری خسارے کا شکار کیا گیا اور پھر اس کا اس قدر واویلا کیا جاتا ہے کہ فلاں قومی ادارہ ملکی معیشت پر بوجھ ہے اور اس سے جان خلاصی میں ہی ملک کی معیشت کا استحکام پنہاں ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ جب بھی فوجی حکومت آتی ہے تو اہم قومی ادارے پی آئی اے‘ اسٹیل ملز‘ ریلوے اور پی ایس او سالانہ اربوں روپے منافع کمانے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی جمہوری دور آتا ہے ان تمام اہم قومی اداروں کا اربوں روپے منافع بھی غائب کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اربوں روپے خسارے کا شکار کر دیا جاتا ہے۔ اہم قومی اداروں کے منافع میں اس قدر فرق کیوں آتا ہے؟ اس کا جواب کبھی کسی جمہوری حکمران نے نہیں دیا۔
یہاں کرپشن کا ایک طریقہ کار یہ بھی ہے کہ اپنی فیملی کے مختلف لوگوں کے نام پر کمپنیاں قائم کرکے تمام اہم ٹھیکے خود لے لئے جاتے ہیں اور پھر غیر معیاری کام کے عوض دوگنے بل پاس کرالئے جاتے ہیں جس سے نہایت مہارت کے ساتھ قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جماعت کے لوگوں کا متعلقہ علاقوں میں رعب و دبدبہ قائم رکھنے کیلئے اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کی سفارش پر علاقے کے پولیس و انتظامی افسران کا تقرر کیا جاتا ہے تاکہ پارٹی کے افراد کے کالے کرتوتوں پر پردہ رکھا جا سکے اور پولیس و انتظامیہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کریں۔ اسکے ساتھ ساتھ سیاسی و کاروبار حریفوں کو بھی انہی انتظامی و پولیس افسران کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے لیکن مخالفین کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہی اپنی مرضی کے پولیس و انتظامی افسران بلدیاتی و عام انتخابات میں انکی پارٹی کی یقینی کامیابی کا سبب بھی بنتے ہیں اور پھر ان افسران کو ’’خدمات‘‘ کے عوض ترقیاں دی جاتی ہیں حالانکہ ان افسران کی عملی طور پر کارکردگی صفر ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح الیکشن کمیشن‘ پٹوارخانہ اور عدالتی عملے میں بھی اپنی مرضی کے لوگوں کو بٹھاکر عوام کو اپنی رعایا بنادیا جاتا ہے اورخود کو حکمران شہنشاہ معظم سمجھنے لگتا ہے کیونکہ اپنے اور اپنی پارٹی کے تحفظ کیلئے انہوں نے تمام ممکنہ تحفظ کا انتظام کیا ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بھی زبانی جمع خرچ سے کام لیتی ہیں اور جب خود اقتدار میں آتی ہیں تو اسی نظام کو تحفظ دیکر فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کو ہمیشہ اقتدار میں دیکھنے کیلئے ہر وہ طریقے کار آزمانے کو تیار رہتی ہیں جس سے انکی کرپشن‘ اقرباء پروری‘ لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی پردہ پوشی ہو سکے اور اس سلسلے میں قوانین میں ردوبدل بھی کیا جاتا ہے۔
اس وقت پانامہ لیکس کے سلسلے میں اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہیں لیکن ان جماعتوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پہلے اقتدار کے ایوانوں میں رہ چکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی ایسی قانون سازی کے لئے پیشرفت نہیں کی جس سے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر موت کی سزا دی جا سکے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس وقت بھی تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی ہے اور یہ جماعتیں بھی صرف عوام کے سامنے بیان بازی کی حد تک ہی کرپشن کیخلاف ہیں لیکن پارلیمنٹ میں انہوں نے کبھی کرپشن پر سزائے موت کے قانون کی قرارداد پیش نہیں کی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں کرپشن پر سزائے موت کے قانون کی قرارداد پیش کردیں تو اس کی مخالفت کرنیوالے خودبخود عوام کے سامنے بے نقاب ہو جائینگے اور قوم کو یہ سمجھ آ جائیگی کہ آخر کرپشن کا تحفظ کون کرنا چاہتا ہے اور کون کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پانا لیکس اور تحریک کے سلسلے میں باہمی روابط قائم ہیں میرے خیال میں اس وقت ملک کے حالات کسی بھی تحریک کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک طرف بھارت نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ گوادر پورٹ اور پاک چین اقتصادی راہداری کو کسی صورت برداشت نہیں کریگا اور اسی لئے امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل نے افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان اور ملک بھر میں کارروائیوں کا آغاز کر رکھا ہے تاکہ چین کے انجنیئرز اور ماہرین عدم تحفظ کا احساس ہونے پر منصوبوں کو چھوڑ کر چلے جائیں لیکن آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان منصوبوں کو ہر صورت میں بروقت مکمل کیا جائیگا۔
میرے خیال میں اس صورتحال میں اپوزیشن اور حکومت کو اس بات پر اتفاق کرنا چاہئے کہ پارلیمنٹ میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سزائے موت کا قانون منظور کر لیں اور اس قانون کے عوض کوئی بھی تحریک نہ چلائی جائے اور آج سے قبل کی گئی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سزائے موت کے قانون کا نفاذ نہ ہو تو اس طریقے سے اپوزیشن اور حکومت دونوں مطمئن ہو جائیں گی۔

(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں