خالد بیگ
گلشن اقبال پارک میں کھیلتے بچے و خواتین دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔ واہگہ بارڈر پر جھنڈا اتارنے کی تقریب میں ہونے والا خودکش دھماکا ہو یا پشاور میں آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کے ساتھ کھیلی گئی خون کی ہولی… یہ سب ہمارے دشمن ملک بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف برپا کی گئی اس جنگ کا حصہ ہے جو اس نے عرصہ دراز سے مسلط کر رکھی ہے۔
8اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں وکلاء کے اجتماع پر ہونے والا خودکش حملہ بھی اسی جنگ ہی کی ایک کڑی ہے جس نے ماضی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی طرح پوری قوم کو سوگوار کردیا لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اپنے دشمن کو جانتے اور پہنچانتے ہوئے بھی ہم اس کا نام محض اس لئے لینے کو تیار نہیں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے بعض معززین بھارتی قیادت سے خصوصی مراسم رکھتے ہیں ان کے اس تعلق کا تقاضا ہے کہ بھلے بھارت ہمارے پھول جیسے بچوں کی ذبیح کر ے ہمارے وکلاء کوخون میں نہلاتا رہے ہم اس کا نام زبان پر نہ لائیں حالانکہ بھارت نے پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں میں کبھی بھی ڈھکے چھپے الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔
کھل کر کہاکہ ’’ہم پاکستان پر وہاں حملہ کریں گے جہاں اس کو سب سے زیادہ تکلیف ہو‘‘ اس لئے بھارتی منصوبہ ساز معصوم بچوں خواتین‘ عوامی مقامات اور ہسپتالوںکو خودکش دھماکوں کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ جب سول سوسائٹی دہشت گردی کا نشانہ بنتی تو پورا معاشرہ اس کی تکلیف اور درد محسوس کرتا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی دہشت گردی کی بڑی واردات کی گئی پاکستان کے اندر سے کچھ طبقات اور خود بھارت کا رویہ پاکستانیوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی جیسا رہا ہے۔
کوئٹہ کے سانحہ ہی کو لے لیجئے صوبہ بلوچستان کے تقریباً45 کے قریب معروف وکلاء حضرات شہید کردیئے گئے۔ وکلاء کے علاوہ بھی بہت سے پاکستانی زندگی کی بازی ہار گئے 70 سے زیادہ افراد جاں سے گئے تو زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی ایک سو سے زیادہ تھی دہشت گردی کے اتنی بڑی واردات کی وجہ سے ہر پاکستانی سوگوار تھا ایسے میں بھارت نے کمینگی کی انتہا کرتے ہوئے نیو دہلی میںتعینات پاکستانی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے دھمکانے کی کوشش کی اور الزام لگایا کہ ’’پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کر رہا ہے۔ بھارتی فوج نے بہادر علی نام کے ایک پاکستانی کو گرفتار کر لیا ہے‘‘ پاکستان پر الزام لگانے کے ساتھ ہی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتار شخص تک پاکستانی سفارت خانے کو رسائی کی پیشکش بھی کر دی گئی۔
اب بھارت سے کوئی پوچھے کہ ٹھیک ہے پاکستانی حکمرانوں کی آنکھ تاخیر سے کھلی۔ انہیں ان حقائق کا علم اس وقت ہوا جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف چیخ اٹھیں کہ بھارت کم سن بچوں اور احتجاج کرنے والے نہتے نوجوانوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ بند کرے ورنہ کشمیریوں کی تحریک کو کچلنے کیلئے بھارتی تشدد کا سلسلہ تو گزشتہ چار ماہ سے جاری ہے علاوہ ازیں بھارت کشمیریوں کے نہ ختم ہونے والے احتجاج سے اس قدر زچ ہو چکا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے نو عمر و شیرخوار بچوں تک کو شکار کیلئے استعمال ہونے والے چھروں سے بھرے ہوئے کارتوسوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا تو ساتھ ہی بھارتی ٹی وی پر بیٹھے بھارتی تجزیہ نگار و اینکر ہزیانی کیفیت میں پاکستان کو دھمکیاں دینے لگے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے فکر چھوڑ کر بلوچستان و کراچی کی فکر کرے۔
بھارتی وزراء بھی کچھ اسی طرح کے بیانات دے رہے تھے جس سے لگتا تھا کہ بھارت دنیا خصوصاً پاکستانیوں کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے ہٹانے کیلئے پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کرے گا جس کے بعد پاکستانیوں کو اپنی پڑ جائے۔
گو بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر نے بے موقع موقف بھارتی الزام تراشی کا منہ توڑ جواب دیا اور بھارت میں بیٹھ کر بھارت کو آئینہ دکھا دیا کہ خود بھارت پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے اور بتا دیا گیا بھارت اپنا قبلہ درست کرے مزید الزام تراشی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
لیکن دھماکے کے ردعمل میں پاکستان میں کیا ہوا؟ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک قوم پرست جماعت کے سربراہ محمود خان اچکزائی نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر وہ بات کرڈالی جو شاید بھارت نے بھی کبھی نہیں کہی ’’تخریب کار پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کیلئے پے رول پر ہیں‘ دہشت گردی کیسے رکے گی‘‘
یہ ایک طرح کا پاکستان کے خفیہ اداروں پر الزام تھا کی دہشت گردی خدانخواستہ یہ ایجنسیاں کرا رہی ہیں‘ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کی سلامتی کے ساتھ اس سے زیادہ بھونڈا مذاق اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ سلامتی کے اداروں کو ہی سلامتی کیخلاف ہونیوالی کارروائیوں میں ملوث قرار دے کر سادہ لوح عوام کو اپنی حفاظت کرنے والے اداروں سے متعلق تحفظات میں مبتلا کر دیا جائے اگر بات خفیہ اداروں کی نااہلی تک محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا‘ ہر شہری کو اپنے اداروں کی کارکردگی پر بات کرنے کا حق حاصل ہے اور عوامی نمائندے سوال کر سکتے ہیں لیکن محمود خان اچکزائی نے اپنے اداروں پرالزام تراشی کے ساتھ ہی بھارتی خفیہ ایجنسی را کی صفائی میں وہ لب و لہجہ اختیار کیا کہ اس کے بعد یوں لگا جیسے کلبھوشن یادیو بھارتی نیوی اور را کا اعلیٰ افسر نہیں بلکہ سادہ لوح بھارتی کسان تھا جو اپنے گائے کو پکڑنے کے چکر میں راہ بھٹک کر پاکستان میں داخل ہوا اور بے خیالی میں بلوچستان تک جا پہنچا یا پھر ایران کے راستے اس کی بلوچستان آمد‘ بلوچستان میں اس کے علیحدگی پسندوں سے رابطے‘ نریندرہ مودی کے بطور وزیراعظم پاک چین راہداری منصوبے کو ’’کسی بھی قیمت‘‘ پر روکنے اور اس کیلئے ’’ہر طرح کا حربہ‘‘ استعمال کرنے کی دھمکیاں‘ کلبھوشن یادیو کی بلوچستان میں رنگے ہاتھوں گرفتاری‘ سب محض ایک افسانہ یا فرضی کہانی ہے ویسے بھی پاکستان میں محمود خان اچکزائی بھارت یا بھارتی خفیہ ادارے کی حمایت میں بات کرنے والے پہلے پاکستان نہیں ہیں اس کشتی میں اور بھی بہت سے سوار ہیں بلکہ ایک معروف صحافی و اینکر نے تو اپنے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں خطے کے ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ’’را‘‘ بھارت سے باہر آپریٹ ہی نہیں کرتی بلکہ یہ کام آئی ایس آئی کرتی ہے جس کے ’’فٹ پرنٹ‘‘ کبھی افغانستان میں ملتے ہیں تو کبھی بھارت میں‘‘ یہ صاحب اور انکے ہم خیال چند دیگر اینکر ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں اکثر پھبتی کستے ہیں کہ ’’صوبہ بلوچستان ہو یا سندھ‘ ان دونوں صوبہ میں عملاً حساس اداروں کی عمل داری ہے وہاں ہونے والی تخریب کاریوں کی ذمہ داری سیاستدانوں پر نہیں ڈالی جا سکتی‘‘ (اب یہ بھی اچھنبے کی بات ہے کہ اپنے تبصروں یا ٹیلی ٹاک شوز میں ان حضرات نے آج تک مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی اس کو اپنے پروگراموں کا موضوع بنایا ہے)
دوسرے لفظوں میں جب وہ کراچی و کوئٹہ میں ہونے والی ہر طرح کی ذمہ داری کا بوجھ حساس اداروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ ان صوبوں کے زیادہ تر سیاسی ذمہ داران نے دبئی میں اپنی املاک بنانے ‘ کاروبار جمانے اور بیرون ملک بنکوں میں کھولے گئے کھاتوںمیں رقوم جمع کرنے کے علاوہ کوئی فریضہ ادا نہیں کیا‘ یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن ایجنسیوں کو اپنے ’’آپریٹر‘‘ کراچی و کوئٹہ بھیجنے اور پاکستان کے ان حساس شہروں میں اپنے لئے سہولت کار پیدا کرنے کا موقع ملا جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان دشمن ایجنسیاں‘ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو جل دے کرکوئی نہ کوئی بڑی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی گرفتار دہشت گرد پاکستان میں اپنے کسی اہم سہولت کار کا نام لے بھی لے اور یہ سہولت کار کوئی اہم سیاسی کارکن یا لیڈر ہو تو اسے سیاسی انتقام قرار دے کر اتنا شور مچایا جاتا ہے گرفتار دہشت گردی بھی معصوم لگنے لگتا ہے ویسے بھی جنگ اکیلے فوج نہیں لڑا کرتی جنگ جیتنی ہے تو قوم پرستی‘ صوبابیت‘ سیاست‘ ملک و لسانیت سے اوپر اٹھ کر قوم کے ہر طبقہ کو متحد ہو کر مکار دشمن کے خلاف لڑنا ہو گا۔
(روزنامہ
نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں