بدھ، 28 مارچ، 2018

ریاست کے اندر ریاستیں


23 مارچ سب نے مل کر منایا ، عظیم الشان پریڈ ہوئی ، اعزازات کی ریوڑیاں ہر صوبائی دارالحکومت کے گورنر ہائوس اور ایوان صدر میں بہ مقدار وافر تقسیم کی گئیں۔ بیانات داغے گئے اور اس طرح داغے گئے جیسے 21، 21 توپیں داغی گئیں یہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور 23 مارچ کو اس کا خاکہ مرتب کیا گیا تھا۔14 اگست کو وجود میں آیا اور مذاہب کے نام پر ہی ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے فون کا نذرانہ لے کر وجود میں آیا مگر یہ واحد قوم ہے جس نے اتنے بڑے سانحے اور واقعے کو اپنے باطن کے اندر سمویا جس کا نتیجہ صاف ہے کہ ملک ایک ہے 23 مارچ ایک ہے 14 اگست ایک ہے مگر حکومتیں ایک نہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں تو سمجھ میں آتی ہیں حکومت کے اندر حکومتیں سمجھ میں نہیں آ رہی۔ برسر اقتدار حکومت بھی ان کی ہے جو اس کے خلاف تحریک برپا کیے ہوتے ہیں ۔ دیگر پارٹیاں تو حکومت سے باہر ہیں ان کی الگ الگ بولی تو ان کی مجبوری ہے اس طرح صدر وفاق کو ایک اکائی قر ار دے رہے ہیں مگر وزیراعظم سینٹ کے نو منتخب چیئرمین پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں ۔چیف جسٹس تمام گڈ گورننس کے دعوئوں کو غلط قرار دے کر ازخود نوٹس لے رہے ہیں اور سیاستدان اپنی دوکان چمکانے کے لئے جوڈیشنل مارشل لاء کا تصور دے رہے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی بے چارا جو سبھی کا موضوع ہے مگر سبھی کے ہاں اس کی دو کوڑی کی عزت نہیں۔ اس پر بوجھ ڈال کر اور اسے زد و کوب کرکے تمام حکومتی و سیاسی اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں۔ اگر ڈالر کی قیمت میں ایک ہفتے کے اندر چار روپے اضافہ ہوتا ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہے اور نقصان کس کو یہ اب واضح ہے کہ ایسے فیصلوں کے تمام منفی نقصانات عام لوگوں کو ہی برداشت کرنے ہیں ۔ جو وزیر خزانہ بیرون ملک میڈیکل تعطیل پر ہیں، سارا ملبہ مشیر خزانہ پر ڈال رہے ہیں اور مشیر خزانہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو ملکی ترقی کے لئے بہتر قر ار دے رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان جیسے اس نازک موقع پر پوری توانائی کے ساتھ حرکت میں آنا چاہیے تھا خاموش ہے اور اس کی خاموشی ’’نیم رضا‘‘ والی          خاموشی ہے۔ یوں لگتا ہے جسے وہ کافی عرصے سے روپے کی قدر میں کمی کرنا چاہ رہا تھا مگر عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں ڈالر کی خود ساختہ اڑان نے اس کا کام آسان کردیا۔ اس طرح کے حالات میں 23 مارچ کی عظیم الشان پریڈ کو دیکھ کر ہی تسلی دی جا سکتی ہے کہ پاکستان مضبوط ہاتھوں میں ہے ورنہ معاشی اور اقتصادی حالات تو اتنے اچھے نہیں کہ مستقبل قریب میں عام پاکستانیوں کے لئے کسی بہتری کی توقع وابستہ کی جائے۔ 
35 پنکچروں کے معروف فنکار نجم سیٹھی نے لاہور اور کراچی کی خوشیاں واپس لوٹانے کا دعوی کیا ہے مگر مخالفین اس کو اس لئے تسلیم کرنے سے عاری ہیں کہ چند غیر معروف انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی اتنی زیادہ سکیورٹی اور لاہور اور کراچی کی کئی سڑکیں بند کرنے کے بعد کرکٹ کی رونقیں بحال کرنے کا دعوی واقعی محل نظر ہے مگر چیف جسٹس نے نجم سیٹھی کی دعوت قبول کرکے لاہور کا میچ دیکھ کر تاثر تبدیل کیا ہے۔ جس میں پشاور زلمے کے کامران اکمل نے اگرچہ چوکے چھکے لگا کر اپنی ٹیم کو فتح دلائی مگر اپنے کوچ اور کپتان کے نزدیک بطور وکٹ کیپر اپنی پوزیشن بحال نہ کر سکے ۔ پی ایس ایل ٹرافی کے کچھ میچ متحدہ عرب امارات میں ہوئے کچھ لاہور میں اور فائنل کراچی میں یعنی کرکٹ کی خوشویں کو مرحلہ وار بلکہ شہر وار واپس لینے کا عمل جاری ہے جو اپنی مکمل کامیابی کے لئے کچھ سال اور توجہ طلب کرے گا۔                                             
سپریم کورٹ نے لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق کا سیل قائم کرنے کا حکم جاری کیا ہے ، یہ حکم یوں تو ہر رجسٹری میں انسانی حقوق کا سیل قائم کرنے کے لئے جاری کیا جانا چاہیے تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی کی صورت حال کسی ایک رجسٹری تک محدود نہیں تاہم اس سے لاہور اور پنجاب سنٹرل کے لوگوں کے مرید ریلیف ملنے کی توقع ہے اور مستقبل قریب میں خیبرپختوانخواہ اور بلوچستان کے لوگ بھی ایسا ہی ریلیف چاہیں گے ۔یہ حکم دراصل گڈ گورننس کے ڈھڑوں کی جانچ پرکھ کے لئے جاری کیا گیا ہے یقیناً عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں بھی ازخود احکامات جاری کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگا، کیونکہ یہ بھی انسانی حقوق کی بحالی میں ایک اہم قدم شمار ہو سکتا ہے اس کے علاوہ بڑے بڑے ہائوسنگ گروپ جو لوگوں کی بچتیں ہتھیا کر دوسرے ملکوں میں انویسٹمنٹ کر رہے ہیں ۔ وہ بھی اس کا موضوع ہوں گے کیا ہی اچھا ہو کہ کسی ایسے ہی از خود نوٹس پر یہ حکم جاری کیا جائے کہ جو لوگ اپنے پلاٹوں کی کل قیمت ادا کر چکے ہیں انہیں ہائوسنگ ادارے پلاٹ دیں یا ان کی مکمل رقم واپس کریں ، کیونکہ مکمل رقم وصول کرنے کے بعد دھوکہ دہی کا کوئی جواز نہیں۔ سرائے عالمگیر میں غربت کے باعث ایک والد نے اپنے چار بچے قتل کر دئیے اس سے قبل ایک عورت کی اپنے تین جگر گوشوں کے قتل کی خبریں دل ہلا چکی ہیں کہ یہ غربت کی بدترین شکل ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے لگے ہیں۔ بیٹے کے ہاتھوں والدہ یا والد کے قتل کی خبر بھی اس سلسلے کی کڑی ہے الحذر الحذر… کہ بڑھتی ہوئی ناآسودہ خاموشیوں کے باعث سوسائٹی اپنا فطری توازن کھو رہی ہے اس کو سنبھالا دینے کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو رول آف لاء اور دوسرا غربت میں کمی ،دونوں ہی اس ملک میں اپنا اعتبار کھو رہے ہیں اس لیے گریبان میں منہ دے کر رونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ یہاں رونے کے لئے کسی بڑے تکلف کی ضرورت نہیں کہ ہر بڑی خبر آنسوئوں کو آنکھوں کے اور قریب کر رہی ہے اور یہ آنسو دل سے آنکھوں کی طرف بڑھتے ہیں کہ آنسو بہانے والے اس ملک کے حوالے سے درد دل رکھتے ہیں اور اس ملک کے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو اپنے تمام حقوق سے محروم کر دئیے گئے ہیں اور ان میں تفرقہ اس لحاظ سے ہے کہ کوئی گروپ کسی سیاستدان کو نجات دہندہ سمجھ رہا ہے کوئی کسی اور کو مگر کوئی بھی ان کا طرفدار نہیں!!!                                                                   
حلقہ ارباب ذوق لاہور کے گزشتہ سالانہ جلسہ میں سینئر ترین ادیب اکرام اللہ نے طویل خطبہ پیش کیا اور صدق دل سے ملک کی بگڑی ہوئی تاریخ کا احاطہ کیا انہوں نے نہ صرف مسائل کا ادراک کیا بلکہ اصلاح        احوال کیلئے بھی تجاویز دیں اس سے قبل غلام حسین ساجد نے جو کہ سابق سیکرٹری تھے اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کی اور اس پر داد حاصل کی۔بعدازاں انتقال اقتدار کی رسم منعقد ہوئی جس میں حلقہ اربات ذوق و لاہور کی زمام نوجوان سیکرٹری عقیل اختر اور جوائنٹ سیکرٹری بابر کے حوالے کی گئی جنہوں نے جونیئر اور سینئر ادیبوں کے تعاون کی درخواست سے مشروط اپنی آئندہ سال کی کارکردگی بہتر بنانے کا اعلان کیا۔ حلقہ کے پہلے ماہ کا تنقیدی اجلاسوں کا پروگرام بھی جاری کیا گیا ہے جس میں ان کے دعوئوں کی تصدیق کا سامان موجود ہے۔ سالانہ جلسہ کے اختتام پر حلقہ ارباب ذوق کے گلوکار ممبران نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا خاص طور پر کلاسیکل گلوکار ندیم ریاض نے اپنے خوبصورت فن کا مظاہرہ کیا اور خوبصورت راگ کو اہتمام کے ساتھ گا کر ثابت کیا کہ کلاسیکل میوزک کو سننے والے آج بھی پوری توانائی کے ساتھ اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
۪روزنامہ نوائے وقت ۲۸ مارچ ۲۰۱۸ع۫

منگل، 27 مارچ، 2018

"ووٹ کو عزت دو"



شفیق الرحمن شاکر
"پاکستانی سیاست میں آج کل ایک نیا نعرہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ خوب زور و شور سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ یہ نعرہ ایک ایسے وقت میں لگایا جا رہا ہے جب نعرہ لگانے والے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے نااہل ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف قائم متعدد مقدمات کے متوقع فیصلے ان کے خلاف آنے کے قوی امکانات ہیں۔ ایسے میں انہوں نے ان ناگوار نتائج پر اثرانداز ہونے اور لوگوں کی توجہ اصل حقائق سے موڑنے کے لئے یہ خوبصورت لیکن گمراہ کن نعرہ ایجاد کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لفظ سیاست اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ اب اسے صرف منفی معنوں میں ہی لیا جاتا ہے اور اس لفظ کو اتنا آلودہ کرنے میں سب سے بڑا حصہ خود سیاستدانوں کا ہے۔ ان سیاستدانوں نے گزشتہ نصف صدی سے اپنی سیاست کے ایسے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ اب سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور پاکستانی نہ تو ان کی باتوں کو سنجیدہ لیتا ہے اور نہ ہی ان پر اعتبار کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا پاکستانی سماج اور قوم بحیثیت مجموعی ان کے چنگل میں ایسے برے طریقے سے پھنسی ہوئی ہے کہ ہم جتنا اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے جا رہے ہیں‘ اتنا ہی مزید پھنستے جا رہے ہیں۔ ایسے منافع خور سیاستدانوں بلکہ سیاستکاروں سے نجات پانا ناممکنات میں سے نہیں لیکن پتا نہیں کیوں لوگ ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔ شاید ان کے پُردرد الفاظ میں ایسا کیف اور ان کی تقاریر میں ایسا جادوئی کرشمہ پنہاں ہے جو وہ مسلسل عوام پر مصائب و آلام کے پہاڑ گرانے کے باوجود بھی آسانی سے مظلومین کی صف میں جگہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اچانک ان کی آواز بھراتی ہے، آنکھوں میں آنسوئوں کی لڑیاں سج جاتی ہیں، زبانوں پر عوامی خدمت اور ووٹ کی عزت بحال کرانے کی بامشقت جدوجہد کے جرم میں ان کے اوپر ڈھائے گئے مظالم کی حکایات و شکایات جاری ہو جاتی ہیں۔ اس طرح وہ دردناک افسانے سناکر خود بھی رونے اور اپنے ساتھ عوام کو بھی رلانے کا انوکھا فن رکھتے ہیں۔ اپنی تمام تر بربادیوں اوربدحالیوں کے باوجود ہمیں اس معصوم مخلوق سے کوئی شکایت نہیں رہتی۔ اکیلے سیاستکار ہی نہیں جنہوں نے ہمارا بیڑہ غرق کیا ہے، ان کے ساتھ مفت خوروں کی ایک نہ ختم ہونے والی بارات ہے۔ ڈھول پیٹنے والے، شہنائی نواز، طوطاری، ٹھمریاں گانے والے گویے، سازندے اور باجا بجانے والے، رقاص، داستان گو، قصیدہ خوان، نعرہ باز اور نعروں کا جواب دینے والے، لعنتیں بھیجنے والے، مصنوعی رونے اور ہنسنے والے، پھول اور نوٹ پھینکنے والے، مخالفین کو چیلنج کرنے اور انہیں گالیوں سے نوازنے والے، اپنے رہبروں پر سو بار جان قربان کرنے کی دھمالیں ڈالنے والے، دانشور، ادیب و نام نہاد تجزیہ کار‘ کس کس کا بیان کیا جائے کہ عشق کے ان سیاسی آستانوں پر نجانے کتنے سر صدقہ ہونے‘ اور کتنے قلب قربان ہونے کے مشتاق رہتے ہیں۔ ہماری تو عقل ہی دنگ رہ جاتی ہے اور زباں سے بے اختیار یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔اگر ان سیاستکاروں کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو سمجھو کہ جمہوریت کو بلکہ ملک کی سالمیت کو ہی خطرہ ہے۔ اگر انہیں اپنے افعال، اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے کرسی سے الگ کیا جائے تو سمجھو کہ عوام کے ووٹ کی عزت برباد ہو گئی۔ جتنے بھی پاکستانی ملک میں قانون کی بلاامتیاز حکمرانی کی بات کرتے ہیں، وہ سب عوام کے ووٹ کی توہین کرتے ہیں؟ جو بھی عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس لوٹانے کا مطالبہ کرتا ہے‘ وہ جمہوریت دشمن اور سازشی قوتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے؟ عوام کے ووٹ کی عزت کی حسین دیوی‘ جس پر آپ اس وقت اچانک جان و دل قربان کرنے کو تیار ہو گئے ہیں، کا الیکشن کے بعد بھی خیال رکھیں گے؟ ووٹ لینے کے بعد آپ کتنے مہینے بعد اس عوام کو ملاقات کا شرف بخشتے اور کتنے سالوں بعد انہیں اپنی صورت دکھاتے ہیں؟ چلیں تسلیم کرتے ہیں کہ عوام کے ووٹ کی آبرو نہ رکھنے والے حلقے کافی مضبوط ہیں لیکن یہ کیسی بے بسی اور بے اختیاری ہے کہ خود آپ کے اثاثوں میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے؟ لوگوں کے ووٹ کی عزت کی منزل ابھی دور ہے، پہلے یہ تو تسلیم کریں کہ جو لوگ آپ کو ووٹ دیتے ہیں وہ انسان ہیں،جیتی جاگتی انسانی مخلوق۔ جن کے وجود میں سانس چلتی ہے، جن کے پیٹ میں بھی بھوک کا دوزخ جلتا ہے، جن کے جگر ٹکڑے بھی بیمار ہوتے ہیں، ان کے سینوں میں بھی چھوٹی چھوٹی تمنائیں سلگتی اور بجھتی ہیں۔ اگر گندگی کی ڈھیروں تلے اپنا رزق تلاش کرنے والے کم عمر بچوں کے میلوں میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی تو پھر دوسروں سے عوام کے ووٹ کی عزت کا مطالبہ کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب ضرور چاہیے کہ عوام سے ووٹ لیکر حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں نے عوام کے ووٹ کا خود کتنا مان رکھا ہے؟ "
۪ روزنامہ دنیا نیوز ۲۷ مارچ ۲۰۱۸ع  ۫


پیر، 26 مارچ، 2018

وفاق کی علامت سینٹ : وزیراعظم کا بیانیہ


وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوچستان سے منتخب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی جو ’عزت افزائی‘ کی، سرشرم سے جُھک گیا۔ وجہ شخصی احترام کے علاوہ بلوچستان بھی ہے۔ رونا یہ آیا کہ وزیراعظم ہوکر وفاق کی علامت ادارے کے وقار کو الزامات سے آلودہ کیا گیا۔ جرا¿ت اظہار اچھی بات ہے۔ سیاستدان اکثر ’پھنس‘ جانے پر’جالب‘ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آسانی آنے پر پھر سے ’بھٹو‘ اور ’ضیائ‘ بن جاتے ہیں۔
وفاداری بشرط استواری تو سُنا تھا لیکن وفاداری کا یہ اندازہ لگتا ہے ۔ ملک میں مارشل لاءکی راہ ہموار کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے ہماری خوش گمانی دھری کی دھری رہ گئی کہ ایک پڑھا لکھا دراز قد انسان وطن عزیز میں مثبت طرح ڈالے گا۔ سُلجھے انداز میں شفاف طرز پر ملک کی خدمت کا نیا سلیقہ متعارف ہوگا۔ جالب ہی کی فریاد میں، انہیں خوشنودی شاہاں کا دائم پاس رہتا ہے۔ نوازشریف ’ایکس فیکٹر‘ سے وہ نجات پا نہیں سکے۔ معاملہ بے وفائی کا نہ تھا لیکن کوئی اصول تو انسان کو اپنانا چاہئے؟ جب آپ وطن عزیز کی اتنی اعلیٰ ترین امانت کے پاسدار ہوں لیکن انداز....افسوس صد افسوس۔ وفاق کی علامت سینٹ کی توہین جس انداز میں کی گئی۔ لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ وہ انداز ہے جس سے مسلم لیگ (ن) اور ’اس کا وزیراعظم‘ بلوچستان کی محرومیوں پر مرہم رکھنا چاہ رہا ہے؟ شاہد خاقان بولے کہ ’ہم سینٹ میں غیر متنازعہ اور متفقہ امیدوار لانا چاہتے تھے۔ اس لئے رضا ربانی کا نام لیا۔ ہم اب بھی سینٹ میں متفقہ امیدوار لانے کے حق میں ہیں۔ لیکن زرداری نے ہماری بات نہیں مانی اور ایک ایسے شخص کو سینٹ کا چیئرمین بنا دیا ہے جسے پاکستان میں کوئی نہیں جانتا جس کا کوئی سیاسی وجود نہیں۔‘ کرب کا اندازہ اس گفتگوسے لگائیے ’سینیٹرز بناتے وقت زرداری نے منڈی لگائی۔ لوگوں کے ضمیر خریدے کروڑوں روپے کی خرید و فروخت ہوئی۔ ہم اگر چاہتے تو اپنا چیئرمین سینٹ بنا سکتے تھے لیکن ہم نے شکست قبول کر لی اور اصولوں پہ سودے بازی نہیں کی۔‘ یہی کہا
 جا سکتا ہے کہ عباسی صاحب! اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
یہ بیان اُن کا سُن کر مجھے ماضی کے واقعات یاد آنے لگے جو چھانگا مانگا، مری ریسٹ ہاﺅس جیسے ’تابناک کارناموں‘ کی صورت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’رقم‘ ہیں۔ چیئرمین سینٹ کا تعلق کسی پارٹی سے نہ ہونے اور ’خریدے ہوئے ووٹوں سے منتخب‘ ہونے کا قلق ہے، تو وزیراعظم اور ان کے حامیوں کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ’لنگوٹ‘ کس کر راجہ ظفرالحق کو ’دھکا‘ دیں اور انتخاب بھی لڑیں؟ کیا ان ’خریدے‘ ہوﺅں سے مسلم لیگ (ن) کے ’صادق‘ اور ’امین‘ رابطے میں نہ تھے؟ کیا ان کی ہمدردیاں خریدنے کی کوئی کوشش نہ ہوئی تھی؟ ’اصولی‘ وزیراعظم کو پنجاب میں چوہدری سرور کو ووٹ دینے والے اپنے پارٹی ارکان کیوں بھول گئے؟ کیا اُن کا حساب وہ کر بیٹھے ہیں؟ ۔ ’فروخت کئے گئے ووٹوں کی وجہ سے صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ بنے ہیں‘ اور اس بناءپر وزیراعظم کو دنیا میں پاکستان کی عزت کی فکر لاحق ہے تو پھر پاناما دستاویزات سے جو شور مچا ہے، اس سے پاکستان کی ’قدر و منزلت‘ میں جو اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر عباسی صاحب کے کیا ’وچار‘ ہیں؟ ان کے لئے شاید یہ ’نیک نامی‘ ہے؟ عزت کا کیا مقام تراشا ہے؟ واہ۔ وزیراعظم نے بس نہیں کی۔ بولے ’چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں لوگوں کا ایمان اور ضمیر خریدا گیا۔ چیئرمین سینٹ صدرمملکت ہوتے ہیں۔ اس طرح چیئرمین سینٹ کا انتخاب بے عزتی کا مقام ہے۔ کیا اس طرح ملک کی عزت دنیا میں ہو سکتی ہے؟۔برادر عزیز سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے کیا برمحل اور شاندار تبصرہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”نئے سوشل کنٹریکٹ کے لئے ’سیاستدان، جج اور جرنیل مذاکرات کریں‘ لیگی صدر کا یہ بیان آئین سے کُھلی بغاوت ہے۔ محمد علی درانی کا یہ کہنا درست ہے کہ ’دستور اداروں کے گرد ذمہ داریوں کی واضح لکیر کھینچ چکا ہے۔ ایسی صورت میں عدلیہ اور فوج کو مذاکراتی سیاست میں اُلجھانا چال ہے۔ درانی صاحب گزشتہ کئی برس سے سوئیٹزرلینڈ اور یورپ سمیت بیرونی ممالک میں لُوٹ کا چُھپایا مال وطن واپس لانے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں انہوں نے ایک مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے جس کا مقصد اقوام متحدہ کی ایک قانون سازی کا سہارا لے کر پاکستان کے غریبوں کی لُوٹی دولت وطن واپس لانے کے لئے قانونی عمل شروع کروانا ہے۔ اس تناظر میں ان کی یہ دلیل رد نہیں ہو سکتی کہ ’شریف خاندان کے خلاف فوج، عدلیہ یا کوئی اور ادارہ سازش نہیں کر رہا۔ اب مغرب ترقی پذیر ممالک کے اُن سیاسی لیڈروں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو غریب عوام کے سرمایہ پر ڈاکہ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور مغرب نے سخت ترین قانون سازی کرکے کرپٹ سیاسی قیادت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ ہی اب کرپٹ لوگوں کو بچا سکتا ہے۔‘ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بھی خادم حسین رضوی اور ان کے ہم خیال کئی مذہبی پیشواﺅں کو یقین ہے کہ ’اب اللہ بھی انہیں نہیں بچائے گا ۔ ہم تو پھر بھی توبہ واستغفار کی بات کرتے ہیں۔ حماقتیں انسانی فطرت میں ہوتی ہیں لیکن بدنیتی کا کیا علاج۔ محسن بے مثل مرحوم ومغفور مجید نظامی کے مشن سے جو لوگ پھر گئے ہوں۔ اُن کا خون جگر جنہوں نے کیا ہو، ان کو کیا یاد دلانا۔ یاد بھی اُن کو دلائی جاتی ہے    جن کی آنکھ کا ’پانی‘ خ±شک نہ ہوگیا ہو۔ 
حرف آخر یہ کہ چیئرمین سینٹ کے لئے کیا ’فرشتوں‘ کا ووٹ حاصل کریں گے۔ اگر یہی سینیٹرز ہی ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے تو پھر صادق سنجرانی ہی کا کیا قصور ہے؟؟؟ 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

۪روزنامہ نوائے وقت ۲۶ مارچ ۲۰۱۸ع۫

اتوار، 25 مارچ، 2018

عوام کو مزید گمراہ نہ کریں


مجھے یقین ہے وہ تمام سازشی تھیوریاں دم توڑ دیں گی جو پچھلے کئی ماہ سے جاری ہیں اور جن کا مقصد سوائے بے یقینی پھیلانے کے کچھ نہیں۔ کئی تھیوریاں تو پہلے ہی دم توڑ چکی ہیں۔ اب صرف ایک تھیوری باقی رہ گئی ہے کہ عام انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے کیونکہ فوج اور عدلیہ نے پہلے گند صاف کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے، ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں گے کہ عام انتخابات وقت پر نہ ہو سکیں اب یہ باتیں کیوں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ یہ سازش کون کر رہا ہے، کہاں ہو رہی ہے، کوئی بتانے کو تیار نہیں بس ایک سازشی تھیوری بیان کر دی گئی ہے، جس کا سر ہے نہ پیر۔اس کے برعکس چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کھل کر یہ کہہ دیا ہے کہ کوئی جوڈیشل مارشل لاء نہیں لگے گا اور نہ ہی فوجی مارشل لاء لگانے کی اجازت دیں گے۔ ملک کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے، آئین پر مکمل عملدرآمد کرایا جائے گا اس میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس سے پہلے چیف آف آرمی سٹاف بھی بار ہا کہہ چکے ہیں کہ فوج جمہوریت کے ساتھ ہے اور اسے ڈی ریل نہیں ہونے دے گی۔ اتنی واضح یقین دہانیوں کے باوجود اگر لفظوں کی جگالی کرنے والے ہر کام میں سازشی تھیوری تلاش کر لیتے ہیں تو ان سے بڑا سازشی اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
جس عدلیہ کو نوازشریف آج برا کہہ رہے ہیں، اس کا تو شکر گزار ہونے کی ضرورت ہے، یہ عدلیہ ہی ہے جس نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اب کسی غیر آئینی تبدیلی کو آئینی نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم نہیں کی جائے گی۔ ایک طرح سے عدلیہ نے آئین پر شب خون مارنے کی روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں فوج جب بھی اقتدار میں آئی، آمروں نے سپریم کورٹ سے نظریۂ ضرورت کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا سب سے پہلے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا پابند بنایا اور پھر اپنے اقدامات کی منظوری لی۔ اب یہ باب بند کر دیا گیا ہے۔ کوئی غیر آئینی راستے سے حکومت پر قبضہ کرتا ہے تو اسے نہ صرف سپریم کورٹ نظریۂ ضرورت کا سرٹیفکیٹ نہیں دے گی بلکہ اس کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ بھی سنے گی۔ اس بات کی تعریف و ستائش کی جانی چاہئے مگر اُلٹا یہ کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ فوج کے دباؤ پر فیصلے دے رہی ہے۔
آمریت کے آگے بند باندھنے والی عدلیہ کے بارے میں یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے شکر ہے چیف جسٹس ثاقب نثار ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کی طرح صرف اپنے ترجمان کے ذریعے ہی سپریم کورٹ کا موقف بیان نہیں کرتے بلکہ خود سامنے آکر وضاحت کرتے ہیں جس سے تمام شکوک و شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ شیخ رشید نے جوڈیشل مارشل لاء لگانے کی بات کی تو کئی لوگ کہنے لگے کہ دیکھا بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے یہی وہ منصوبہ تھا جسے جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کو خیر باد کہتے ہوئے بہت پہلے بے نقاب کر دیا تھا کہ ملک میں عدلیہ کے ذریعے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر عبوری سیٹ اپ قائم کیا جائے گا۔   اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی شیخ رشید کی اس تجویز پر تنقید کی اور اسے خلاف آئین قرار دیا۔ گویا اس بیان سے ایک لاوا پکنے کا خدشہ تھا، جسے چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سامنے آکر ٹھنڈا کر دیا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ملک میں مارشل لاء نہیں آئے گا، جوڈیشل مارشل لاء کی آئین میں قطعاً گنجائش نہیں، آئین میں حکومت بنانے کا طریقہ بالکل واضح ہے سپریم کورٹ آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی اور کسی کو آئین کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔اب اس کے بعد تو ساری ذمہ داری سیاستدانوں کے کاندھوں پر آ جاتی ہے وہ جمہوریت کے لئے اس ساز گار فضا سے فائدہ اٹھائیں۔ اچھی اور بہتر قیادت کے لئے کوشش کریں۔ چیف جسٹس نے تو حضرت عمرؓ جیسے کسی حکمران کی دعا مانگی ہے، چلیں ان جیسا نہ سہی کوئی ایسا تو ہو کہ جمہوری اقدار کو ہی اپنا سکے۔ عوام کو ایک بہتر گورننس دے کر ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لائے یہ تھیوری اب ناکام ہو گئی ہے کہ سیاستدان صرف یہ واویلا کرتے رہیں کہ ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اُنہیں اب یہ تھیوری اپنانی چاہئے کہ پارلیمینٹ اپنا کام کرے گی۔ پارلیمینٹ میں 90 فیصد ارکان مٹی کے مادھو بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ صرف حاضری لگوانے یا ہاں میں ہاں ملانے کے لئے آتے ہیں اصل ووٹ کی بے عزتی تو وہ کرتے ہیں، اپنے ووٹرز کی اسمبلی میں آواز نہیں بنتے اور معاشرے میں جس طرح تیزی سے مسائل بڑھ رہے ہیں ان کے بارے میں اسمبلی کا فورم ہی استعمال نہیں کرتے۔اسمبلی میں تان اس نکتے پر ٹوٹتی ہے کہ یہاں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔ عجیب بات ہے کہ یہ عوامی نمائندے اسمبلیوں میں جمہوریت کی بات نہیں کرتے اور واویلا جمہوریت کے نہ چلنے کا کرتے ہیں۔ کیا پورا ملک مسائلستان نہیں بنا ہوا، ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ موجود ہے مگر اسمبلیوں میں یا تو کورم پورا نہیں ہوتا یا پھر ایسے ایشوز پر بات ہوتی ہے جن کا براہ راست عوام کے مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
پاکستان میں ایک منصوبے کے تحت عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے تاکہ عوام اس اُلجھن میں رہیں کہ انہیں ووٹ کا حق ملے گا یا نہیں، جب انتخابات قریب آ جائیں تو انہیں اچھے برے کی تمیز پر توجہ دینے کی بجائے یہی بات غنیمت لگے کہ چلو انتخابات ہو تو رہے ہیں یہی سوچ کر وہ برائیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں پاکستانی عوام کو اب اس مخمصے سے نکل آنا چاہئے کہ انتخابات بروقت ہوں گے یا نہیں انہیں صرف اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے کہ انتخابات میں انہوں نے ووٹ کسے دینا ہے اور ملک کی تقدیر کیسے بدلنی ہے انتخابات کے قریب آتے ہی بہت سے سیاسی مولوی ڈگڈگی لے کر میدان میں آ جاتے ہیں نئے اتحاد بنتے ہیں اور نئی سیاسی جماعتیں تبدیلی کا دعویٰ کر کے میدان میں اترتی ہیں حالات ساز گار ہوں تو ساری ذمہ داری ووٹروں پر آ جاتی ہے ملک کے چیف جسٹس اگر یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ملک میں نہ صرف انتخابات بروقت ہوں گے بلکہ ان کی شفافیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا تو پھر کسی ووٹر کو یہ شک نہیں رہنا چاہئے کہ وہ اپنے ووٹ سے اچھے نمائندوں کا انتخاب نہیں کر سکتا ہے جو ملک کی تقدیر بدلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ووٹروں نے اپنی زندگی میں کیا کچھ نہیں دیکھا کیسے کیسے نعرے نہیں سنے اور کیسی کیسی تحریکیں نہیں دیکھیں مگر ہوا تو کچھ بھی نہیں، ہر کوئی بے وقوف بنا کے چلتا بنا کل مولانا فضل الرحمن فرما رہے تھے کہ اس ملک میں عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر دھوکے دیئے گئے۔
تبدیلی کے نام پر بے وقوف بنایا گیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے مگر وہ یہ بھی تسلیم کریں کہ آج انہوں نے متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ زندہ کر کے ایک بار پھر اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دینے کی تیاری کر لی ہے میں تقریباً 45 سال سے سیاست کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں، اس میں شامل بھی رہا ہوں یہاں سب کچھ دھوکے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے بھٹو کے خلاف جب تحریک نظامِ مصطفیٰ چلی تھی تو دعویٰ یہی کیا گیا تھا کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا مگر بھٹو کے ہٹتے ہی مولوی صاحبان ضیاء الحق کی جھولی میں جا گرے اور انہوں نے جمہوریت کی بجائے آمریت کو سپورٹ کیا اس سے پہلے جو متحدہ مجلس عمل بنی تھی، اس کا جمہوریت کے لئے کیا کردار تھا وہ پرویز مشرف کا دایاں بازو بنی ہوئی تھی۔ سو انتخابات کے قریب آتے ہی بہت سے ڈرامے شروع ہو جاتے ہیں، جن کا مقصد سوائے عوام کو نئے سبز باغ دکھانے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
عوام کو کم از کم اب اس نکتے پر بالکل بے وقوف نہیں بننا چاہئے کہ ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے جمہوریت اب پاکستان میں ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ اب مسئلہ صرف اسے مضبوط بنانے اور عوام کے لئے ثمر آور بنانے کا ہے یہ ذمہ داری عدلیہ پر ڈالی جا سکتی ہے اور نہ فوج پر، اس کی ذمہ داری صرف سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو اُٹھانی پڑے گی۔ دنیا بھر میں جمہوریت اس لئے کامیاب طرز حکومت سمجھی جاتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کا مداوا کرتی اور انہیں ایک خوشحال زندگی کا یقین دلاتی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت عوام سے انتخابات کے بعد لا تعلق ہو جاتی ہے جب عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے تو اس خلاء کو پورا کرنے کے لئے عدلیہ مداخلت کرتی ہے یہ مداخلت جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد سرکاری اداروں کو خواب غفلت سے جگانا ہوتا ہے۔
یہی بات چیف جسٹس بھی بار بار کہہ چکے ہیں ووٹ کی عزت کا بیانیہ صرف ایک نعرے کے طور پر اپنانے سے بات نہیں بنے گی بلکہ عوام کے ووٹ کو واقعی عزت دینی ہو گی۔ اچھے لوگوں کے انتخاب سے لے کر اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے تک کا عمل اگر نیک نیتی سے جاری نہیں رکھا جاتا تو یہ نہ صرف وعدہ خلافی ہو گی بلکہ جمہوریت پر عوام کے اعتبار کو بھی نقصان پہنچے گا۔ سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ اب بے پر کی اڑانے کا سلسلہ بند کر دیں، افواہوں کا بازار گرم کرنے کی بجائے آنے والے انتخابات کی تیاری کریں۔ اپنی انتخابی مہم کو عوامی و ملکی مسائل کے حوالے سے منظم کریں نہ کہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائیں، جس کی گنجائش ہے اور نہ ہی عوام اسے پسند کریں گے۔
۪ روزنامہ پاکستان ۲۵ مارچ ۲۰۱۸ع
 ۪