بہت پہلے کی بات ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز سفر کرنا پڑتا تھا۔ ایک بڑے دارالعلوم میں جہاں وزیر اور گورنر، بڑے لوگوں کے بچوں کے علاوہ غریب لوگوں کے بھی ذہین بچے بھی پڑھتے تھے۔ اسی میں یعنی دارالعلوم میں وزیروں کے بچوں کے ساتھ ایک غریب کسان کا بیٹا بھی پڑھتا تھا۔ علم حاصل کرنے کے بعد بچے اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ کسان کا بیٹا بھی اپنے گاؤں واپس آ گیا۔
اس علاقے میں ہندوؤں کا راج تھا۔ اس میں علم کی کوئی قدر و قیمت وہاں نہ تھی۔ کچھ مدت بعد ماں باپ بھی فوت ہو گئے۔ یہ لڑکا بیچارہ کام تو کوئی اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ماں باپ نے شادی کر دی تھی۔ شادی کے بعد بیوی بچوں کی ذمہ داری سر پر پڑ گئی اس کا گاؤں دریا کے کنارے آباد تھا۔ کئی کئی دن فاقہ کرنے پڑتے تھے۔ ایک دن اس کی بیوی نے سمجھایا کہ آپ کے دارالعلوم میں بڑے بڑے لوگوں کے بچے پڑھتے تھے کیوں نہ آپ دریا جاؤ۔ ان سے کوئی ضرورت حاجت بیان کرو جو اس وقت ہے۔ کسان نے ہمت پکڑی کیوں کہ وہ بڑے عرصے بعد وزیر دوست سے ملنے جا رہا تھا۔
دوسرے دن صبح سویرے وزیر سے ملنے تیار ہو کر نکلا۔ دریا پار گیا اور شام کے وقت پہنچا۔ وزیر بادشاہ سے کسی امور پر مشاورت کی وجہ سے نہ مل سکا۔ البتہ اس کے ملازم نے اس کو مہمان خانے میں ٹھہرا دیا۔ رات کا کھانا وزیر نے بادشاہ اور کسان کے بیٹے نے وزیر کے مہمان خانے میں کھایا۔ صبح نماز کے وقت مسجد میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ نماز کے بعد دونوں نے بات چیت کی پھر کسان نے اپنی حاجت بیان کی کہ میری کچھ مالی مدد کرو۔ میں اور میرے بیوی بچے کئی دن سے فاقے پر ہیں۔ کچھ نہیں تو فوج میں سپاہی بھرتی کراؤں۔
وزیر نے کچھ دیر سوچا اور گھر جا کر الماری میں ایک چاندی کا سکہ لا دیا اور کہا اس وقت میرے پاس یہی ذاتی رقم ہے اور جنگ کی وجہ سے خزانے سے رقم نہیں نکل سکتا اور تم کو فوج میں بھرتی نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ کمزور ہو۔ آئندہ پھر کبھی آنا تو میں تمہاری مدد کروں گا۔ یہ چاندی کا سکہ میری اپنی محنت کی کمائی ہے۔
یہ کہہ کر وزیر چلا گیا اور کسان بھی۔ وہ بہت خفا تھا کہ اس سے بہتر تھا کہ نہ ہی آتا۔ لیکن اس بات پر مطمئن تھا کہ چلو چاندی کا سکہ تو جیب میں موجود ہے اس سے کوئی روزگار کرتا ہوں۔ دریا کے کنارے پہنچا تو مچھیروں نے بڑی مچھلی ہاتھ میں پکڑے ہوئے جا رہے تھے ، اس نے سوچا کہ چلو اس سکے سے مچھلی خرید لوں تاکہ بھوک مٹ جائے۔ اس نے مچھلی خرید لی مچھیرے بھی مچھلی فروخت کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے چاندی کے سکے کے عوض مچھلی فروخت کی۔
مچھلی لے کر کسان افسردہ گھر گیا تو سب نے پوچھا کہ وزیر نے تمہاری مدد کی یا نہیں۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا اس نے کسی سے بات نہیں کی اور مچھلی پکانے کا کہا۔ اس کی بیوی مچھلی صاف کر رہی تھی کہ مچھلی کے پیٹ میں ایک چمکدار چیز نکلی، جسے صاف کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک بیش قیمت لعل ہے ، اس کی بیوی نے سوچا کہ وزیر بڑا ہوشیار آدمی ہے اس نے مچھلی کے اندر رکھ کر اس لیے دیا کہ ڈاکو اسے لوٹ نہ لیں اور اس کے گاؤں میں مشہور نہ ہو جائے کیوں کہ گاؤں میں اگر سوئی گرتی ہے تو چند لمحوں بعد اس کی خبر بھی گاؤں والوں کو ہو جاتی ہے۔ اس کی قدر و قیمت تو جوہری کو پتا ہو گی۔ اس نے حواس پر قابو پایا اور تحمل سے مچھلی تیار کی۔ کھانا کھانے کے بعد کسان کی بیوی نے وزیر کی تعریف کی اور ساری بات کہہ دی اور اس کے ساتھ بیش قیمت لعل سامنے رکھا۔
کسان کی بیوی یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ مچھلی وزیر نے دی ہے جبکہ کسان نے تو خریدی ہوئی تھی۔ اس نے یہ لعل اگلے دن کسی جوہری کو دکھانے کے بہانے گھر سے سیدھا وزیر کے گھر گیا۔ وزیر بھی حیران تھا کہ کسان اچانک میرے گھر کیوں آیا؟ کسان نے وزیر کو ساری بات بتائی اور لعل بھی اس کو پیش کیا۔ وزیر نے لعل کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
کسان نے کہا کہ تمہارے چاندی کے سکے میں بڑی برکت تھی۔ وزیر سوچنے لگا اور اچانک چونک گیا۔ کسان نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ وزیر بننے کے بعد میں اکثر سلطنت کے خفیہ دورے کرتا تھا تاکہ عوام کی ضرورت و حاجت کا پتا چلے۔ ایک دن میں مزدور کے بھیس میں دورے میں مصروف تھا، آسمان پر بادل آ گئے۔ بارش کا امکان تھا ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ کسی وقت بھی بارش ہوسکتی ہے جس سے میرے کچے مکان کی چھت گر جائے گی، میں اکیلا چھت پکی نہیں کر سکتا تم نیچے مسالہ تیار کرو اور مجھے اوپر دیتے جاؤ۔ میں خود چھت کی مرمت کر لوں گا۔ میں نے خاموشی سے مسالہ تیار کر کے چھت پر پہنچتا رہا اور وہ شخص چھت کی مرمت کرتا رہا۔ ساری رات چھت کی مرمت میں صرف ہوئی، جیسے ہی چھت کی مرمت ہوئی تو اس نے شخص نے میرا شکریہ ادا کیا اور یہ چاندی کا سکہ دیا۔ میں نے انکار کرنا چاہا تو اس نے زبردستی میری جیب میں ڈال دیا۔
اس وقت سے اب تک یہ سکہ میرے پاس تھا۔ جو میں نے تمہیں دیا۔ یہ کہہ کر وزیر بادشاہ کے پاس گیا اور کسان کے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کرنے کی اجازت حاصل کی اور گھڑ سوار اور پیادہ فوجی دستوں کے ساتھ کسان کے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ علاقے کے لوگوں نے فوج کا ساتھ دیا کیوں کہ ہندو مہاراجہ نے ظلم کا راج قائم کیا تھا۔ علاقہ فتح ہونے کے بعد بادشاہ نے کسان کو علاقے کا گورنر بنایا۔ کسان نے بادشاہ کو لعل بطور شکریہ ادا کیا۔ بادشاہ نے ایسا لعل پہلے نہیں دیکھا تھا۔ وزیر نے بادشاہ کے کہنے پر علاقے کی کھدائی کروائی تو معلوم ہوا کہ کسان کا علاقہ جواہرات اور دیگر قیمتی پتھروں اور معدنیات سے بھرا پڑا ہے جس سے بادشاہ اتنا خوش ہوا کہ کسان کو یہ علاقہ بخش دیا۔ جو وزیر کی محنت کا پھل تھا۔
(مزیدار-کہانیاں سے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں