شفیق زادہ ایس احمد
ہمارے گھر میں قدم رنجہ فرمانے والے نئے مہمان نے ہمیں بس’ شوہر ‘ بنا کر ہی رکھ دیا تھا۔ انگریزی میں پڑھیں تو ’’شو‘‘ یعنی دکھاؤ اور ’’ ہر‘‘ کا مطلب ’’وہ‘‘ ( صنف نازک ) بقلم خود، مطلب اس کا یہ کہ بس ہم ان کے لیے دکھاوے کی چیز ہی ہو کر رہ گئے جسے وہ بہت فخر سے اپنی ذاتی ملکیت کے طور پر ساتھ لیے پھرتیں۔ اور ہمارا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ ہم ہر دم انہیں عند الطلب اور عدم الطلب اور ان دونوں کی درمیانی کیفیت میں بھی اپنی وفاداری، دلداری، خدمات گاری وغیرہ وغیرہ کے جوہر ’’ شو‘‘ کراتے رہیں۔ اور وہ اپنی تصوراتی مونچھوں کو تاؤ دے دے کر ہمارے ( تابناک حد تک مخدوش ) مستقبل کے فیصلے کر سکیں۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ موصوفہ نے قبلہ والد صاحب کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ والد محترم پہلے ہی ہم پر شادی پر آمادہ ہونے کو ’’خاندانی اغلاط‘‘ کے تاریخی سلسلے کو بڑھاوا دینے کا الزام لگا کر ہم سے ناراض تھے، اوپر سے موصوفہ کی جانفشاں خدمتگاری اور خاموش تابعداری نے گھر میں اتنی جگہ بنا لی تھی، جتنی ہمیں ترکہ میں بھی نہ ملتی۔ تو جناب ڈائری بھیئے ! ’’شادی کے گیم چینجر‘ ‘ کے بعد ہم صرف اپنے کابک اور اپنی ہی بیگم کے ہو کر رہ گئے تھے۔ اس سسرالی پیٹھ تھپکائی کی آڑ میں دھڑّلے سے ہم کو جو دھمکیاں دی جاتیں وہ شاذ ہی کبھی ڈھکی چھپی ہوتیں مگر ہم انہیں دوسروں سے چھپائے پھرتے کہ ’’ کچھ تو میرے پندارِ وفا کا بھرم رکھ‘‘۔ ان کی طرف سے بہت ہی صاف وسلیس الفاظ میں سنگین نتائج کی ذمّہ داری اور ان کے کیے کا بھگتان ہمارے گلے ڈالا جاتا۔ حد تو یہ کہ ہم اُن تمام پوشیدہ اور مخفی وارداتوں کے مبیّنہ سزا کے حقدار ٹھہرائے جاتے جو ہم سے نہ کبھی سر زرد ہوئے یا جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی ہو۔ اکثر ہم ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ازدواجی معطلی کا شکار رہتے۔ ہماری والدہ محترمہ اور موجودہ ساسو ماں البتہ ہماری درپردہ حمایتی تھیں مگر توازنِ طاقت کا جھکاؤ موصوفہ کی طرف دیکھ کر وہ بھی گھریلو سیاسی حکمت عملی کے تحت اعلانیہ اِس حمایت کا اظہار نہیں کرتیں۔ خاص طور سے موصوفہ کے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد تو ممتا کا شہد ہمارے حلق تک پہنچتا ہی نہیں تھا۔ دبئی میں ڈرایؤنگ لائسنس حاصل کرنا کسی ’’کراچائٹ‘‘کے لیے سندھ دیہی کا جادوئی ڈومیسائل حاصل کرنے سے کم نہ تھا۔ لہٰذا ساس بہو ہم دو ہمارے دوکے مصداق آنکھ میچے سہیلی سہیلی کھیلنے میں مگن تھیں۔ اگر ہمیں جنّت کا لالچ نہ ہوتا یا والدہ سیاست دان ہوتیں تو سائڈ بدلنے پر ’’لوٹی‘‘ کا لقب پاتیں۔ ہم بھانپ رہے تھے کہ کہ چند سال اور گزریں گی اور ہم بھی قبلہ والد صاحب کی طرح آہنی، معاف فرمایئے گا ’’ آئینی ‘‘ صدر بن جائیں گے، یعنی اختیار سے محروم صرف دستخط کرنے کی مشین مگر پھر بھی ’’ممنون‘‘۔ وطن عزیز کے سیاست دان بہت با ہمت اور عوام خوش نصیب ہیں کہ بات اٹھارہویں ترمیم تک لے گئے، ہم نے تو اپنی ازدواجی حیثیت میں بھی کبھی دوسری ترمیم کے بارے میں سوچا تک نہیں ہے۔ ویسے بھی ہما را شادی شدہ ہو کر ختم شدہ ہونے کا تجربہ ایسا کچھ دلربا ہر گز نہ تھا کہ’ ’ ڈو مور ڈو مور‘‘ کی دعوتی صدائیں، نزلے سے بند ہمارے کانوں میں گونجتیں۔ اوپر سے بیگم نے حفظِ ماتقدم کے طور پر جو حفاظتی اقدامات کئے ہوئے تھے وہ ہمہ وقت ہمیں سہمانے اور دھمکانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ تھے۔ اس معاملے میں بیگم کی دور اندیشی امریکہ شریف کو بھی مات دیے جاتی ہے کہ ہمارے ارتکاب جرم سے پہلے ہی ہم پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہوتی ہے۔ یوسف زئی پٹھانی نے باتھ روم میں فِنائل کی تیز اثر بوتل، تنویمی طاقت والی سکون آور گولیاں اور ہمارے ائیر کنڈیشنڈ بیڈروم میں بغیر پنکھے کا قذّاقی پنجے جیسا ہُک دِکھا دِکھا کر ہماری جان آدھی کر رکھی تھی۔ آپ سب سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ ہماری پہلوٹھی کی تصنیف ’’م تماشا‘‘ میں بیان کردہ آسف قدر ٹھرکی والے معاملے کی جان کاری کے بعد وہ پہلے ہی ہم سے ہمارے زیرِ نگین ہونے کا خراج بائیس قیراط والی فسادی دھات کے کنگن کی صورت میں وصول کر چکی تھیں۔ اس وصولی کے ساتھ ہی وہ خوب اندازہ لگا چکی تھیں کہ ہمارا بریکنگ پوائنٹ کب آتا ہے، جس کے آنے میں انتظار کی گھڑیاں کبھی بھی طویل نہ ہوئیں۔ ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی گمان تھا کہ دھمکانا اور دہلانا اور بات ہے مگر وہ کبھی بھی کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گی جس پر وہ ہم پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھیں، چاہے ان کی اصلی یا بناؤٹی بیہوشی کے چند لمحوں کے لئے ہی صحیح۔ مگر پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ پٹھان بچّی ہے، نہ جانے کس وقت کیا کر بیٹھے، کوئی خوبرو یا پھر خود کش دھماکہ۔ ہمیں خوب جتا دیا گیا تھا کہ (یقینی) ناکام کوشش پر ہمارا کیا حال ہو سکتا ہے جس کا سب سے عبرت ناک پہلو یہ تھا کہ ہمیں اپنے ہاتھ کی بنی چائے خود نوش کرنا پڑے گی۔ وہ چودھری اور چودھرائن کی کہانی سے بہت متاثر ہوئیں، آنکھوں میں آنسو بھرکر ہمارا ہاتھ تھام لیا، کہنے لگیں ’ چودھرائن بہت عظیم عورت ہیں مگر میں ایسی بالکل نہیں ہوں۔ اسی لئے آپ کسی دھوکے میں مت رہیے گا، میرا نشانہ بہت پکّا ہے، اگر بیلن پھینک کر گھٹنے پر ماروں تو وہیں لگے لگا، اور اگر طبلے کی طرح سر پر بجاؤں تو گومڑ بھی آپ کے بے بال سر سے ہی نمو دار ہو گا‘۔ پھر روہانسی ہو کر بولیں ’’ لیکن کسی کی بھی قسم لے لیجئے، اگر آپ کی تیمار داری میں کوئی کوتاہی کروں تو بے فکر ہو کر چٹیا پکڑ لیجئے گا۔ چاہے چھوڑ آئیں مجھے نئے والے فلیٹ میں۔ میں اُف تک نہ کروں گی، بس آپ ہی کے اے ٹی ایم کارڈ سے خرچ کے پیسے نکال لیا کروں گی۔ اس وقت تک میری ساس نند یں وغیرہ حالات سنبھال ہی لیں گی‘‘۔ موصوفہ بیگم کو خِطّے (سسرال) میں اپنی ’’اسٹری ٹیجک ڈیپتھ‘‘ یعنی اہمیت کا خوب اندازہ تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے کی مہارت بھی تھی۔ ہماری جھکتی کمر میں آخری تنکا پرستانی پارلیمنٹ سے حال ہی میں پاس کیا گیا ‘ حقوقِ نسواں بہ مخالف تشددِنسواں بِل ’ ثابت ہوا۔ اب اس قانونی شکنجے کی مدد سے وہ بغیر کسی وجہ کے ہمیں تھانے میں بند کروانے کی مجاز تھیں اور اندھا ’’قنون‘‘ بھی ان کا ہی ساتھ دے گا۔ ہمیں یقین تھا وہ کچھ بھی کریں، تفتیش کے دائرے میں ہم ہی پھنس جائیں گے۔ پہلے داخلی طور پر سگے مائیکے والوں کے ہاتھوں اور پھر خارجی طور پر سسرائیلیوں کے چنگل میں۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی کہ جسے دلہن بنائے دل میں بسائے ناز برداریاں اُٹھانے کے چکر میں میں لائے تھے اس نے الٹا ہمارا ہی ’’دولہا‘ ‘ بنا کر باربرداریاں شروع کر وا دیں۔ ہمارے ہم عصر اور ہم پیالہ پیارے میاں گذری شام کہہ رہے تھے کہ ’’ نئی بیوی اور نئے رشتے، نئے جوتے کی طرح ہوتے ہیں، جب تک پاؤں میں اچھی طرح فِٹ نہ ہو جائیں، کاٹتے ہی رہتے ہیں ‘‘۔ ہم ان کی اس بات سے متفق ہیں، کلیّ طور سے، کیوں کہ ہماری با ہوش زندگی میں میں رشتوں کی کاٹ کو ہم سے بہتر اور کون جان سکتا ہے۔ ڈائری بھیّیے ! اب تو ہمارے شب و روز ذیل درج شعر کو گنگناتے گزرتے ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں تینتیس دانہ تسبیح رہتی ہے جس کے دانے اچھے دنوں کی آس میں گھماتے ہیں :
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
دعاگو: شفیق زادہ
(ارمغانِ-تبسّم،)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں