رات کا پچھلا پہر تھا سرد برفانی ہواؤں کے تھپیڑوں سے صحن میں لگے درخت جو ہل رہے تھے۔
ہواؤں کے شور سے رات کے سناٹے میں عجیب سی آوازوں سے زیرو بلب کبھی مدھم اور کبھی تیز تر ہو جاتا۔ محمد صلاح الدین کا کل میتھہ کا آخر پیپر تھا وہ میٹرک کا امتحان دے رہا تھا اور تمام پیپر بہت اچھے دے چکا تھا وہ رات کا کھانا کھانے اور نماز عشاء سے فارغ ہو کر میتھہ کے پیپر کی تیاری کے لیے اپنے چھوٹے سے کمرے میں آ بیٹھا تھا اس کے حجرے نما کمرے میں لائٹ نہیں تھی ایک چھوٹا سا دیا ٹمٹما رہا تھا اور زردی مائل روشنی دیوار و در پر لرزاں تھی۔
محمد صلاح الدین کو اب نیند کے غلبے نے ستانا شروع کر دیا تھا لیکن اس نے اپنی آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کی چھینٹے مارے اور تھوڑا سا بیدار ہو کر ایک بار پھر ریاضی کے مختلف سوالات کے دہرانی کرنے لگا اس نے جیو میٹری، الجبراء کے تمام سوالات حل کیے اور اب ریاضی کے مسئلوں کو حل کر رہا تھا۔
نیند نے ایک بار پھر اس پر غنودگی کا حملہ کیا مگر وہ سونا نہیں چاہتا تھا۔ نیند اسے پیاری تھی مگر وہ خوابوں کی حرمت کا قائل تھا خوابوں کی تعبیروں کے لیے وہ اپنی کئی نیندیں قربان کر چکا تھا۔
نیند کے بغیر خواب کا حصول ناممکن ہے مگر وہ اس وقت نیند سے بھاگ رہا تھا۔
نیند اسے اپنی آغوش میں سمیٹنا چاہتی تھی اور وہ ضدی بچے کی طرح نیند کی گود سے بار بار نکلنا چاہتا تھا۔
اذان فجر تک اس نے ریاضی مسئلے اچھی طرح ذہن نشین کر لیے تھے۔
وہ مطمئن تھا اگرچہ نیند سے بوجھل پلکیں اس کے لیے ایک بار بن چکی تھیں۔
اس نے وضو کیا اور نماز فجر کے لیے مسجد چلا گیا۔
آج کا پیپر بھی دوسرے پیپرز کی طرح بہت اچھے ہوئے تھے وہ بہت خوش تھا۔
اس نے امتحان کی تیاری بہت ایمانداری سے کی تھی دوران پڑھائی جب اسے نیند آئی اس کے ذہن میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم رہنما کا قصہ آ جاتا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔
فاطمہ جناح نے دیکھا محمد علی کے کمرے کی لائٹ جل رہی ہے ، اندر جھانکا تو دیکھا ان کا بھائی کتاب پڑھ رہا ہے ، بہن نے پیار سے کہا بھیا، رات بہت گزر چکی ہے اب سوجاؤ۔
بھائی نے جواب دیا۔ میں سوگیا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا۔ مجھے پڑھنے دو، میں محنت کرنا چاہتا ہوں۔
محمد صلاح الدین کو اپنے قائد کا قصہ ذہن نشین تھا۔ وہ بھی بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔
اس نے پورے امتحان کے دوران نیند کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ آج وہ فارغ تھا اس نے سوچا آج وہ خوب مزے سے سوئے گا اور خواب دیکھے گا۔ اسے پاکستان کے خواب دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے پیارے وطن پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔
بڑا آدمی بن کر بڑا کام کرنے کی آرزو لیے وہ پڑھتا رہا۔ محنت کرتا رہا اور اب وہ ایم ایس سی کرنے کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان بھی امتیازی نمبروں سے کر چکا تھا، کئی میٹھی نیندوں کی قربانی کے بعد آج وہ جب مزے کی نیند سویا تو اس نے خواب دیکھا۔ وہ پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو چکا ہے ، صبح اس کی آنکھہ کھولی تو اس کی اماں نے اسے خاکی رنگ کا ایک بڑا لفافہ تھماتے ہوئے کہا محمد صلاح الدین یہ ڈاکیا تمہارے نام ایک خط لایا تھا۔
محمد صلاح الدین نے جب لفافہ چاک کیا تو سچ مچ اسے اس کے خوابوں کی تعبیر مل گئی تھی۔
وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے بعد وزارت خارجہ میں بحیثیت سفیر خاص منتخب ہو چکا تھا۔
وہ سجدہ بجا لانے کے لیے سجدہ ریز ہو گیا۔
یا اللہ مجھے توفیق دینا میں اپنے ملک پاکستان کی بہتر انداز میں خدمت کر سکوں۔ نیند خواب اور پاکستان کی مثلث پر مبنی ایک کہانی مکمل ہو چکی تھی۔ محمد صلاح الدین کی تقرری بیرون ملک ہوئی تھی اور آج وہ بائی ائیر جا رہا تھا۔
صدر مملکت نے اس سے ملاقات کے دوران اسے سفارت کاری کے لیے دستاویزات دیں تو اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑھے اس نے سبز ہلالی پرچم کو سلامی دی اور سلوٹ کیا اور جہاز میں سوار ہو گیا۔
(مزیدار-کہانیاں سے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں