عتیق چوہدری
کیا آپ نے کبھی محنتی انسان کو اپنی لگن میں کام کرتے اور حاسد کو جلتے دیکھا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کوئلے کو جلتے وقت چٹختے اور دھکتے دیکھا ہے؟ کیا کبھی اس کی حالت پر غور کیا ہے؟ کیا کبھی محسوس کیا ہے کہ کوئلہ کیا کہہ رہا ہوتا ہے؟ جب کوئلے کی ”بیک ٹریکنک“ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئلے اور ہیرے کی پیدائش ایک ہی جگہ ہوتی ہے۔ یہ دونوں ایک ہی پہاڑ (دنیا) میں پائے جاتے ہیں۔ پہاڑ میں دبے ہیرے اور کوئلے میں کوئی فرق نہیں ہوتا جب تک ان پر روشنی نہ پڑے۔ دونوں ایک ہی جگہ اندھیر نگری میں رہتے ہیں۔ کان کنی ہوتی ہے۔ دونوں باہر نکلتے ہیں۔ روشنی پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کون ہیرا ہے اور کون کوئلہ۔ ہیرا روشنی منعکس کر کے طرح طرح کے رنگ بکھیرتا ہے، دنیا کو پیارا لگتا ہے اور دنیا اسے سجا کر رکھتی ہے لیکن کوئلہ صرف جلنے کے واسطے ہوتا ہے۔ جب کوئلہ جل رہا ہوتا ہے تو دھکتا، شور کرتا اور چلاتا ہے کہ میں اور ہیرا ایک جیسے ہیں۔ ایک ہی جگہ پلے بڑے ہیں۔ ہم دونوں کی بنیاد ایک ہے، تو پھر کیوں تم اسے سجا کر رکھ رہے ہو اور مجھے یہاں بھٹی میں ذلیل کر رہے ہو؟ دراصل کوئلہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی اور ہیرے کی بنیاد تو ایک ہے لیکن ہیرا حالات کی مار کھا کر پروان چڑھا جبکہ کوئلے نے اپنا آپ نہ بدلا اور کوئلے کا کوئلہ ہی رہا۔ دنیا کا یہی دستور ہے کہ ہیرا سر کا تاج بنتا ہے اور پ بھٹی میں جلتا ہے۔
ٹرکوں پر لکھے اکثر جملے بڑے معنی خیر ہوتے ہیں، جیسے مشہور جملہ ہے ”جلنے والے کا منہ کالا“۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بددعا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس جملے میں جلنے والے کی پہچان بتائی جا رہی ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا ہوتا ہے۔ ہم آئے دن یہ جملہ پڑھتے ہیں مگر ہم اس کی گہرائی کو محسوس نہیں کرتے۔ اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جملہ تو بڑا گہرا فلسفہ بیان کر رہا ہے۔
دنیا میں محنتی لوگ ہیرے اور حسد کرنے والے کوئلے کی مانند ہی تو ہیں۔ محنتی لوگ ہیرے کی طرح روشنیاں بکھیرتے ہیں۔ چپ چاپ اپنی لگن میں کام کرتے ہیں۔ جب تک دنیا ہیرے اور کوئلے کا بغور جائزہ نہیں لیتی، تب تک دونوں کو ایک جیسا سمجھتی رہتی ہے۔ مگر جب حقیقت دنیا کے سامنے آتی ہے تو محنتی کے کام سے دنیا عش عش کر اٹھتی ہے جبکہ حاسد کوئلے کی طرح صرف جلتا ہی رہتا ہے۔ اپنی کئی تہوں کو اتار کر دھول اڑاتے ہوئے ہیرا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ خود کو ہیرا ثابت کرنے کے لئے لاکھ باتیں کرتا ہے۔ چیختا ہے، چلاتا ہے، دنیا کو بتاتا ہے کہ میں بھی کسی سے کم نہیں۔ میری اور ہیرے کی بنیاد ایک ہے۔ جب کچھ نہیں بن پڑتا تو اپنی دھول ہیرے پر بھی ڈالتا ہے۔ اِدھر حاسد یہ حرکت کرتا ہے تو اُدھر دنیا ہیرے کو فوراً صاف کر کے سجا دیتی ہے کیونکہ دنیا ہیرے اور کوئلے کو اچھی طرح پہچانتی ہے۔ مشہور محاورہ ہے کہ ”کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا“۔ بالکل ایسے ہی حاسد اپنے کرتوتوں سے اپنے ہمنواؤں کا منہ بھی کالا کر دیتا ہے۔ حاسد کوئلے کی طرح کان سے نکل کر یعنی منظرعام پر آنے سے لے کر جل کر خاک بننے تک بڑی دھول اڑاتا ہے۔ جو ہاتھ لگاتا ہے اس کے ہاتھ کالے کر دیتا ہے۔ جس جگہ رکھا جاتا ہے وہ جگہ کالی کر دیتا ہے۔ سفر کرتے ہوئے فضا میں اپنی سیاہی بکھیرتا ہے۔ بھٹی پر پہنچاتا ہے۔ اپنی آخری کوشش بھی کرتا ہے۔ جلتے ہوئے چٹختا اور دھکتا ہے۔ جل جل کر راکھ تو ہو جاتا ہے لیکن ہیرا نہیں بن پاتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی کاروباری اس کوئلے(حاسد) کو پکڑ لے اور کان والے ماحول کی طرح کا مصنوعی ماحول دے کر اسے مصنوعی ہیرا بنا دے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مصنوعی اور اصلی ہیرے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مصنوعی ہیرے سے عام عوام کو تو دھوکہ دیا جاتا سکتا ہے مگر جوہری پہلی نظر میں حقیقت پہچان جاتا ہے۔
کوئلے اور انسان میں ایک فرق ہوتا ہے۔ کوئلے کے پاس ہیرا بننے کے لئے صرف کان میں رہنے تک کا وقت ہوتا ہے جبکہ حاسد کے پاس وقت ہی وقت ہے کہ وہ حسد چھوڑ کر محنتی انسان بن جائے، نہیں تو ساری زندگی جل جل کر ماحول کو گندا کرتا رہے گا اور ایک دن راکھ تو بن جائے گا مگر ہیرا کبھی نہیں بن پائے گا۔ محنتی لوگ اس دنیا کا حسن ہیں۔ وہ ہیرے ہیں ہیرے۔۔۔ جس چیز کو لوہا بھی کاٹ نہیں سکتا اسے ایک چھوٹا سا ہیرا اپنے قدموں تلے روند کر کاٹ دیتا ہے۔ بے شک دنیا ہیروں کو اپنے تاج میں سجا کر اپنی ہی شان بڑھاتی ہے مگر یاد رہے ہیرے دنیا کے سر پر ہی تو بیٹھے ہوتے ہیں اور ہر جگہ عزت حاصل کرتے ہیں۔ جب ہیرا ٹوٹتا ہے تو تاج کی شان و شوکت بھی ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ بادشاہوں کے دربار سے لے کر آج کے جدید دور تک ہیرے (محنتی لوگ) اپنا آپ منواتے آئے ہیں۔ کوئلے کا کوئلہ رہ کر جلنے سے بہتر ہے کہ محنت کر کے ہیرا بنا جائے ۔
(بول انٹرنیشنل بلاگس)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں