منگل، 26 جولائی، 2016

سبق آموز باتیں : "مجھے اللہ سے شرم آ رھی ھے کہ“


خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا بھائی خلیفہ ھشام بن عبد الملک بن مروان بیت اللہ شریف کے حج کو آیا۔ طواف کے دوران اس کی نگاہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پوتے زاھد و متقی اور عالم ربانی حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ پر پڑی جو اپنا جوتا ھاتھ میں اٹھائے ھوئے خانہ کعبہ کا طواف کررھے تھے۔ ان کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا جس کی قیمت 13 درھم سے زیادہ نہیں تھی۔ خلیفہ ھشام نے کہا "کوئی حاجت ھو تو فرمائیے" حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا "مجھے اللہ سے شرم آ رھی ھے کہ میں اس کے گھر میں ھوتے ھوئے کسی اور کے سامنے دستِ سوال دراز کروں"
یہ سننا تھا کہ خلیفہ کے چہرے کا رنگ سرخ ھونے لگا اُس نے حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جواب میں اپنی سبکی محسوس کی جب حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حرم شریف سے باھر نکلے تو وہ بھی ان کے پیچھے ھی حرم سے نکل پڑا اور راستہ میں ان کے سامنے آ کر کہنے لگا "اب تو آپ بیت اللہ سے باھر نکل چکے ھیں کوئی حاجت ھو تو فرمائيں بندہ حاضر ھے" حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ یوں گویا ھوئے "آپ کی مراد دنیاوی حاجت سے ھے یا اخروی حاجت سے؟" خلیفہ ھشام نے جواب دیا "اخروی حاجت کو پورا کرنا تو میرے بس میں نہیں البتہ دنیاوی ضرورت ضرور پوری کر سکتا ھوں، فرمائيں"
حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا "میں نے دنیا تو اُس سے بھی نہیں مانگی جس کی یہ ملکیت ھے پھر بھلا میں اس شخص سے دنیا کیوں کر طلب کر سکتا ھوں جو خود اِس کا مالک نہیں ہے" یہ کہ کر اپنے گھر کی طرف چل دیے اور ھشام بن عبدالملک اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
اللہ اکبر کبیرا ۔۔۔۔!
فقیرنی سسنبل __*


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں