25 سال میں 34 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست سینٹ میں پیش کر دی گئی۔ یہ قرضے 1990ء سے 2015ء کے دوران معاف کرائے گئے ہیں۔
سیاستدان قومی بنکوں سے قرض لیتے ہیں اور پھر سیاسی اثر و رسوخ اور اعلیٰ حکام سے تعلقات کی بنا پر معاف کرا لیتے ہیں۔ قرض معاف کرانے والے غریب نہیں بلکہ انکی فیکٹریاں اور دوسرے کاروبارچل رہے ہیں۔ اسکے باوجود وہ قومی خزانے کو چونا لگانے سے باز نہیں آتے۔ اگر کوئی عام آدمی چند ہزار کا قرض واپس نہ کرے تو انکے گھر تک نیلام کر دیئے جاتے ہیں جو کہ دوہرا معیار ہے۔ حکومت کو قرضوں کی واپسی یقینی بنانی چاہئے کیونکہ یہ قوم کی دولت ہے۔ قوم کے پیسے کو چند بڑے خاندانوں میں تقسیم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ گذشتہ 25 سال میں جن جن لوگوں نے قرض لے کر معاف کرائے ہیں انکے نام اخبارات میں مشتہر کر کے قوم کو انکے چہرے دکھائے جائیں اور انہیں قرض کی واپسی پر مجبور کیا جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقتدار کی راہداریوں میںسب مل کر ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے پر منقسم سیاستدانوں نے قومی خزانہ کو لوٹنے پر ’’ایکا‘‘ کر رکھا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرانیوالوں کا محاسبہ کیا جائے اور ان سے رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔
سیاستدان قومی بنکوں سے قرض لیتے ہیں اور پھر سیاسی اثر و رسوخ اور اعلیٰ حکام سے تعلقات کی بنا پر معاف کرا لیتے ہیں۔ قرض معاف کرانے والے غریب نہیں بلکہ انکی فیکٹریاں اور دوسرے کاروبارچل رہے ہیں۔ اسکے باوجود وہ قومی خزانے کو چونا لگانے سے باز نہیں آتے۔ اگر کوئی عام آدمی چند ہزار کا قرض واپس نہ کرے تو انکے گھر تک نیلام کر دیئے جاتے ہیں جو کہ دوہرا معیار ہے۔ حکومت کو قرضوں کی واپسی یقینی بنانی چاہئے کیونکہ یہ قوم کی دولت ہے۔ قوم کے پیسے کو چند بڑے خاندانوں میں تقسیم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ گذشتہ 25 سال میں جن جن لوگوں نے قرض لے کر معاف کرائے ہیں انکے نام اخبارات میں مشتہر کر کے قوم کو انکے چہرے دکھائے جائیں اور انہیں قرض کی واپسی پر مجبور کیا جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقتدار کی راہداریوں میںسب مل کر ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے پر منقسم سیاستدانوں نے قومی خزانہ کو لوٹنے پر ’’ایکا‘‘ کر رکھا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرانیوالوں کا محاسبہ کیا جائے اور ان سے رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔
(نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں