حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سورج پلٹ آنے کامعجزہ بھی بہت ہی عظیم الشان معجزہ اور صداقت ِنبوت کا ایک واضح ترین نشان ہے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت بی بی اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ “خیبر” کے قریب ” منزل صہبا ” میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں اپنا سر اقدس رکھ کر سو گئے اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر اقدس کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر قضا ہوگئی تو آپ نے یہ دعا فرمائی کہ “یااﷲ! یقینا علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے لہٰذا تو سورج کو واپس لوٹا دے تا کہ علی نماز عصر ادا کرلیں۔”
حضرت بی بی اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج پلٹ آیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور زمین کے اوپر ہر طرف دھوپ پھیل گئی۔(زرقانی جلد ۵ ص ۱۱۳ و شفاء جلد ۱ ص ۱۸۵ و مدارج النبوۃ جلد۲ ص ۲۵۲)
اس میں شک نہیں کہ بخاری کی روایتوں میں اس معجزہ کا ذکر نہیں ہے لیکن یاد رکھیے کہ کسی حدیث کا بخاری میں نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ حدیث بالکل ہی بے اصل ہے۔ امام بخاری کو چھ لاکھ حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ انہی حدیثوں میں سے چن کر انہو ں نے بخاری شریف میں اگر مکر رات و متابعات کو شامل کر کے شمار کی جائیں تو صرف نو ہزار بیاسی حدیثیں لکھی ہیں اور اگر مکر رات و متابعات کو چھوڑ کر گنتی کی جائے تو کل حدیثوں کی تعداد دو ہزار سات سو اکسٹھ ۲۷۶۱ رہ جاتی ہیں۔(مقدمه فتح الباری)
باقی حدیثیں جو حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ کو زبانی یاد تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بے اصل اور موضوع نہ ہوں گی بلکہ وہ بھی یقینا صحیح یا حسن ہی ہوں گی تو آخر وہ سب کہاں ہیں؟ اور کیا ہوئیں؟ تو اس بارے میں یہ کہنا ہی پڑے گا کہ دوسرے محدثین نے انہی حدیثوں کو اور کچھ دوسری حدیثوں کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہوگا۔ چنانچہ منزل صہبا میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر کے لیے سورج پلٹ آنے کی حدیث کو بہت سے محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ حضرت امام ابو جعفر طحاوی، احمد بن صالح، و امام طبرانی و قاضی عیاض نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے اور امام طحاوی نے تو یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ امام احمد بن صالح جو امام احمد بن حنبل کے ہم پلہ ہیں، فرمایا کرتے تھے کہ یہ روایت عظیم ترین معجزہ اور علامات نبوت میں سے ہے لہٰذا اس کو یاد کرنے میں اہل علم کو نہ پیچھے رہنا چاہئے نہ غفلت برتنی چاہئے۔(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
بہرحال جن جن محدثین نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے ان کی ایک مختصر فہرست یہ ہے:
مشکل الآثار میں | (۱) حضرت امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
مستدرک میں | (۲) حضرت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے | |
معجم کبیرمیں | (۳) حضرت امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
اپنی مرویات میں | (۴) حضرت حافظ ابن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ نے | |
الذریۃ الطاہرہ میں | (۵) حضرت حافظ ابوالبشر رحمۃ اللہ علیہ نے | |
شفاء شریف میں | (۶) حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے | |
تلخیص المتشابہ میں | (۷) حضرت خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
الزہرالباسم میں | (۸) حضرت حافظ مغلطائی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
عمدۃ القاری میں | (۹) حضرت علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
کشف اللبس میں | (۱۰) حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے |
(۱۱) حضرت علامہ ابن یوسف دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے | ||
ازالۃ الخفاء میں | (۱۲) حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
مدارج النبوۃمیں | (۱۳) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
زرقانی علی المواہب میں | (۱۴) حضرت علامہ محمد بن عبدالباقی رحمۃ اللہ علیہ نے | |
مواہب لدنیہ میں | (۱۵) حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے |
اس حدیث پر علامہ ابن جوزی نے اپنی عادت کے موافق جو جرحیں کی ہیں اور اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے، حضرت علامہ عینی نے عمدۃ القاری جلد ۷ ص ۱۴۶ میں تحریر فرمایا ہے کہ علامہ ابن جوزی کی جر حیں قابل التفات نہیں ہیں، حضرت امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو سندیں لکھ کر فرمایا کہھٰذَانِ الْحَدِيْثَانِ ثَابِتَانِ وَرُوَاتُهُمَا ثِقَاتٌ… یعنی یہ دونوں روایتیں ثابت ہیں اور ان کے راوی ثقہ ہیں۔(شفاء شريف جلد۱ ص ۱۸۵)
اسی طرح حضرت شیخ عبدالحق محدت دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی علامہ ابن جوزی کی جرحوں کو رد کردیا ہے اور اس حدیث کے صحیح اورحسن ہونے کی پرزور تائید فرمائی ہے۔(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
اسی طرح ازالۃ الخفاء میں علامہ محمد بن یوسف دمشقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب “مزيل اللبس عن حديث ردالشمس″کی یہ عبارت منقول ہے کہ
اعلم ان هذا الحديث رواه الطحاوي فی کتابه “ شرح مشکل الاثار ” عن اسماء بنت عميس من طريقين و قال هذان الحديثان ثابتان و رواتهما ثقات و نقله قاضي عياض في “ الشفاء ” و الحافظ ابن سيد الناس في “ بشري اللبيب ” و الحافظ علاء الدين مغلطائي في کتابه “ الزهر الباسم ” و صححه ابو الفتح الازدي و حسنه ابو زرعة بن العراقي و شيخنا الحافظ جلال الدين السيوطي في “ الدرر المنتشرة في الاحاديث المشتهرة ” و قال الحافظ احمد بن صالح و ناهيك به لا ينبغي لمن سبيله العلم التخلف عن حديث اسماء لانه من اجل علامات النبوة و قد انکر الحفاظ علي ابن الجوزي ايراده الحديث في “ کتاب الموضوعات ”(التقرير المعقول في فضل الصحابة واهل بيت الرسول ص ۸۸)
تم جان لو کہ اس حدیث کو امام طحاوی نے اپنی کتاب” شرح مشکل الآثار ” میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دوسندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں حدیثیں ثابت ہیں اور ان دونوں کے روایت کرنے والے ثقہ ہیں اور اس حدیث کو قاضی عیاض نے ” شفاء ” میں اور حافظ ابن سیدالناس نے ” بشری اللبیب ” میں اور حافظ علاء الدین مغلطائی نے اپنی کتاب “الزہرالباسم” میں نقل کیا ہے اور ابوالفتح ازدی نے اس حدیث کو “صحیح” بتایا اور ابو زرعہ عراقی اور ہمارے شیخ جلال الدین سیوطی نے “الدر رالمنتشرہ فی الا حادیث المشہترہ ” میں اس حدیث کو ” حسن ” بتایا اور حافظ احمد بن صالح نے فرمایا کہ تم کو یہی کافی ہے اور علماء کو اس حدیث سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے کیونکہ یہ نبوت کے بہت بڑے معجزات میں سے ہے اور حدیث کے حفاظ نے اس بات کو برا مانا ہے کہ ” ابن جوزی ” نے اس حدیث کو ” کتاب الموضوعات ” میں ذکر کر دیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں