پیر، 25 جولائی، 2016

کسب، رزق ،برکت(1)


رضا الدین صدیقی


اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور جو (خوش بخت) ڈرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ سے بنا دیتا ہے اللہ اس کےلئے نجات کا راستہ اور اسے (وہاں سے) رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا اور جو (خوش نصیب) اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کےلئے وہ کافی ہے بے شک اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرنےوالا ہے، مقرر کر رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کےلئے ایک اندازہ۔“ (سورہ الطلاق:۳،۲) ”جب ہم کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو اس سے نکلنے کےلئے جائز و ناجائز حرکات کے ارتکاب میں ذرا تامل نہیں کرتے، غربت و افلاس کی گرفت سخت ہو جائے تو رشوت، چوری، لوٹ گھسوٹ اور حرام خوری کیطرف مائل ہو جاتے ہیں۔ کسی مقدمہ میں پھنس جائیں تو اس میں کامیاب ہونے کےلئے جھوٹی گواہی سے کام چلا لیتے ہیں۔ دشمن کا دباﺅ بڑھ جائے تو جھوٹ اور مکر و فریب سے گلوخلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب نفس کا فریب اور شیطان کا دھوکہ ہے۔ ایسا کرنے سے مشکلیں گھٹتی نہیں، بڑھتی ہیں، مطلعِ حیات مزید ابر آلود ہو جاتا ہے، ناکامیاں اور رسوائیاں انسان کا مقدر بن جایا کرتی ہیں۔ اسکے برعکس قرآن کریم نے مشکلات سے نجات پانے اور مصائب کے نرغے سے رہائی حاصل کرنےکا ایک طریقہ بتایا ہے، وہ یہ کہ اپنے دل میں خوفِ خدا پیدا کر لو، جن کاموں سے اس نے روکا ہے بھولے سے بھی انکے قریب مت پھٹکو، جن احکام کی بجا آوری کا اس نے حکم دیا ہے انکی پوری طرح پابندی کرو، اسکی یاد اور اسکے ذکر میں صدقِ دل سے مشغول ہو جاﺅ، تم دیکھو گے کہ اسکا دستِ کرم کسطرح آگے بڑھ کر تمہاری چارہ سازی کرتا ہے۔ اسکی چشمِ رحمت کسطرح تمہاری بگڑی بناتی ہے۔ وہ اپنے خزانوں کے منہ تمہارے لئے کسطرح کھول دیتا ہے۔ اس آیت طیبہ میں بندئہ مومن کو اسکی یقینی نجات، حقیقی کامرانی اور سچی خوشی کا راستہ دکھایا گیا ہے، کاش ہم کان کھول کر سن لیں، دلوں میں اسکو جگہ دیں اور صدقِ دل سے اس پر عمل کریں۔ حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے: رسول اللہﷺ مجھے یہ آیت سناتے رہے اور جب فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا اے ابوذر! اگر سارے لوگ اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو یہ آیت ان سب کےلئے کافی ہو جائے۔ (قرطبی) جو شخص اپنا کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے وہ اسکا ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ توکل کا معنی عمل سے لاتعلق ہو جانا ہے اور اسباب سے قطعِ نظر کرنا ہے۔ توکل کا یہ مقصد نہیں۔ بلکہ اسکا یہ مقصد ہے کہ اسباب بجا لائے لیکن نتائج کے ظہور کےلئے اسباب پر اعتماد نہ کرے۔ صرف اپنے رب پر بھروسہ کرے۔ بے عملی اور جدوجہد سے بیزاری کا اسلام کے نظریہءتوکل سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا ہے وہ اسکو پورا کر کے رہتا ہے کوئی چیز اسکے ارادے کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔“ (ضیاءالقرآن)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں