
روزِ محشر تھا.لوگ اپنے اپنے نامہ اعمال لیے کسی کے انتظار میں تھے.ہر کوئی اپنی نمازیں،روزے،حج اور زکوۃ گِن رہا تھا.لوگوں نے بڑے بڑے رجسٹر اٹھا رکھے تھے جس میں ان کی نمازیں اور دیگر عبادات درج تھیں.ہر کوئی کہ رہا تھا کہ میرے رجسٹر کا وزن بھاری ہے میں جنت میں جاؤں گا..کوئی کہ رہا تھا کہ میں نے ساری زندگی مسجد میں گزار دی،میں جنت میں جاؤں گا..کوئی کہ رہا تھا کہ ہم تو ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اس میں ہمارا کیا قصور ہے..علی بھی ایک کونے میں بیٹھا اپنی کاپی دیکھ رہا تھا جس میں چند ایک نمازوں اور کچھ روزوں کے سوا کچھ درج نہ تھا..ایک حافظ قرآن نے علی کی کاپی پر جھانک کر دیکھا اور کہنے لگا۔ارے علی !! تُو تو آج پکا جہنم میں ہی جائے گا.تجھے تیری اس کاپی سمعیت دوزخ میں ڈال دیا جائے گا.بڑے بڑے رجسٹرز کے آگے تیری اس کاپی کی کیا حیثیت ہے.میں تو حافظِ قرآن ہوں،سر اُٹھا کر جنت میں جاوں گا اور تم دوزخ میں سڑتے رہنا۔۔علی بےچارہ خوفزدہ ہو گیا..علی حافظِ قرآن تو نہیں تھا مگر اسے قرآن پاک کی کچھ سورتیں اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یاد تھی..اسے اس بات کا پکا یقین تھا کہ اللہ رحمان ہے اور رحم کرتا ہے..اسی اثنا میں اچانک ایک زوردار آواز آئی اور لوگ میدان چھوڑ کر بھاگے..آنکھ اس نظارے کو نہیں دیکھ سکتی تھی..لوگوں کے دل کانپ رہے تھے..۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ جلوہ افروز ہوئے...علی سب سے پہلے آگے بڑھا اور بہت ادب کے ساتھ گزارش کی کہ اے خدا میں تیرا بندہ ہوں اور تو میرا خدا ہے..میں کوئی بہت بڑا عابد و عالم فاضل تو نہیں ہوں لیکن عبادت گزاروں کی طرح کسی کا مزاق نہیں اڑایا کرتا..میرے پاس کوئی ایسی شے نہیں جس پر مجھے غرور ہو کہ میں اس کی وجہ سے جنت میں جاؤں گا..لیکن میں جانتا ہوں کہ تو رحمان اور رحیم ہے...میرے پاس عاجزی کے سوا کچھ اور نہیں..یہ کہہ کر علی نے اپنی آنکھیں جھکائیں اور اپنی کاپی اللہ تعالیٰ کو پیش کر دی تا کہ اس کا جلد فیصلہ ہو جائے۔۔۔۔۔بڑے بڑے عابد و عالم یہ معاملہ دیکھ رہے تھے..اچانک ایک بڑا عبادت گزار آگے آیا اور آواز دی اے خدا میں تیرا خاص بندہ ہوں مجھ سے کلام کرنے کی بجائے اس گناہ گار،ناچیز سے بات کر رہا ہے..میرا رجسٹر اس کی کاپی سے بہت بڑا ہے..یہ کہنا تھا کہ اس کا رجسٹر غائب ہو گیا اور ایک ورق اس کے ہاتھ میں رہ گیا...اس پر یہ لکھا تھا کہ "تو نے بھی آج وہ کام کیا ہے جو کبھی شیطان نے کیا تھا..شیطان نے بھی غرور کیا تھا اور آج تو بھی غرور کر رہا ہے۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ سب ہے مخاطب ہوئے اور کہا اے لوگو!! اپنے اعمال ناموں پر غرور مت کرو....آج صرف وہ شخص جنت میں جائے گا جو میرے پاس قلبِ سلیم (پاک دل) لائے گا۔۔۔۔قلبِ سلیم....!! یہ انجان لفظ سن کر سب لوگوں کے طوطے اُڑ گئے...سب لوگوں نے اپنے اپنے رجسٹر پھینک دیے اور بھگ دھڑ مچ گئ۔۔اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ میرا بندہ جسے تم لوگ دنیا میں حقیر سمجھتے رہے ہو...یہ لوگوں کی خدمت کرتا رہا...ہمسایوں کا خیال رکھا...غریب کی مدد کی.. میری مخلوق سے پیار کیا..کسی کو اپنی زبان اور ہاتھ سے تکلیف نہیں دی...لیکن تم سب اسے تکلیف دیتے رہے ہو..کبھی اپنی باتوں سے اورکبھی اپنے رویوں سے..مجھے کسی رجسٹر کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے میں سب کچھ دیکھ رہا تھا..تم لوگ نماز میں جو سجدہ کرتے تھے اس وقت خیال کا بت خانہ تمھارے ذہن میں ہوتا تھا.تم لوگوں نے مجھے پہچانا ہی نہیں حالانکہ میں نے تمھیں اپنی پہچان کی خاطر پیدا کیاتھا۔۔۔علی نے جھوٹ موٹ کے سجدے اور عبادتیں تو نہیں کی لیکن حقوق العباد پورے کئے ہیں.آج میں حقوق اللہ اسے معاف کرتا ہوں۔۔۔۔۔علی نے جب یہ سنا تو اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور وہ بہت خوش تھا کیونکہ اس نے سُن رکھا تھا کہ جوشخص جنت میں جائے گا اسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہو گا...وہ یا رسول اللہ کہتا ہوا دوڑ کر جنت کی طرف بھاگا..رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازے پر کھڑے مسکرا رہے تھے..علی یہ دیکھ کر جان گیا کہ سفارش کہاں سے آئی ہے۔۔۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یا اللہ یا الرحمٰن یا الرحیم
یا ارحم الراحمین جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکا گا اور نہ بیٹے ﴿۸۸﴾ ہاں جو شخص خدا کے پاس قلب سلیم لے کر آیا (وہ بچ جائے گا) ﴿۸۹) سورة الشُّعَرَاء
گوہر فیاض
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں