اسد اللہ غالب
ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد پاکستان کے لوگ ممکنہ مارشل لا کو ناکام بنانے کے لئے ٹینکوںکے سامنے لیٹنے کے شوق میں مبتلاہو گئے ہیں، ایک کالم نگار نے یہ سبق پڑھانے کے لئے اوپر تلے دو کالم گھسیٹ دیئے ہیں۔ ان کے جذبے کی تحسین نہ کرنا سنگین غداری کے مترادف قرار پا سکتا ہے، بہر حال انہیں اپنادماغ مزید لڑانا چاہئے اور یہ تجویز دینی چاہئے کہ گلی گلی محلے محلے جوڈو کراٹے اور بلیئرڈسنٹرز کی طرح ٹینکوں کے سامنے لیٹنے اور قیمہ بننے سے بچنے کی مشقیں شروع کرا دینی چاہیئں۔
مگر نجانے اس کالم نگار پر مارشل لا کا بھوت کیوں سوار ہے، خدشہ ہے کہ وہ شیزو فرینیا کے عارضے میں مبتلا ہیں۔
ہمارے ہاں مارشل لاتو بہت نافذ ہوئے مگر کبھی ٹینکوں کو باہر نکالنے کی نوبت نہیں آئی۔ شاید اس زمانے کے لوگ ابھی جمہوریت کے جنون میں مبتلا نہیں ہوئے تھے۔جمہوریت کی اپنی خوبیاں ہیں، ا سکا ساتھ دینے والوں کو اٹھارہ انیس لاکھ کی نوکری ملتی ہے اور اگر نوکری نہ کرنی ہو تو پانچ پانچ کروڑ وفاقی ا ور ہر صوبائی منتخب جمہوری حکومت سے اینٹھے جا سکتے ہیں۔ہمارے یہ مخصوص کالم نگار بھی ہر مارشل لا کو برا نہیں سمجھتے۔ ضیا الحق کا مارشل لا ان کے نزدیک عین اسلامی تھا اور وہ ان درجن بھر افراد کے گروپ میں شامل تھے جو رات کے پچھلے پہر اس اسلامی فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ سارے ملک کی رپورٹیں شیئر کرتے تھے۔
ویسے تو ہر شخص کی اپنی اپنی پسند ہے، ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے بھی اس ملک کے (بعد میں) جمہوری چیمپیئن بنے۔ غاصب فوجی ڈکٹیٹر کے وزیرا علی پنجاب کی مصاحبت کو اعزاز سمجھ کر قبول کرنے والے بھی موجود تھے اور یہ کالم نگار بھی فوجی چھتری میں قائم ہونے والی ق لیگ کے قریبی مصاحبین میں شمار کئے جاتے تھے۔جمہوریت آئی تو یہ بھی ان کی سوچ کے عین قریب تھی اور اب تو ان کے وارے نیارے ہو گئے۔یہ چھلانگ لگا کر جمہوری گود میں جا بیٹھے، یہ مہارت بہت سے لوگوںمیں بدرجہ اتم موجود ہے ا ور وفاداریاں بدلنا ان کا خاندانی شعار ہے، یہ انگریزوں کے کتے بھی نہلاتے رہے اور پاکستان کے مدارالمہام بھی بن بیٹھے۔مجھے کسی کو طعنہ دینا مقصود نہیں کیونکہ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔پیٹ بڑا پاپی ہے۔
میں یہ واضح کر دوں کی میں اسلامی یا غیرا سلامی ہر طرح کے مارشل لا سے سخت نفرت کرتا ہوں ۔اور اب بھی جس طرح یہ دن روشن ہے،ا سی طرح مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ ہماری فوج کا کوئی ارادہ مارشل لا لگانے کا نہیں ہے، ایک صاحب نے اگر کوئی بینر لگائے ہیںا ور جنرل راحیل سے محبت کاا ظہار کیا ہے تو اس نے برا کیا ہے، ایک اچھے انسان کو اچھا کہنا بھی آج کے دور میں برائی بن گیا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی ٹینک سڑکوں پر نکلے تھے اور واہگہ ا ور چونڈہ کی طرف بڑھے تھے تو پاکستانی عوام نے ان پر پھولوں کی بارش کر دی تھی ، اس دور میں ٹینکوںکے سامنے لیٹنے کا سبق دینے والے ہمارے کالم نویس دوست ابھی چوسنی منہ میںلئے ہوئے تھے۔اس زمانے میںلوگ ٹینکوںکے سامنے لیٹے تو ضرور اور انہوںنے ایساتب کیا جب یہ دیکھا کہ بھارتی ٹینک طوفان کی طرح پیش قدمی کرتے ہوئے، شکر گڑھ، چونڈہ، ظفر وال کو روند چکے ہیں اور وہ گوجرانوالہ کی طرف پھنکارتے چلے آ رہے تھے، یہی وہ لمحہ تھا جب ہمارے شیر، دلیر، گبھر ونوجوان بھارتی ٹینکوںکے سامنے لیٹ گئے تھے، مجھے پاک فوج کے آرٹلری بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیر امجد علی چودھری نے بتایا تھا کہ بھارتی ٹینک ہماری انفنٹری کو کچلتے ہوئے ان کے توپخانے کے قریب آن پہنچے تھے، دنیا کی کسی جنگ میں ٹینکوںا ور توپخانے کا آمنا سامنا نہیںہوا، العالمین کی مشہور زمانہ جنگ میں بھی نہیںہوا۔لیکن یہ عجوبہ چونڈہ کے نواح میں رونما ہوا اور امجد علی چودھری کے بقول اس کے افسروں اور جوانوں کے پاس کوئی اور چوائس نہ تھا کہ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں، خود بم بن جائیں۔آپ ا نہیں خود کش بمبار کہہ لیں۔کچھ نام دے لیں لیکن خدا را کوئی گالی نہ دیں ۔انہوں نے بھارتی بکتر بند ڈویژن کو گوجرانوالہ ا ور گجرات کے درمیان سے جی ٹی روڈ کاٹنے کا موقع نہ دیا، دشمن اپنے زخم چاٹتا رہ گیا۔
اور ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اسی بھارت کے ٹینک مکتی باہنی کی مدد میں مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کرنے لگے تو عوام نے انہیں بھارتی ٹینکوں کو پھولوں سے لاددیا۔تفو بر تو اے چشم گردوں تفو۔ہم یہ منظر دیکھنے کے بعد زندہ کیسے رہ گئے، ہمیں غیرت سے مر جا نا چاہئے تھا۔ مگر حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے، اسی پر بس نہیں ، ہم نے ڈھاکہ ٹی وی پر بیٹھ کر بھاشن دیا کہ جن پاکستانی فوجیوںنے بنگالی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے ، انہیں سزا دے کر باعث عبرت بنا دیا جائے۔
اب نیا بھاشن یہ ہے کہ پاک فوج کے ٹینک سڑکوں پر نظرا ٓئیں تو ان کے سامنے اسی طرح لیٹ جائو جیسے ترک عوام اپنے ٹینکوںکے سامنے لیٹ گئے ہیں اور فوج کو ہتھکڑیاں لگا دی گئی ہیں۔
ترک ٹینک بے گناہ شامی عوام پر چڑھ دوڑیں تو ہم چپ شاہ بن جائیں، ترک لڑاکا طیارے شام کی ہنستی بستی، بستیوں کو کھنڈروںمیں تبدیل کر دیں تو پھر بھی ہم چپ شاہ بنے رہتے ہیں۔
خدا نہ کرے کہ ہمارے ٹینکوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے کبھی فاٹا میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو یہ سبق نہ پڑھانے بیٹھ جائیں کہ پاکستانی ٹینک دیکھو تو ان کے سامنے بم بن کر لیٹ جائو اور جس طرح ترکی میں حکم جاری ہوا ہے کہ کوئی ہیلی کاپٹرفضا میں دیکھو تو اسے میزائل کا نشانہ بنا دو، اسی طرح ہمارے ہاں فاٹا کے دہشت گردوں کو اس بات پر نہ اکسایاجانے لگے کہ وہ کہیں سے اسٹنگر میزائل اونے پونے خریدیں اور پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں کو مار گرائیں۔ ترکی میں بھٹو کی ایف ایس ایف کی طرز پر صدر اردوان نے بھی اسپیشل فورس اس مقصد کے لئے تیار کر رکھی ہے جو دارالحکومت کی حفاظت کررہی ہے۔ اور فوج کے ہیلی کاپٹروںکومار گرانے پر مامور ہے۔ کیا ہمیں بھی ایسی فورس کھڑی نہیں کر لینی چاہئے۔عوام بے چاروںکو ٹینکوں کے سامنے کیوںجھونکا جائے۔
شیزو فرینیا کے مریضوں کا کوئی علاج نہیں، وہ ڈرائونے اور بھیانک خواب دیکھتے ہیںاور ہذیان بکنے لگ جاتے ہیں۔
کون ہے جو الخالد ٹینک سے ٹکرانے کا خیال بھی دل میں لا سکتا ہے۔صرف بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی۔اور بھارت نے اس مکتی باہنی کو یہ نہیںبتایا کہ یہ ٹینک اب ٹیکٹیکل میزائلوں سے مسلح ہیں جن سے خود بھارت خوف کھاتا ہے۔بھارت کے سارے آرمرڈ ڈویژن ،ہمارے ٹینکوںکے تصور ہی سے لرزہ بر اندام ہو جاتے ہیں اور ہم خود ان ٹینکوں سے لڑنے بھڑنے کے خبط میںمبتلا ہیں۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
(روزنامہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں