بدھ، 27 جولائی، 2016

طنز و مزاح : انداز بیاں اور . . .


مولویوں سے چڑنے اور خار کھانے کے لیے وجوہات کا ہونا ہر گز ضروری نہیں۔ یہی کافی ہے کہ وہ مولوی ہیں. نہ صرف بڑے بلکہ اب تو بچے بھی اس روشن خیالی کے پوری طرح عادی ہوچکے ہیں. وہ جانتے ہیں کہ اگر ممی سویرے سویرے جگا کر مسکراتے ہوئے صاف ستھری شرٹ اور دھلی ہوئی نیکر کے ساتھ چم چم کرتے جوتے پہنا رہی ہیں تو اب پانچ کلو کا بیگ لے کر اسکول جانا ہے. اور اگر ممی ناک بھوں چڑھا کر سوراخ والی ٹوپی اور پرسوں ترسوں کے کپڑے پہنارہی ہیں تو اب پھولدار کپڑے میں لپٹی کتاب کو تھامے دو پٹی والی چپل پہن کر مدرسہ کی طرف ہولینا ہے.
اگر اسکول میں ٹیچر خوش ہو کر گال اور ہتھیلی پر اسٹار یا کوئی کارٹون نما چیز بنادے تو اسے ہر سو صدارتی ایوارڈ کی طرح دکھایا جائے گا نیز روزانہ ہاتھ پھیر اسے تازہ بھی کیا جائے. اور اگر مدرسہ میں مولوی صاحب سر پر ہاتھ پھیر دیں تو نہ صرف سر کو بلکہ بچے کو بھی الٹ پلٹ کر دسیوں بار چیک کیا جائے گا، آیا جسم پر ہاتھ کی حرارت یا دل و دماغ میں نصیحت باقی تو نہیں.
(مستنصر حسین تارڑ کی "ڈیموکریٹس ہمارے بھائی ہیں" سے اقتباس)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں