پیر، 1 اگست، 2016

اندرون سندھ اختیارات پیپلز پارٹی کی قیادت خوفزدہ کیوں؟

یہ اتفاق ہے یا پیغام ہے‘ مراد علی شاہ کو جس دن بلاول زرداری نے آصف زرداری کے حکم سے صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کیا‘ عین اسی روز کراچی صدر کے علاقے میں دہشت گردی کی واردات ہوئی اور رینجرز کے دو اہلکاروں کو شہید کر دیا گیا اور جس دن وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی سترہ رکنی کابینہ نے حلف اٹھایا‘ اسی روز لاڑکانہ میں دوسری دہشت گردی کی واردات ہوئی اور رینجرز کا ایک اہلکار شہید ہو گیا۔ دوسرا کومے کی حالت میں ہے۔ خود مراد علی شاہ کے ساتھ یہ ”واردات“ ہوئی کہ ان کے بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھانے سے ایک روز پہلے محکمہ تعلیم سندھ نے جعلی بھرتیوںکی انکوائری رپورٹ نیب کو پیش کر دی ہے جو ایک ہزارسے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ نیز سپیشل سیکرٹری تعلیم نے سابق وزیرتعلیم پیر مظہرالحق کو اس رپورٹ میں کلین چٹ دینے سے انکار کیا ہے۔ ان جعلی بھرتیوں کے سلسلے میں فنڈز یقینی طورپر وزارت خزانہ نے جاری کئے ہونگے۔ مراد علی شاہ تب وزیرخزانہ تھے‘ چنانچہ اس سلسلے میں انہیں پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے قبل ایک اور ”واردات“ ان کے حلف اٹھانے سے تین روز قبل ہوئی اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے کہ نیب نے محکمہ خزانہ سندھ پر چھاپہ مارا اور افسران سے پوچھ گچھ کے بعد ریکارڈ قبضہ میں لے لیا۔ ساتھ ہی پچھلے آٹھ برسوں میں بجٹ کی تفصیلات حاصل کیں کہ بجٹ کس طرح جاری کیا جاتا تھا۔ کن ٹھیکیداروں کو پیشگی ادائیگی کی جاتی تھی اور کتنے منصوبے مکمل بھی نہیں ہوئے مگر ان کا بجٹ خرچ کر لیا گیا۔ آر آر پلانٹس پر کتنی ادائیگیاں ٹھیکوں کے بغیر کی گئیں۔ ترقیاتی بجٹ چار قسطوں میں ادا کیا جاتا تھا تو کتنے ٹھیکیداروں کو ایک یا دو قسطوں میں بجٹ دیدیا گیا۔ اکاﺅنٹینٹ جنرل سندھ اور پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے محکمہ خزانہ میں اگر بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تو اس کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ واضح رہے ان آٹھ برسوں میں مراد علی شاہ ہی وزیرخزانہ رہے۔
ادھر الیکشن کمشن نے کراچی کے میئر کیلئے الیکشن شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ زیرحراست وسیم اختر بطورر امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا سکیں گے یا نہیں‘ البتہ ان کے وکیل خواجہ نوید کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشن کو درخواست دی جائے گی کہ وسیم اختر کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے کیلئے الیکشن کمشن حاضر ہونے کی اجازت دی جائے۔ وکیل کے ذریعہ جمع کرانے کی سہولت دی جائے یا الیکشن کمشن کا ذمہ دار آفیسر خود جیل جا کر ان سے دستخط کروا لے۔ بہرحال جب یہ سطور شائع ہونگی‘ اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو چکے گا‘ تاہم اگر وسیم اختر کاغذات نامزدگی داخل نہ کر سکے تو پھر اس الزام میں وزن محسوس ہوگا کہ انہیں میئر کے انتخاب سے روکنے کیلئے گرفتار کیاگیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں قائم علی شاہ پر خود کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ مگر وہ صوبے میں سرکاری سطح پر کرپشن روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اعلیٰ قیادت کی مداخلت اور ان کی جانب سے صوبے کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلانے کے باعث وزیراعلیٰ کا کردار کبھی مو¿ثر نہیں رہا۔ مراد علی شاہ کے ساتھ بھی یہی صورتحال رہے گی۔ ایک تابع مہمل وزیراعلیٰ کے طورپر وہ اس تبدیلی کو حقیقت کا رنگ نہیں دے سکیں گے جس کا پہلے خطاب میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے جیسے کہ پہلے کہا گیا۔ رینجرز کی موجودگی اور اختیارات میں توسیع کا معاملہ ان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ آصف زرداری نے یہ کہا ہے کہ مراد علی شاہ اپنی صلاحیتوں سے تمام چینلجز سے کامیابی کے ساتھ نمٹیں گے۔ ایسا تب ہوگا بشرطیکہ انہیں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع ملے اور اگریہ صلاحیتیں آصف زرداری‘ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہی وقف رہتی ہیں تو پھر سندھ کو درپیش چیلنجز جوں کے توں رہیں گے۔ بہرحال زیادہ مدت نہیں ایک دو ہفتوں میں ہی سارا منظرنامہ سامنے آ جائے گا۔
19 جولائی کے بعد سے رینجرز کے اختیارات کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ مراد علی شاہ بھی تادم تحریر اسے نمٹا نہیں سکے اس سلسلے میں ”مشاورت“ کیلئے اتوار کے روز وہ دبئی گئے‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے بااختیار ہیں۔ دوسرا اندازہ یہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختیارات کے حوالے سے وہ قائم علی شاہ سے کتنے مختلف ہونگے۔ رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے سمری پر سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے دستخط نہیں کئے تھے۔ نئے وزیراعلیٰ نے بھی نہیں کئے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو سندھ میں رینجرز کی موجودگی پر کوئی اختلاف نہیں ہے مگر وہ رینجرز کو پولیس کے اختیارات صرف کراچی میں دینا چاہتے ہیں جبکہ عسکری قیادت پورے صوبے میں ایسے اختیارات چاہتی ہے تاکہ کراچی میں واردات کرکے اندرون سندھ فرار ہونے والوں کا پیچھا کیا جائے۔ اگرچہ ان اختیارات کے بغیر بھی رینجرز نے اندرون سندھ کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ لاڑکانہ میں رینجرز پر حملہ اس کارروائی کا راستہ تو نہیں روک سکے گا‘ لیکن اسے رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے حکومتی قانونی ٹیم سے جو مشاورت کی تھی‘ اس کے مطابق انویسٹی گیشن اختیارات صوبائی حکومت کو حاصل ہیں۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن فور کے تحت صرف صوبائی حکومت ہی رینجرز کو اختیارات تفویض کر سکتی ہے۔ وفاقی حکومت بھی صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر یہ قدم نہیں اٹھا سکتی۔ باخبری کے بعض دعویداروں کے مطابق پیپلزپارٹی کی قیادت پر دباﺅ تھا کہ وزیرداخلہ انور سیال کو فوری طورپر فارغ کیا جائے‘ لیکن یہ فریال تالپور کیلئے ”عزت“ کا مسئلہ بن گیا تھا۔ چنانچہ فریال تالپور کو شرمندگی سے بچانے کیلئے وزیراعلیٰ کو ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح انور سیال کی وزارت داخلہ سے فراغت کی خواہش یا حکم کی تعمیل کی بجائے روٹین کا معاملہ بن گئی۔جہاں تک رینجرز کو صرف کراچی تک محدود کرنے کا معاملہ ہے تو عام آدمی کے ذہن میں سوال اٹھ سکتا ہے کہ آخر اندرون سندھ اختیارات نہ دینے میں کیا قباحت ہے۔ معاملہ قباحت کا نہیں ”قیامت“ کا ہے کہ سندھ میں اربوں کی کرپشن اور لوٹ مار کا کُھرا سیاسی قیادتوں کے آبائی گھروں تک جا رہا ہے۔ اندرون سندھ کارروائی سے یہ سب کچھ منظرعام پر آگیا تو اس سے ذاتی ساکھ کیساتھ ساتھ سیاسی طورپر جس تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ صرف اسد کھرل کو ہی اگر پولیس کی بجائے رینجرز کے حوالے کر دیا جائے تو اس سے تفتیش کے انکشافات کیا قیامت ڈھائیںگے یہ سمجھنے کیلئے کسی غیرمعمولی ذہانت کی ضرورت نہیں ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں