حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:(تمہار ا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ ) دنیا (کے مال واسباب کے اعتبار سے )اپنے سے کم تر کو دیکھو ، (مالی اعتبار سے)اپنے سے اوپر والے کو نہ دیکھو کیونکہ یہ زیادہ مناسب ہے کہ تم اللہ تبارک وتعالیٰ کی (عطاء کردہ)نعمت کی بے قدری سے بچ جائو گے۔(صحیح مسلم، ترمذی ، ابن ماجہ ،نسائی ، احمد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص اس شخص کو (رشک کی نظر سے)دیکھے جسے مال اور جسم کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہے تووہ اس شخص کو بھی دیکھے جسے اس کی نسبت کم درجے میں رکھا گیا ہے۔(بخاری، مسلم، السنن الکبریٰ :بیہقی )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے جو شخص دین میں (علم ،عمل اورتقویٰ میں)اپنے سے اوپر والے کو اوردنیا (کے مال واسباب کے لحاظ سے)اپنے سے نیچے والے کو دیکھتا ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ اسے صابر وشاکر لکھ دیتا ہے اوراگر (معاملہ )اس کے برعکس ہو تواس کو صابر وشاکر نہیں لکھا جاتا ہے۔(بیہقی ، ابونعیم ، الجامع الکبریٰ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو کس قدر خوبصورت نفسیاتی اورروحانی تربیت کا اسلوب عطاء فرمادیا ہے کہ جس کے ذریعے انسان حسد ، بغض ،رقابت اوررشک کے مریضانہ رویے سے نجات پاسکتا ہے۔ جب تم کسی کو اپنے سے زیادہ آسودہ حال فراغ دست دیکھو اورتمہیں اس پر رشک محسوس ہو اوراپنی کم آئیگی کا احساس ہوتو دوسری نظر اس شخص پر بھی ڈال لو، جس کے اسباب وسائل اورصحت تم سے کم تر ہے، اس شخص کی غربت دیکھ کر تمہارے دل میں اپنی نعمت کی قدر محسوس ہوگی اوردل میں شکر کا جذبہ پیداہوگا کہ اللہ رب العز ت نے مجھے اس شخص کی نسبت کتنا بہتر آسودہ حال اورصحت مند رکھا ہے ، ہاں اگر اپنے سے کسی اوپر والے کو دیکھنا چاہیے ہوتو اس شخص کو دیکھو جسے پروردگار نے تمہاری نسبت ، علم میں ،عمل میں اورتقویٰ میں فضیلت عطاء کی ہے کہ اس سے رشک کا مریضانہ جذبہ نہیں پیدا ہوگا، بلکہ اس سے مسابقت کاایک محمودجذبہ اورعمل کا ایک ایسا داعیہ پیداہوگا جو تمہیں بھی نیکی اورحسن عمل کی شاہر اہ پر گامزن ہونے کی تحریک دے گا، آج ہمارے معاشرے میں نمود ونمائش کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، اورجس کی وجہ ہزار ہا قباحتیں جنم لے چکی ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص اس شخص کو (رشک کی نظر سے)دیکھے جسے مال اور جسم کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہے تووہ اس شخص کو بھی دیکھے جسے اس کی نسبت کم درجے میں رکھا گیا ہے۔(بخاری، مسلم، السنن الکبریٰ :بیہقی )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے جو شخص دین میں (علم ،عمل اورتقویٰ میں)اپنے سے اوپر والے کو اوردنیا (کے مال واسباب کے لحاظ سے)اپنے سے نیچے والے کو دیکھتا ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ اسے صابر وشاکر لکھ دیتا ہے اوراگر (معاملہ )اس کے برعکس ہو تواس کو صابر وشاکر نہیں لکھا جاتا ہے۔(بیہقی ، ابونعیم ، الجامع الکبریٰ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو کس قدر خوبصورت نفسیاتی اورروحانی تربیت کا اسلوب عطاء فرمادیا ہے کہ جس کے ذریعے انسان حسد ، بغض ،رقابت اوررشک کے مریضانہ رویے سے نجات پاسکتا ہے۔ جب تم کسی کو اپنے سے زیادہ آسودہ حال فراغ دست دیکھو اورتمہیں اس پر رشک محسوس ہو اوراپنی کم آئیگی کا احساس ہوتو دوسری نظر اس شخص پر بھی ڈال لو، جس کے اسباب وسائل اورصحت تم سے کم تر ہے، اس شخص کی غربت دیکھ کر تمہارے دل میں اپنی نعمت کی قدر محسوس ہوگی اوردل میں شکر کا جذبہ پیداہوگا کہ اللہ رب العز ت نے مجھے اس شخص کی نسبت کتنا بہتر آسودہ حال اورصحت مند رکھا ہے ، ہاں اگر اپنے سے کسی اوپر والے کو دیکھنا چاہیے ہوتو اس شخص کو دیکھو جسے پروردگار نے تمہاری نسبت ، علم میں ،عمل میں اورتقویٰ میں فضیلت عطاء کی ہے کہ اس سے رشک کا مریضانہ جذبہ نہیں پیدا ہوگا، بلکہ اس سے مسابقت کاایک محمودجذبہ اورعمل کا ایک ایسا داعیہ پیداہوگا جو تمہیں بھی نیکی اورحسن عمل کی شاہر اہ پر گامزن ہونے کی تحریک دے گا، آج ہمارے معاشرے میں نمود ونمائش کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، اورجس کی وجہ ہزار ہا قباحتیں جنم لے چکی ہیں
(روزنامہ
نوائے وقت)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں