
باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں اِرشاد فرمایا:
ﻛُﻞُّ ﻣَﻦْ ﻋَﻠَﻴْﻬَﺎ ﻓَﺎﻥٍ O ﻭَﻳَﺒْﻘَﻰ ﻭَﺟْﻪُ ﺭَﺑِّﻚَ ﺫُﻭ ﺍﻟْﺠَﻼﻝِ ﻭَﺍﻹِﻛْﺮَﺍﻡِ O
'' جو کچھ بھی زمین پر ہے سب فنا ہو جانے والا ہے،اور صرف آپ کے پروردِگار کی ذات باقی رہ جائے گی جو نہایت بزرگی اور عظمت والی ہے۔ ''
( سورۃ الرحمٰن،7:55-26 )
دوسرے مقام پر اِرشاد فرمایا:
ﻛُﻞُّ ﻧَﻔْﺲٍ ﺫَﺁﺋِﻘَﺔُ ﺍﻟْﻤَﻮْﺕِ۔
'' ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے۔ ''
( سورۃ آل عمران،3:185 )
جب ہر چیز کو نِیست و نابود اور فنا ہو جانا ہے تو فقط اللّہ ربُّ العزت کی ذات ہی باقی رہ جائے اور اس کی حمد کرنے والا بھی نہیں رہے گا۔تو اس وقت بھی درود پاک ایسا عمل ہے جو جاری و ساری ہو گا۔اِس لیے کہ اللّہ سبحان و تعالیٰ خود یہ عمل فرماتا ہے،جیسا کہ اِرشاد فرمایا گیا:
ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻭَﻣَﻠَﺎﺋِﻜَﺘَﻪُ ﻳُﺼَﻠُّﻮﻥَ ﻋَﻠَﻰ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ۔
'' بے شک اللّہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی ( ﷺ ) پر رحمت بھیجتے ہیں ( اور بھیجتے رہیں گے )۔ ''
( سورۃ احزاب،33:56 )
ہر ذی رُوح کو فنا ہے۔اِس کائنات کی ہر مخلوق نے '' ﺫَﺁﺋِﻘَﺔُ ﺍﻟْﻤَﻮْﺕِ '' کے فرمانِ اِلٰہی کے مطابق ایک مرتبہ موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔بقاء و دوام ایک ہی ذات '' حی و قیوم اللّہ جلالہ '' کو ہے۔چونکہ درود پاک اللّہ تبارک و تعالیٰ کا بھی عمل ہے اور جب باری تعالیٰ ابداً موجود ہے اور اس پر فنا نہیں ہے تو اس کا عمل بھی اس کے ساتھ قائم و دائم رہے گا۔اِس لیے قرآن حکیم میں '' ُ ﻳُﺼَﻠُّﻮﻥَ '' فعلِ مضارع میں اِستعمال کِیا گیا ہے جو کہ حال و مستقبل پر دلالت کرنے کی وجہ سے دائمی مفہوم رکھتا ہے۔حال کبھی ختم نہیں ہوتا۔ہر موجود لمحہ،حال ہے اور ہر آنے والا لمحہ،مسقبل ہے۔تو گویا اللّہ ربُّ العزت کا اپنے نبی ﷺ پر درود بھیجنا ہر لحظہ جاری ہے اور ابد الآباد تک جاری رہے گا۔اس میں آج تک نہ کبھی کوئی انقطاع آیا ہے اور نہ آ سکتا ہے۔اِس لیے یہی مسلّمہ حقیقت ہے کہ:
'' درود شریف ہی اِس کائنات کا سب سے آخری عمل ہے اور اسی عمل کو ہی صِفت الوہیت کی وجہ سے دوام حاصل ہے۔اور جب ہم اس کے وسیلے سے دعا کریں گے تو دعا ضرور قبول ہو گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں