نصرت جاوید
بلوچستان کے ڈومیسائل اور نواب اکبر بگتی کی سرپرستی نے افتخار چودھری کو بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک جج بھی بنادیا ۔ بطور منصف وہ یہ فیصلہ کرنے میں پوری طرح شامل تھے کہ جنرل مشرف کا 12اکتوبر1999کی رات ایک منتخب حکومت کو فارغ کرنا قانونی طورپر ایک درست اقدام تھا۔ یہ فیصلہ اس فوجی بغاوت کو درست قرار دینے تک ہی محدود نہ رہا۔ طے یہ بھی ہوا کہ وہ تین سال جو نواز شریف نے بطور وزیر اعظم 2002ء تک گزارنے تھے جنرل مشرف کے ہوئے۔اس دوران ملکی نظام کو بہتر بنانے کے لئے وہ جو بات بھی مناسب سمجھیں کرڈالیں۔ ایسا کرتے ہوئے اگر آئین کی کوئی شق ان کی راہ میں حائل ہوتی نظر آئے تو اسے کتاب سے نکال کر ’’سہولتی‘‘ شقیں متعارف کروادی جائیں۔
جنرل مشرف نے اس فیصلے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے نوبرس پاکستان پر بادشاہوں جیسی حکمرانی کی۔ دریں اثناء 2007ء ہوگیا۔ افتخار چودھری کے سامنے الزامات کی ایک فہرست رکھ کر استعفیٰ مانگا گیا۔ موصوف نے انکار کردیا۔ ان کے انکار نے ہمیںافتخار چودھری کا ماضی بھلادیا۔ ریاست کو ماں جیسی بنانے کی تحریک شروع ہوگئی۔ اس تحریک کی بدولت جنرل مشرف افتخار چودھری کو بحال کرنے پر مجبور ہوگئے۔
اپنی بحالی کے فوراََ بعد افتخار چودھری کے روبروجو اہم ترین سوال باقاعدہ طورپر اٹھایا گیا وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا کوئی پاکستانی فوجی وردی پہنے ہوئے بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے یا نہیں۔ ’’مسیحا‘‘ کی حیثیت میں بحال ہوئے چودھری صاحب نے اس سوال کا واضح جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔فیصلہ ’’محفوظ‘‘ کرلیا گیا۔ جنرل مشرف بآسانی پانچ سالہ مدت کے لئے فوجی وردی سمیت ایک بار پھر پاکستان کے صدر ’’منتخب ‘‘ ہوگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ’’انتخاب‘‘سے’’باہر ‘‘رہ کر مشرف کے لئے مزید آسانی پیدا کردی۔
مشرف کے وردی سمیت پاکستان کا صدر’’منتخب‘‘ ہونے والے عمل پر صحافیوں کے اس گروہ نے بہت تنقید کی جو خود کو اس ملک میں آئین وقانون کی بالادستی کا پیغامبر بنائے ہوئے تھا۔میرا شماربھی ان پیغامبروں میں ہوتا تھا۔ جنرل مشرف کے ’’انتخاب‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے مجھ ایسے پیغامبروں نے مگر یاد ہی نہ رکھا کہ ہمارے بنائے ’’مسیحا‘‘نے اس ضمن میں بنیادی اور اہم ترین سوال پر خاموش رہنے کو ترجیح دی تھی۔وردی سمیت جنرل مشرف کے ’’انتخاب‘‘ کی ساری ذمہ داری ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے سرڈالتے رہے جس کی جلاوطن رہ نما نے امریکہ جیسے طاقتور ملکوں کی معاونت سے فوجی آمر کے ساتھ مل کر NROپاس کروالیا تھا۔
میڈیا میں برپاشور کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں کا بنایا ہوا ’’مسیحا‘‘ اب کچھ کرنے کا موقعہ ڈھونڈتا نظر آیا۔ جنرل مشرف موصوف کے ممکنہ ارادوں سے خوفزدہ ہوگئے۔افتخار چودھری اور ان کے حامی ججوں کو ایک بار پھر مارشل لاء لگاکر نومبر 2007ء میں فارغ کرکے گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔چیف کے بے شمار جاں نثار بھی تھک کر اداس ہو گئے۔
اندھی نفرت وعقیدت کے مارے مجھ ایسے پیغامبر NROکی مذمت کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہ کر پائے کہ اس معاہدے کی وجہ سے جنرل مشرف کو فوج کی کمان بالآخر جنرل کیانی کے حوالے کرنا پڑی۔ نومبر 2007ء میں اٹھائے غیر آئینی اقدام کے باوجود انتخابی عمل کا آغاز ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں جو انتخاب ہوا وہ ہماری تاریخ کے حوالے سے کافی حد تک آزاد،شفاف اور منصفانہ تھا۔ پیپلز پارٹی کو اس انتخاب کی بدولت وفاقی حکومت ملی۔ شہباز شریف بھی اسی کے طفیل پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ البتہ آصف علی زرداری جب اسی انتخاب کی بدولت بالآخر جنرل مشرف سے استعفیٰ لے کر ایوانِ صدر پہنچے تو ہاہا کار مچ گئی۔ ’’مسیحا‘‘ کی بحالی کا سوال دوبارہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ ان کی جگہ بیٹھے جسٹس ڈوگر کے خلاف سکینڈلز کی بھرمار ہوگئیں۔اس کے باوجود ڈوگر جب اپنی آئینی مدت ختم کرنے کے قریب پہنچے تو نواز شریف لاہور سے اپنے گھر کے باہر پولیس کی جانب سے لگائی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگئے۔ان کی وجہ سے بنا’’لانگ مارچ‘‘ گوجرانوالہ تک پہنچا تو اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے فون اٹھا لیا۔ جنرل کیانی ایوانِ صدر پہنچ گئے۔آصف علی زرداری کو ’’مسیحا‘‘ کی بحالی پر مجبور کردیا گیا۔ ’’مسیحا‘‘ کی بحالی کا فیصلہ آئین اور قانون کے بلند آہنگ محافظ قرار پائے چودھری اعتزاز احسن کو جنرل کیانی نے فون کے ذریعے سنایا۔ چودھری صاحب نے یہ اطلاع نواز شریف تک پہنچائی۔ یہ اطلاع پا کر نواز شریف نے اپنا لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ہمارے ہاتھوں کا بنایا ہوا’’مسیحا‘‘ ایک بار پھر اپنے منصب پر بحال ہوا تو ’’سووموٹو‘‘کے ذریعے سماج سدھارنے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ ہم نے اس جنون کو جی بھرکے سراہا۔ وفاقی حکومت، امورِ مملکت پر توجہ دینے کے بجائے اپنے وزراء اور سینئر افسروں کو چودھری صاحب کے روبروپیش کرنے میں مصروف رہی۔ بالآخر حکم صادر ہوا کہ بطور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سوئس حکومت کو ایک چھٹی لکھ کر آصف علی زرداری کی جانب سے مبینہ طورپر اس ملک کے بینکوں میں رکھے 60کروڑ ڈالر قومی خزانے میں لانے کا بندوبست کریں۔ گیلانی نے اصرار کیا کہ آئین پاکستان انہیں صدر پاکستان کے بارے میں ایسی چٹھی لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کا اصرار ’’توہین عدالت‘‘ قرار پایا۔ وہ ’’حیف ہے اس قوم پر…‘‘والے فیصلے کے ذریعے گھر بھیج دئیے گئے۔ ان کی جگہ لینے والے راجہ پرویز اشرف نے بالآخر وہ چٹھی بھی لکھ ڈالی۔ سوئس بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائے 60کروڑ ڈالر مگر ابھی تک قومی خزانے میں واپس نہیں آئے ہیں۔ دریں اثناء ارسلان والا واقعہ بھی ہوگیا۔ ارسلان کے ابو نے اس واقعہ کو مناسب ڈھٹائی کے ساتھ بھگت لیا۔ پھر ان کی آئینی مدت بھی پوری ہوگئی۔ ہمارا ’’مسیحا‘‘ ریٹائرڈ ہوگیا۔اپنی ریٹائرمنٹ کو لیکن’’ مسیحا‘‘ نے دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ سماج سدھارنے کی مہم وہ مرتے دم تک جاری رکھیں گے۔ اگرچہ عمر کے اس حصے میں انہیں دریافت یہ ہوا ہے کہ پاکستان کو ایک بااختیار صدر ہی سدھارسکتا ہے۔ مجھے یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں کہ موصوف کی نظر میں ایسے بااختیار صدر کے لئے کوئی اور نہیں کون ’’فطری طورپر‘‘ مناسب نظر آتا ہے۔
سماج سدھارنے کی لگن میں ہمارے ریٹائرڈ ہوئے مسیحا نے اپنی جماعت کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی کے لئے قومی اسمبلی کے سپیکر سے رجوع کیا ہے۔ جواز پانامہ پیپرز کو بنایا گیا ہے۔ نوراز شریف کو آف شور کمپنیوں کے حوالے سے نااہل کروانے کی کوششوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی ہمارے بنائے ہوئے ’’مسیحا‘‘ کو اچانک یہ بھی یاد آگیا ہے کہ اسلام آباد میں ججوں کے لئے مخصوص رہائشی کالونی میں ایک پلاٹ سستے داموں لینا ان کا ’’حق ‘‘ہے۔ہمارے ہاتھوں کا بنایا’’مسیحا‘‘ جب اپنے منصب پر فائز تھا تو اس وقت یہی پلاٹ لینے سے رعونت بھرا انکار کرکے موصوف نے مجھ ایسے بے وقوفوں سے بہت داد وصول پائی تھی۔
نواز شریف کو نااہل کروانے اور ججوں کے لئے مخصوص رہائشی کالونی میں ایک پلاٹ حاصل کرنے کی کوشش وخواہش پر مبنی خبریں ایک ہی روز کے اخباروں میں پڑھنے کو ملیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان پر ہنسوں یا دھاڑیں مار کر اپنے کپڑے پھاڑنا شروع ہوجائوں۔ غالبؔ کی طرح میں بھی ہر تیزرو کو راہبر سمجھ لیتاہوں۔ ہمارے عوام کی اکثریت بھی مجھ ایسی ہے۔ ہمارے چرخے کوکتے نہیں واویلا مچاتے ہوئے کسی اور ’’مسیحا‘‘ کو پکارتے چلے جارہے ہیں۔ پنجابی کا وہ محاورہ بھولتے ہوئے جو ہر نوح کے پرندوں کی دُمیں اٹھاکر ایک ہی نتیجہ نکالتا ہے۔
جنرل مشرف نے اس فیصلے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے نوبرس پاکستان پر بادشاہوں جیسی حکمرانی کی۔ دریں اثناء 2007ء ہوگیا۔ افتخار چودھری کے سامنے الزامات کی ایک فہرست رکھ کر استعفیٰ مانگا گیا۔ موصوف نے انکار کردیا۔ ان کے انکار نے ہمیںافتخار چودھری کا ماضی بھلادیا۔ ریاست کو ماں جیسی بنانے کی تحریک شروع ہوگئی۔ اس تحریک کی بدولت جنرل مشرف افتخار چودھری کو بحال کرنے پر مجبور ہوگئے۔
اپنی بحالی کے فوراََ بعد افتخار چودھری کے روبروجو اہم ترین سوال باقاعدہ طورپر اٹھایا گیا وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا کوئی پاکستانی فوجی وردی پہنے ہوئے بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے یا نہیں۔ ’’مسیحا‘‘ کی حیثیت میں بحال ہوئے چودھری صاحب نے اس سوال کا واضح جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔فیصلہ ’’محفوظ‘‘ کرلیا گیا۔ جنرل مشرف بآسانی پانچ سالہ مدت کے لئے فوجی وردی سمیت ایک بار پھر پاکستان کے صدر ’’منتخب ‘‘ ہوگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ’’انتخاب‘‘سے’’باہر ‘‘رہ کر مشرف کے لئے مزید آسانی پیدا کردی۔
مشرف کے وردی سمیت پاکستان کا صدر’’منتخب‘‘ ہونے والے عمل پر صحافیوں کے اس گروہ نے بہت تنقید کی جو خود کو اس ملک میں آئین وقانون کی بالادستی کا پیغامبر بنائے ہوئے تھا۔میرا شماربھی ان پیغامبروں میں ہوتا تھا۔ جنرل مشرف کے ’’انتخاب‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے مجھ ایسے پیغامبروں نے مگر یاد ہی نہ رکھا کہ ہمارے بنائے ’’مسیحا‘‘نے اس ضمن میں بنیادی اور اہم ترین سوال پر خاموش رہنے کو ترجیح دی تھی۔وردی سمیت جنرل مشرف کے ’’انتخاب‘‘ کی ساری ذمہ داری ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے سرڈالتے رہے جس کی جلاوطن رہ نما نے امریکہ جیسے طاقتور ملکوں کی معاونت سے فوجی آمر کے ساتھ مل کر NROپاس کروالیا تھا۔
میڈیا میں برپاشور کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں کا بنایا ہوا ’’مسیحا‘‘ اب کچھ کرنے کا موقعہ ڈھونڈتا نظر آیا۔ جنرل مشرف موصوف کے ممکنہ ارادوں سے خوفزدہ ہوگئے۔افتخار چودھری اور ان کے حامی ججوں کو ایک بار پھر مارشل لاء لگاکر نومبر 2007ء میں فارغ کرکے گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔چیف کے بے شمار جاں نثار بھی تھک کر اداس ہو گئے۔
اندھی نفرت وعقیدت کے مارے مجھ ایسے پیغامبر NROکی مذمت کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہ کر پائے کہ اس معاہدے کی وجہ سے جنرل مشرف کو فوج کی کمان بالآخر جنرل کیانی کے حوالے کرنا پڑی۔ نومبر 2007ء میں اٹھائے غیر آئینی اقدام کے باوجود انتخابی عمل کا آغاز ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں جو انتخاب ہوا وہ ہماری تاریخ کے حوالے سے کافی حد تک آزاد،شفاف اور منصفانہ تھا۔ پیپلز پارٹی کو اس انتخاب کی بدولت وفاقی حکومت ملی۔ شہباز شریف بھی اسی کے طفیل پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ البتہ آصف علی زرداری جب اسی انتخاب کی بدولت بالآخر جنرل مشرف سے استعفیٰ لے کر ایوانِ صدر پہنچے تو ہاہا کار مچ گئی۔ ’’مسیحا‘‘ کی بحالی کا سوال دوبارہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ ان کی جگہ بیٹھے جسٹس ڈوگر کے خلاف سکینڈلز کی بھرمار ہوگئیں۔اس کے باوجود ڈوگر جب اپنی آئینی مدت ختم کرنے کے قریب پہنچے تو نواز شریف لاہور سے اپنے گھر کے باہر پولیس کی جانب سے لگائی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگئے۔ان کی وجہ سے بنا’’لانگ مارچ‘‘ گوجرانوالہ تک پہنچا تو اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے فون اٹھا لیا۔ جنرل کیانی ایوانِ صدر پہنچ گئے۔آصف علی زرداری کو ’’مسیحا‘‘ کی بحالی پر مجبور کردیا گیا۔ ’’مسیحا‘‘ کی بحالی کا فیصلہ آئین اور قانون کے بلند آہنگ محافظ قرار پائے چودھری اعتزاز احسن کو جنرل کیانی نے فون کے ذریعے سنایا۔ چودھری صاحب نے یہ اطلاع نواز شریف تک پہنچائی۔ یہ اطلاع پا کر نواز شریف نے اپنا لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ہمارے ہاتھوں کا بنایا ہوا’’مسیحا‘‘ ایک بار پھر اپنے منصب پر بحال ہوا تو ’’سووموٹو‘‘کے ذریعے سماج سدھارنے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ ہم نے اس جنون کو جی بھرکے سراہا۔ وفاقی حکومت، امورِ مملکت پر توجہ دینے کے بجائے اپنے وزراء اور سینئر افسروں کو چودھری صاحب کے روبروپیش کرنے میں مصروف رہی۔ بالآخر حکم صادر ہوا کہ بطور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سوئس حکومت کو ایک چھٹی لکھ کر آصف علی زرداری کی جانب سے مبینہ طورپر اس ملک کے بینکوں میں رکھے 60کروڑ ڈالر قومی خزانے میں لانے کا بندوبست کریں۔ گیلانی نے اصرار کیا کہ آئین پاکستان انہیں صدر پاکستان کے بارے میں ایسی چٹھی لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کا اصرار ’’توہین عدالت‘‘ قرار پایا۔ وہ ’’حیف ہے اس قوم پر…‘‘والے فیصلے کے ذریعے گھر بھیج دئیے گئے۔ ان کی جگہ لینے والے راجہ پرویز اشرف نے بالآخر وہ چٹھی بھی لکھ ڈالی۔ سوئس بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائے 60کروڑ ڈالر مگر ابھی تک قومی خزانے میں واپس نہیں آئے ہیں۔ دریں اثناء ارسلان والا واقعہ بھی ہوگیا۔ ارسلان کے ابو نے اس واقعہ کو مناسب ڈھٹائی کے ساتھ بھگت لیا۔ پھر ان کی آئینی مدت بھی پوری ہوگئی۔ ہمارا ’’مسیحا‘‘ ریٹائرڈ ہوگیا۔اپنی ریٹائرمنٹ کو لیکن’’ مسیحا‘‘ نے دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ سماج سدھارنے کی مہم وہ مرتے دم تک جاری رکھیں گے۔ اگرچہ عمر کے اس حصے میں انہیں دریافت یہ ہوا ہے کہ پاکستان کو ایک بااختیار صدر ہی سدھارسکتا ہے۔ مجھے یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں کہ موصوف کی نظر میں ایسے بااختیار صدر کے لئے کوئی اور نہیں کون ’’فطری طورپر‘‘ مناسب نظر آتا ہے۔
سماج سدھارنے کی لگن میں ہمارے ریٹائرڈ ہوئے مسیحا نے اپنی جماعت کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی کے لئے قومی اسمبلی کے سپیکر سے رجوع کیا ہے۔ جواز پانامہ پیپرز کو بنایا گیا ہے۔ نوراز شریف کو آف شور کمپنیوں کے حوالے سے نااہل کروانے کی کوششوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی ہمارے بنائے ہوئے ’’مسیحا‘‘ کو اچانک یہ بھی یاد آگیا ہے کہ اسلام آباد میں ججوں کے لئے مخصوص رہائشی کالونی میں ایک پلاٹ سستے داموں لینا ان کا ’’حق ‘‘ہے۔ہمارے ہاتھوں کا بنایا’’مسیحا‘‘ جب اپنے منصب پر فائز تھا تو اس وقت یہی پلاٹ لینے سے رعونت بھرا انکار کرکے موصوف نے مجھ ایسے بے وقوفوں سے بہت داد وصول پائی تھی۔
نواز شریف کو نااہل کروانے اور ججوں کے لئے مخصوص رہائشی کالونی میں ایک پلاٹ حاصل کرنے کی کوشش وخواہش پر مبنی خبریں ایک ہی روز کے اخباروں میں پڑھنے کو ملیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان پر ہنسوں یا دھاڑیں مار کر اپنے کپڑے پھاڑنا شروع ہوجائوں۔ غالبؔ کی طرح میں بھی ہر تیزرو کو راہبر سمجھ لیتاہوں۔ ہمارے عوام کی اکثریت بھی مجھ ایسی ہے۔ ہمارے چرخے کوکتے نہیں واویلا مچاتے ہوئے کسی اور ’’مسیحا‘‘ کو پکارتے چلے جارہے ہیں۔ پنجابی کا وہ محاورہ بھولتے ہوئے جو ہر نوح کے پرندوں کی دُمیں اٹھاکر ایک ہی نتیجہ نکالتا ہے۔
(روزنامہ
نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں