
مرزا تجمل بیگ
مورخین کے نزدیک تحریک پاکستان 1857 ء کی جنگ آزادی کا نام ہو گا۔ تحریک پاکستان سر سید احمد خان کی محنتوں اور کاوشوں کا نام اورعلی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کا ثمر ہو گا۔ قیام پاکستان علامہ اقبال کی دل سوز یوں ، جگر سوزیوں اور ان کے جادو اثر کلام کا نام ہو گا۔ تحریک پاکستان مسلم لیگ کے قیام اور زعماء ِ مسلم لیگ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ، نوابزادہ لیاقت علی خان ، سر آغا خان ، نواب محسن الملک ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا ظفر احمد ، سردار عبد الرب نشتر ، مولانا حسرت موہانی اور دوسروں کا کانگرس انگریز اور مخالفین پاکستان سے چو مکھی جنگ کا نام ہو گا۔ تحریک پاکستان لندن میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنسوں ، دہلی ، لکھنٔو، شملہ ، کراچی اور لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاسوں کا نام ہو گا اور تحریک پاکستان ہندوستان کے طول و عرض میں منعقد ہونے والے مسلمانانِ ہند کے پر جوش جلسوں اور جلوسوں کا نام ہو گا۔ میرا گائوں جی ٹی روڈ سے دو میل شمال کی جانب علاقہ چھچھ میں واقع ہے۔ ایک تحریک اس گائوں میں بھی اُٹھی تھی ، ایک ارتعاش اس چھوٹی سی پر سکون بستی میں بھی پیدا ہوا تھا ۔ آج مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہی اصلی اور سچی تحریک پاکستان تھی۔ دنیا کے ہنگاموں سے دور ایک چھوٹی سی بستی جس کے سب جوان ، بوڑھے ، مرد و زن علی الصبح تاروں کی چھائوں میں اٹھ کر کھیتوں کھلیانوں کو جاتے اور شام کو شفق کے سایہ میں ڈھور ڈنگر لے کر گائوں کو لوٹتے ۔دنیا سے بے خبر اس بستی میں کچھ ایسی ہوا چلی کہ سب جوانوں نے بابا نور عالم کی کھڈی پر بنے کھدر سے وردیاں بنوا لیں اور حکم چند کی ہٹی سے سبز رنگ لے کر انہیں رنگ لیااور جب گائوں میں دوپہر کے سائے ڈھلتے تو یہ نوجوان محلہ ڈھکی کے نائب صوبیدار نور محمد کی زیر کمان محلہ سرائے اورغربی ڈھوک کے درمیان صاف شفاف کھلیانوں پر سبر چاند تارے والا پرچم اٹھائے تین قطاروں میں مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف سینہ پھلائے ہوئے چپ راست چپ راست کہتے ہوئے چلتے اور وقفے وقفے سے نعرے بلند کرتے ۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب گائوں میں افواہ پھیل گئی تھی کہ سکھ کسی بھی وقت گائوں پر حملہ کرنے والے ہیں کیونکہ بیس کلو میٹر دور حسن ابدال میں واقع سکھوں کے مقدس گردوارہ پنجہ صاحب میں پوٹھوہار، ضلع اٹک ، فرنٹیئر اور فاٹا سے ہزاروں کی تعداد میں مسلح سکھ جمع ہو چکے ہیں۔ ظہور بابا لوہار کی دکان پر عجب ہنگام تھا۔ سارا گائوں جمع تھا نمبردار بابا بنفس نفیس موجود تھے گائوں کے تمام نوجوان نہایت جوش و خروش سے ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف تھے ۔ برچھیاں ، چھویاں، ٹکوے اور دیگر ہتھیار بے شمار تعداد میں تیار کئے جا رہے تھے۔ ظہور بابا لوہار پسینے میں شرابور پھٹی پرانی میلی چیکٹ قمیص پہنے آگ کی بھٹی کے سامنے اپنے مضبوط اور بڑے بڑے ہاتھوں میں سنّی پکڑے بیٹھا تھا ۔ جونہی بابا ظہور سرخ لوہا سنّی سے پکڑ کربھٹی سے نکال کر سامنے لوہے کی مڈھی پر رکھتا دو مستعد جوان اس پر بھاری بھرکم ہتھوڑوں کی بارش کر دیتے ۔ نوجوان باری باری ایک خاص ردھم اور تال کے ساتھ ہتھوڑے مارتے تھے اور بابا ظہور اس ردھم کے درمیان نہایت مہارت سے سرخ لوہے کو مخصوص انداز سے الٹتاپلٹا جاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوہا برچھی ، چھوی یا ٹکوے کی شکل اختیار کر جاتا جس کے پیچھے بانس کا دستہ لگا دیا جاتا تھا۔ دو نوجوان تھک جاتے تو دوسرے دو فوراً ان کی جگہ لے لیتے ۔ ہم سب بچے مل کر بھٹی کی دھونکنی پھونکنے کے لئے بابے ظہور کے خود ساختہ پنکھے کا پہیہ باری باری چلاتے تھے۔ لیکن بچے اتنے زیادہ تھے کہ باری پر بار بار جھگڑا ہو جاتا جو بڑے بوڑھے رفع کرتے تھے۔ لالہ ا قبال بیگ کئی دیگر جوانوں کے ساتھ گائوں کی مختلف گلیوں کی نکڑ پر اور بعض مکانات کی چھتوں پر مورچہ بندی کا کام کر رہا تھا۔ عجب سر خوشی ، جوش و خروش اور اتحاد و یکانگت کا سماں تھا۔ بابا ظہور لوہار کی بھٹی میں برچھیاں ، چھویاں اور ٹکوے نہیں پاکستان بن رہا تھا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب گائوں کے پرائمری سکول سے چھٹی کے بعدواپس آتے ہوئے راستے میں شرقی ڈھوک کی مسجد کی دیوار پر لگے ہوئے اشتہار کو دیکھنے سب بچے جمع ہو گئے تھے۔ اشتہار میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒاور مہاتما گاندھی کی تصویریں ایک ساتھ بنی ہوئی تھیں ۔ حکم چند کے بیٹے لڈو ، تلسی رام کے بیٹے لال ، ہری سنگھ اور دیگر ہندو گروہ کے لڑکوں کے ساتھ اس بات پر بحث مباحثہ ہو گیا کہ وہ کہتے تھے کہ گاندھی کی تصویر خوبصورت ہے اور ہمارا دعویٰ تھا کہ قائد اعظم کی تصویر خوبصورت ہے ۔ جب بحث مباحثہ صبر و تحمل کی حد پھاند گیا جوش و خروش بڑھا دونوں اطراف سے نعرہ بازی گالم گلوچ سے آگے نکل کر جنگ و جدل تک آ پہنچا۔ ہم نے اپنے روایتی ہتھیار بستے اور تختیاں مار مار کر لڈو اور لال کو ادھ موا کر دیا ۔ اس روز ہم بھی بہ زعم خود پاکستان ہی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اور یہی جذبہ تھا جو لنگڑے خیر دین پٹھیارے کو جسے اب سب گائوں والے غازی کہتے ہیں گائوں کے دیگر نو جوانوں کے ساتھ حملے کے لئے آنے والے سکھوں کا راستہ روکنے کے لئے ’’پڑی ‘‘ کی پہاڑی کے پیچھے پکی سڑک پر لے گیا تھا ان نوجوانوں کے پاس صرف برچھیاں اور چھویاں تھیں ۔وہاں سکھوں اور ان نو جوانوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی کئی نوجوان زخمی ہوئے ۔ اٹک توپ خانہ سینٹر سے فوج نے آ کر گولی چلا دی ایک گولی خیر دین کی ران سے آر پار ہو گئی اور اسی وجہ سے خیر دین لنگڑا ہو گیا تھا۔ اب مدت ہوئی خیر دین مر چکا ہے جب تک زندہ رہا سب گائوں والے اسے غازی خیر دین کہتے تھے۔ پاکستان انہی غازیوں کے خون کا صدقہ ہے ۔ اور پھر پاکستان بن گیا مجھے اس طرح یاد ہے کہ اُس روز سارے گائوں میں چراغاں ہوا تھا ۔ ہم نے بھی پھتہ بابا کمہار کے گھر سے مٹی کے دیئے خریدے تھے اور ان میں تیل ڈال کر پاکستان کے درو دیوار روشن کئے تھے ۔ اس رات کو گائوں کے وسط میں شاہ ربانہ کی درگاہ کے سیمنٹ والے تھلے پرجو اکثر ایسی تقاریب کا مرکز ہوتا ہے، گائوں کے سہرے اور دوہے گانے والے خوش الحان لالہ شیر احمد نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گھڑے اور طبلے پر زوردار قوالی کی تھی۔ گائوں کے بچے ، بوڑھے ، جوان سبھی خوش و خرم چہروں کے ساتھ جمع تھے۔ ملت ہے فوج فوج کا سردار ہے جناح اسلامیوں کے ہاتھ میں تلوار ہے جناح اب دیکھ آنکھ کھول کے اور دور دور دیکھ اے قوم تیرا دیدہ بیدار ہے جناح -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں