فضل پھر ایک نئی امید کے لیے اپنی کشتی کو دھکیلتا ہوا تیرتے ہوئے جال کی طرف بڑھا مگر اس جال میں بھی اسے ایک کچھوا پھنسا ہوا ملا۔ اب تو فضل پر جنون سوار ہو گیا۔ اس نے جال کو کشتی سے باندھا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا غصے کی حالت میں کنارے کی طرف آنے لگا، کنارے پر پہنچتے ہی اس نے جال کو کھینچا اور خشکی پر لے آیا۔ جہاں جال میں پھنسا ہوا بڑا سا کچھوا آزاد ہونے کے لیے بری طرح مچل رہا تھا۔ کچھوے کو جلا سے نکالتے ہی اس ظالم نے ایک بڑا موٹا سا ڈنڈا اپنی کشتی سے نکالا اور بے تحاشا اس بے چارے کچھوے کو مارنے لگا۔ کشتی ہی میں اس کا معصوم ممو بیٹھا ہوا تھا وہ ہمدردی سے چیخا۔ نہ مار اسے ابا…. نہ مار، مگر اس ظالم پر اس کا ایک بھی اثر نہ ہوا۔ تکلیف سے کچھوا پتھر کی طرح سخت ہو گیا مگر ممو کو اس کی تکلیف کا اندازہ اس کے کانپتے ہوئے وجود سے ہو رہا تھا۔ جب بہت مار پیٹ کر فضل نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو اس نے ایک مضبوط سی رسی سے کچھوے کی ٹانگ باندھی اور انتہائی قوت سے کچھوے کو کھینچتا ہوا بجلی کے کھمبے کے پاس لے گیا پھر پوری قوت لگا کر کچھوے کو کھمبے سے لٹکا کر باندھ دیا۔ یہ کام کرتے ہوئے اس کی سانس بری طرح پھول گئی تھی اور پیشانی پسینے سے تر بتر ہو گئی۔ ارے بابا اتنا مار کر اس بے چارے کو کیوں لٹکا دیا، ایسے لٹکتے لٹکتے تو یہ مر جائے گا ممو نے اداسی اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں کہا مرتا ہے تو مر جائے۔ فضل نے کچھوے کو تکلیف سے مچلتے ہوئے دیکھ کر غصے سے کہا۔ ایسا ظلم نہ کر ابا…. اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا۔ تو چپ کر شام سے پہلے پہلے تیس چالس کلو مچھلیاں پکڑنی ہیں ٹھیکیدار کو کل بھی پیسے نہیں دیے تھے جبکہ پہلے والے دونوں جال بھی مچھلیوں سے خالی تھے۔ ممو کا ابا اس وقت بہت غصے میں تھا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے ابا کی اس حرکت پر افسردہ اور غمگین تھا وہ چاہتا تھا کہ کچھوے کو آزاد کر کے اس کی تکلیف کو دور کر دے مگر فی الحال وہ اپنے ابا کے غصے کے آگے مجبور تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی ممو کی ماں فضل کا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ آج میاں کا پارہ چڑھا ہوا ہے۔ وہ فضل کے چہرے پر لکھی پریشانی کو پڑھ تو نہ سکی مگر پھر بھی پوچھ بیٹھی۔ کیا ہوا خیر تو ہے۔ آج بھی دو کلو مچھلیاں نہیں لگیں۔ ریا کا بند ابھی کھلا نہیں ہے۔ کچھوؤں نے الگ ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ ادھر ٹھیکیدار الگ پریشان کر رہا ہے۔ ممو کے ابو نے فکر مندانہ انداز میں کہا۔ ممو کی ماں بولی۔
اللہ ہماری پریشانی سے خوب واقف ہے تو فکر نہ کر اللہ بھلا کرے گا۔
چائے لاؤں ، ممو کی امی نے رخ بدلتے ہوئے پوچھا۔
ہاں لے آ، اب تو بس اللہ ہی عزت رکھے ، اگر دریا کا بند کھل جائے تو ساری پریشانیاں دور ہو جائیں۔ فضل نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔
ممو، لے بیٹا چل وحید سے دو روپے کا دودھ لے آ۔ اس وقت تو ممو خود باہر اڑ جانے کے چکر میں تھا۔ برتن اور پیسے لیتے ہی وہ تیزی سے باہر کی جانب دوڑا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ، اگر کچھوے کو بچانا ہے تو ابا ناراض ہو جائے گا اور اگر ابا سے ڈرنا ہے تو کچھوا مارا جائے گا اور اس کا عذاب ابا پر آئے گا۔ اب کیا کروں۔
ممو دل و ضمیر کے ہاتھوں پریشان تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح اس کچھوے کو بچانے کہ ابا بھی ناراض نہ ہو اور اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو جائے۔ آخر اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ ابا کی ناراضگی کچھوے کی زندگی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ پھر وہ دوڑتا ہوا دریا پر آیا کشتی سے بندھی رسی کو کھولا اور اللہ کا نام لے کر کشتی کو آہستہ آہستہ بجلی کے کھمبے کی طرف لے جانے لگا۔ ممو بہت چھوٹا تھا جبکہ کشتی کے چپو انتہائی بڑے تھے اور کافی قوت سے چلانا پڑ رہے تھے مگر اسے تو صرف کچھوے کو بچانے کی فکر تھی۔ چپو چلاتے چلاتے اس کے دونوں بازو تھک گئے تو اس نے کشتی کو دریا ہی میں روک دیا۔ کنارا ابھی کافی دور تھا جبکہ ممو جلد از جلد کنارے تک پہنچنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر ہمت کی اور کافی کوشش کے بعد کشتی کو دورسرے کنارے تک لے ہی آیا۔ کنارے پر آتے ہی اس نے دونوں چپو کشتی میں ڈالے اور کنارے پر ایک بڑی سی لکڑی کو ٹھونک کر اسے مضبوطی سے باندھ دیا۔ اس کام سے فارغ ہوتے ہی وہ انتہائی سرور کیفیت میں بھاگتا ہوا کچھوے کے پاس پہنچا جو کہ ابھی تک بجلی کے کھمبے سے اوندھا لٹکا ہوا تکلیف سے بری طرح مچل رہا تھا۔
کچھوے میرے ابا نے واقعی تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا ہے میں تمہیں آزاد کرانے کے لیے آیا ہوں۔ ہوسکے تو میرے ابو کو معاف کر دینا۔ ممو نے کہا اور فوراً ہی پول کے ساتھ بندھی رسی کھول دی۔ رسی کا کھلنا تھا کہ کچھوا دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ پھر ممو نے بغیر کسی خوف کے کچھوے کے پاؤں کی رسی بھی کھول دی۔
جاؤ، جاؤ کچھوے اب تم آزاد ہو، ممو نے کہا۔
رسی کا کھلنا تھا کہ کچھوے نے ایک نظر ممو پر احسان مندی سے دیکھا اور پھر پوری قوت سے دریا کی طرف بڑھنے لگا۔ اس وقت ممو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ دریا کے قریب پہنچتے ہی کچھوے نے ایک نظر پھر ممو کو دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دریا کی تیز لہروں میں غائب ہو گیا۔ دریا کا بند اب کھل چکا تھا اور ایسے میں دریا میں کشتی چلانا اور واپس دوسرے کنارے اپنے گاؤں تک پہنچنا ناممکن تھا۔ پانی کے تیز بہاؤ کو دیکھتے ہی ممو تو پریشان ہو گیا کہ اب کیا کرے اور کس طرح واپس جائے۔ خیر ریلوے پل کے اوپر سے جانے کا راستہ تھا۔ پل کا خیال آتے ہی ممو کو کچھ سکون ملا۔ پل پر پہنچتے ہی اس نے پل کے دونوں جانب دیکھا کہ کہیں ریل تو نہیں آ رہی۔ پورا اطمینان کرنے کے بعد ممو تیزی سے پل پار کرنے لگا۔ پل دریا کے اوپر کوئی تین سو فٹ لمبا اور دریا سے سو فٹ بلند تھا۔
ادھر جب کافی وقت گزرا تو فضل پریشان ہو گیا۔ پھر ممو کے دوست رحمت نے فضل کو بتایا کہ اس نے ممو کو دریا کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ یہ سنتے ہی فضل دوڑتا ہوا لنگر والی جگہ پر آیا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کی کشتی دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑی تھی جبکہ دور بجلی کے کھمبے سے لٹکا ہوا کچھوا بھی اسے نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس وقت فضل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے کیوں کہ دریا کا بند کھلنے کی وجہ سے پانی میں تیزی آ گئی تھی اور دوسری پریشانی کی وجہ یہ بھی تھی کہ دور دور تک اسے ممو نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسے میں دریا میں دوسری کشتی ڈالنا یا تیر کے دریا پار کرنا بہت مشکل تھا لہٰذا فضل نے وقت ضائع کیے بغیر پل کی جانب دوڑ لگا دی۔ پل سے تھوڑا ہی دور تھا مگر پریشانی اور گھبراہٹ سے فضل کو پسینہ آنے لگا۔ ریلوے لائن پر آتے وہ پوری قوت سے پل کی جانب دوڑا پل پر پہنچتے ہی اس نے دیکھا کہ ممو آہستہ آہستہ پل پار کرتا ہوا اس طرف آ رہا تھا۔ اچانک ہی فضل کو ممو کے پیچھے سے ٹرین آتی ہوئی نظر آئی۔ فضل نے چیخ کر ممو سے کہا۔ ممو واپس چلا جا، ممو واپس چلا جا، پیچھے سے ریل آ رہی ہے۔ اب ممو نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ مزید بدحواس ہو گیا کیوں کہ ریل پوری رفتار سے پل کی طرف ہی آ رہی تھی۔ ایسے میں فضل نے اڑ کر ممو تک پہنچنا چاہا مگر یہ ناممکن تھا اپنے پیچھے دیکھتے ہی ممو واپس پلٹ اور دوڑتے ہوئے پل پار کرنے لگا۔ گھبراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں اس کی رہی ہمت بھی جواب دے رہی تھی۔ فضل کا ممو تک پہنچنا ناممکن تھا مگر پھر بھی اس نے اپنے ممو تک پہنچنے کے لیے پل پر دوڑ لگا دی۔
بھاگ ممو بھاگ، جلدی بھاگ۔ مگر اس سے پہلے کہ فضل ممو تک پہنچتا، ریل ممو کے سر پر آ گئی، اب جو اپنے سامنے موت کو آتے ہوئے دیکھا تو ممو کو دوسرے کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے دریا کے بہتے ہوئے دھارے میں چھلانگ لگا دی۔ ممو کو دریا میں کودتے دیکھتے ہی فضل بھی دریا میں کود گیا مگر ممو اس کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ بند کھلنے کی وجہ سے دریا میں جیسے طغیانی آئی ہوئی تھی۔ ایسے میں طوفانی لہروں نے ممو کو طری طرح اچھالا مگر وہ معصوم بچہ تھا اسے تو ابھی صحیح طرح سے تیرنا بھی نہیں آتا تھا۔ فضل نے ممو کے قریب پہنچنے کی بہت کوشش کی مگر اس کے سامنے ہی ایک زبردست لہر نے ممو کو غوطہ دیا اور پھر دوسرا غوطہ، فضل کی تو چیخ نکل گئی۔ دوسرے غوطے کے بعد ہی ممو پھر سے پانی کی سطح پر نمودار ہوا۔ فضل نے دیکھا کہ وہ تختے جیسے کسی چیز سے چمٹ گیا ہے۔ فضل جلد از جلد اپنے بچے تک پہنچنا چاہ رہا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ چیز ممو کو کنارے کی طرف لے جانے لگی۔ وہ چیز اضل میں کچھوا تھا جس نے جب اپنے محسن ممو کو تکلیف میں دیکھا تو بھاگ کر آیا، قریب پہنچنے پر فضل نے دیکھا کہ ممو کے نیچے سے تختہ نکل گیا۔ اتنی دیر میں فضل بھی ممو تک پہنچ چکا تھا، اپنے بچے کو صحیح سلامت دیکھتے ہی فضل نے خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے اپنے ممو کو گلے لگا لیا۔
اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو میں جیتے جی مر جاتا میرے بچے ، فضل نے محبت سے اپنے بچے سے پیار کرتے ہوئے کہا۔
ابا یہ سب اللہ کی مہربانی سے ہی ہوا ہے۔ بھلائی کا بدلہ جانور بھی دینا جانتے ہیں۔ اگر آج کچھوا بھلائی کا بدلہ بھلائی سے نہ دیتا تو میں ڈوب ہی گیا ہوتا۔ ممو نے سچی بات کہی جو کہ فضل کے دل میں اتر گئی۔
تم سچ کہتے ہو، غلطی میری ہی تھی۔ کچھوے تم نے احسان کا بدلہ احسان سے دیا۔ میں اپنے کیے پر نادم ہوں، ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا۔ فضل نے اپنے ممو کو گود میں اٹھا کر کچھوے کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔ کچھوا آہستہ آہستہ واپس دریا کی طرف جانے لگا۔ پھر قریب پہنچتے ہی اس نے فضل کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہوں۔
بھلائی کا اجر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں