سید عارف مصطفیٰ
ہم عرصے سے تقویٰ اختیار کرنے کے چکر میں ہیں لیکن وہ ہمیں نجانے کیوں اختیار نہیں کرتا، حالانکہ ہم ایسا کوئی موقع یوں آسانی سے نہیں جانے دیتے کہ ہمارے زہد و اتقاء کے درجات کے بلند ہونے کا ذرا بھی امکان پیدا ہو اور یہ پاپی دنیا اس کے نظارے سے محروم رہ جائے۔
جب ہمیں کل اطلاع ملی کہ ناظم آباد عید گاہ میں اتوار کودس بجے خشک و گرم موسم سے پیدا ہونے ولی قلتِ آب کے خاتمے اور بارانِ رحمت کی التجاء کے لئے نماز استسقیٰ ادا کی جائے گی تو بھلا کون ایسا تھا ہمارے ملنے والوں میں کہ جسے ہم نے یہ نہ بتایا ہو کہ کل دس بجے ہم سے رابطہ نہ کرنا کیونکہ ہم اس وقت عیدگاہ میں اہلِ ایمان کی معیت میں نماز استسقیٰ کی ادائیگی میں مصروف ہوں گے اور ساتھ یہ بھی کہنا ضروری سمجھا کہ ’’میاں ذرا دیر ہی کے لئے سہی لیکن ان آلائشِ دنیاوی سے جان چھڑانے کی ہمت کر سکو تو تم بھی وہاں پہنچ جانا۔
اس موقع پہ ہم نے اکثر مخاطبین کے چہرے پہ رشک، حسد اور بیچارگی و ناز وغیرہ وغیرہ پہ مبنی کتنے ہی رنگ آتے جاتے دیکھے تاہم کئیوں سے یہ سننے کو بھی ملا کہ یار کتنی ہی بار بتا چکے ہو اب تو یہ سبق پکا یاد ہو چکا ہے لیکن ہم جلنے والوں کی بات کوئی دل پہ تھوڑا ہی لیتے ہیں۔
ایک جذبہ مگر ایک اور بھی تھا جو اس وارفتگی کے پیچھے موجزن تھا جسے میں اپنے ایک دوست کے نام کی نسبت سے یاد کرپاتا ہوں اور وہ ہے سید اشتیاق علی۔ ۔ ۔ اوہ، میں پورا نام لے بیٹھا جبکہ یہاں مراد صرف ’’اشتیاق‘‘ تک محدود ہے تو معاملہ یہ بھی تھا کہ ہمیں بہت اشتیاق تھا کہ آخر یہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے کیونکہ باقی اور طرح کی نمازیں تو پڑھتے ہی رہتے ہیں لیکن صلواۃ الخوف، کسوف، خسوف اور نمازاستسقاء پڑھنے کا موقع کبھی نہیں ملا، تاہم یہ بدگمانی ضرور ہے کہ کندھوں پہ سوار کراماً کاتبین نے امتحانات کے زمانے میں ’’خشوع و خضوع‘‘ سے پڑھی جانے والی نمازوں کو ’’صلواۃ الخوف‘‘ کے کھاتے میں ہی شمار کیا ہو گا۔
ہفتے کی شب بیگم کو بار بار پر زور تاکید کر کے سوئے کہ دیکھو صبح دس بجے ہمیں نماز استسقیٰ پڑھنی ہے اس لئے ہمیں وقت پر اٹھا دینا۔ اُن کے چہرے پہ حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھے تو الٹی چڑھائی کر دی ’’کیا تم نہیں چاہتیں کہ قلتِ آب کا یہ مسئلہ حل ہو، کیا تم کو ابرِ رحمت کے برسنے سے کوئی غرض نہیں ؟‘‘
ہمارا یہ بیان دو گھنٹے مزید چل سکتا تھا لیکن ہم کیا کریں، بیگم نے اقراریہ گردن ہلا نے ہی میں عافیت جانی اور ہمارے اندر کے مقر ر کو تسکین مزید کا موقع نہ دیا۔
صبح کس ڈھنگ سے اٹھے اور کس دھج سے گئے یہ پوچھنے نہیں اندازہ کرنے کی بات ہے۔ ہم سے زیادہ بیگم میں جذبۂ ایمانی بھڑکا ہوا تھا، یوں بھیجا گویا گھر سے دھکیلا ہو لیکن اِس سے قبل ہم نے جلدی جلدی ناشتہ کرنا ہرگز نہیں بھلایا اور اس سے قبل یہ طعنے مارنا بھی یاد رکھا۔ ۔ ۔ ’’ واہ!یونہی بھوکا بھیجنے پہ تلی ہو، خالی پیٹ نماز میں خشوع و خضوع کیسے آ سکتا ہے بھلا اور خشوع و خضوع نہ ہو تو کیسی نماز؟‘‘
بیگم نے جلدی جلدی میں نجانے کیا بنا کر دے دیا کہ بہت لذیذ لگا اور سمجھ نہیں آیا کہ ایمرجینسی میں چیزوں کے ذائقے بڑھ کیوں جاتے ہیں شاید اس لئے کہ خلش پیدا ہو اور آئندہ از خود کسی ایمرجینسی کو ’’دریافت‘‘ کریں۔ بڑے تام جھام سے باہر نکلے۔ اتوار کا دن تھا اور ہر طرف سناٹے کا عالم تھا۔ دنیا داروں کی کی غفلت پہ بہت رنج ہوا کہ پڑے گھروں میں سوتے تھے۔ ۔ یہ رنج اس لئے اور بھی بڑھا ہوا محسوس ہوا کہ کوئی ہمیں دیکھنے والا ہی موجود نہ تھا کہ دیکھ پائیں کہ ایک ہم ہیں کہ ’’صبح صبح‘‘ اُن غافلوں کی آبیاری و راحت کا سامان کرنے کا کشٹ اٹھا رہے ہیں تاہم آگے تین چار جو ملے تو ہم نے بہت زور لگا کر سلام کیا اور اُن کو یہ پوچھنے کی زحمت سے بھی بچا لیا کہ ہم اس وقت کہاں جا رہے ہیں اور خود ہی راہ تقویٰ کی اس مسافت کو کھول کر بیان کر دیا۔ اُن میں سے ایک نے تو وفور جذبات سے ہمارے کندھے پہ تھپکی بھی دی لیکن نجانے کیوں ہمیں یہ تھپکی ہمیں اس سے مشابہ معلوم ہوئی کہ جو دیر سے رکی کسی پبلک بس کا کوئی بیتاب مسافر اپنی بس کو دیتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے ’’جانے دو!‘‘
عیدگاہ ہمارے گھر سے بہت دور ہے اور وہاں پہنچتے پہنچتے ہماری چال میں تمکنت اس درجہ بڑھ گئی تھی کہ انجان دیکھتا تو سمجھتا کہ گویا عیدگاہ اپنے نام الاٹ کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور قبضہ لینے کو آئے ہیں۔ وہاں بہت سے اہل ایمان حاضر تھے، جلدی میں جائے نماز ساتھ لانا بھول گئے تھے لیکن وہاں جس طرح اکثر لوگ دوسرے کی جائے نماز پہ براجمان تھے اور مالکان مہمان معلوم تھے، ہم نے بھی ایسی ہی خوداعتمادی سے کام لیا اور پیر پسارلئے۔
کھلی جگہ، گرمی کا موسم اور کسی شامیانے یا سائبان کے نہ ہونے کی بے امانی، پھر مولوی صاحب کی طویل تقریر۔ ۔ ۔ مت پوچھیئے کہ چند ہی منٹوں میں ہمارے تقویٰ کو کیا کیا خطرات لاحق نہ ہوئے۔ دل کہتا تھا کہ بس مولوی صاحب تقریر موقوف کر کے جلدی سے نماز پڑھا دیں اور پھر جی بھرکے لمبی تقریر کریں، پھر ہم نے کون سا وہاں رکنا ہے لیکن میں نے مولوی صاحبان کو ہمیشہ ہی سامعین سے زیادہ سیانا پایا ہے، شیر اور مولوی کسی کے سامنے آ جائیں تو پھر جو کرتے ہیں، و ہی کرتے ہیں، سامنے والا تو صرف صبر ہی کرتا ہے، سو ہم نے بھی کیا اور پھر نماز شروع ہوئی جو دو رکعات کی تھی۔ بلاشبہ ایک ایسا جذبۂ ایمانی وہاں پایا کہ نماز بہت لطف دے گئی اور اس سے زیادہ دعا کہ نماز استسقاء کی دعا کے لئے ہاتھوں کی ہتھیلیاں نیچے کی جانب رکھی جاتی ہیں جو ایک بہت منفرد تجربہ بھی تھا اور تقدیر بنانے والے سے التجاء کر کے خشک موسم کی حالت پلٹ دینے کا استعارہ بھی۔ چھوٹے، بڑے، بوڑھے اور جوان سبھی نہایت عاجزی سے دست بدعا تھے۔ دعا کیا تھی گویا مخلوق اپنے خالق سے کلام کر رہی تھی، فریاد کناں تھی۔
عیدگاہ سے بہت دیر میں نکل سکے محض ایک چھوٹے سے گیٹ کو بس اتنا کھلا رکھا گیا تھا کہ گویا باہر پھرتی کسی گائے بھینس کو اندر آنے سے روکنا مقصود ہے۔ مقام تقویٰ پہ ان کا کیا کام لیکن یہ صاحبان توند کے لئے بہت بڑے امتحان کا وقت تھا جو اُنہوں نے سانس بھینچ کر , ترچھے ہو ہو کر پاس کیا تاہم باہر آنے کے بعد اُن کے چہروں سے جو سکون ہویدا تھا وہ بتاتا تھا کہ وہ اس مشقت کو پل صراط کے ٹریننگ پروگرام کے طور پہ لے چکے ہیں۔
ہم فاتحانہ طور پہ دائیں بائیں دیکھتے اور اہل دنیا کے ابھی تک خواب غفلت میں مبتلاء رہنے پہ کڑھتے ہوئے گھر پہنچے۔ صاف لگتا تھا کہ اہل محلہ نے تقویٰ کے معاملے میں سارا انحصار ہم ہی پہ کر رکھا ہے اور یہ شرف ایک ہمارے ہی نصیب میں آیا ہے لیکن ہم نے بھی اُنہیں مایوس قطعاً نہیں کیا۔ خیال یہ تھا گھر میں گھستے ہی بیگم کو اپنے تقویٰ کی حکایات کی باڑھ پہ رکھ لیں گے اور انہیں ب اور کرا چھوڑیں گے کہ ہماری بابت اُن کی بدگمانیاں کس قدر بے بنیاد ہیں لیکن اس کی نوبت ہی نہ آ سکی۔ بیگم کے چہرے ڈھیروں تشویش عیاں پائی اور انہوں نے برسات سے پہلے ہی برسنے کی باری لگا لی تھی ’’تو آپ پڑھ آئے نماز ؟‘‘
’’کیوں کیا یہ اجلی سی ٹوپی اور ہمارے چہرے پہ دمکتا ہوا یہ نور تمہیں ب اور نہیں کراتا کہ ہم کس مقدس مشن سے آ رہے ہیں ؟‘‘
’’نہیں ! یہ بات نہیں۔ ۔ ۔ میں تو یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ جب آپ جلدی جلدی میں گھر سے وضو کئے بغیر ہی بھاگ نکلے تھے اور عیدگاہ میدان میں وضو کا کوئی تو سلسلہ ہی نہیں ہے تو پھر آپ کیا کر کے آ رہے ہیں ؟‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں