پیر، 8 اگست، 2016

بچوں کی محفل: شیر شاہ سوری


تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اقتدار کے لیے بڑی بڑی جنگیں ہر زمانے میں بہت زور و شور سے لڑی جاتی رہی ہیں۔ ہر طاقتور نے کمزور کو دبا کر ا پنی حکومت تو بنا لی لیکن اس منصب کو استقامت کے ساتھ قائم رکھنا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔
بادشاہت کی گدی پر براجمان ہونے کے بعد ہر بادشاہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام نے اس سے ان گنت توقعات وابستہ کی تھیں، وہ خود غرض، عیاش اور ظالم ثابت ہو چکنے کے بعد عوام کی امیدوں پر پورا نہ اترے تو بادشاہت کی کرسی تا دیر اس کے ہاتھ نہیں رہتی حتیٰ کہ وہ نیست و نابود ہو جاتا ہے اور اس کا نام لیوا کوئی نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی رہے ہیں جنہوں نے خود کو تاریخ میں امر کر دیا۔
اس کے والدین نے اس کا نام فرید خان رکھا تھا لیکن حالات و واقعات کی پھرکی گھومنے پر وہ تاریخ میں شیر شاہ سوری کے نام سے جانا جانے لگا۔ وہ اپنے باپ کا بڑا بیٹا تھا۔ لیکن اس کے باپ کی دوسری بیوی اور شیر شاہ سوری کی سوتیلی ماں جو شیرہ شاہ سے شدید نفرت اور حسد کرتی تھی۔
فرید خان سے شیرہ شاہ وہ اپنی بہادری، فہم و فراست اور معاملہ فہمی کی بناء پر بنا۔ اس نے بہار کے حاکم سلطان محمد کی ملازمت کی اور شکار میں اس کی جان اس وقت بچائی جب ایک شیر اس پر حملہ کر رہا تھا۔ سلطان محمد نے اس کی بہادری پر اسے شیر شاہ کا خطاب دیا۔ ابراہیم لودھی جو کہ اس وقت تقریباً آدھے ہندوستان کا حکمران تھا، نے ہر علاقے میں اپنے حاکم مقرر کیے تھے۔ جونپور کا حاکم امیر جمال خان تھا جس کے ہاں شیر شاہ سوری کے والدہ حسن خان ملازمت کرتے تھے ، امیر جمال خان نے حسن خان کی جرات و بہادری کی قدر کرتے ہوئے اسے پانچ سو سپاہیوں کا سالار مقرر کیا اور دو جاگیریں بھی عنایت فرمائیں تھیں۔
فرید خان بہت ذہین تھا۔ اس نے تین برسوں میں فارسی پر عبور حاصل کر لیا۔ اس کے علاوہ ادب، تاریخ اور مذہب میں بھی خاصی دسترس حاصل کر لی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں پٹھانوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں پایا جاتا تھا، پٹھان جنگ جو تھے اور فوج میں ہی اپنی ذہانت اور شجاعت کے جوہر دکھایا کرتے تھے ، اس لیے فرید خان کا اس طرح لکھ پڑھ جانا اس دور میں بڑی بات تھی، ویسے بھی جونپور اس زمانے میں علم و ادب اور فنون کا گہوارہ تھا، اسے برصغیر پاک و ہند کا شیراز بھی کہا جاتا تھا۔
پڑھائی ختم کرنے کے بعد شیر شاہ نے اپنے والد کی دونوں جاگیروں کی باگ دوڑ سنبھالی۔ فرید خان کا یہ دور بعض مورخوں کے نزدیک جو چودہ سو اٹھانوے سے پندرہ سو اٹھارہ تک مشتمل ہے ، بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس زمانے میں اس نے جو کارنامے سر انجام دیے ان سے ثابت ہوا کہ وہ مستقبل میں زبردست حکمران ثابت ہو گا اور اس میں ملک کا نظم و نسق چلانے کی زبردست صلاحیتیں پنہاں تھی، اس نے پوری جاگیر کو قابل کاشت بنا کر اس کی پیمائش کروائی۔ نظم و نسق درست کیا اور جاگیر کی آمدنی میں خوب اضافہ کیا، پیداوار کا تناسب مقرر کر کے اس کے حساب سے مالیہ مقرر کیا۔ مالیہ وصول کرنے والے کارندوں کو سختی سے سمجھا دیا کہ وہ کسی کاشتکار سے سختی سے پیش نہ آئیں، یوں جاگیر میں خوش حالی اور امن و امان کا دور دورہ شروع ہوا اور لوگ شیر خان کو دل و جان سے چاہنے لگے ، شیر شاہ کی یہ مقبولیت اور ہر دلعزیزی اس کی سوتیلی ماں کو قطعاً پسند نہ آئی اور اس نے شیر شاہ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔
شیر شاہ اپنی ماں کی سازشوں اور باپ کی بے بسی سے بد دل ہو کر اپنے سگے بھائی نظام کے ساتھ آگرہ چلا آیا۔
٭….٭….٭
امیر جمال خان فرید خان کا دشمن ہو چکا تھا کیوں کہ اس نے اس کا مشورہ نہیں مانا تھا کہ دونوں بھائی، فرید خان اور اس کے سوتیلی ماں کا بڑا بیٹا سلیمان آپس میں جاگیر تقسیم کر لیں لیکن قانون کی رو سے جاگیریں بڑے بیٹے فرید خان کی ملکیت تھیں۔ فرید خان نے اپنی حیثیت کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے خوب غور و فکر کے بعد صوبہ بہار کا رخ کیا۔ صوبہ بہار پہنچنے پر شیر شاہ سوری نے جہاں در خان توہانی کی ملازمت اختیار کی جو کہ سلطان محمد کے لقب سے حکومت کر رہا تھا اور اسی سلطان محمد کی شیر سے جان بچانے پر اسے شیر شاہ کا لقب دیا اور اس کے منصب میں بھی اضافہ کیا۔
شیر خان نے حالات کو سنبھالا دینے کے لیے بہتر یہی سمجھا کہ وہ واپس اپنی جاگیروں پو چلا جائے۔ اس نے نہ صرف اپنی جاگیریں واپس لیں بلکہ جون پور اور آس پاس کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ جما کر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی اور اس کے بعد اپریل پندرہ سو ستائیس کو بابر کی ملازمت کی اور بہت جلد اپنی بہادری، محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر ظہیر الدین بابر کے قریب پہنچ گیا، لیکن بہت جلد ظہیر الدین بابر بھانپ گیا کہ شیر شاہ بہت خطرناک آدمی ہے اور وہ مغلوں کو ہندوستان سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے ، بابر نے شیر شاہ کی کڑی نگرانی کا حکم دیا اور اپنے جاسوس اس کے پیچھے لگا دیے۔ شیر شاہ کو معلوم ہوا تو وہ بھاگ کر اپنی جاگیر پر آ گیا۔
کچھ عرصہ جاگیر پر رہنے کے بعد شیر شاہ کا دل یہاں سے اکتا گیا اور وہ دوبارہ سلطان محمد کے پاس چلا گیا۔ سلطان اس وقت ملک دشمن اور حاسدوں کی چالوں کو سمجھ چکا تھا اس لیے سلطان نے شیر شاہ کے دوبارہ آنے پر خوب آؤ بھگت کی اور اسے پھر اس کے عہدے پر بحال کر دیا۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا نہ تھا کہ سلطان محمد حاکم بہار کا انتقال ہو گیا۔
سلطان محمد کے بعد اس کا بیٹا جلال خان جو کہ ابھی چھوٹا تھا کو تخت پر بٹھا دیا گیا، دوسری طرف ابراہیم لودھی کے بھائی محمود لودھی نے بنگال میں اپنی حکومت بنا رکھی تھی، محمود لودھی نے بعض اختلافات کے باعث بہار پر فوج کشی کا حکم صادر فرمایا، مگر اسے شیر شاہ نے شکست فاش دی۔ محمود لودھی نے شیر شاہ کو اپنی آن کا مسئلہ بنایا اور جلال خان کے ساتھ مل کر شیر شاہ کے خلاف سازش شروع کر دیں۔ شیر شاہ نے ان کی سازشوں کو اپنے پیروں تلے روند کر بہار پر قبضہ کر لیا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور شیر شاہ سوری نے آہستہ آہستہ اپنی مملکت میں اضافہ شروع کر دیا، بہت جلد ہی ہندو حکمران اور نام نہاد حکمرانوں کا قلع قمع کر کے ہندوستان میں ایک مضبوط اور مربوط اسلامی حکومت کا نظام قائم کر دیا گیا۔
شیر شاہ سوری کا دور حکومت صرف پانچ سال۔ پندرہ سو انتالیس سے پندرہ سو پینتالیس تک رہا اور اس نے اپنے اس مختصر سے دور اقتدار میں ملک کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں برپا کیں اور عوامی بہبود کے لیے بڑے بڑے موثر کام سرانجام دیے اور آج بھی سینکڑوں برس گزرنے کے بعد بھی لوگ ان کے ان عوامی بہبود کے کاموں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی چھوڑی ہوئی یادگاروں سے آج بھی انسان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
شیر شاہ سوری نے اپنے مختصر سے دور حکومت میں قیام امن، رعایا کی بھلائی، جرائم کا خاتمہ، سلطنت کا استحکام، تجارت میں ترقی، زراعت میں اضافہ، نظام مالیہ کا اجراء کیا۔ اس کے علاوہ شیر شاہ نے چار عظیم سڑکیں تعمیر کروائیں جن سے آج تک استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے ، پہلی سڑک سنار گاؤں جو کہ موجودہ بنگلہ دیش سے شروع ہو کر آگرہ، دھلی اور لاہور سے ہوتی ہوئی دریائے سندھ تک پہنچتی تھی، اسے جرنیلی سڑک کہتے ہیں، اس کی لمبائی ڈیڑھ ہزار کوس تھی، دوسری سڑک آگرہ سے بنارس تک جاتی تھی، تیسری سڑک آگرہ سے جودھ پور تک جاتی تھیں، چوتھی سڑک لاہور اور ملتان کو ملاتی ہے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ شیر شاہ نے ان سڑکوں پر ایک ہزار سات سو سرائیں تعمیر کروائیں۔
ان سراؤں کی خصوصیات یہ تھیں کہ ہر سرائے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے رہائش اور خوراک کا انتظام الگ الگ ہوتا تھا، ہر سرائے کے ساتھ مسجد اور کنواں ہوتا تھا، مسجد کے لیے امام کا تقرر ہوتا۔ سامان کی حفاظت کے لیے چوکیدار متعین ہوتے تھے اور دروازے پر پانی کے ٹھنڈے مٹکے رکھے جاتے تھے۔
شیر شاہ سوری بے تعصب حکمران تھا، ہندوؤں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں، انہیں پوری مذہبی آزادی حاصل تھی، ان کے دیوانی مقدمے ان کی اپنی روایات کے مطابق طے کیے جاتے تھے۔ شیر شاہ سوری کا قول تھا کہ:
انصاف سب سے بڑا مذہبی فریضہ ہے۔
کالنجر کی مہم اس کی زندگی کی آخری مہم ثابت ہوئی، اس نے نومبر پندرہ سو چوالیس میں کالنجر کا محاصرہ کیا، اس نے فوج کو گولہ بارود کا حکم دیا اور خود نگرانی کرنے لگا، ایک بارودی ہوائی بھٹی اور بارود خانہ جل گیا، جس سے شیر شاہ سوری شدید زخمی ہوا لیکن یہ مرد مجاہد اس وقت تک زندہ رہا جب تک اسے قلعہ کالنجر کی فتح کی خبر نہ مل گئی تھی۔ یہ بائیس مئی پندرہ سو پینتالیس کا دن تھا۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ آج بھی سہسرام میں فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
شیر شاہ کے بعد اس کا لڑکا بادشاہ بنا لیکن نہایت ظالم اور سخت گیر ہونے کی وجہ سے اپنی حکومت برقرار نہ رکھ سکا، اس کے بعد اور بادشاہ آئے لیکن کوئی بھی جم کر حکومت نہ کر سکا اور بالآخر صرف دس سال میں سوری حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

( مزیدار کہانیاں  سے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں