منور آکاش
کسی بھی خطے کے لوگوں یا قوم کے فن، عقائد، رواج، اقدار، سماجی رویوںکو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس خطے کے ثقافتی تہواروں کا مطالعہ کیا جائے کہ وہ قوم اپنی ثقافتی زندگی اور فن کا اجتماعی اظہار کیسے کرتی ہے۔ہر خطے کا موسم اس کے باسیوں کے مزاج پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور کسی بھی خطے کے تہواروں میں اس خطے کے موسم اور موسموں کے بدلاؤ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں موسم بہار کی آمد پر جشن منائے جاتے ہیں اور مارچ کے مہینے کی مختلف تاریخوں کو جشن بہاراں کے نام سے مختلف ثقافتی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، جن میں مقامی لوگ پھولوں اور مختلف پہناووں کے ساتھ ساتھ روایتی کھانوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔برصغیر میں جولائی اور اگست کے مہینے میں بارشیں ہوتی ہیں، موسم کی تپش کم ہو جاتی ہے اور اسی دوران ساون بھی آتا ہے۔ ساون کو بارش کا مہینہ کہا جاتا ہے، جن خطوں میں بارشیں کم ہوتی ہیں، وہاں بارش کی خوشی زیادہ منائی جاتی ہے۔ انتظار کیا جاتا ہے، دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ سرائیکی خطہ بھی دنیا کے ان خطوں میں سے ایک ہے، جہاں نسبتاً بارشیں کم ہوتی ہیں۔ اس لئے یہاں کے لوک ادب اور اساطیر میں بارش کے متعلق گیت، کہانیاں، کہاوتیں کثیر تعداد میں ملتی ہیں۔ روہی کا ذکر مقامی شاعری میں جتنی بار آیا ساتھ ساتھ، وہاں کی ویرانی ، دھرتی کی پیاس اور بارش کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ساون کے موسم کو بچے بڑے اپنے ہی انداز میں مناتے ہیں۔ بچے مختلف کھیل، کھیل کر ساون کو یاد کرتے ہیں۔ ساون کی بارش میں عورتیں صحنوں اور چھتوں پر نہاتی ہیں۔ ساون کے مہینے میں باغوں میں جھولے ڈالے جاتے ہیں۔ سکھی سہیلیاں جھولے جھولتی ہیں، دکھ درد بانٹتی ہیں، مل جل کر کھیل کھیلے جاتے ہیں اور روایتی گیت گائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر گیتوں میں ساون کے آنے کا استعمال ملتا ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ محبوب کی جدائی کا دکھ اور اس کے آنے کی امید اور اس سے ملنے کی خواہش نمایاں ہوتی ہے۔ آم ساون کے ساتھ جڑا ہوا پھل ہے۔ کھجور، جامن بھی اسی موسم میں ہوتے ہیں۔ باغوں میں جھولے جھولنے کا لطف بھی ساون میں آتا ہے۔ برصغیر کی بہار ساون ہے۔ جیسے ہی ساون کی گھٹا چھا جاتی ہے۔ گھروں میں خاص اہتمام سے کھانے پکائے جاتے ہیں۔ چٹخارے دار پکوان تیار کئے جاتے ہیں۔ میٹھی چیزوں کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔ ساون کے خاص پکوانوں میں سب سے مشہورملتانی خمیری روٹی ہے، جسے ڈولی روٹی بھی کہا جاتاہے۔ یہ روٹی لذیذ بیج ڈال کر کڑاھی میں تیار کی جاتی ہے۔ ساونی سرائیکی خطے کا ایک خاص تہوار ہے، جو مقامی سطح پر ساون کی کسی بھی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ جمعرات کے دن منایا جاتا ہے۔ روایت مشہور ہے کہ اگر جمعرات کے دن بارش ہو جائے، تو وہ پورا ہفتہ جاری رہتی ہے، جسے ’’جمعرات کی جھڑی‘‘ کہا جاتاہے۔ساونی اکثر مرد مناتے ہیں۔ ساون میں نہروں میں طغیانی ہوتی ہے۔ ساونی ساون کی تانیث ہے۔ سرائیکی خطے میں بطور خاص اس رُت میں لڑکے بالے، یار ہمجولی باہم مل کر کسی بھی نہر، ندی، دریا یا ٹیوب ویل پر آموں، کھانے، دودھ اور دیگر مشروبات کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ آغاز اس عمل کا کچھ یوں ہوتا ہے کہ چند دوستوں کی مشاورت سے ایک دوست کے ذمے لگایا جاتا ہے کہ وہ دوستوں کو مطلع کرے اور ان سے خرچ بقدر حصہ یا پھر بصورت مال (مرغی+ گھی یا دیگر سامان ضرورت) جمع کرے۔ مقررہ دن کو ایک ساتھ اکٹھے ہو کر یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں احباب جی بھر کر نہاتے ہیں، اس دوران کچھ دوست کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔درختوں کے پاس نہر کے کشادہ کنارے پر ساونی کا اہتمام کیا جاتاہے۔ لوک گلوکار بلائے جاتے ہیں اور لڑکے بالے بھی ان کے ساتھ مل کر گاتے ہیں۔ لطیفہ گوئی جاری رہتی ہے۔ بزرگ، جوان، لڑکے سبھی برابر حصہ لیتے ہیں، جس سے مختلف نسلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے ۔ عموماً کھانا بھی اسی مقام پر جا کے پکایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار پکا ہوا کھانا ساتھ لے جانے کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔ نہانے کے بعد دوسرے مرحلے پر دوست آپس میں جگت بازی اور شاعری کی محفل جماتے ہیں۔ اس کے بعد رسم پیٹ بھرائی مطلب کھانا کھاتے ہیں اور بعض اوقات ساونی میں کوئی نہ کوئی گانے والا بھی ساتھ ہوتا ہے۔ آخر میں موسیقی کی محفل جمتی ہے اور سب اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ رسم ساونی درحقیقت سماجی تعلقات کی تجدید اور رسم دوستی کو زندہ رکھنے کا اس خطے میں ہزاروں برس پرانا رواج ساونی کی صورت زندہ چلا آ رہا ہے۔ بعض اوقات ایک علاقے یا ایک گاؤں کے لوگ دوسرے علاقے یا گاؤں کے دوستوں کو بھی ساونی کی دعوت دیتے ہیں، جس میں تمام انتظامات دعوت دینے والے دوست کرتے ہیں۔ ساونی کے دوران اگر کوئی نہ نہاتا تو دوست احباب اسے پکڑ کر زبردستی پانی میں ڈال دیتے ہیں۔ نہر میں رنگین پگڑیاں ڈالی جاتی ہے ،پھر اس کو پکڑا جاتا ہے۔ اس طرح کچھ کھیل پانی کے اندر کھیلے جاتے ہیں۔آج ہم ایک خوف کی فضا میں زندہ ہیں۔ تہواروں کا سماجی پہلو مجروح ہو گیا ہے۔ انجذاب کا عمل نہیں ۔ گاؤں قصبوں کا اور قصبے شہروں کا روپ اختیار کر گئے ہیں۔ شہر میٹروپولیٹن ہونے سے ایک شور ہے، ہجوم ہے، افراتفری ہے۔ ساون اب بھی آیا ہے۔ بادلوں کی آنکھ مچولی جاری ہے، مگر اب ساونی کی روایت محدود ہو کر مینگو پارٹیوں میں بدل گئی ہے۔ شہروں کے اردگرد بہنے والی زیادہ تر نہروں میں گندا پانی ڈالا جاتا ہے، جس کے باعث وہ نہانے کے قابل نہیں رہیں۔ ہمارے ملک میں ایک دہشت اور خوف کی فضا ہے۔ لوگ گھروں سے باہر جانے سے کتراتے ہیں۔خواجہ غلام فرید کے کلام میں روہی اور بارش کے حوالے سے یہ اشعار دیکھئے: روہی لگڑی ہے ساونی، ترت ولا ہوت مہاراں کھمنیاں کھمن رنگیلڑیاں، رم جھم بارش باراں سارے شگن سہاگڑے، یار ملیم آیاراں بدلے گوڑھے سانورے، وچ برسات دیاں دھاراں کر دھدکارے گاجڑاں، گاون برہوں دیاں واراں
(روزنامہ
دنیا)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں