پکوڑا کس قوم کی ایجاد ہے اور پہلی بار اسے کہاں ، کس کے پاس اور کیا کرتے دیکھا گیا ؟
مورخین کی اکثریت اس پر خاموش ہے ۔ ان کی خاموشی کس سبب ہے ؟
اس پر بھی پراسرار سی خاموشی ہے ۔ ممکن ہے مورخین پکوڑا کھانے میں مصروف ہو گئے ہوں ۔ یا پھر کھانے کے بعد چکنائی کی وجہ سے قلم نہ پکڑا جاتا ہو اور پھسل پھسل کر نکل جاتا ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو اس کا نقصان یہ نکلا کہ ہم پکوڑے کے نقطہ آغاز کے بارے میں الجھن کا شکار ہو گئے ۔
ایک مورخ نے اس کا موجد ایک مکرانی کو قرار دیا جس نے بیسن کی کچھ ٹکیاں بلاوجہ تیل میں پھینکیں اور چولہا جلانا بھول گیا ۔ پھر جب کافی دیر تک وہ نہ پکیں تو مکرانی غصے میں " پکو۔۔۔ ڑے " چلایا اور بس یہی پکوڑوں کا نقطہ آغاز ہے ۔
یہ روایت البتہ مجہول ہے اور اس کا روای بھی ۔ نیز وہ مکرانی بھی مجہول معلوم ہوتا ہے اور اس کے پکوڑے بھی ۔
اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کیلئے ہم ' پہیہ ' کی ایجاد سے استدلال لیتے ہیں جس نے نقل و حمل کو ہمیشہ کیلئے تبدیل کر دیا ۔ اب حالانکہ یہ حضرت ادریس علیہ السلام کی ایجاد ہے مگر انگریز سائنسدانوں کا اسرار ہے کہ یہ غار میں بسنے والے کسی مجہول کے دماغ کا شاخسانہ ہے ۔ انگریزوں کی یہ روایت مذکورہ بالا پکوڑے کی روایت جتنی ہی معتبر ہے ۔
پکوڑوں کے بارے میں ایک اور روایت بھی پتہ لگتی ہے کہ بابا آدم کی گیارہویں یا تیرہویں نسل میں ایک نوجوان پیدا ہوا جو سیر و سیاحت کا دلدادہ تھا ۔ ایک روز سیر کرتے کرتے وہ دنیا کے کنارے پر جا پہنچا جس کے آگے کوہ قاف شروع ہوتا تھا ۔ نوجوان کی نظر جب اس طرف پڑی تو پریوں کے ایک جھرمٹ کو کوئی کھیل کھیلتے پایا ( کھیل پر اختلاف ہے ، بعض کا کہنا ہے یہ چھپن چھپائی یا پکڑم پکڑائی جیسا کوئی کھیل تھا اور بعض دور جدید کے روشن خیال تاریخ دانوں نے اسے کرکٹ یا فٹ بال ثابت کرنے پر زور دیا ہے ، خیر یہ کھیل ہمارا مسئلہ نہیں، ہمارا مسئلہ پکوڑے ہیں ) ۔ اب نوجوان ان میں سے ایک پری پر فی الفور دل ہار گیا اور ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مطلوبہ پری کو پریوں کی شہزادی ہی کہا جائے ورنہ اگر اسے پریوں کی بھنگن ، جمعدارنی وغیرہ لکھا گیا تو تاریخ کے بد مزہ و کرکرا سا ہو جانے کا اندیشہ ہے ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دل پھینک نوجوان کی نسل سب سے زیادہ پاکستان میں پروان چڑھی ، خیر یہ بھی ہمارا مسئلہ نہیں، ہمارا مسئلہ پکوڑے ہیں ) ۔ اب نوجوان اور پری کے بیچ یہ مسئلہ درپیش تھا کہ نوجوان کوہ قاف نہیں جا سکتا تھا اور پری ہماری دنیا میں نہیں آ سکتی تھی ۔ نوجوان کے کوہ قاف قدم نہ رکھ سکنے کی وجہ اس کی جسمانی ساخت تھی اور پری کے دنیا میں قدم نہ رکھنے کی وجہ بھی نوجوان کی جسمانی ساخت تھی ( بعض مورخین نے لکھا ہے کہ نوجوان بیحد فربہ یعنی اوور ویٹ تھا ، بعض نے کہا ہے کہ کثرت سیاحت کے باعث بالکل کانٹا نما ہو گیا تھا ، خیر یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ، ہمارا مسئلہ پکوڑے ہیں ) ۔ نوجوان مایوس ہو کر لوٹ آیا اور ایک قریبی جنگل میں گھس گیا کہ بقیہ زندگی آہیں بھرتے گزاری جائے ۔ ابھی چند ایک ہی آہیں بھری تھیں ایک زناٹے دار پتھر سر پر آ لگا اور سر پھٹ گیا ۔ دیکھا تو ایک عمر رسیدہ خبطی نما بڑھیا ہاتھوں میں کئی پتھر لیے اس کا نشانہ لے رہی ہے ۔ ایک کے بعد ایک مصیبت سے نبرد آزما ہونے پر نوجوان کا دل بھر آیا اور زار و قطار رونے لگا ۔ بڑھیا کو بھی یہ دیکھ کر رحم آ گیا اور اس نے بقیہ پتھر ذرا آہستہ مارے پھر نوجوان سے اس کے بے مقصد واویلا کرنے کی وجہ دریافت کی ( بعض مورخین نے لکھا ہے کہ وجہ معلوم ہونے پر بڑھیا نے چند ایک پتھر مزید مارے ، بعض کا کہنا ہے کہ بڑھیا کافی ' سپورٹیو ' تھی ، خیر یہ ہمارا مسئلہ نہیں ۔۔۔ ) ۔ نوجوان کی دکھی داستان سن کر بڑھیا نے نوجوان کو ایک گہرا برتن دیا اور کچھ ترکیب بتائی ۔ نوجوان خوشی خوشی سر ہلاتا واپس کوہ قاف کی سرحد پر چلا گیا اور عین پری کے سامنے برتن رکھ کر کچھ بنانے لگا ۔ بس یہی پکوڑے تھے اور ان کی خوشبو سونگھ کر پریاں دیوانہ وار کوہ قاف چھوڑ کر باہر آ گئیں ۔ نوجوان نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کو بھی انکار نہ کیا اور پورے غول کو اپنے ساتھ لے کر واپس ہو لیا ۔ واپسی میں سوچا کہ اپنی محسنہ یعنی بڑھیا کو سلامی دیتے ہوئے لوٹا جائے سو اس سے آخری ملاقات کی اور جاتے جاتے کہا " اپنا نام تو بتا دیجیے تاکہ اپنے بچوں کو داستان سنانے میں آسانی رہے ، صرف عمر رسیدہ ، خوفناک سی بڑھیا کہ دینے سے داستان سنانے کا مزہ نہیں آئے گا ۔ بڑھیا نے جوابا دو چار پتھر اور تاک کر مارے اور اپنا نام " زبیدہ آپا " بتایا ۔
(مخلص انسان :ہماری اردو سے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں