مجھے اپنی والدہ سے دلی محبت تھی۔ وہ بھی میرے بغیر دسترخوان پر نہیں بیٹھتی تھیں، جب تک گھر نہیں آتا تھا وہ دروازے پر بے تابی سے میرا انتظار کیا کرتی تھیں، گھر کے سبھی افراد کے نظروں میں میری اہمیت تھی کیوں کہ میں پڑھائی بھی کیا کرتا تھا اور چھوٹے موٹے ٹھیکے پر کام کر کے پیسے بھی کماتا تھا، والدہ کی دعائیں اور مدد میرے ساتھ شامل تھی اس لیے بڑے بھائی اور ان کی بیویاں بھی محبت کا اظہار کرتے رہتے تھے ، مجھے کئی دن سے اسکر دو جانے کی دھن سوار ہو گئی تھی۔ وہاں میرے ماموں رہتے تھے ، اسکر دو سے آگے ان کا گاؤں تھا والدہ سے اجازت لی۔
وہ رضا مند نہ تھیں، کہنے لگیں، تم ابھی وہاں مت جاؤ مجھے کئی روز سے پریشان کن خواب آ رہے ہیں۔ میں صدقہ وغیرہ دے رہی ہوں، جب تک میں اجازت نہ دوں تم اس ارادے سے گھر سے قدم نہ نکالنا۔ ان کے حکم کو میں نے وہم سمجھا اور سولہ اکتوبر کو ان کی اجازت کے بغیر تیاری کر کے راولپنڈی روانہ ہو گیا۔ جوان آدمی کو کہیں آنے جانے سے کون روک سکتا ہے۔ راولپنڈی پہن کر ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اسکر دو کے لیے جہاز کی سیٹ بک کروائی۔ راجہ بازار سے کچھ شاپنگ کی، ایک دوست کے ساتھ جا کر پستول بھی خرید لیا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ میاں بلا لائسنس ہتھیار لے جاؤ گے تو پکڑے جاؤ گے۔ شاید اسے بھی اس بات کا زیادہ پتا نہیں تھا۔ ہوائی جہاز پر جانے کے لیے بورڈنگ کارڈ بھی حاصل کر لیا تھا کہ چیکنگ کے دوران اپنی غلطی سے پکڑا گیا۔
اتفاق سے اس فلائٹ پر میرے چچازاد اور خالہ زاد بھائی بھی تھے جو میری حرص میں اسی فلائٹ سے جا رہے تھے انہوں نے دیکھا کہ مجھے حراست میں لے لیا گیا ہے تو وہ انجان بن گئے اور میں حوالات پہنچ گیا۔ اس کے بعد تفتیش اور مقدمے کا صبر آزما اور طویل دور شروع ہو گیا، میرا خیال تھا کہ مہینے دو مہینے میں فیصلہ ہو جائے گا لیکن اس مقدمے کو چلتے چوتھا ماہ گزر گیا ملاقات کے لیے بھائی ایک دفعہ آئے اور پھر وہ بھی غائب ہو گئے ، مجھے گھر کا کچھ پتا نہیں تھا کہ کون کس حال میں ہے ، والدہ کی فکر تھی کہ جانے وہ کس پریشانی میں ہوں گی۔ انہوں نے جو خواب دیکھا تھا وہ واقعی حقیقت پر مبنی تھا، اگر ان کا حکم مان لیتا تو یہ حال نہ ہوتا، اسی سوچ بچار میں سزا کا دن بھی آ گیا جج نے مجھے دو ہزار تین سو روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی جس کی کوئی صورت بنتی دکھائی نہ دیتی تھی کیوں کہ میری پیشی پر میرا کوئی رشتے دار موجود نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب نے مشترکہ طور پر میرا بائیکاٹ کررکھا ہے میں شدید پریشانی کی حالت میں جیل میں دن کاٹ رہا تھا ایک رات سوتے سوتے ایسا محسوس ہوا جیسے والدہ نے آواز دی ہو۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا میرے آس پاس خوشبو پھیلی ہوئی تھی، انتہائی لطیف اور مانوس سی خوشبو تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ایسی خوشبو والدہ صاحبہ میرے بچپن میں استعمال کیا کرتی تھیں۔ یہ خوشبو تقریباً مہینے بھر تک میرے کوٹھڑی میں ایک مخصوص وقت یعنی صبح سویرے چار بجے کے قریب پھیلتی تھی اور سورج نکلنے تک کوٹھڑی مہکتی رہتی تھی کبھی میں مٹی اٹھا کر سونگھتا تھا، کبھی سلاخوں سے باہر سونگھتا تھا کہ شاید کسی سپاہی نے یہ خوشبو لگا رکھی ہو۔
ایک روز ماں کی یاد نے مجھے اتنا بے چینی کیا کہ میرے آنسو گالوں پر بہنے لگے ، مجھے سپاہی نے آ کر بتایا کہ ایک سائیں بابا کی ملاقات تمہارے لیے آئی ہے یہ حضرت اکثر قیدیوں کی اصلاح کے لیے مذہبی تبلیغ کرنے آتے تھے اور باری باری سبھی قیدیوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے ، میں سائیں بابا سے ملنے گیا، انہوں نے ملاقات کے دوران میری سزا کی مدت اور جرم کے بارے میں سوالات کیے۔
میں نے انہیں ساری بات سچ سچ بتا دی انہوں نے کہا، بیٹا دنیا بہت بری جگہ ہے تم نے دیکھا لیا کہ جب تمہارے پاس چار پیسے ہوتے تھے تو ہر شخص تمہارے اردگرد منڈلایا کرتا تھا، اب تم مصیبت میں ہو تو کسی نے تمہاری خبر لینا تو درکنار تم سے رشتے داری ظاہر کرنا بھی اپنے حق میں برا سمجھا۔ بالکل اسی طرح آخرت میں بھی تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ تم صرف اپنے اعمال سے پہچانے جاؤ گے۔ ان کے درس نے دل پر گہرا اثر کیا۔ میں نے گلہ کیا کہ کیا ایسے حالات میں ماں کا دل بھی بدل جاتا ہے۔ وہ کہنے لگے۔ ماں ایک عورت ہے وہ بیچاری تمہارے لیے تڑپتی ہو گی مگر اکیلی عورت سوائے رونے دھونے کے کچھ نہیں کر سکتی میں تمہارا جرمانہ ادا کر دوں گا۔ چاہو تو تم بعد میں یہ رقم مجھے ادا کر دینا۔ تمہارا جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ اپنی عمر کا اتنا بڑا حصہ یہاں خرچ کر دو۔ گھر جا کر صرف اپنی ماں کے فرائض ادا کرنا باقی وقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں صرف کرنا یہی سچا راستہ ہے۔
اس رحمت کے فرشتے نے میرے جرمانے کی معمولی سی رقم جو ان حالات میں میرے لیے غیر معمولی تھی ادا کر دی اور مجھے رہائی دلوا دی۔ دل تو چاہتا تھا کہ کبھی اس گھر نہ جاؤں جس میں کسی نے میری خبر تک نہ لی تھی مگر ماں کی محبت نے ایسا نہ کرنے دیا، گھر پہنچا تو پتا چلا کہ میری والدہ میری یاد میں روتے روتے اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں ان کے انتقال کی وہی رات اور وہی وقت تھا جب میں نے جیل کی کوٹھڑی میں سوتے سوتے ایسا محسوس کیا تھا کہ ماں نے مجھے آواز دی ہو اور ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ مہینے بھر تک ان کی مہک میرے پاس موجود رہی تھی مجھے پورا یقین ہے کہ اس وقفے میں وہ میرے آس پاس موجود ہوتی تھیں۔ ان کی بے چین روح میری تلاش میں وہاں تک آ پہنچی تھی۔ کاش میں نے ان کی بات مان لی ہوتی اور ماموں کے گاؤں جانے کا ادارہ ملتوی کر دیا ہوتا۔ میں نے پھر ہمیشہ کے لیے اپنا گھر چھوڑ دیا۔
کوئٹہ آ گیا اور ایک کوٹھی میں چوکیدار کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اب اکیلا رہتا ہوں جو مل جاتا ہے کھا لیتا ہوں اور باقی وقت اللہ کے کاموں کے لیے وقف کر دیا ہے ، مسجد کے ایک امام صاحب کی خدمت کر کے روحانی خوشی حاصل کرتا ہوں۔ دکھی لوگوں کی حتیٰ المقدور مدد کرتا ہوں، اس واقعہ نے میری باطنی نگاہیں کھول دی ہیں اور اب سوائے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے کسی شے میں میرا جی نہیں لگتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں