
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے معراج کا واقعہ بھی بہت زیادہ اہمیت کاحامل اور ہماری مادی دنیا سے بالکل ہی ماوراء اور عقل انسانی کے قیاس و گمان کی سرحدوں سے بہت زیادہ بالاتر ہے۔
احادیث و سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو بہت کثیر التعداد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ علامہ زرقانی نے ۴۵ صحابیوں کو نام بنام گنایا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیاہے جیسا کہ ہم اپنی کتاب “نورانی تقر یر یں” میں اس کاکسی قدر مفصل تذکرہ تحریر کر چکے ہیں۔
معراج کب ہوئی؟:۔
معراج کی تاریخ، دن اور مہینہ میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔ لیکن اتنی بات پر بلا اختلاف سب کا اتفاق ہے کہ معراج نزول وحی کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے جو مکہ معظمہ میں پیش آیا اور ابن قتیبہ دینوری (المتوفی ۲۶۷ ھ) اور ابن عبدالبر (المتوفی ۴۶۳ ھ) اور امام رافعی و امام نووی نے تحریر فرمایا کہ واقعہ معراج رجب کے مہینے میں ہوا۔ اور محدث عبدالغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں بھی متعین کر دی ہے اور علامہ زرقانی نے تحریر فرمایا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے ہے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے۔(زرقانی جلد ۱ ص ۳۵۵ تا ص ۳۵۸)
معراج کتنی بار اور کیسے ہوئی:۔
جمہور علماء ملت کا صحیح مذہب یہی ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم و روح کے ساتھ صرف ایک بار ہوئی جمہور صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین نیز صوفیہ کرام کا یہی مذہب ہے۔ چنانچہ علامہ حضرت ملا احمد جیون رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ (استاد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ) نے تحریر فرمایا کہ
وَ الْاَصَحُّ اَنَّهٗ کَانَ فِی الْيَقْظَةِ بِجَسَدِهٖ مَعَ رُوْحِهٖ وَعَلَيِْه اَهْلُ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ فَمَنْ قَالَ اِنَّهٗ بِالرُّوْحِ فَقَطْ اَوْ فِي النَّوْمِ فَقَطْ فَمُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُضِلٌّ فَاسِقٌ(تفسيرات احمديه بنی اسرائيل ص ۴۰۸)
اور سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ معراج بحا لت بیداری جسم و روح کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ کہے کہ معراج فقط روحانی ہوئی یا معراج فقط خواب میں ہوئی وہ شخص بدعتی و گمراہ اور گمراہ کن و فاسق ہے۔
دیدارِ الٰہی:۔
کیا معراج میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداوند تعالیٰ کو دیکھا؟ اس مسئلہ میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بعض صحابہ نے فرمایا کہ معراج میں آپ نے اﷲ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور ان حضرات نے مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی oکی تفسیر میں یہ فرمایا کہ آپ نے خدا کو نہیں دیکھا بلکہ معراج میں حضرت جبریل علیہ السلام کو انکی اصلی شکل و صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے اور بعض سلف مثلاً حضرت سعید بن جبیر تابعی نے اس مسئلہ میں کہ دیکھایا نہ دیکھا کچھ بھی کہنے سے توقف فرمایا مگر صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک بہت بڑی جماعت نے یہ فرمایا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔(شفاء جلد۱ ص ۱۲۰ تا ۱۲۱)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں