زرتاشیہ میر
کیا آپ کو اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ آپ کا بچہ بند کمرے میں زیادہ وقت گزارتا ہے؟ وہ خاموش بھی رہنے لگا ہے اور اکثر افسردہ بھی نظر آتا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو گزارش یہی ہے کہ اس پورے معاملے کو یہ سمجھ کر ہرگز نظرانداز مت کریں کہ موڈ خراب ہے، خود ٹھیک ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ بات ٹھیک ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر میں بچوں کا موڈ ہر کچھ دیر بعد تبدیل ہوتا ہے، لیکن اگر یہ دورانیہ حد سے بڑھ جائے، تو سمجھ جائیں کہ اس کا تعلق ذہنی پریشانی سے ہے۔ذہنی دبائو انسان کے لیے حد سے زیادہ نقصان دہ ہے، جو کسی بھی عمر کے انسان کو متاثر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، پھر آج کل کے حالات میں جہاں ہر جگہ آگے بڑھ جانے کا بازار گرم ہو، وہاں یہ مسائل بہت تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں، لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ والدین اکثر یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ان کا بچہ بھی ذہنی دبائو کا شکار ہے۔اس لیے سب سے پہلے تو والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ ان کے بچے کیا سوچ رہے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کریں کہ وہ اپنے والدین سے تمام مسائل پر بات کرسکیں، لیکن مسئلہ ایک یہ بھی ہے کہ اگر والدین کو معلوم ہو جائے کہ بچہ ذہنی دبائو کا شکار ہے، تو اس مشکل صورتحال سے کیسے نمٹا جائے؟ پریشان مت ہوں ہم آج آپ کو ایسے طریقے بتارہے ہیں، جن کو اپنانے کے بعد اس سنگین مسئلے سے نمٹا جاسکتا ہے: ٭: سب سے پہلے تو اس بات کو تسلیم کرلیں کہ ذہنی دبائو ایک سنگین مسئلہ ہے اور آپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ کا بچہ ذہنی طور پر متاثر ہے اور اسے آپ کی قربت اور علاج کی بھرپور ضرورت ہے۔ ٭:جب بھی آپ کا بچہ اداس ہو یا رو رہا ہو تو ہرگز اسے جھڑکیں نہیں کیونکہ یہی وہ حرکت ہے، جو بچوں کو سہما سہما سا بنادیتی ہے اور ایسی صورت میں اگر آپ کا رویہ سخت ہوگا ،تو مسائل اور بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ٭: بچوں کی ذہنی بیماری کی وجہ سے خود اتنے پریشان ہرگز مت ہوجائیں کہ صورتحال کا مقابلہ کرنے میں مشکل ہو۔ آپ کو اس موقع پر مضبوط ہونے اور بچوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭:کوشش کیجیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ بہترین وقت گزاریں۔ چاہے ایسا کرنے کی وجہ سے آپ کا ضروری کام ہی متاثر کیوں نہ ہورہا ہو، لیکن ایسا کرنے سے کم از کم بچے کو یہ احساس ضرور ہوگا کہ آپ اس کا خیال رکھتے ہیں۔ ٭:اپنے بچے کو اچھے معالج کے پاس لے جائیں اور اس بات کی پوری کوشش کریں کہ مستقل بنیادوں پر معالج کے پاس لے جانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ ٭:اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ جو ہدایات ڈاکٹر نے دی ہوں، ان پر مکمل عمل کیا جائے۔ چاہے بات وقت پر دوائیں لینے کی، ایکسرسائز کی یا خوراک سے متعلق ہدایت پر عمل کرنے کی ہو۔ ٭:اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور بچوں کو باہر سیر و تفریح کی غرض سے باہر لے جائیں
(روزنامہ
دنیا)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں