منگل، 16 اگست، 2016

طنز و مزاح : خانۂ خالی

                ڈاکٹر غلام شبیر رانا

گھریلو خواتین کی زندگی کا کوئی خانہ ایسا نہیں جو کہ خالی رہ جائے۔ خانہ داری کے جھنجھٹ ان کو ہمہ وقت الجھائے رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر کسی کو آٹے دال کا حقیقی بھاؤ معلوم ہے تو وہ خانہ دار خواتین ہیں۔ کمانے والے مرد اپنا پیٹ کاٹ کر ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں جب کہ خاتون خانہ تمام کھانے والوں کے لیے مزے مزے کے کھانے تیار کر کے لذت کام و دہن کا بھرپور اہتمام کرتی ہے۔ در اصل پیٹ بھی ایک خانہ ہی تو ہے جس کا خالی رہنا کسی کو گوارا ہے۔ اس دنیا کے تمام گورکھ دھندے اسی پیٹ کے خانے کی خالی جگہ پر کرنے کے لیے جاری و ساری ہیں۔ مطبخ یا باورچی خانہ اس کام کے لیے بہت مفید ہے، جہاں ہمہ وقت انواع و اقسام کے کھانے تیار ہوتے ہیں جن کی مہک سے منہ میں پانی بھر آتا ہے  اور وہ آنتیں جو کہ قل ہو اللہ پڑھ رہی ہوتی ہیں وہ مطبخ سے من و سلویٰ کھا کر الحمد للہ کا ورد شروع کر دیتی ہیں۔ ایسے معجز نما کرشمے دیکھ کر قوت نامیہ کی افادیت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
ہمارے محلے میں پچھلے چند روز سے ایک بد خط شخص بڑے بھونڈے انداز میں ہر گھر کے دروازے پر ایک الٹا سیدھا نمبر درج کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ لکھے مو سا پڑھے خود آ۔ اس شخص سے جب نمبروں کے اندراج کے اجمال کی تفصیل دریافت کی تو وہ یوں گویا ہوا:
’’اب ملک بھر میں خانہ شماری کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس کے بعد مردم شماری کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ جب مردم شماری کا تمام کام پایۂ تکمیل کو پہنچے گا تو ووٹوں کے اندراج کا کام شروع ہو گا۔ جب ووٹر لسٹیں مکمل ہو جائیں گی تو ان پر اعتراضات طلب کیے جائیں گے۔ تمام اعتراضات دور کرنے کے بعد یہ ووٹر لسٹیں الیکشن کمیشن کے سپرد کر دی جائیں گی۔ اس کے بعد عام انتخاب ہوں گے  اور پھر سلطانیِ جمہور کا زمانہ آ جائے گا۔ ‘‘
پاس ہی بیٹھے ہوئے نتھو خان نے ٹوکتے ہوئے کہا ’’جب جمہوری حکومت آئے گی تو اس کے ساتھ ہی اپنی ناکامی  اور نا مرادی کے واقعات بھی دہرائے گی۔ اس کے بعد فوری طور پر جمہوریت کی بساط ہی لہیٹ دی جائے گی  اور آمریت کے طویل  اور صبر آزما دور کا آغاز ہو جائے گا۔ یہی تیسری دنیا کے ممالک کا دستور ہے۔ ‘‘
میں تو نتھو خان کو ایک جید جاہل سمجھتا تھا لیکن وہ تو رواقیت کے داعی بڑے بڑے نام نہاد دانش وروں سے بھی زیادہ ذکی الحس نکلا ایسے لوگ تو حالات کے نباض ہوتے ہیں۔ ان کی حسّاسیت کا خانہ تو اس قدر صداقت سے معمور ہے کہ ان کی فکری تونگری پر رشک آتا ہے۔ حبیب جالب نے کہا تھا :
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
میں دیر تک سو چتا رہا کہ ان چھوٹے لوگوں کا دل کتنا بڑا  اور سوچ کتنی گہری ہوتی ہے۔ یہی طبقہ اپنے خانۂ دل میں وطن  اور اہل وطن کے لیے سچی محبت، خلوص  اور دردمندی کے جذبات کی دولت فراواں لیے ہوتا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ وطن محض چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں یہ تو محب وطن لوگوں کے جسم  اور روح سے عبارت ہے۔ کاش ہم میں نام نہاد خود ساختہ مدبرون کے بجائے اس قسم کے نتھو خان کثرت سے پیدا ہوں جو دودھ کا دودھ  اور پانی کا پانی کر کے سب کی آنکھیں کھول دیں۔ مجھے سید ضمیر جعفری بے حساب یاد آئے انھوں نے کہا تھا :
بڑی مدت سے کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا
خواتین کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ فیشن  اور مغربی تہذیب کی نقالی میں وہ حدِ اعتدال سے تجاوز کر جاتی ہیں۔ وہ خاتون جو پہلے چراغ خانہ ہوا کرتی تھی اب اسے شمع محفل بننے کا خبط ہو گیا ہے۔ اس رجحان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہمیں اپنی مٹی پر کچلنے کا قرینہ بہ ہر حال سیکھنا ہو گا اگر ہم درآمد شدہ سنگ مرمر پر چلنے پر بہ ضد رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہم پھسل کر منہ کے بل گریں گے  اور ہماری ہڈی پسلی ایک ہو جائے گی۔ اس کے بعد ان بھونڈی نقالی کرنے والوں کو خانہ بدوشوں کی طرح در بہ در  اور خاک بہ سر جوتیاں چٹخانے کے علاوہ کچھ نہ سوجھے گا۔
جدید دور نے نگار خانے، قمار خانے، نقار خانے  اور پتا نہیں کتنی تعداد میں  اور خانے اختراع کر لیے ہیں۔ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے نگار خانے بہت مرغوب ہیں۔ حسن پرست بھی جوق در جوق نگار خانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رنگ خوشبو  اور حسن و خوبی کے تمام استعارے مہ جبینوں کے خورشید جمال کے مرہون منت ہیں۔ ہر لو دینے والی شمع پر جل مرنے والے یہ پروانے اپنا سب کچھ حسن کے جلوؤں کی خاطر داؤ پر لگا دیتے ہیں۔  اور اس طرح ان کے خانماں برباد رہنے کی داستان اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ غربت، افلاس  اور بے روزگاری نے قمار خانوں کی چکا چوند کو ماند کر دیا ہے۔ میں نے بارہا کوشش کی ہے کہ اہل درد کو تمام واقعات کے بارے میں کھل کر بتاؤں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
(ارمغاِن تبّسم سے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں