منگل، 2 اگست، 2016

لوگوں کا درد آدھا کر دیں


خالد محمود ہاشمی


آدھے سے زیادہ دن گزر جائے تو مزدور کی کارکردگی سامنے آ جاتی ہے۔ اس طرح نواز شریف حکومت کے 38ماہ گزر گئے 22باقی رہ گئے ہیں۔ 38ماہ میں کایا نہیں پلٹ سکی بقایا22ماہ میں کیا پلٹے گی‘ کچھ ہو نہ ہو خادم اعلیٰ پنجاب کی اورنج لائن ضرور چلنا شروع ہو جائیگی۔ کچھ سڑکیں مزید سگنل فری ہو جائینگی چند انڈر پاس اور بن جائینگے۔ ترکی اور چین سے ایم او یوز کی تعداد کا ریکارڈ قائم ہو جائےگا ‘جو کچھ نجی شعبے کی جھولی میں جانے سے بچ گیا ہے‘ وہ بھی چلا جائیگا ۔سرکاری سکولوں کی تو شامت آئی ہوئی ہے۔ اسکے بعد بڑے بڑے سرکاری کالجوں پر ہاتھ ڈلنے والا ہے۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی ہو نہ ہو انکی عمارتیں تو سرمایہ کاروں کے منہ میں پانی لے آتی ہیں جن کے گروپ آف کالجز ہیں انکی نظریں انہی تاریخی عمارتوں کے حامل کالجوں پر ہیں۔ بجلی کا نظام بھی چینی اور ترکی مل کر سنبھال لیں گے طیب اردگان کی جرا¿ت نے ہمارے حکمرانوں کی کمر بھی سیدھی کر دی ہے انکے دل میں اب وہ ڈر نہیں رہا جو ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت سے پہلے تھا عمران خان تو اب ان کیلئے کسی کھیت کی مولی نہیں رہے‘ 38ماہ میں جتنے ضمنی انتخابات ہوئے نواز شریف نے میدان مارا اور اب کشمیر کے انتخابات نے تو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو کہیں کا نہیں چھوڑا پانی بجلی ، ملازمتیں ملیں نہ ملیں ووٹ (ن) لیگ کو ہی ڈالنا ہے اور (ن) لیگ کو ہی ڈلنا ہے۔آخر وہ کونسی خوبی ہے جس کی وجہ سے ووٹر کا ٹھپہ شیر پر جا کر لگتا ہے تیر کسی کے دل میں کیوں نہیں اترتا اور بلا چھکے کیوں نہیں لگاتا ؟ چھکے کا زور دیکھ کر عاقبت نا اندیش فیصلہ کرنے والا چوہدری سرور پنجاب کی گورنری چھوڑ کر دوبارہ لندن جا بیٹھا ہے پی ٹی آئی کو انتخابات میں سیٹیں نہیں مل رہیں تو اسکی طرف سیاست سے وابستہ لوگ بھی نہیں دیکھ رہے زیادہ بولنے والے کو کوئی اپنے قریب بٹھانا پسند نہیں کرتا یہی حال شیخ رشید کا ہے محض قیاس آرائیوں سے سیاست نہیں چلتی ایک ، آدھ بار کوئی بات غلط ثابت ہو جائے تو اور بات ہے ہر بات مسلسل غلط ثابت ہو تو شخصیت بے توقیر ہو جاتی ہے۔ عمران نے پے در پے ناکامیوں کے بعد 7اگست کی رٹ لگائی ہوئی ہے بے صبری کا یہ عالم ہے کہ عمران کیلئے 22ماہ انتظار کرنا مشکل ہو رہا ہے انکی دعا ہے کہ کوئی ایسا معجزہ رونما ہو جائے جو مڈ ٹرم الیکشن کا انعقاد کرائے عمران کے پاس اس وقت دو باتوں سے زیادہ کہنے کو کچھ نہیں پانامہ لیکس اور (ن) لیگ قیادت کی کرپشن ، دو سال پی ٹی آئی نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف شور اٹھایا ریلیاں نکالیں دھرنے دیئے کنٹینرز کے سامنے خوبصورت جواں چہروں کو جمع کیا ۔ ڈی جے کے میوزک سے ان کا دل بہلایا، پانامہ لیکس اور الیکشن میں دھاندلی کیلئے جوڈیشل کمیشن کیلئے واویلا کیا پورے پاکستان میں سیاست کا رخ جو 2013ءمیں تھا وہی آج ہے سندھ میں شاہ کی جگہ شاہ نے لے لی ہے قائم علی شاہ کی بے بسی پیرانہ سالی اور نا اہلی کا پانی سر سے گزر گیا تو مراد علی شاہ کی قسمت جگا دی گئی۔ شاہ کا تو کچھ نہ بگڑا لیکن سندھ بالخصوص کراچی کا بہت کچھ بگڑا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری ، چائنہ کٹنگ اور دہشت گردی کا کچرا صاف کرنا85سالہ سائیں کے بس کی بات نہیں تھی وہ بیچارے تو کراچی کی سڑکوں کو گھروں اور دکانوں کے کچرے سے بھی صاف کرانے میں بے بس رہے۔ بل کورڈ ہٹانے کے حکم کی کس نے پرواہ کی ؟ واٹر ٹینکر مافیا کب باز آیا؟ اجلاس دن میں چار چار بھی بلائے جائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اجلاس تقاریر کے ذریعے اپنی کارکردگی کا اظہار کرنے کیلئے بلائے جاتے ہیں کام کرنیوالے تو اہلکار ہوتے ہیں ٹریفک وارڈن کنٹرول کرتے ہیں چور ڈاکو قاتل پکڑنا تھانیدار کا کام ہے افسر وزیر کبیر آرام طلبی کیلئے ہیں کوئی سانحہ ہو تو ہسپتال کا رخ کرتے ہیں عام دنوں میں کونسا افسر یا وزیر ہسپتال جا کر مریضوں کے حالات دیکھتا ہے حکمران غریبوں کا نام لیتے ہیں لیکن انکی اولین ترجیح کبھی غریب نہیں رہے۔
22ماہ باقی ہیں لوگ دیکھ لیں گے شہباز شریف پنجاب میں مراد علی شاہ سندھ میں، پرویز خٹک کے پی کے میں اور ثناءاللہ زہری بلوچستان میں کونسی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کا نام امر ہو جائے چاروں صوبوں کے لوگوں کو تعلیم صحت اور امن و امان کی ضرورت ہے صرف کراچی اور تھر نہیں پاکستان کے ہر شہر کو صاف ترین، سبز ترین اور محفوظ ترین بنانے کی ضرورت ہے۔ چاروں صوبوں میں مسابقت ہو گی تو کام میں تیزی آئیگی وزیر اعظم چاروں صوبوں کو مساوی وقت دیں بلدیاتی نمائندوں ایم پی اے ، ایم این اے سارے مل کر وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم کے ساتھ جڑ جائیں اور ہر سطح پر تبدیلی لانے کی کوشش کریں توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کافی نہیں اسی طرح ڈینگی اور پولیو سے ترقی ممکن نہیں غریب گلیوں سڑکوں نالیوں کے پیچھے ہی دوڑ لگاتے رہتے ہیں کوئی انکی گلی بنوا دے تو اسی کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں بجٹ سے باہر جا کر نہ کوئی وزیر اعلیٰ کچھ کر سکتا ہے نہ وزیر اعظم البتہ جرائم انصاف تعلیم صحت کیلئے تو تھانیداروں ججوں اساتذہ اور ڈاکٹروں نے عوام کی داد رسی کرنی ہے۔ گڈ گورننس کا مطلب لغت میں دیکھنے کی بجائے کام دیکھ کر سمجھ آ جائیگا۔ عام پاکستانی پر حکومت پاکستان اتنا احسان کر دے کہ ہر وزیر ہر افسر اپنا دروازہ عام پاکستانی کیلئے کھول دے لوگوں کی باتیں سن لے ہاتھ سے کچھ نہ دے اس طریقے سے عوام کا درد آدھا ضرور ہو جائے گا۔
(روزنامہ نوائے وقت)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں