جمعہ، 12 اگست، 2016

زندہ تحریریں : قائد اعظمؒ بے لوث راہنما اور با اصول مدبر


جسٹس (ر) ذکی الدین پال
قائداعظم ؒ نے اپنی ساری زندگی میں یہ بات عملاً ثابت کی ہے کہ انسان نہ صرف اپنی نجی زندگی بلکہ سیاسی زندگی بھی صاف ستھری اور ایماندارانہ طریق سے بسر کر سکتا ہے۔ ان کی ساری زندگی ہر حیثیت میں شاندار ڈسپلن اور درخشاں اصولوں کی پابند رہی۔ انہوں نے کبھی اصول کا سودا کرکے منفعت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جس بات کو صحیح جانا اسے بلا خوف اور جھجک کے برملا کہا اور نتائج کی کبھی پروا نہیں کی۔ ان کا ایمان تھا کہ سچ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور انسان کو کبھی اس کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ انہوں نے اصول کے مقابلے میں ذات کو کبھی ترجیح نہیں دی اور یہی ان کی زندگی کا ماحصل تھا۔ ان کا مقولہ تھا کہ نجی زندگی کی نسبت سیاست میں دیانت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پابندی کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ سیاست میں بے راہ روی اوربددیانتی سے عوام کو نقصان پہنچتا ہے۔ چنانچہ قائداعظمؒ نہ صرف اپنی نجی زندگی میں بلکہ سیاسی زندگی میں بھی اعلیٰ اقدار کے ہمیشہ پابند رہے۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ 1946ء میں مرزا حسن اصفہانی جو قائداعظمؒ کے معتمد ساتھی رہ چکے ہیں، مسلم چیمبر آف کامرس کلکتہ کی نشست سے بنگال صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار تھے، انہیں اور ان کے حامیوں کو پورا یقین تھا کہ وہ بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گے۔ تاریخ مقررہ سے صرف دو تین دن قبل ایک اور شخص نے بطور اُمیدوار اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر دئیے اور اس طرح مرزا صاحب اور ان کے دوستوں کو پریشانی میں ڈال دیا اور باوجود کہنے سننے کے کاغذات نامزدگی واپس لینے سے انکار کر دیا۔ اس دوران میں کلکتہ کے مشہور مسلم لیگی راہنما جناب عبدالرحمنٰ صدیقی نے مرزا حسن اصفہانی کو بتایا کہ ان کا مخالف امیدوار زرِ ضمانت جو اس نے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت جمع کرایا تھا کی ادائیگی پر مقابلہ سے دست بردارہوہنے کو تیار ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسے اڑھائی سو روپے زر ضمانت ادا کر دیا جائے تا کہ انتخاب بلا مقابلہ ہو جائے۔ قائداعظمؒ اتفاق سے ان دنوں کلکتہ میں مرزا حسن اصفہانی کے ہاں مقیم تھے، انہیں اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا اور کہا کہ دو سو پچاس روپے کی رشوت دے کر دوسرے امیدوار کو مقابلہ سے ہٹانے کی کوشش کرنا نہایت غلط بات ہے۔ اور مزید کہا کہ مخالف امیدوار کو بتا دیا جائے کہ ایسا نہیں ہو گا اور انتخاب میں مقابلہ ہو گا۔ چنانچہ مرزا حسن اصفہانی کو یہ الیکشن لڑنا پڑا اور ان کا مخالف امیدوار کوئی ووٹ حاصل نہ کر سکا۔ بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ ہے مگر اس میں عظیم انسان کی اخلاقی عظمت کا عکس جھلکتا ہے کہ وہ 250 روپے کی حقیر رقم بھی دینے کے لیے تیار نہ تھے کیونکہ وہ اسے ایک نا جائز ترغیب سمجھتے تھے۔ قائداعظمؒ کی یہی بلندی کردار ان کی ساری زندگی پر غالب رہی اور نہ صرف سیاست بلکہ اپنی پرائیویٹ زندگی میں بھی انہوں نے اس کردار کا ثبوت دیا۔ اپنی ابتدائی زندگی میں جب وہ بیرسٹری کر کے لندن سے لوٹے اور بمبئی میں وکالت شروع کی تو کافی عرصہ تک کام نہ ہونے کی وجہ سے خاصے پریشان رہے مگر اصول کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اس زمانہ میں بھی دلال قسم کے لوگ (ٹاؤٹ) ان کے پاس آتے اور کام دینے پر رضا مندی ظاہر کرتے بشرطیکہ معاوضہ میں سے انہیں بھی حصہ دیا جائے، مگر قائداعظمؒ نے کبھی ایسا نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک اچھی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور انہیں وکالت کے پیشہ میں کامیاب ہونے کے لئے اخلاقی اقدار اور دیانت کا دامن چھوڑنا گوارا نہ تھا۔ اس لئے کبھی انہوں نے دلالوں کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیا۔ ان کے کہنے کے مطابق اس طرح وکالت میں کامیابی حاصل کرنے سے تو بھوکا رہنا بہتر تھا۔ یہ بات تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ قائداعظمؒ باوجود ز یادہ کام کے نہ ہونے کے مستقل مزاجی سے عدالت میں جاتے رہے اور ایمانداری سے کام کرتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ برصغیر میں چند ممتاز وکلاء میں شمار ہونے لگے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس بلند کردار کا ثبوت دیں گے اور ذاتی منفعت کو اصول پر ترجیح نہیں دیں گے؟ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل اسلامیان برصغیر کی رہنمائی کرتے ہوئے انگریز اور ہندو سے جو سیاسی جنگ لڑی تھی اس میں انہوں نے ان دونوں قوموں کو دشمن جانتے ہوئے بھی ان سے معاملات میں اعلیٰ اقدار اور اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ساتھ ہی قومی مفاد کو کبھی پس پشت نہ ڈالا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی قوم کے عظیم ترین رہنما تھے اور ان کی ایک آواز پر مرمٹنے کے لیے سینکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں افراد تیار ہو جاتے تھے۔ ان کی بات سننے کے لیے لوگ والہانہ طور پر ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ یہ لوگ حکام کے خوف یا پولیس کے جبر کی وجہ سے نہیں آتے تھے بلکہ یہ قائداعظمؒ کا خلوص، سچی رہنمائی، اعلیٰ کردار اور اخلاق تھے جو لوگوں کو پروانہ وار ان کے گرد جمع کر دیتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل کئی مواقع پر قائداعظمؒ کو چندہ کے لیے قوم سے اپیل کرنا پڑی اور قوم نے بھی ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دل کھول کر ہمیشہ چندہ دیا۔ یہ چندہ چند آنوں سے لے کر سینکڑوں ہزاروں روپوں کی شکل میں ہوتا تھا۔ زیادہ تر عطیات منی آرڈروں کے ذریعہ قائداعظمؒ کے نام پر ارسال کئے جاتے تھے۔ قوم کو ان پر اعتماد تھا اور ہر شخص اپنی بساط کے مطابق ان کی اپیل کا جواب دینے کا خواہاں ہوتا تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بعض اوقات سینکڑوں کی تعداد میں منی آرڈر روزانہ موصول ہوتے تھے۔ اگرچہ گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے قائداعظمؒ کے لیے خود ہر رسید پر دستخط کرنا کافی دشوار تھا۔ مگر قوم کو جو اعتماد اپنے رہنما پر تھا وہ اس کو کسی قسم کی ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتے تھے اور ہر رسید پر خواہ وہ چار آنے کی کیوں نہ ہوتی خود دستخط کرتے اور ہمیشہ کہتے کہ میرے نزدیک چند آنے بھیجنے والے اور ہزاروں روپے بھیجنے والے سب برابر ہیں۔ ان کو ایک مرتبہ کہا گیا کہ وہ اس قسم کی رسیدات پر دستخط کرنے کا کام اپنے سیکرٹری کو سونپ دیں اور اسے چندہ کے وصول کرنے کا اختیار دے دیں مگر انہوں نے ایسا کرنا کبھی گوارا نہ کیا اِن کا کہنا تھا کہ چند آنوں کی منی آرڈر کی رسید پر دستخط کر کے بھی وہ اسی طرح اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہیں جس طرح کوئی اور نہایت اہم کام کر کے، اس سلسلہ میں فرض کی ادائیگی کی ایک مثال نہایت اہم اور دلچسپ ہے۔ 1943ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں پشاور کے ایک صاحب نے مبلغ ایک ہزار روپے بطور چندہ دینے کا اعلان کیا۔ اعلان کے وقت قائداعظمؒ صدارت کر رہے تھے اور وہ مسلم لیگ کے بھی صدر تھے۔ اس لیے چندہ کی وصولی ایک طرح سے ان کی ذمہ داری تھی اِجلاس کے خاتمہ کے بعد کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود ان صاحب نے اپنے اعلان کے مطابق اپنا چندہ ارسال نہ کیا تو قائداعظمؒ کو یہ بات ناگوار گزری کہ کھلے اجلاس میں اعلان کے باوجود چندہ ارسال نہیں کیا گیا۔ انہوں نے فرض کی ادائیگی محسوس کرتے ہوئے خود ان صاحب کو خط لکھا اور استدعا کی کہ وعدہ کے مطابق چندہ ادا کر دیا جائے۔ ان صاحب کا صحیح پتہ چونکہ معلوم نہ تھا اس لیے غالباً یہ خط ان تک نہ پہنچ سکا۔ بعد میں اعلان کے مطابق احساس فرض کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے ان صاحب کو قائداعظمؒ نے سردار عبدالرب نشتر مرحوم کی معرفت خط لکھا اور کہا کہ وہ چندہ ادا کریں ورنہ انہیں مجبوراً اعلان کرنا پڑے گا کہ ان صاحب کا چندہ موصول نہیں ہوا۔ یہ چندہ بعد میں بصد معذرت موصول ہو گیا۔ احساسِ فرض کا تقاضا یہی تھا کہ کھلے جلاس میں چونکہ ان کی صدارت میں چندہ کی ادائیگی کا اعلان ہوا اس لیے یا تو چندہ ادا ہونا چاہئے یا انکار ہونا چاہئے۔ انکار کی صورت میں عوام کو باخبر کر دینا چاہئے کہ چندہ موصول نہیں ہوا۔قائداعظمؒ کا ایک مشہور مقولہ ہے’’سیاست ایک شطرنج کی بازی کی طرح ہے اس میں ٹھنڈے دل اور دماغ سے سوچ بچار اور سعی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں محض جذبات سے کام لے کر تباہی کی طرف جانے کی ضرورت نہیں۔ سیاسی رہنما کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر نکتہ کے موافق یا خلاف پہلوؤں کا جائزہ لے اور کوئی قدم اُٹھانے سے قبل سب چالوں کو سامنے رکھے۔‘‘یہ واقعہ ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنی ساری سیاسی زندگی میں جذبات سے کام نہیں لیا، ہمیشہ اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل اور دماغ سے سیاست کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کی کوشش کی۔
 (کتاب ’’میرے مشاہدات‘‘ سے مقتبس)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں