کاکڑ ! تمہیں اِن لوگوں کا دُکھ تو بہت نظر آتا ہے جن کے باغ اُجڑ گئے جنہوں نے بہت کچھ دیکھا اور اب بھوک دیکھ کر بوکھلائے پھرتے ہیں دیکھو ! ذرا اِن لوگوں کا دُکھ دیکھو ! انہوں نے بھوک کی گود میں جنم لیا ہے انہوں نے بھوک کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں ہے ۔
وہ بھاگتا ہوا تھوڑا سا دور گیا جھکا اور ایک ڈھانچے سے ہڈی کو جھٹکا دیکر الگ کرکے پلٹا اُسے کاکڑ کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔
یہ ہڈی اِنہی بھیڑ بکریوں کی ہے جن کے تھنوں سے یہاں والے بھوک دوہتے رہتے ہیں اس خشک سالی کے ہلے میں تمہیں جتنی ہڈیاں زمین کے اُوپر نظر آرہی ہیں نا ! اتنی ہی زمین میں دفنا دی گئی ہیں ! جانتے ہو کس لیے؟
اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی نگاہیں کاکڑ کے چہرے سے الگ نہ کی تھیں کاکڑ اُس اچانک سوال پر بوکھلا سا گیا تھا اُسے کچھ سوج نہ رہا تھا رودینی نے اُس کے چہرے سے نظریں الگ کیں اور اُنہیں اپنے قدموں والی زمین پر گاڑ کر کہا۔
تم جو باغوں کے اُجڑنے کا قصہ بار بار لے بیٹھتے ہو تم کیا جانوں زمین میں دبائی گئی ہڈیاں بھیڑ بکریوں کی نہیں ہیں ! تیرے میرے جیسے انسانوں کی ہیں اُن انسانوں کی جنہوں نے بھوک کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ! اور ! جو بھوک سے ہی مرگئے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھ گیا ۔
وہ بھاگتا ہوا تھوڑا سا دور گیا جھکا اور ایک ڈھانچے سے ہڈی کو جھٹکا دیکر الگ کرکے پلٹا اُسے کاکڑ کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔
یہ ہڈی اِنہی بھیڑ بکریوں کی ہے جن کے تھنوں سے یہاں والے بھوک دوہتے رہتے ہیں اس خشک سالی کے ہلے میں تمہیں جتنی ہڈیاں زمین کے اُوپر نظر آرہی ہیں نا ! اتنی ہی زمین میں دفنا دی گئی ہیں ! جانتے ہو کس لیے؟
اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی نگاہیں کاکڑ کے چہرے سے الگ نہ کی تھیں کاکڑ اُس اچانک سوال پر بوکھلا سا گیا تھا اُسے کچھ سوج نہ رہا تھا رودینی نے اُس کے چہرے سے نظریں الگ کیں اور اُنہیں اپنے قدموں والی زمین پر گاڑ کر کہا۔
تم جو باغوں کے اُجڑنے کا قصہ بار بار لے بیٹھتے ہو تم کیا جانوں زمین میں دبائی گئی ہڈیاں بھیڑ بکریوں کی نہیں ہیں ! تیرے میرے جیسے انسانوں کی ہیں اُن انسانوں کی جنہوں نے بھوک کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ! اور ! جو بھوک سے ہی مرگئے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھ گیا ۔
(محمد حمید شاہد کے افسانے برشور سے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں