قیوم نظامی
پرانے دوست سید قائم علی شاہ اپنی زندگی کی آخری سیاسی اننگ کھیل کر روانہ ہوئے وہ کپتان اور وزیراعلیٰ تھے مگر انکے اختیارات آصف علی زرداری، انکی بہن فریال تالپور اور ’’منہ بولے بھائی‘‘ مظفر ٹپی استعمال کرتے رہے۔ منہ زور میڈیا نے اندرون سندھ کا ریگستان (ٹوٹی پھوٹی سڑکیں) تھر کے سسکتے مرتے بچوں اور کراچی کے کچرے کو بار بار دکھایا۔ شاہ کابینہ کے وزیروں پر کرپشن کے الزامات سامنے آئے اور وہ بیرون ملک فرارہوگئے۔ سندھ کے اعلیٰ افسر آج بھی ضمانتوں پر ہیں۔ شاہ صاحب آٹھ سال میں سندھ پولیس کو اس قابل نہ بناسکے کہ وہ رینجرز کی معاونت کے بغیر امن و امان قائم کرسکے۔ انکے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم البتہ آصف زرداری کے ساتھ انکی وفاداری بشرط استواری قائم رہی …؎
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
بلاول بھٹو کے بارے میں مستند اور قابل اعتبار گواہی سامنے آئی ہے۔ میاں منیر ہانس پی پی پی مڈل ایسٹ کے صدر، بھٹو خاندان کے قریبی اور بااعتماد ساتھی اور سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں۔ وہ اب تک بلاول بھٹو کے ساتھ بیسیوں ملاقاتیں کرچکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’بلاول بھٹو میں اس قدر خداداد صلاحیتیں ہیں کہ ان کو سیاست کا پورا موقع ملا تو وہ اپنے نانا اور اپنی والدہ کو پیچھے چھوڑ جائینگے‘‘۔ بلاول بھٹو نے سندھ میں چہرے تبدیل کرنے پر زور دیا تو انہیں ’’سیاسی نابالغ‘‘ کہا گیا۔ انہوں نے سیاسی میدان میں کود کر اپنی سیاسی بلوغت کو ثابت کردکھایا۔ عوام نے آصف زرداری کو لیڈر قبول نہیں کیا تھا مگر بلاول بھٹو کو دل سے قبول کرلیا ہے۔ اب ان کا سیاسی قد بڑھ گیا ہے۔ پی پی پی کے سیانے لیڈر قمرالزمان کائرہ کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی پارٹی پر گرفت رفتہ رفتہ مضبوط ہوتی جائے گی اور مکروہ و ناپسندیدہ چہرے فارغ ہوتے جائیں گے۔ سندھ میں چہرے کی تبدیلی بلاول بھٹو کے دبائو پر کی گئی ہے کیونکہ پرانا چہرہ انکی سیاسی پرواز میں کوتاہی لارہا تھا۔ نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ (1993-96) کے فرزند ارجمند ہیں۔ عبداللہ شاہ کے دور حکومت کو یاد کریں تو یہ شعر دماغ میں مچلنے لگتا ہے …؎
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
فارن کوالیفائیڈ نوجوان مراد علی شاہ کے بارے میں بدگمانی سے کیوں کام لیا جائے کیوں نہ انہیں پورا موقع اور فری ہینڈ دیا جائے۔ ان کو 2018ء کے انتخابات میں سندھ کا قلعہ بچانے کیلئے لایا گیا ہے جس سے بلاول بھٹو کا اپنا سیاسی مستقبل بھی وابستہ ہے۔ سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت سندھ میں سوشل سیکٹر پر پوری توجہ دی جائیگی۔ نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنا روڈ میپ دیا ہے جس کے مطابق تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور امن و امان پر خصوصی توجہ دی جائیگی۔ کرپشن کو کنٹرول کیا جائیگا۔ کراچی صاف ترین اور سندھ سبز ترین ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری نے نئے وزیراعلیٰ کو غربت کے خاتمے کا مشورہ دیا ہے جو پی پی پی کا اساسی منشور ہے۔ کراچی میں فوج کے دو جوانوں کی شہادت کے بعد لاڑکانہ میں رینجرز کی گاڑی پر بم دھماکہ ہوا ہے جس میں ایک فوجی شہید اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ صوبہ سندھ میں امن و امان کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے لازم ہے کہ رینجرز کو کراچی اور سندھ میں پورے اختیارات دئیے جائیں اور عوام کے جان و مال پر ’’سیاست بازی‘‘ نہ کی جائے۔ خدا حافظ قائم علی شاہ اور ویلکم سید مراد علی شاہ اللہ آپ دونوں کا حامی و ناصر ہو۔
انقلاب روس (1917) نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ برصغیر پر اسکے خصوصی اثرات مرتب ہوئے کیمونسٹ تحریک کا آغاز ہوا۔ برطانوی سامراج نے استحصال اور لوٹ مار کیلئے صنعتیں قائم کیں اور انفراسٹرکچر پر توجہ دی جس سے مزدور طبقہ پیدا ہوا۔ چین کے انقلاب (1049) نے بھارت کے کسانوں کو بیدار کیا۔ انڈین کیمونسٹ پارٹی نے آزادی اور حریت پسندی کے جذبے سے مسلم لیگ کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ قیام پاکستان کے بعد کیمونسٹ لیڈر سجاد ظہیر پاکستان آئے اور پاکستان میں کیمونسٹ پارٹی کی تشکیل کیلئے جدوجہد کی۔ کیمونسٹ پارٹی اگر طبقاتی جدوجہد کرتی تو نتیجہ مثبت نکل سکتا تھا۔ کیمونسٹ لیڈر مہم جوئی کا شکار ہوگئے۔ جنرل اکبر خان سے مل کر فوجی انقلاب کی کوشش ناکام ہوئی۔ کیمونسٹ پارٹی پر پابندی لگی۔ دوسرے لیڈروں کے ساتھ فیض احمد فیض بھی گرفتار ہوئے انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر ٹانگے پر بٹھا کر شاہی قلعہ لے جایا گیا۔ فیض نے مشہور نظم ’’آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ لکھی۔ انہوں نے قید میں لازوال انقلابی شاعری تخلیق کی۔
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر باز ار
کیمونسٹ پارٹی پرپابندی کے بعد میاں افتخار الدین نے آزاد پاکستان پارٹی قائم کی۔ بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی وجود میں آئی جس نے طبقاتی جدوجہد کی بجائے ریفارمز کو اپنا ایجنڈا بنایا۔ ایوب خان کی آمریت اور بائیس خاندانوں کی معاشی اجارہ داری کیخلاف زبردست عوامی انقلابی تحریک اُٹھی جس کے نتیجے میں سوشلسٹ پارٹی پی پی پی وجود میں آئی جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی۔ پارٹی کا منشور انقلابی تھا اور مزدور ،کسان، غریب محنت کش عوام اسکی قوت تھے۔ معراج محمد خان نے انتخابات میں حصہ لینے کی مخالفت کی اور طبقاتی جدوجہد کے ذریعے انقلاب برپا کرنے پر زور دیا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے انقلابی عوامی تحریک کو انتخابات میں جھونک دیا جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ موت کی کوٹھڑی میں انہوں نے طبقاتی جدوجہد کے سیاسی فلسفے سے اتفاق کیا۔ روس کے ٹوٹنے سے کیمونسٹ تحریک اور سوشلزم کے حامی لیڈروں کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بائیں بازو کے لیڈر اور جماعتیں کمزور ہوتی چلی گئیں۔ سیفما ہال میں معراج محمد خان کا تعزیتی ریفرنس ہوا۔ لاہور کے کامریڈ بھاری تعداد میں شریک ہوئے۔ مقررین نے معراج محمد خان کی نظریاتی اور انقلابی جدوجہد، انکی صاف شفاف شخصیت اور مثالی کردار کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اظہار خیال کرنے والوں میں عابدحسن منٹو، آئی اے رحمن، فاروق طارق، پرویز صالح، راشد رحمن، ڈاکٹر لال خان، ڈاکٹر وسیم، حافظ عبدالودود، خواجہ سلیم، آصف خان، ڈاکٹر مولچند، راجہ ذوالقرنین اور عبداللہ ملک شامل تھے۔محنت کش طبقات سے جڑے سیاست دانوں اور دانشوروں نے طبقاتی جدوجہد کی حمایت کی۔ امتیاز عالم نے بزرگوں کی موجودگی میں سب سے آخر میں خطاب کیا اور کہا کہ ’’طبقاتی جدوجہد کو بھول جائو سرمایہ دارانہ نظام مزید پچاس سال چلے گا‘‘۔ گویا وہ لاہور کے کامریڈوں سے کہہ رہے تھے کہ ’’شریف‘‘ بن کر رہو۔ ایک مقرر نے کہا کہ پانچ لاکھ عوام اسلام آباد میں جمع ہوکر انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ آئی اے رحمن نے کہا کہ انقلاب کیلئے دس آدمی بھی جمع نہیں ہونگے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ بائیں بازو کے تنقید نگار اور دانشور اپنی گفتگو کوبرتر اور جاذب بنانے کیلئے فرائیڈ، بیگل، مارکس اور نطشے کے حوالے دیتے ہیں جبکہ انکی گفتگو کا زمینی حقائق اور معروضی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بائیں بازو کے لیڈر اور دانشور ائرکنڈیشنڈ کمروں اور قہوہ خانوں سے باہر نکل کر مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں سے رابطہ کریں تو ان کو اندازہ ہوکہ انکے دلوں اور دماغوں میں انقلاب کی آگ بھڑک رہی ہے اور وہ کسی قابل اعتبار انقلابی لیڈر کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک طبقاتی جدوجہد کا آپشن منظم طور پر استعمال ہی نہیں ہوا تو پھر عوامی انقلاب کی مخالفت کیوں کی جائے۔ کوئی اور آپشن ہے وہ سامنے لایا جائے وگرنہ عوامی انقلاب کیلئے محنت کش عوام کو منظم، متحد اور متحرک کیا جائے۔
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
بلاول بھٹو کے بارے میں مستند اور قابل اعتبار گواہی سامنے آئی ہے۔ میاں منیر ہانس پی پی پی مڈل ایسٹ کے صدر، بھٹو خاندان کے قریبی اور بااعتماد ساتھی اور سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں۔ وہ اب تک بلاول بھٹو کے ساتھ بیسیوں ملاقاتیں کرچکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’بلاول بھٹو میں اس قدر خداداد صلاحیتیں ہیں کہ ان کو سیاست کا پورا موقع ملا تو وہ اپنے نانا اور اپنی والدہ کو پیچھے چھوڑ جائینگے‘‘۔ بلاول بھٹو نے سندھ میں چہرے تبدیل کرنے پر زور دیا تو انہیں ’’سیاسی نابالغ‘‘ کہا گیا۔ انہوں نے سیاسی میدان میں کود کر اپنی سیاسی بلوغت کو ثابت کردکھایا۔ عوام نے آصف زرداری کو لیڈر قبول نہیں کیا تھا مگر بلاول بھٹو کو دل سے قبول کرلیا ہے۔ اب ان کا سیاسی قد بڑھ گیا ہے۔ پی پی پی کے سیانے لیڈر قمرالزمان کائرہ کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی پارٹی پر گرفت رفتہ رفتہ مضبوط ہوتی جائے گی اور مکروہ و ناپسندیدہ چہرے فارغ ہوتے جائیں گے۔ سندھ میں چہرے کی تبدیلی بلاول بھٹو کے دبائو پر کی گئی ہے کیونکہ پرانا چہرہ انکی سیاسی پرواز میں کوتاہی لارہا تھا۔ نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ (1993-96) کے فرزند ارجمند ہیں۔ عبداللہ شاہ کے دور حکومت کو یاد کریں تو یہ شعر دماغ میں مچلنے لگتا ہے …؎
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
فارن کوالیفائیڈ نوجوان مراد علی شاہ کے بارے میں بدگمانی سے کیوں کام لیا جائے کیوں نہ انہیں پورا موقع اور فری ہینڈ دیا جائے۔ ان کو 2018ء کے انتخابات میں سندھ کا قلعہ بچانے کیلئے لایا گیا ہے جس سے بلاول بھٹو کا اپنا سیاسی مستقبل بھی وابستہ ہے۔ سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت سندھ میں سوشل سیکٹر پر پوری توجہ دی جائیگی۔ نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنا روڈ میپ دیا ہے جس کے مطابق تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور امن و امان پر خصوصی توجہ دی جائیگی۔ کرپشن کو کنٹرول کیا جائیگا۔ کراچی صاف ترین اور سندھ سبز ترین ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری نے نئے وزیراعلیٰ کو غربت کے خاتمے کا مشورہ دیا ہے جو پی پی پی کا اساسی منشور ہے۔ کراچی میں فوج کے دو جوانوں کی شہادت کے بعد لاڑکانہ میں رینجرز کی گاڑی پر بم دھماکہ ہوا ہے جس میں ایک فوجی شہید اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ صوبہ سندھ میں امن و امان کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے لازم ہے کہ رینجرز کو کراچی اور سندھ میں پورے اختیارات دئیے جائیں اور عوام کے جان و مال پر ’’سیاست بازی‘‘ نہ کی جائے۔ خدا حافظ قائم علی شاہ اور ویلکم سید مراد علی شاہ اللہ آپ دونوں کا حامی و ناصر ہو۔
انقلاب روس (1917) نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ برصغیر پر اسکے خصوصی اثرات مرتب ہوئے کیمونسٹ تحریک کا آغاز ہوا۔ برطانوی سامراج نے استحصال اور لوٹ مار کیلئے صنعتیں قائم کیں اور انفراسٹرکچر پر توجہ دی جس سے مزدور طبقہ پیدا ہوا۔ چین کے انقلاب (1049) نے بھارت کے کسانوں کو بیدار کیا۔ انڈین کیمونسٹ پارٹی نے آزادی اور حریت پسندی کے جذبے سے مسلم لیگ کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ قیام پاکستان کے بعد کیمونسٹ لیڈر سجاد ظہیر پاکستان آئے اور پاکستان میں کیمونسٹ پارٹی کی تشکیل کیلئے جدوجہد کی۔ کیمونسٹ پارٹی اگر طبقاتی جدوجہد کرتی تو نتیجہ مثبت نکل سکتا تھا۔ کیمونسٹ لیڈر مہم جوئی کا شکار ہوگئے۔ جنرل اکبر خان سے مل کر فوجی انقلاب کی کوشش ناکام ہوئی۔ کیمونسٹ پارٹی پر پابندی لگی۔ دوسرے لیڈروں کے ساتھ فیض احمد فیض بھی گرفتار ہوئے انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر ٹانگے پر بٹھا کر شاہی قلعہ لے جایا گیا۔ فیض نے مشہور نظم ’’آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ لکھی۔ انہوں نے قید میں لازوال انقلابی شاعری تخلیق کی۔
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر باز ار
کیمونسٹ پارٹی پرپابندی کے بعد میاں افتخار الدین نے آزاد پاکستان پارٹی قائم کی۔ بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی وجود میں آئی جس نے طبقاتی جدوجہد کی بجائے ریفارمز کو اپنا ایجنڈا بنایا۔ ایوب خان کی آمریت اور بائیس خاندانوں کی معاشی اجارہ داری کیخلاف زبردست عوامی انقلابی تحریک اُٹھی جس کے نتیجے میں سوشلسٹ پارٹی پی پی پی وجود میں آئی جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی۔ پارٹی کا منشور انقلابی تھا اور مزدور ،کسان، غریب محنت کش عوام اسکی قوت تھے۔ معراج محمد خان نے انتخابات میں حصہ لینے کی مخالفت کی اور طبقاتی جدوجہد کے ذریعے انقلاب برپا کرنے پر زور دیا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے انقلابی عوامی تحریک کو انتخابات میں جھونک دیا جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ موت کی کوٹھڑی میں انہوں نے طبقاتی جدوجہد کے سیاسی فلسفے سے اتفاق کیا۔ روس کے ٹوٹنے سے کیمونسٹ تحریک اور سوشلزم کے حامی لیڈروں کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بائیں بازو کے لیڈر اور جماعتیں کمزور ہوتی چلی گئیں۔ سیفما ہال میں معراج محمد خان کا تعزیتی ریفرنس ہوا۔ لاہور کے کامریڈ بھاری تعداد میں شریک ہوئے۔ مقررین نے معراج محمد خان کی نظریاتی اور انقلابی جدوجہد، انکی صاف شفاف شخصیت اور مثالی کردار کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اظہار خیال کرنے والوں میں عابدحسن منٹو، آئی اے رحمن، فاروق طارق، پرویز صالح، راشد رحمن، ڈاکٹر لال خان، ڈاکٹر وسیم، حافظ عبدالودود، خواجہ سلیم، آصف خان، ڈاکٹر مولچند، راجہ ذوالقرنین اور عبداللہ ملک شامل تھے۔محنت کش طبقات سے جڑے سیاست دانوں اور دانشوروں نے طبقاتی جدوجہد کی حمایت کی۔ امتیاز عالم نے بزرگوں کی موجودگی میں سب سے آخر میں خطاب کیا اور کہا کہ ’’طبقاتی جدوجہد کو بھول جائو سرمایہ دارانہ نظام مزید پچاس سال چلے گا‘‘۔ گویا وہ لاہور کے کامریڈوں سے کہہ رہے تھے کہ ’’شریف‘‘ بن کر رہو۔ ایک مقرر نے کہا کہ پانچ لاکھ عوام اسلام آباد میں جمع ہوکر انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ آئی اے رحمن نے کہا کہ انقلاب کیلئے دس آدمی بھی جمع نہیں ہونگے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ بائیں بازو کے تنقید نگار اور دانشور اپنی گفتگو کوبرتر اور جاذب بنانے کیلئے فرائیڈ، بیگل، مارکس اور نطشے کے حوالے دیتے ہیں جبکہ انکی گفتگو کا زمینی حقائق اور معروضی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بائیں بازو کے لیڈر اور دانشور ائرکنڈیشنڈ کمروں اور قہوہ خانوں سے باہر نکل کر مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں سے رابطہ کریں تو ان کو اندازہ ہوکہ انکے دلوں اور دماغوں میں انقلاب کی آگ بھڑک رہی ہے اور وہ کسی قابل اعتبار انقلابی لیڈر کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک طبقاتی جدوجہد کا آپشن منظم طور پر استعمال ہی نہیں ہوا تو پھر عوامی انقلاب کی مخالفت کیوں کی جائے۔ کوئی اور آپشن ہے وہ سامنے لایا جائے وگرنہ عوامی انقلاب کیلئے محنت کش عوام کو منظم، متحد اور متحرک کیا جائے۔
(روزنامہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں