بدھ، 3 اگست، 2016

لاڑکانے میں شمالی وزیرستان



اسد اللہ غالب

قائم علی شاہ کا چل چلائو تھا ۔کراچی میں دو فوجی جوانوں کو شہید کر دیا گیا، اسی پر بس نہیں ، شہیدوں کی میتیں خراب کرنے کے لئے تھانے کی حدود کی بحث چھڑ گئی۔ 
مراد علی شاہ کی آمد کا نقارہ بج رہا تھا کہ لاڑکانہ میں رینجرز کو نشانہ بنایا گیا۔
کراچی میں فتنہ وفساد کی وجہ سمجھ میں آتی ہے مگر یہ لاڑکانہ کیسے اور کب سے شمالی وزیرستان کا حصہ بن گیا۔
اگر زرداری صاحب نے یہ نہ کہا ہوتا کہ میںنے ہمیشہ رہناہے ا ور تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے، یہ بھی نہ کہا ہوتا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور یہ بھی نہ کہا ہوتا کہ افغانستان کے تیس لاکھ مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دے دی، مگر پاکستان کے بیس کروڑ مہاجروں کو روئے زمین پر کہیں پناہ نہیںملے گی تو مجھے ہرگز یہ شبہ نہ ہوتا کہ لاڑکانہ بھی شمالی وزیرستان کا حصہ بن گیا ہے۔
او اگر زرداری صاحب ملک سے فرار ہو کر دوبئی میں مورچہ لگا کر نہ بیٹھ جاتے تو بھی میرے پاس کسی شک کی گنجائش نہ تھی۔
مگر سندھ لبریشن آرمی نے لاڑکانہ دہشت گردی کی ذمے داری قبول کر لی، یہ میںنے انٹرنیٹ پر پڑھا۔ایک بلوچستان لبریشن آرمی پہلے ہی سے میدان میں ہے۔
ادھر الطاف حسین بھی پاکستان چھوڑ کر لندن میں براجمان ہیں، انسان کہیں بھی رہنے کے لئے آزاد ہے مگر جو پاکستان چھوڑ جائے،اسے پاکستان کا پیچھا بھی چھوڑ دینا چاہئے مگر الطاف حسین اس حد تک بگڑے کہ را سے مد دلینے کی باتیںکرنے لگے۔ یہ باتیں شوقیہ بھی ہو سکتی ہیں، علامتی بھی ہوسکتی ہیں مگر بلوچستان ا ور کراچی میں را کے ایجنٹ دھڑا دھڑ پکڑے جا رہے ہیں، بھارتی کرنسی، بھارتی اسلحہ بھی پکڑا جارہا ہے۔تو دل میں خوف تو آتا ہے۔
اکہتر میں را نے مشرقی پاکستان میںمکتی باہنی کھڑی کرنے کے لئے کلکتہ میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بنائے، وہیں سے مکتی باہنی کو کنٹرول کیا جانے لگا، اب کلکتہ کے بجائے یہ کام شاید دوبئی اور لندن سے لیا جا رہا ہے۔ نہ الطاف سندھ حکومت کا حصہ ہیں، نہ زرداری سندھ حکومت میںموجود ہیں، ان سے متعلقہ سیاسی جماعتیں ضرور سندھ میں ہیں مگر یہ پارٹیا ں جانیں اور سندھ کا صوبہ جانے۔ یہ جنگ عظیم دوم نہیں کہ ڈیگال لندن میں بیٹھ کر فرانس کی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ سندھ پرا س وقت کوئی بیرونی قبضہ نہیں،پییلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں سندھ کے ا قتدار کا حصہ ہیں، اسلئے کسی بیرونی مداخلت کا جواز نہیںبنتا مگر یہاں باوا آدم نرالا ہے، پاکستان کے معاملات کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا رہا ہے۔زرداری تو سندھ حکومت کا اجلاس دوبئی میں طلب کرتے ہیں، وہیں ایک و زیر اعلی سے استعفی لیتے ہیں، دوسرے کی تاجپوشی کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔یہ سراسر بیرونی مداخلت ہے، اگر ہمیں شکوہ ہے کہ سی آئی اے پاکستان پر حکم چلاتی ہے اور مداخلت کرتی ہے تو یہی پریکٹس ہم نے بھی شروع کر دی ہے۔
سندھو دیش کا نعرہ نیا نہیں۔ پاکستان کی تحریک میں پیس پیش جی ایم سید نے بھی یہ نعرہ لگایا تھا، ضیا دور میں ا یم ا ٓر ڈی کی تحریک چلائی گئی اور سندھ کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی مگر ناکام رہی۔ اس لئے ناکام رہی کہ سندھ مشرقی پاکستان نہیں تھا، پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر تھا، بلوچستان میں بھی بار بار شورش اٹھی ، بھٹو دور میں بھی اٹھی ا ور فوجی دور میں بھی اٹھی ، اب جمہوری دور میںبھی یہ شورش بپا ہے، زمینی دشواریوں کے باوجود حکومت پاکستان اپنی رٹ قائم رکھنے میںکامیاب رہی ہے۔
بلوچستان ا ور سندھ میں معاملہ تب بگڑے گا جب خدا نخواستہ عراق یاا فغانستان یا شام کی طرح بیرونی افواج نے براہ راست مداخلت کی، تب بھی ۔۔ون ون سچو ایشن۔۔ ہو گی ، پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، ٹھیک ہے ،ا سکی مدد سے ہم کسی کوفتح نہیں کر سکتے، مگر اپنا دفاع خوب کر سکتے ہیں،ایک لحاظ سے یہ ڈیٹرنس ہے ا ور کسی بھی بیرونی فوج کو متّھا لگانے سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑے گا۔
سندھ اور بلوچستان ابھی فاٹا جیسے قلعے نہیں ہیں جہاں جنگ جو برسوں سے قلعہ بند تھے، یہ ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھتے تھے مگر پاکستان کی قوت کے سامنے ان کے قدم نہیں جم سکے، یہ پاکستان پر اللہ کا فضل ہے، احسان ہے، کرم ہے۔
مجھے زرداری صاحب سے یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں تاکہ ملک میں خونریزی کا ایک نیا سلسلہ شروع نہ ہو جائے، پاکستان کو شام نہ بنائیں۔ ا س ملک نے آپ کو عزت دی، شہرت دی، دولت دی اور جی بھر کے دی اور کیا چاہئے پاکستان سے۔
مجھے اپنے ملک کے دانشوروں سے بھی ایک درخواست کرنی ہے کہ وہ ٹینکوں کے آگے لیٹنے کا پرچار اس وقت نہ کریں ، آج ملک کی سڑکوں پر کوئی ٹینک نہیں البتہ رینجرز اور فوج کی گاڑیا ں ضرور ہیں جو میری اورا ٓپ کی، ہر شہری کی سیکورٹی یقینی بنانے کے لئے ڈیوٹی دے رہی ہیں۔انہیں چھائونیوں سے نکلنے کا کوئی شوق نہیں ، مگر دہشت گردوںنے ہم سب کی زندگی اجیرن بنا دی تو انہیں مجبوری میں چھائونیوں سے نکلنا پڑا۔ کیا اس کے علاوہ کوئی حل تھا، ہاں ایک تھا، وہ آپ نے، آزما کے دیکھ لیا کہ ان سے مذکرات کئے جائیں مگر وہ تو مذاکرات کی زبان سمجھنے کے لئے تیار ہی نہ تھے، اسلئے ان سے دو دو ہاتھ کرنے پڑے، اب وہ فاٹا کی کمین گاہوں سے دھکیلے جا چکے ہیں، اکا دکا ملک میں پھیل گئے ہیں اور رینجرز اور فوج ان کا تعاقب کر رہی ہے۔اس پر آپ کا کوئی اعتراض ہے تو ضرورپیش کریں ، کیونکہ آپ میں سے کچھ کو اکہتر میں فوجی آ پریشن پر اعتراض تھا اور یہ اعتراض اٹھانے پرا ٓپ میں سے چندایک کو بنگلہ دیش نے اعلی قومی اعزازات سے بھی نوازا۔ اور وہاں کے ٹی وی پر بیٹھ کر یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاک فوج کے خلاف بھی مقدمے چلائو اور انہیں نشان عبرت بنائو، اب یہ کام وہاں شروع ہونے والا ہے، سیاستدانوں کو پھانسی پر لٹکایا جا چکا ہے، اب پاک فوج کے ا علی افسروں کے لئے پھانسیاں سجائی جا رہی ہیں، بنگلہ دیش اگر پاک فوج کے خلاف ا یسی اوچھی حرکتیں کرتا ہے تو یہ سمجھ میں آتی ہیںمگر ہم میں سے کوئی ایسا پروپیگنڈہ کیوں کرے جس کے نتیجے میں ہم باہم خونریزی میں الجھ جائیں، کراچی ا ور لاڑکانہ میں جو ہوا ، اچھا نہیں ہوا، بہت برا ہوا،یہ قابل مذمت ہے، لائق نفرین ہے۔
اگر کوئی عقل والا ہے تو وہ پاکستانیوں کو اپنی فوج کے خلاف نہ بھڑکائے، یہ فوج ہماری حفاظت کے لئے ہے، کیا آپ اپنے ڈاکٹروں، پٹواریوں، دفتر بابوئوں، ارکان پارلیمنٹ، یا ججوں کے خلاف عوام کو بھڑکاتے ہو، اگر نہیں تو فوج کو نشانہ کیوںبناتے ہو۔۔
لاڑکانہ ، باب الاسلام سندھ کا قابل فخر شہر ہے،اسے شمالی وزیرستان کا شہر نہیںبننے دیا جائے گا۔ یہ ہمارا عزم ہونا چاہئے۔
(روزنامہ نوائے وقت)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں